Monday, March 23, 2020

Judicial Murder of Bhagat Singh: Selected Justice & Role of Jinnah, Iqbal & Mahatma. At 89th death anniversary


Bhagat Singh still alive
Judicial  Murder of  Bhagat Singh
Selected Justice & Role of Jinnah, Iqbal & Mahatma
At 89th death anniversary

Today is the 89th death anniversary of Bhagat Singh  and it remind us the resistance history of the Punjab & Punjabis. How socalled spokesmen of Rule of Law played with jurisprudence is on the record and from Viceroy to Judges, Chief Secretary, Governor till Mahatma all were in  line to kill Bhagat Singh & his companions.  Both Iqbal & Jinnah had raised their voice against illegal Judicial Tribunal and i have shared links of both too. Read the article and then check the links below. If you feel any difficulty in reading the article you can ask for pdf by emailing at aamirriaz1966@gmail.com 




بھگت سنگھ کا قتل، کانا انصاف اور اقبال، جناح و مہاتما کا کردار

بھگت سنگھ کی 89ویں برسی پراک لکھت

عامر ریاض

89 برس قبل آج ہی کے دن ایک24سالہ پنجابی نوجوان  اور اس کے ساتھیوں کو لاہور کے شادمان چوک

 کے پاس سنٹرل جیل میں پھانسی  دی گئی تھی۔جس قلندرانہ شان سے ان نوجوانوں نے پھانسی کو قبولا تھا اس 

نے  انگریز کے کروفر کو پارہ پارہ کر ڈالا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج 89 سال گذرنے کے باوجود بھگت سنگھ بھارت 

اور پاکستان میں ظلم کے خلاف مزاحمت کا  تگڑا استعارہ ہے۔ 3 مارچ 1931 کو اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو 

ایک خط لکھا کہ جس میں علامہ اقبال کی مشہور نظم  ''ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں''کا یہ شعر لکھا تھا،

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

  سال 1907 میں پنجاب کے شہر لائل پور (فیصل آباد) کی تحصیل جڑانوالہ کے گاوں بنگہ میں  سندھو جٹو ں کے گھرانے میں پیدا ہونے والے بھگت سنگھ کے والد اور چچا  غدر پارٹی سے جڑے تھے جو مسلح جدوجہد سمیت انگریز کو نکالنے کے ہر عمل کو درست سمجھتے تھے۔آریا سماجی دادا کی وجہ سے اسے لاہور کے  آریا سماجی تعلیمی ادارے ڈی اے وی ہائی  سکول میں داخل کروایا گیا۔خفیہ انقلابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ اردو پنجابی رسالوں میں قلمی ناموں سے لکھتا تھا۔ مئی 1927 کواس پر ایک بم دھماکے  میں ملوث  ہونے کا الزام   لگاتاہم وہ بچ گیا۔ 30اکتوبر1928کوجب سائمن کمیشن لاہور آیا  تو اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج میں مشہور آریا سماجی  لیڈر لالہ لاجپت رائے زخمی ہوئے اور 17 نومبر کو انتقال کر گئے۔انقلابیوں نے لاٹھی چارج کا حکم دینے والے پولیس افسر جیمس سکارٹ  کو  مارنے کا منصوبہ بنایا مگر غلطی سے ایک اور پولیس افسر سانڈرس قتل ہو گیا۔اس کا الزام بھگت سنگھ پر لگا توبھگت سنگھ اور اس کے ساتھی رپوش ہو گئے۔ پولیس   نےانقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے بھگت سنگھ کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا۔ 28 اپریل 1929 کو دلی کی مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی کے اجلاس میں بھگت سنگھ اور باتو کیشور دت ( بی کے دت) نے اسمبلی کی گیلری سے دھوئیں والے بم چلائے۔ اسمبلی نے پبلک سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل  مسترد کیے تھے مگر وائسرائے نے انہیں آرڈینس کے ذریعے نافذ کر دیا تھا۔دھوئیں کے بلوں سے کوئی مر نہیں سکتا تھا۔ تاہم اس دوران بھگت سنگھ اور دت گرفتار کر لیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا دی گئی۔ مہاتما گاندھی نے انقلابیوں کے خلاف بیان دے دیا۔اس سے قبل 15 اپریل کو لاہور پولیس نے ایک بم بنانے کی فیکٹری پکڑی تھی جس میں سکھ دیو،کشوری لال، راج گرو سمیت کئی انقلابی  گرفتار کیے گئے۔یوں اسمبلی میں بم دھاکہ، سانڈرس کا قتل اور بم فیکٹری جیسے الزامات پر ایک مقدمہ بھگت سنگھ اور اس کے 21 ساتھیوں خلاف بنایا گیا جو لاہور سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔سانڈرس کے کیس کے ٹرائل کے لیے  بھگت سنگھ کو دلی جیل سے میانوالی جیل منتقل کیا گیا۔قیدیوں سے امتیازی سلوک کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے بھوک ہڑتال کر دی جس کی خبر شائع ہونے پر لاہور اور امرتسر میں دفعہ 144 لگا دی گئی۔جواہر لعل نہرو بھوک ہڑتال ختم کروانے گئے مگر ناکام رہے۔ اسمبلی میں قائداعظم نے  بھوک ہڑتال کرنے والوں کے  حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ عام قیدی نہیں بلکہ سیاسی قیدی ہیں۔ان کو سیاسی قیدی نہ ماننا برٹش فلسفہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور ہمارے قانون میں یہ ایک بڑا سکم ہے۔ بھوک ہڑتال کی مقبولیت سے دباو بڑھا اور چھٹیوں پر شملہ گئے وائسرائے لارڈ ارون کو واپس آنا پڑا۔ فیصلہ ہوا کہ بھگت سنگھ کو میانوالی سے لاہور لائیں اور سانڈرس کیس میں ٹرائل شروع کیا جائے۔ مگر مہاتما کی طرح انگریز انتظامیہ بھی ان  کو سیاسی قیدی ماننے پر تیار نہیں تھی۔10 جولائی کو بھگت سنگھ اور اس کے 27 ساتھیوں پر کیس کا آغاز ہوا۔بھوک ہڑتال تاحال جاری تھی کہ 13 ستمبر 1929کو بھگت سنگھ کے ساتھی جے این داس 63 دن کی بھوک ہڑتال   کے بعد انتقال کر گئے۔بنگالی نوجوان داس کی موت نے  پنجاب سے بنگال تک طوفان کھڑا کر دیا۔ڈاکٹر محمد عالم اور گوپی چند نے  پنجاب اسمبلی  کی رکنیت سے استعفی  دے دیا  اور جواہر لعل نہرو نے اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کروا دی۔ لاہور کی سڑکوں نے ایک بہت بڑا جنازہ دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم لاہور ریلوے سٹیشن  تک آیا اور ڈاکٹر عالم سمیت بہت سے پنجابی بنگال لاش کے ہمراہ گئے۔سبھاش چندر بوس  کے سوانح نگار سوگھاتا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پنجابیوں کے اس عمل کا نوجوان سبھاش پر بہت اثر ہوا اور بنگالی اخبارات میں بھگت سنگھ اور اس کی ساتھیوں کا چرچا ہوا۔بھگت سنگھ کے والد سمیت بہت سے رہنماوں نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی تو 5 اکتوبر 1929 کو 116 دن بعد بھوک ہڑتال ختم کی گئی۔ کیس شروع ہوا تو جلد انتظامیہ اور ہرکاروں کو اندازہ ہو گیا کہ کیس میں ثبوت بھی کمزور ہیں۔ وائسرائے نے یہ دیکھتے ہوئے  آرڈینس کے ذریعے ایک عدالتی کمیشن  نما ٹربیونل بنا ڈالا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس آرڈینس کی قانونی  حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے یکم مئی 1930 کو ایک کمیٹی بنا دی۔19 جون کو اس کمیٹی نے رپورٹ پیش کی جس پر علامہ اقبال، گوگل چند نارنگ اور ملک برکت علی جیسے وکلا کے دستخط تھے۔رپورٹ میں آرڈینس کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ  ہائی کورٹ میں  اس ٹربیونل کے فیصلے  پر اپیل کا حق نہ دینا وائسرائے کا غیر قانونی عمل ہے۔وائسرائے کو لکھے ایک خط میں بھگت سنگھ نے بھی آرڈینس کو غیر قانونی کہا۔آرڈینس کے مطابق ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف صرف پریوی کونسل ہی میں اپیل ہو سکتی تھی۔2 جولائی 1930 کو لاہور ہائی کورٹ میں حبس بیجا کا کیس دائر کر دیا گیا۔ اس کیس میں ایس پی پولیس جی ہملٹن نے  عدالت میں اقرار کر لیا کہ پولیس نے ایف آئی آر میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا نام چیف سیکٹری اور گورنر کے کہنے پرڈالا تھا۔مرکزی اسمبلی یا برٹش اسمبلی سے منظوری کے بغیر 30 اکتوبر کو آرڈینس نے ختم ہو جانا تھا ۔ اسے دیکھتے ہوئے  ٹربیونل نے 7 اکتوبر کو 300 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا۔بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی جس پر 24 مارچ 1931 کو عمل ہونا تھا۔اس کے بعد پریوی کونسل میں  بھی اپیل کی گئی اور کہا کہ آرڈینس برٹش فلسفہ قانون کے خلاف ہے مگر لگتا ہے کہ  مقتدر قوتوں کے آگے پریوی کونسل بھی  بے بس تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل سالٹ  مارچ کے ذریعے انگریز سرکار پر دباو بڑھائے ہوئے تھے اور وائسرائے اور گاندھی میں سیاسی قیدیوں کو چھوڑنے اور سپیشل ٹربیونل بنانے والے آرڈینس سمیت کئی قوانین  واپس لینے پر تیار تھے اور  5 مارچ 1931 کو اس پیکٹ پر دستخط بھی ہو گئے مگر مہاتما نے بھگت سنگھ اور ان 
کے ساتھیوں کو سیاسی قیدی منوانے  کے مطالبے کو معاہدے کا حصہ ہی نہیں بنایا۔

بھگت سنگھ اور ان کے دونوں ساتھیوں کو 23 مارچ کے دن ،یعنی ایک دن قبل ہی چپکے سے  پھانسی دے دی


 گئی اور ان کی راکھ کو چپکے سے دریائے ستلج میں بہا دیا گیا۔وائسرائے کے بیان کے مطابق اس نے بھگت سنگھ

 کو ایک دن قبل پھانسی  مہاتما کی درخواست کی وجہ سے دی تھی


 اپنوں اور غیروں کی زیادتیوں کے باوجود بھگت سنگھ کو کوئی مار نہیں سکا بلکہ آج پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش
 میں بھگت سنگھ ہی مزاحمت کی علامت ہے۔ 





  













Link of Iqbal's opposition to so-called Judicial commision and Lhore High Court Bar association historic report. 
The association had constituted a sub-committee to examine the validity of ordinance No. 3 of 1930, dated May 1, 1930. Its report dated June 19, 1930, was signed by top lawyers from the Lahore High Court -- Allama Iqbal, Gokal Chand Narang and Malik Barkat Ali among others. The report termed the ordinance as “ultra vires of the governor-general” and called it invalid. “...its promulgation was inexpedient and inadvisable; and that there was no justification whatsoever for depriving the high court of its power of hearing the appeal from the final order of the special tribunal constituted under the ordinance.”
https://www.tribuneindia.com/news/archive/features/when-iqbal-opposed-special-tribunal-for-bhagat-singh-trial-563167


Iqbal poem, used by Bhagat Singh in his letter wrote to his brother just 20 days before hanging at March 3rd, 1931
https://www.youtube.com/watch?v=_kW-qkVnBpI

Bhagat Singh was a political prisoner as accepted by M A Jinnah in his speech. Interestingly Dawn has published it but the Newspaper did not mentioned Lhore High Court Bar Association report nor Iqbal. 
In September 1929, Jinnah representing Bombay city in the Assembly, spoke powerfully, opposing this bill. Calling the trial a “farce” and a “travesty of justice”, he said that if the trial continued in the absence of the accused he “stands already condemned”. He also pointed out that Singh was a political prisoner and how the government was making a mistake by treating him a common criminal.
https://www.dawn.com/news/1322361

Irwin statement that mentioned why they had hanged Bhagat Singh at 23rd March instead of 24rth March 1931.
In his notes dated 19 March 1931, the Viceroy recorded:
While returning Gandhiji asked me if he could talk about the case of Bhagat Singh because newspapers had come out with the news of his slated hanging on March 24th. It would be a very unfortunate day because on that day the new president of the Congress had to reach Karachi and there would be a lot of hot discussion. I explained to him that I had given a very careful thought to it but I did not find any basis to convince myself to commute the sentence. It appeared he found my reasoning weighty

Reaction of British Communist Party

The history of this case, of which we do not come across any example in relation to the political cases, reflects the symptoms of callousness and cruelty which is the outcome of bloated desire of the imperialist government of Britain so that fear can be instilled in the hearts of the repressed people.

Link of biographical account of Singh
https://en.wikipedia.org/wiki/Bhagat_Singh

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...