Thursday, April 14, 2016

پانامہ ڈرامہ ،سرمایہ داری کے تضادات، میڈیااورقلابازیاں Panama Drama & Contradictions



پانامہ ڈرامہ ،سرمایہ داری کے تضادات، میڈیااورقلابازیاں
عامر ریاض
Panama Drama & Contradictions

لیبر پارٹی کی خاتون نے زیک گولڈ سمتھ پر الزام لگایا کہ یہ سب “ٹیکسوں کی جنتوں” کو بچانے کی مہم کے رہنما ہیں اور قدامت پسند پارٹی ان کی سرغنہ ہے۔ مگر ہمارا میڈیا اس بحث سے بچنا چاہتا ہے کہ اگر یہ بحث یہاں شروع ہوگئی تو پھر بات غیر رسمی معیشت کے سوتوں اور 1950کی دہائی سے باہر کے ملکوں میں اکاوئنٹ کھولنے والوںتک جاپہنچے گی۔ اس کھلار سے بچنے کے لیے سب کا فائدہ اس میں ہے کہ اس مہم کو وزیراعظم تک محدود رکھیں۔

 For Complete Article Click  


 سرمایہ داری نظام کا سب سے بڑا تضاد سامنے آکھڑا ہوا مگر ہمارے میڈیا کی تو کوئی کل ٹھیک نہیں یا شاہد کیونکہ ان کا اپنا نام بھی ہے اس لیے توجہ ہٹانے کے لیے اسے محض وزیراعظم کی تنزلی تک محدود رکھنے میں سب کی عافیت ہے- ۔سونے پر سہاگہ عمران خان، اعتزاز احسن اور چوہدری نثار چڑھانے میں مصروف ہیں کہ تینوں اپنی اپنی “مار” پر ہیں۔ ہمارے آزاد میڈیا کا حال اس بندر جیسا ہے جو مداری کے اشاروں پر فوراً سے بیشتر محو رقص ہوجاتا ہے۔ نہ تو میڈیا نے پانامہ ڈرامہ کے بین الاقوامی پس منظر کو مدنظر رکھا، نہ یہ ضروری جانا کہ ان کا ڈونر کون ہے؟ نہ ہی اُن احتجاجیوں سے سوال کیا جن کے اپنے نام اس Leak یعنی چوری شدہ کاغذات میں آئے ہیں۔ خود جن میڈیا گروپوں کے نام بھی اس میں شامل ہیں کہ بڑے بڑے اینکر بھلا مالک کا نام کیسے لے سکتے ہیں۔ اگر آپ فرانس، جرمنی، روس، چین کے میڈیا کی خبریں دیکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے میڈیا گروپوں نے پانامہ ڈرامہ کو وہ اہمیت نہیں دی۔ روس کے رہنما پوٹن کا تو نام نامی اس میں شامل تھا مگر روسیوں نے پہلے ہی دن یہ سوال داغ دیا تھا کہ پانامہ لیکس میں امریکیوں کے نام کیوں نہیں ہیں؟ یہی نہیں روس کا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلے چند سالوں میں جن 6 بڑی این جی اوز کو دیس نکال دیا ہے یہ اس کا جواب آیا ہے۔ ماسکو نیوز نے تو اوپن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ کا نام بھی لکھ ڈالا جو اپنے سربراہ جارج سوروز کے نام سے بین الاقوامی پہچان رکھتی ہے۔ ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والا سوروز امریکہ میں اپنے لبرل خیالات اور سٹاک ایکسچینج کی سیاست کے حوالہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ چین اور فرانس کے میڈیا میں بھی اعداد و شمار کی اس چوری کو آدھا سچ قرار دیا گیا۔ اک سابق سفارت کار نے یہ بھی لکھ ڈالا کہ دنیا بھر میں ٹیکس سے بچتے ہوئے جو کثیر رقم ادھر ادھر کی جاتی ہے اس کا عثر عثیر بھی پانامہ لیکس میں سامنے نہیں آیا۔ موصوف نے یہ بھی بتایا کہ ٹیکس سے بچنا تو سرمایہ داری نظام کا اک لازم حصّہ ہے اور دنیا کے امیر ترین لوگ اور کمپنیاں یہی کچھ کرتی ہیں اور اس میں دنیا کے بڑے بڑے میڈیا گروپ بھی شامل ہیں۔ اپنے ناموں کے حوالوں سے اس ”چوری“ پر پردہ ڈالنے کے لیے دنیا بھر کانجی میڈیا صبح شام “شفافیت” کی تسبیح پڑھتا ہے۔
حیران نہ ہوں کہ یورپی یونین تو گذشتہ 15 سالوں سے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹیکسوں کے حوالہ سے اپنے تمام گوشوارے اور اعداد و شمار مشتہر کرنے بارے بحث کررہی ہے۔ اپنے حالیہ علامیہ میں یورپی یونین نے بتایا ہے کہ وہ پانامہ لیکس کے بعد اپنا کام تیز کرچکے ہیں اور جلد ٹیکس بچانے والوں کی جنتوں بارے مزید اطلاعات آئیں گی۔ 'ہم اپنے ایجنڈا پر کام کرتے رہیں گے'۔ یہ بات ولادیز ڈومبروزک نے کہی جو متعلقہ یورپی کمیشن کے نائب صدر ہیں۔ ان کا استد لال ہے کہ جلد ہم گوگل انٹرنیشنل، ایمازون (Amazon) اور اکیدا جیسی کمپنیوں کو مجبور کردیں گے کہ وہ اپنے تمام مالیاتی اعدادوشمار اور ٹیکس وغیرہ کو سب کے سامنے لائیں۔ 2014 میں یورپی یونین نے ایسے بیوروکریٹوں کا ذکر کیا تھا جو مختلف ممالک یا جزیروں میں “ٹیکس چوری کی جنت” بنانے کے حوالہ سے قانون سازیاں کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف یورپ میں ہر سال 50 سے 70 ارب یورو کا ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ اس کو 135 سے ضرب دیں تو پاکستانی روپے میں رقم کا خود حساب لگالیں۔ پانامہ لیکس میں جو انکشافات کیے گئے ہیں ان میں 80 فیصد کمپنیاں برطانیہ کے ملکیتی جزیرہ “برٹش ورجن آیس لینڈ” میں پائی گئیں۔ اک بین الاقوامی مالیاتی امور کی کمپنی KPMG نے 2000 میں آف شور کمپنیوں بارے جب سروے چھاپا تو اس میں یہ اقرار موجود تھا کہ یوکے میں 45 فی صد آف شور کمپنیاں برطانیہ کے علاقہ ورجن آیس لینڈ میں ہیں۔ ان آف شور کمپنیوں کی ریگولیشنز کو بہتر کرنے کے لیے 2001 میں فنانشل سروسز کمیشن بھی بنایا گیا تھا۔ 28000 لوگوں پر مشتمل ورجن آئس لینڈ میں 80 فی صد افریقی رہتے ہیں مگر مال کوئی اور کماتا ہے۔ یہ باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ امیر ترین لوگوں کے لیے یہ انکشافات کوئی نئی بات نہیں کہ اس حمام میں یورپ کے امیر ترین لوگ بھی شامل ہیں۔اس حقیقت کو چھپانے کی کوششیں کون کون کر رہا ہے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔

ٹیکس بچانے والوں کی جنتیں اور کہاں کہاں ہیں اس بارے میں بوجوہ میڈیا نے توجہ نہیں دینی کہ اس کہانی کی تہہ تک یورپی یونین ہی پہنچے گی۔ ایک خبر کے مطابق پانامہ ڈرامہ کی دوسری قسط اگلے ماہ مئی میں آئے گی اور اگر اس میں پاکستان سے سول ملٹری، بیوروکریسی اور دیگر میڈیا مالکان کے نام بھی آگئے تو پھر یہی میڈیا پانامہ لیکس کو یہود وہنود کی سازش قرار دے دے گا یا پھر حسب روائیت“ کن لپیٹ” کر کسی نئی خبر کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ ویسے تو پانامہ ڈرامہ میں 220 پاکستانیوں کے نام ہیں مگر میڈیا و حذب اختلاف صرف اور صرف وزیراعظم کے خاندان تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ خود جن میڈیا مالکان کا ذکر خیر پانامہ ڈرامہ میں آیا ہے وہی چینل زور شور سے ملک ریاض، چوہدری برادران، سیف اللہ خاندان اور بے نظیر بھٹو کا نام تو کبھی کبھی لے لیتے ہیں مگر اپنا نام لینا بوجوہ بھول جاتے ہیں۔ جولیان اسانج اور ایڈورڈ سنوڈن کے بعد پانامہ لیکس نے روس، برطانیہ پر جو “حملہ” کیا ہے کہیں یہ اسانج اور سنوڈن کے “سہولت کاروں” کو جواب تو نہیں؟۔ ہمارا میڈیا “ماموں” بنا ہے یا جان بوجھ کر طوفان کا رخ اپنی طرف سے بدلنے کی کوشش کررہا ہے اس بارے فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

دھرنے کے مردے میں “جان” ڈالنے کی ایک اور کوشش ہورہی ہے کہ عمران خان نے فوراً بیشتر وزیراعظم کے استعفیٰ کی رٹ دوبارہ سے شروع کردی ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف میں جو اندرونی لڑائی پارٹی انتخابات کی وجہ سے ہورہی ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے رائے ونڈ دھرنا اک موثر رستہ ہے۔تاہم پی پی پی نہ تو وزیراعظم کے استعفی کی بات کررہی ہے نہ ہی رائے ونڈ دھرنا کی حمائیتی ہے۔ وزیراعظم کمیشن بنانے کا اعلان تو کرچکے ہیں مگر تاحال یہ التواءکا شکار ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں کہ ہر کوئی قلابازیاں کھارہا ہے کہ آف شور کا بھوت ہر کسی کو انجانے خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ہر کوئی خود کو شفاف ثابت کرنے پر کمر بستہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کی ان جنتوں بارے بات کرنے سے ہر کوئی کنی کترارہا ہے۔ یورپی یونین عرصہ دراز سے ان جنتوں کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہی ہے شاید اس سے بچنے کے لیے ہی برطانیہ نے یورپی یونین کو خداحافظ کہنے کا فیصلہ کیا ہے؟ اب اسی سال جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکلنے کے حوالہ سے ریفرنڈم بھی ہونے والا ہے کہ اس سے قبل پانامہ لیکس کا آنا معنی خیز ہے۔ ٹیکس کلچر کا جتنا شور لندن والے مچاتے ہیں پانامہ ڈرامہ نے اس کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ ڈالا ہے۔ عمران خان اپنی سابقہ بیگم کے شوہر “زیک گولڈ سمتھ” کی الیکشن مہم میں برابر شریک ہیں کہ ان گولڈ سمتھ صاحب کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں۔ 3 مارچ2016 کو لیبر پارٹی کی ممبر اسمبلی کارلولین فلنٹ نے زیک گولڈ سمتھ کو ان کی آف شور کمپنیوں بارے کیے گئے معاہدے یاد دلائے۔ زیک صاحب لندن کے میئر کے امیدوار ہیں اور 5 مئی کوان کا الیکشن ہورہا ہے۔ لیبر پارٹی کی خاتون نے زیک گولڈ سمتھ پر الزام لگایا کہ یہ سب “ٹیکسوں کی جنتوں” کو بچانے کی مہم کے رہنما ہیں اور قدامت پسند پارٹی ان کی سرغنہ ہے۔ مگر ہمارا میڈیا اس بحث سے بچنا چاہتا ہے کہ اگر یہ بحث یہاں شروع ہوگئی تو پھر بات غیر رسمی معیشت کے سوتوں اور 1950کی دہائی سے باہر کے ملکوں میں اکاوئنٹ کھولنے والوںتک جاپہنچے گی۔ اس کھلار سے بچنے کے لیے سب کا فائدہ اس میں ہے کہ اس مہم کو وزیراعظم تک محدود رکھیں۔
Further Readings
Panama Leaks: Behind the Scene Politics of Tax Heavens & Misleading Media

Another article yet it needs little attention what writer missed and why .  the person neither mention EU investigations since 2000 regarding offshore accounts nor mention kick backs of arms deals for once. He did not inform us about the year of birth of OFCs. is there any difference between infamous Swiss banking, BCCI and this OFCs? In case of Pakistan he failed to mention those who earn lucrative kick back during all 4 marshallas and especially in arms deals including purchases of jets, tanks, submarines etc
Offshore tax havens

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...