Saturday, August 15, 2015

Post Qasoor rethinking...Media, Police and Power Players

Post Qasoor rethinking...Media, Police and Power Players


Qasoor: A case of bad media reporting, unnecessary media talks by security officials, blame game strategy of politicians and Breaking News culture. Let us see Federal and Provincial governments will pass child protection laws after this incident or not? 
Read complete article here

کیا ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟ کیا میڈیا میں بیٹھے ڈائریکٹر نیوز’’خبر‘‘ کی ایسی بے حرمتی کو خود صحافت کے لیے قابل تحسین سمجھتے ہیں؟بات محض اس خبر تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا کہ الامان الحفیظ۔ ایک اینکر بولے کہ دیہاتوں میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔ پھر اپنی بات کو تقویت دینے کے لیے سارا الزام جدیدٹیکنالوجی کے کھاتے ڈال دیا۔ بدعنوانی کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے والے ایک چینل نے پہلے تو یہ بتایا کہ مسئلہ صرف اور صرف زمین کے تنازعہ تک محدود ہے اور پھر اس پر رانا ثنااللہ سے مہر تصدیق لگوادی۔ یہی نہیں بلکہ یہی چینل گھنٹوں یہ خبر چلاتا رہا کہ قصور کے مسئلہ پر ہم نے ذمہ دارانہ صحافت کا ثبوت دیا ہے اور اب باقی چینل بھی یہ بات تسلیم کر لیں کہ بچوں سے بدفعلی کی فلموں کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ - 

کچھ عرصہ پہلے وہ پشاور بھی گئیں تھیں جہاں طوفانی بارشوں میں جانی ومالی نقصان ہوا تھا۔ وہاں انھوں نے صوبائی سرکار پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا نہ ہی صوبائی وزراء یا وزیراعلیٰ کو کوئی تنبیہ کی تھی بلکہ قدرتی آفات کا بندوبست بنانے کے حوالہ سے ہی بات کی تھی جو اپنی جگہ درست طرز عمل تھا۔ پھر وہ ایک دن سندھ جاپہنچی تھیں اور ہر غلط کام پر قائم علی شاہ کو مواد الزام ٹہراتی رہی تھیں۔ انہیں ہر برائی سندھ سرکار میں نظر آئی تھی۔ اب وہ قصور وقوعہ کے بعد پنجاب آئیں اورسارا زور پنجاب سرکار کی مخالفت میں لگادیا۔ اگر قصور جیسا المیہ بنوں یا نوشہرہ میں ہوا ہوتا تو ریحام خان شاید پلنگ سے پیر بھی نہ اتارتیں۔ مسئلہ صرف تحریک انصاف کا نہیں کہ یہ طرز عمل بالعموم ہمیں تینوں وفاقی سیاسی جماعتوں میں یکساں نظر آتا ہے جو افسوسناک ہے۔ یہ درست ہے کہ اس طرز عمل کا سب سے زیادہ اظہار پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے کھاتے ہی پڑتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جناب عمران خان کا اپنا طرزتکلم ہے جو خود کو ’’فرشتہ‘‘ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ شہباز شریف کی بیگم نے بھی بیان دے مارا کہ اصلاحات کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا مگر کوئی ان سے پوچھے کہ کیا محض’’ادبی میلے‘‘ کروانے سے معاشرے میں اصلاحات آجائیں گی؟ وہ بھی بذریعہ انگریزی زبان۔ - 

۔ جب آئی جی پنجاب وہاں پہنچے تو بہت سے ’’دلیر اور غیرت مند‘‘ لوگوں نے احتجاج کیا۔ مگر میڈیا ان غیرت مندوں اور دلیروں سے یہ نہ پوچھ سکا کہ یہ لوگ10,8سال جس درندگی کو دیکھتے رہے اس وقت ان کی غیرت اور حمیت کہاں تھی؟ یہ عوامی احتجاج تھا یا پھر کسی طے شدہ منصوبہ کا حصّہ اس بارے بھی میڈیا تفتیش سے گریز ہی کرے گا۔ اب جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو میڈیا قصور کو بھول کر ایم کیو ایم کے استعفوں پر کمر بستہ ہوچکا ہوگا۔ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ میڈیا بلڈ پریشر کی گولیاں بیچنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا’’سہولت کار‘‘ ہے۔ ان کی بریکنگ خبر تو بس بریک کرنے یا توڑنے یا انتشار ہی کے لیے ہوتی ہے کہ کبھی کسی اچھی خبر کو بریکنگ نیوز بناتے ہی نہیں - 
یہ بھی کہا گیا کہ اتنے عرصہ ماں باپ کیوں خاموش رہے؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ محض14,12لوگوں کو پھانسی دینے سے راوی چین لکھنے لگے گا تو یہ اک زبردست غلط فہمی کے سواء کچھ نہیں۔ قصور کے واقعے سے اگر ہماری منتخب و غیر منتخب اشرافیہ اور ادارے سبق سیکھ سکیں تو زحمت میں رحمت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ صوبوں کو بچوں کے حقوق کے حوالہ سے18ویں ترمیم کے بعد جو قوانین بنانے تھے اس حوالہ سے صوبائی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ جنوری2016 تک اگر عورتوں، بچوں، مزدوروں، اقلیتوں کے حوالہ سے27 قوانین پر صوبائی حکومتوں نے قانون نہ بنائے تو پاکستانی برآمدات کو جی ایس پی(پلس) کے ذریعہ ڈیوٹیوں کے ضمن میں جو مراعات ملیں تھیں وہ ختم ہوجائیں گی۔ اس وقت چاروں صوبوں میں چار الگ الگ صوبائی حکومتیں ہیں کہ اگر یہ چاروں پارٹیاں اس ضمن میں مقابلہ بازی کریں تو ایسے صحت مند مقابلہ کا پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ میڈیا بھی اس میں کردار ادا کرسکتا ہے اور ان27قوانین کے حوالہ سے بریکنگ خبریں بھی تلاش کرسکتا ہے۔ - 
Listen Radio Program about Qasoor
http://punjabpunch.blogspot.com/2015/08/qasoor-incident-twisted-facts.html

A Fact finding report by Human rights organization
http://www.humanrights.asia/news/ahrc-news/AHRC-STM-135-2015

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...