Public Schools of LHORE, A real Challenge?
Survey report and analysis
Till 1970s Public schools of Lhore were
famous due to their standard of education but in last 40 years public schooling
of Lhore has been decreased up to shameful level. I-SAPs published a research
report regarding state of public schooling in my city. I-SAPs developed a score card of 25 provincial
constituencies of Lhore. According to report Chief Minister Punjab’s constituency
got 6th position while constituencies of Education Minister and
Leader of the opposition got 16th and 17th position
respectively. It means that both PML (N) and PTI have no interest in the Public
schooling of the Lhore. The situation is alarming. Since 2008 I am visiting
these schools. Unlike past, Lhore’s public schooling has become a class issue.
Children of middle and lower middle classes are absent from these schools and
children of daily wagers are studying in it. Standard of education is very low.
Few weeks back, I did a radio program on this issue at Mast FM 103. The link of
that program is attached in the end. Read
the article published in weekly
Humshehri.
FOR COMPLETE ARTICLE CLICK BELOW
FOR COMPLETE ARTICLE CLICK BELOW
MPAs of Lhore
Score Card
ایک زمانہ تھا جب میرے شہر لاہور کی ایک نمایاں پہچان شہر بھر کے سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹی تھی کہ برصغیر بھر سے بالعموم اور کابل سے دِلّی کے درمیان شہروں، دیہاتوں سے بالخصوص اساتذہ اور طلباء اس شہر میں تعلیم حاصل کرنے اور پڑھانے جوق درجوق آتے تھے۔ کیا اشرافیہ اور کیا مڈل کلاس، سب کے لیے یہ تعلیمی ادارے گھر سے زیادہ محفوظ پناہ گاہیں بھی تھیں اور تربیت گاہیں بھی۔ پرائیویٹ تعلیم کا نام ونشان نہ تھا کہ تعلیم کو کاروبار نہیں بلکہ خدمت سمجھنے والوں کا دور دورہ تھا۔ طلباء بلا امتیاز طبقہ و گروہ ان اداروں سے مستفید ہوتے تھے۔ مسیحی مشنری اداروں کے سکول بھی تھے اور انجمن حمایت اسلام جیسے اداروں کے سکول بھی ، کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کے سکول بھی اور سنٹرل ماڈل سکول جیسے باکمال ادارے بھی میرے شہر کا حصّہ تھے۔ کالجوں کی بہاریں تھیں اور سونے پر سہاگہ گورنمنٹ کالج تھا۔ ان سب کا منبع پنجاب یونیورسٹی تھی کہ یہ سب ادارے معیارِ تعلیم کا نمونہ تھے۔ بنیادی سہولتیں ہوں نہ ہوں، مگر معیار تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہ تھا۔ اس شہر کے تعلیمی اداروں نے اقبال و فیض جیسے مفکر و شاعر بھی پیدا کیے اور سیاستدانوں ، جرنیلوں، صحافیوں، بیوروکریسیوں، دانشوروں و دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی فہرست بھی پیش کی جاسکتی ہے وہ جو لاہور کے سرکاری تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوئے۔ مگر آج اسی شہر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ سب سے نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے بھی بااَمر مجبوری اپنے بچوں کو لاہورکے سرکاری سکولوں میں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں کہ حال ہی میں تعلیمی تحقیق سے وابستہ اسلام آباد کے اک اعلیٰ پایہ کے ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سٹڈیز (I-SAPS)‘‘ نے ’’الف اعلان‘‘ والوں کی مدد سے لاہور کے سرکاری سکولوں بارے تحقیقی رپورٹ چھاپ دی ہے۔ تعلیم اور سیاست میں گہرے تعلق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس رپورٹ میں لاہور کے صوبائی حلقوں میں موجود سرکاری سکولوں کی کارکردگی کے حوالہ سے چارٹ بنایا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ لاہور کے کون سے صوبائی حلقہ میں سرکاری سکولوں کے حالات نسبتاً بہتر ہیں اور کہاں سکولوں کی حالت خراب ہے۔ حیران نہ ہوں لاہور کے 25 صوبائی حلقوں میں پنجاب اسمبلی کے قائد اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف و تحریک انصاف کے راہنما میاں محمودالرشید کے حلقے بھی ہیں اور پنجاب کے وزیرتعلیم رانا مشہور بھی لاہور ہی سے جیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان تینوں شخصیات میں سے کسی ایک کا حلقہ بھی پہلے 5بہترین حلقوں میں شامل نہیں۔ رپورٹ میں حلقوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے جن معیارات کو بنیاد بنایا گیا وہ یہ ہیں۔ 1۔ طلباء کی صفائی ستھرائی 2۔ سکول کی صفائی 3۔ طلباء کی حاضریاں 4۔ اساتذہ کی حاضریاں 5۔ 10ویں کے نتائج 6۔ 8ویں کے نتائج 7۔ 5ویں کے نتائج حالانکہ یہ معیارات بہت اعلیٰ نہیں کہ کسی زمانہ میں لاہور کے سکول اعلیٰ پایہ کے انجینئر، ڈاکٹر، کھلاڑی، صحافی، فنون لطیفہ سے متعلق افراد پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اب ان سکولوں سے نکلنے والے کن شعبہ ہائے زندگی میں جارہے ہیں؟ اس تطہیر کے حوالہ سے بھی سروے ہونا چاہیے۔ خیر اس سروے میں جو معیارات منتخب کیے گئے ان کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کا حلقہ چھٹے نمبر جبکہ وزیرتعلیم اور قائد حزبِ اختلاف کے حلقے بالترتیب16ویں اور17ویں نمبر پر ہیں۔ نعرے اپنی جگہ مگر اعداد وشمار یہی بتا رہے ہیں کہ حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار دونوں شہر لاہور میں سرکاری تعلیم سے حددرجہ غافل ہیں۔ جو چار حلقے تعلیمی سکور کے حوالہ سے سب سے نیچے ہیں ان میں تین مسلم لیگ (ن) جبکہ چوتھا تحریک انصاف کے اسلم اقبال کا ہے۔ خراب ترین حلقوں میں سب سے آگے میاں مرغوب احمد کا حلقہ ہے جس میں ساندہ کلاں سمیت ایسے علاقے آتے ہیں جہاں انتہائی غریب’’ لہوریے‘‘ رہتے ہیں۔ جو تین حلقے کارکردگی میں سب سے بہتر ہیں وہ مسلم لیگ(ن) ہی کے ہیں جس میں زعیم قادری کا حلقہ سرفہرست ہے۔ یہ ہیں وہ اعدادوشمار جوسرکاری تعلیم کے حوالہ سے تعلیم سے وابستہ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے دعوؤں کی قلعی کھول رہے ہیں۔ رپورٹ کی ’’مُکھ وکھالی‘‘ کی تقریب میں آئی۔سیپ کے احمد علی نے جوانکشافات کیے ان کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ لاہور میں سرکاری تعلیم کو بغیر نماز جنازہ پڑھائے دفنانے کی تیاریاں کی جا چکی ہیں۔ اس وقت لاہور میں 1300 سے کم سرکاری سکول ہیں۔ 75فی صد’’ لہوریے ‘‘چنگے، ماڑے نجی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں کہ پنجاب سرکار اپنے دارالحکومت میں ان 25 فیصد سکولوں کی حالت زار بہتر کرنے میں بھی ناکام ہے۔ پنجاب سرکار کے اپنے اداروں کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں 20ایسے سکول ہیں جن کی عمارتیں انتہائی مخدوش ہیں۔ اب اگر ایک سکول میں اوسط300بچے بھی پڑھتے ہیں تو6ہزار بچوں کی زندگیوں کو براہِ راست خطرہ ہے۔ اب اگر خدانخواستہ کہیں کوئی عمارت گر جائے تو پھر آزاد میڈیا بھی کھپ ڈالنا شروع کر دے گا، حزب اختلاف والے بھی مذمتی قرارداد لے کر آجائیں گے اور وزیراعلیٰ بھی کسی افسر کو معطل کرڈالیں گے۔ مگر یہ نہیں ہوگا کہ میڈیا والے آئی۔سیپ سے رابطہ کرکے ان 20 سکولوں کی فلمیں پہلے سے بنالیں اورمتعلقہ بیورکریٹ یا ایم پی اے کوٹی وی پر بلالیں کہ شاید آفت آنے سے قبل نقصان سے بچا جا سکے۔ ویسے تو ہمارا مقتدر میڈیا خود کو’’مصلح‘‘ ہی سمجھتا ہے مگر اس کا اصلاحی پروگرام آفت آنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے جسے ’’فاتحہ خوانی‘‘ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ خیر، ’’مُکھ وکھالی‘‘ کی اس تقریب کی خوبی یہ تھی کہ اس میں پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی آئے، درددل رکھنے والے کاروباری حضرات بھی آئے اور میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس گروپ کی تشکیل کا مقصد لاہور کے سکولوں کے بارے پارٹی پوزیشن سے بالاتر ہوکر جدوجہد کرنا ہے مگر حاضرین نے اپنی پارٹیوں کی عظمتیں گنوانا ہی ضروری سمجھا۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے علاوہ تعلیمی رپورٹروں کی ایسوسی ایشن کے نمائندے منصور ملک، سجاد کاظمی بھی تقریب میں شامل تھے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر اظہار اور ڈاکٹر اشرف نظامی بھی۔ ممبران پنجاب اسمبلی میں نسرین بانو، لبنیٰ فیصل، بشریٰ بٹ اور نسرین نواز نمایاں تھیں۔ دوران بحث رپورٹ کے مندرجات پر گفتگو کم ہوئی البتہ ہرکسی نے اپنا اپنا غصہ خوب نکالا۔ حکومتی ممبران ناکام دفاع کرتے رہے البتہ لاہور چیمبر آف کامرس کے خواجہ خاور رشید اور ’’الف اعلان‘‘ کے جناب طارق نے ’’آوٹ آف باکس‘‘ باتیں کرکے سب کی توجہ حاصل کرلی۔ خوا جہ صاحب ریلوے روڈ پر موجود لاہور کے اک پرانے ادارے وطن ہائی سکول سے پڑھے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہیں اپنے سکول کی حالت بدلنے کا خیال آیا تو انھوں نے اپنے کاروباری ساتھیوں کے ساتھ مل کر سکول کے لیے چار کروڑ روپے اکٹھے کیے اور سکول کی حالت کو بہتر کردیا۔ ’’الف اعلان‘‘ کے نوجوان طارق صاحب گڑھی شاہو کے پاس موجود سینٹ اینڈریوز سکول میں پڑھتے رہے تھے۔ انھوں نے سینٹ اینڈریوز سے پڑھ کر جاچکے طلبا ء کوبذریعہ انٹرنیٹ ڈھونڈ نکالا پھر اس گروپ کی مدد سے فنڈ اکٹھا کیا اور سکول کو ٹھیک بھی کیا۔ خودمیں2008سے مسلسل لاہور کے سکولوں کا مشاہدہ کررہا ہوں۔ پرانے اور بڑی بڑی عمارتوں والے اکثر سکولوں میں بچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کبھی ان سکولوں کا لاہور میں بڑا نام ہوتا تھا مگر اب یہ’’ راندہ درگاہ‘‘ ہیں۔ کچھ سرکاری سکول ایسے بھی ہیں جن میں گراؤنڈ تک نہیں ہے۔ کوٹ لکھپت جیل کے پاس دو سکول ہیں جو جیل کی وسعت کی وجہ سے جیل ہی میں آچکے ہیں۔ جیل میں آئے دن سیکورٹی بڑھ جاتی ہے تو سکول یا تو بند کر دیے جاتے ہیں یا پھر بچوں اور اساتذہ کو سخت اذیتیں اٹھانی پڑتیں ہیں۔ ایسے ہی مسلم ہائی سکول نمبر2، آؤٹ فال روڈ پر سول لائنز کالج کے عین سامنے موجود ہے۔ اس سکول میں1965کے زمانے سے کچھ مہاجر آن بسے ہیں جو تاحال وہیں مقیم ہیں۔ سکول کے بچے ان مہاجر خاندانوں کے چھوٹے موٹے کپڑوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں جو ہوا سے اُڑ کر اکثر گراؤنڈ میں جا گرتے ہیں۔ سکول بھی حکومت پنجاب کے ماتحت ہے اور مہاجروں یا پھر جیل میں آ چکے سکولوں کو جو متبادل جگہ فراہم کرنا بھی حکومت پنجاب ہی کی ذمہ داری ہے تو اب ہم گلہ کس سے کریں؟ ان واقعات کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے مجھے یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ بہت سے اہم مسائل کو محض ڈیٹا یا اعدادوشمار میں ظاہر کیا نہیں جاسکتا کہ اس کے لیے بیوروکریٹوں، منتخب نمائندوں اور درددل رکھنے والے حضرات کو خود سکولوں کے دورے کرنے ہوں گے۔ احمد علی نے تو یہ بھی بتادیا کہ اس وقت لاہور میں 5سے16سال کی عمر کے تین لاکھ بچے سکول جا ہی نہیں رہے اور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ نہ تو مجھے میٹرو بس پراجیکٹ پر اعتراض ہے نہ ہی میں سڑکوں پر رقم خرچنے کا طعنہ دے رہا ہوں اور نہ ہی میں دھاندلیوں کی آڑ میں جمہوریت کو ختم کرنے کا حامی ہوں۔ مگر سوال یہ کہ میرے شہر کا اک فخر یہاں کے سرکاری تعلیمی ادارے تھے ، میں اور مجھ جیسے بہت سے ’’لہوریے‘‘ اس فخر کو دوبارہ حاصل کرنے کا متمنی ہیں۔ آپ بھلے جنوبی پنجاب میں دانش سکولوں پر اربوں روپے لگائیں مگر میرے شہر کے سرکاری سکولوں کو’’متریا‘‘ کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اگر لاہور کے سرکاری سکول معیار تعلیم کے حوالہ سے اپنا وقار بحال کرلیں گے تو سکولوں سے باہر رہنے والے بچے بھی سکولوں میں آنا شروع ہوسکتے ہیں۔ اگر حکومت کے پاس رقم کی کمی ہے تو خواجہ خاور رشید جیسے لوگوں سے مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پنجاب سرکار کو نہ صرف سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لیے حتی الامکان کوششیں کرنی چاہیں بلکہ500 روپے سے کم فیسیں لینے والے نجی سکولوں کو بھی مدد دیتے ہوئے ان کے معیارِ تعلیم کو بلند کرنے بارے سوچنا چاہیے۔ پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کم از کم لاہور کے250سے زائد کچی بستیوں میں اپنے دائرہ کار کو خصوصی پروگرام کے تحت آگے بڑھاتے ہوئے یہ کام کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے تینوں اراکین کو بھی اپنے حلقوں میں موجود سرکاری سکولوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ محض تقریروں اور نعروں سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھراسکتا۔ سرکاری سکولوں کے حالات کا مشاہدہ کرنا الیکشن کمیشن کے گھیراؤ سے زیادہ اہم ہے۔ آئی۔سیپ اور ’’الف اعلان‘‘ والوں کو چھوٹے موٹے تمام نجی سکولوں کا ڈیٹا بھی ایسے ہی بنانا چاہیے تاکہ زیادہ وضاحت سے بات کی جاسکے۔ تقریب میں حاضرین نے ڈیٹا کے حوالہ سے گھاٹوں کی نشاندہیاں کی تھیں جن پر توجہ دینی ازحد ضروری ہے۔ سرکاری اور ماٹھے نجی سکولوں کا مسئلہ اس قدر گمبھیر ہے کہ اس بارے حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی بشمول میڈیا کو رَل مل کر توجہ دینی ہوگی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے آرٹیکل 251کے تحت قومی و مادری (صوبائی) زبانوں کے حوالہ سے آئینی ذمہ داری پر عملدرآمد کا مسئلہ اٹھایا تو پنجاب سرکار نے بھی پنجابی کولازمی مضمون کے طور پر نافذ کرنے کا عندیہ دیا۔ اس مسئلہ پر سب کو پہرہ دینا ہے کہ مادری زبان کے بغیر معیار تعلیم بلند نہیں ہو سکتا۔ -
State of Public Schooling in LHORE
A Radio Program
http://punjabpunch.blogspot.com/2015/07/state-of-public-schooling-in-lhore-lok.html
No comments:
Post a Comment