Wednesday, January 22, 2014

Ghost of Nita Ji Subhas Chander Bose


Ghost of Nita Ji Subhas Chander Bose
In His Majesty’s eyes, Netaji Subhas Chandra Bose was a rebel, an agent of the fascist Germans and a persona non-grata. But, in people’s memories, he is still alive as an immortal leader who sacrificed his career and life for them.
After defeat of Germans Bose changed his thinking. He was now underground once again. Sughata bose recorded that event in his book His Majesty's opponent at Page 216.
On March 24, 1942, British news agencies reported that Bose had been killed in air crash on his way to attend an important conference in Tokyo. Bose heard news of his death on the BBC. Mahatma Gandhi immidiately send his condolence message. Next day Bose himself made a radio broadcaston Azad hind radio. Actually by this news rullers want to use his where abouts.

 بس یہ 1942 ہی کا سال تھا جس میں گہری سوچ بچار کے بعد بوس نے نئی حکمت عملی ترتیب دی۔ اب وہ خفیہ طریقے سے یکدم منظرعام سے غائب ہو گیا۔ 24 مارچ 1942 وہ دن تھا جب مشہور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اچانک بوس کی موت کی خبر جاری کر دی ۔خبر میں بتایا گیا کہ بوس ایک اہم کانفرنس کے لیے ٹوکیو جارہا تھا تو اس کا جہاز تباہ ہو گیا۔ محقق سوگھاتا بوس نے اپنی کتاب کے صفحہ 216 پر اسے نقل کیا ہے۔
گاندھی جی نے فوراً بوس کی موت پر تعزیتی پیغام داغ دیا۔ درحقیقت اس خبر کے ذریعے حکمران یہ جاننا چاہتے تھے کہ بوس اب کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ بس اگلے دن 25 مارچ کو ‘‘آزاد ہند ریڈیو’’ پر بوس کو آ کر اپنے مرنے کی تردید کرنا پڑی۔ 


آج بھی بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ کی اشرافیہ کے لیے نیتا جی سبھاش چندر بوس کا نام اک خوفناک یاد ماضی ہی ہے۔ 1849 میں پنجاب پر قبضے سے لے کر آزادی ہند قانون 1947 کے درمیان افغانستان اور روس کی طرف پیش قدمی کی وجہ سے برٹش انڈین آرمی میں سب سے بڑی تعداد پنجابیوں ہی کی تھی کہ انگریز انھیں "بازو شمشیر زن" یعنی (Sword Arm of India) کہتا تھا۔

کامیابی کی انتہا پر اسے تج دینا تو قلندری شان ہے اور بوس نے ساری عمر اس روایت کو نبھایا۔ یہ وہی سی آر داس تھے جنھوں نے 1922 میں مہاتما گاندھی سے اختلاف کرتے ہوے موتی لال نہرو کے ہمراہ "سوراج پارٹی" بنائی تھی اور کانگرس کو چھوڑ دیا تھا۔
حکیم اجمل خان اور علامہ اقبال کی طرح سی آر داس کو بھی "لکھنو پیکٹ" (1916) کی اس شق پر سخت اعتراض تھا جس کے تحت پنجاب و بنگال میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کی گئیں تھیں۔
1924 میں جب سی آر داس برٹش انڈیا کی سب سے بڑی میونسپلیٹی یعنی کلکتہ کے میر بنے تو انھوں نے پہلی دفعہ بنگالی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے کلکتہ میونسپلٹی میں نشستیں دیں جس پر بنیاد پرست ہندو سی آر داس اور ان کے چیلوں سے ناراض ہو گئے۔
بوس محض ایک عسکری ماہر ہی نہ تھے بلکہ انھیں پنجاب اور بنگال کے قربتوں کی تاریخ پر بھی عبور تھا۔ 1929 میں وہ لاہور میں تھے جہاں انھیں پنجابی طلباء کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ ان کی یہ تقریر جگت ایس برائٹ کی کتاب "بوس کی اہم تقاریر اور بیانات" (انگریزی) میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا؛
"آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ بنگالی ادب نے پنجاب کی تاریخ سے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔ آپ (پنجابیوں) کی عظیم شخصیات کی منظوم داستانوں کو شاعری کی شکل میں بنگالی زبان میں ڈھال کر گایا جاتا ہے کہ اس میں ٹیگور بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی ایک گیت تو ہر بنگالی کو یاد ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس پنجابی کلام کو بنگالی میں ہمارے لیے ڈھالا تھا جس سے ہزاروں بنگالی متاثر ہیں۔ اس ثقافتی ہم آہنگی کو سیاست کے قالب میں ڈھالنا ہے۔"
اس عظیم انسان کو پرسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی لاش کو چھپانے والے یہ بھول گئے کہ "مزار" تو لوگوں کے دلوں میں بنتے ہیں اور دل کا دریا سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے۔ بس اس پرسرار گمشدگی نے بوس کو امر کر دیا اور سیاسی چالیں چلنے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔


No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...