Friday, August 28, 2015

Bilawal: Save Party from Brahmins (Now or Never)


Bilawal: Save Party from Brahmins

(Now or Never)

Who’s who in Anti-PPP campaign?, not only outside the Party but also inside it.

Non elected elite has inbuilt anti-people mindset and that is why they always have reservations not only against the biggest provinces (Before 1971 it was East Bengal and after 1971 it is the Punjab) but also not ready to give space in the political system to popular political parties working at federal level.  We had a long history of hierarchy based Caste System yet thousands year back, it was successfully challenged by Buddhists. When majority in South Asia adopted Buddhism then even Ashok, the powerful King had to follow it. Shudders or the low caste was the main force behind that Anti-Caste revolution. Indian historian Romela Tapper narrated that history well. Brahminical School, for time being accepted its defeat yet it cleverly included Gautam Budh as its 10th Avutar.  In that way they noy only misled Buddhist teachings but also started a purge against them. Finally Buddhism was destroyed from the region where it was born. PPP is facing similar situation and now-a-days it is helpless in the Punjab where it was born in late 1960s. Like Bhuddists, the main force behind PPP was Lower classes and in the eyes of non elected elite or Brahmins it is a big crime.
Challenge is very big but Bilawal has to revisit post BB politics of PPP.  Like Bhutto, Benazir and Zardari, he should make his own team and be-aware from Uncles.  Question of revival of the Party in the Punjab is vital but if Sindh Government and Sindh chapter of PPP failed to deliver till 2018 it will be more damaging. Party’s position in KPK, Baluchistan and Kashmir including GB is not very good so it is essential for all three kids of BB to have a comprehensive policy and strategy.

PPP is at its minimum level and now either the Party will finish or move upwards. It is question of “Now or Never”.  27 months back, I wrote a piece regarding PPP and this current article is in its continuity.
The link of previous article is also there in the end.

Now read the complete article published in weekly Humshehri at



Some Extracts

2018کا انتخاب پی پی پی کی بقاء کا انتخاب ہے کہ شاید کچھ قوتیں اسی لیے ان انتخابات کو2018سے قبل کروانے کی مہم کو تیز کرنا چاہتی ہیں۔ زرداری صاحب اپنی’’باری‘‘ لے چکے کہ اس میں18ویں ترمیم سمیت بہت سے مثبت اقدامات بھی ہیں اور لاتعداد گھاٹے بھی کہ اب انہیں محض وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو1986کے بعد بیگم نصرت بھٹو ادا کرتی رہیں۔ قبات میں دوئی(Duality) پی پی پی کی مشکلات میں اضافہ کا سبب ہی بنے گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر نیا لیڈر اپنی ٹیم خود بناتا ہے۔ یہی کام محترمہ نے بھی کیا تھا اور خود زرداری صاحب نے بھی کہ اب بلاول کی باری پر اس روایت سے انکار کیوں؟ پاکستان پیپلز پارٹی اب اس مقام سے نیچے نہیں جاسکتی کہ اب اس کو یا تو ختم ہونا ہے یا پھر اوپر جانا ہے۔ یہ فیصلہ بے نظیر کی اولاد کے ہاتھ میں ہے اور کارکن ان کے منتظر ہیں۔ 

بلاول بھٹو… پیپلزپارٹی کو براہمنوں سے بچاؤ

اپنی جنم بھومی سے دیس نکالا ملنے سے اذیت ناک سزا کیا ہوسکتی ہے؟ یہ تو وہی جانتے ہیں جن پر بیتی ہے؟ ڈیڑھ ہزار سال قبل ہشیار براہمنوں نے ذات پات کو چیلنج کرنے والے بدھ مت کو کچھ ایسی ہی سزا دی تھی۔ یوں لگتا ہے نئے براہمنوں نے یہی سزا پیپلز پارٹی کو دینے کی 
قسم اْٹھارکھی ہے۔ کیا بلاول بھٹو پارٹی کو اس ’’کھوبہ ‘‘سے نکال سکیں گے؟

مہاتما گوتم بدھ نیپال اور انڈیا کی سرحد کے پاس623قبل مسیح میں پیداہوئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے پورے جنوبی ایشیا میں براہمنوں کوناکوں چنے چبوا ڈالے تھے۔ بدھ مت اختیار کرنے والوں میں’’ شودر ‘‘پیش پیش تھے کہ براہمن تو انہیں انسان بھی نہیں مانتے تھے۔ بدھ مت کا بول بالا ہوا تو اشوک جیسا بااختیار بادشاہ بھی بدھ مت کا پیروکار بن گیا۔ ہشیار براہمنوں کو راج نیتی کا گہرا تجربہ تھا کہ انھوں نے بغل میں چھری چھپاڈالی اور مہاتما گوتم  
بدھ کو ہندومت کا ’’دسواں اورتار‘‘مان لیا۔ اب براہمن گوتم بدھ 
کا نام تو ’’جپنے‘‘ لگے مگر بدھ مت کے پیروکاروں کے سخت خلاف رہے۔ مشہور بھارتی تاریخ دان رومیلا تھا پرکے بقول چوتھی اور پانچویں صدیوں میں200 سال تک براہمن بدھ مت والوں کا قتلام کرتے رہے۔ ایک طرف انھوں نے مہاتما بدھ کی تعلیمات بارے گمراہ کن تشریحات کیں تو دوسری طرف بدھ مت والوں کو ہندسندھ میں ختم کرڈالا۔ باخبر پنڈت نہرو نے اپنی معرکتہ الآراء کتب میں اس قتلام بارے اک حرف بھی نہ لکھا۔
اپنی پیپلزپارٹی کو بھی آج کل کچھ ایسے براہمنوں ہی سے پالا پڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی صوبہ پنجاب کے دل لاہور میں پیداہوئی کہ 1970کے انتخابات میں پنجاب اورپنجابیوں نے اسے وہ فقیدالمثال کامیابی دی کہ براہمنوں کو بادل نخواستہ اقتدار بھٹو صاحب کے حوالہ کرنا پڑگیا۔ ماضی کی طرح شودروں نے ایک دفعہ پھر بڑھ چڑھ کر پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ بھلا یہ بات براہمنوں کو کیسے ہضم ہوسکتی تھی۔ کچھ براہمن تو1972ہی سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے کہ اسے اندر سے زک پہنچائیں تو بہت سے براہمن پیپلز پارٹی سے بیر رکھنے والے ’’مجموعہ اضداد ‘‘کو اکٹھا کرنے میں رجھ گئے۔ فیصلہ وہی ہوا جو براہمنوں نے ماضی میں کیاتھا کہ براہمنوں کو چیلنج کرنے والوں کو ایسا نشان عبرت بنایا جائے جس کے بعد ان سے اپنے بھی بدظن ہوجائیں اور یہ اپنی جنم بھومی ہی میں تارکین وطن بن جائے۔ پہلا ٹارگٹ بھٹو صاحب کی منتخب سرکار کا خاتمہ تھا جبکہ دوسرا اور اہم ٹارگٹ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے نکالنا تھا۔ پہلا ٹارگٹ سیکولر قوم پرستوں اور مذہبی جماعتوں نے ضیاالحق کے ساتھ مل کر حاصل کرلیا۔ اب ضیاشاہی میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرنے کے ایجنڈے کو تیز کردیاگیا۔ 

Previous Article 
http://punjabpunch.blogspot.com/2013/05/will-ppp-revive-in-future.html?q=PPP&view=flipcard



No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...