Friday, August 21, 2015

Myth of Suicide Attacks:International Rivalries, Power Politics, Anti-Democracy mindset and Informal Economy

Myth of Suicide Attacks

International Rivalries, Power Politics, 

Anti-Democracy mindset and Informal Economy

According to claims handlers and planners of suicide attacks are deadly against Britain and US yet from 2005 till now their areas of attack are Somalia, Israel, Palestine, Afghanistan and Pakistan type countries. Although there is a hue and cry against Suicide acts yet construction of sentences, selection of words while reporting shows praise for it. It is often said that no one can stop a suicide bomber. As par data, since 2005 involvement of Islamist groups increased yet it does not permit us to forget role of international rivalries. Those who read Sedition Commission Report 1917 knew how German and Britain secret services were using Hindu Nationalism against each other.  The report called it German Hindu Conspiracy.
Other than international rivalries one should also deconstruct the myth of suicide attacks by understanding local politics and selection of suicide bombers. In many cases supporters of such attacks always try to hide behind poverty and religion. But in fact they are deadly against democratic values.
“A recently published paper by Harvard University Professor of Public Policy Alberto Abadie "cast[s] doubt on the widely held belief that terrorism stems from poverty, finding instead that terrorist violence is related to a nation's level of political freedom."[103] More specifically this is due to the transition of countries towards democratic freedoms. "Intermediate levels of political freedom are often experienced during times of political transitions, when governments are weak, political instability is elevated, so conditions are favorable for the appearance of terrorism
“A study of the remains of 110 suicide bombers for the first part of 2007 by Afghan pathologist Dr. Yusef Yadgari, found 80% were missing limbs before the blasts, other suffered from cancer, leprosy, or some other ailments
The case of Pakistan is more complex as other than anti-democratic forces we have huge chunk of informal economy largely dependent on open borders at Sea and Land trade routes. Without transforming FATA into settle area it is impossible to weak economy of terrorism. Read and unlearn


پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ اور طاقت کے اہم ترین مرکز پنجاب کے وزیر داخلہ اور سابق فوجی کرنل(ر) شجاع خانزادہ کی اٹک خودکش حملہ میں شہادت نے ایک بار پھر وہی سوال دوبارہ سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ آخرہم خودکش حملوں سے کیسے جان چھڑا سکتے ہیں؟ آخر یہ خودکش حملے صومالیہ، اسرائیل، سری لنکا، پاکستان، افغانستان، فلسطین اور عراق جیسے ممالک ہی میں کیوں ہوتے ہیں؟ بظاہران خودکش بمباروں کو تیاراور ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے امریکہ، برطانیہ کے شدید مخالف ہیں مگر امریکہ، برطانیہ میں تو یہ جانباز خودکش حملے نہیں کرسکتے ؟ آخرامریکہ ،برطانیہ کے پاس کو نسی’’ گدڑسنگھی‘‘ ہے؟ کہ خود کش وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے یا پھر خودکش بنائے ہی مخصوص ممالک کے لیے ہیں۔ خودکش حملوں بارے کم از کم ہمارے میڈیا پر جب بھی خبر چلتی ہے تو اس میں خودکش بمباروں کو روکنے کے عزم سے زیادہ بے بسی اور عظمتوں کا ذکر زیادہ تواتر سے ہوتا ہے۔ جملوں کی ترتیب ، الفاظ کے چناؤ اور مخصوص نقطہ نظر سے جوڑ کر جس طرح خبر بنائی جاتی ہے وہ کچھ اور چغلی کھارہی ہوتی ہے۔ دہشت گردوں اور بمباروں پر تنقید کرتے ہوئے بھی مخصوص ہشیاری و چالاکی کے ساتھ اس عمل کو’’ ناقابل شکست‘‘ قرار دینے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں انہیں سمجھنا کوئی انہونی بات نہیں۔ اکثر دانشور اور اینکریہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم ان حملوں کو نہیں روک سکتے۔ کچھ خودکش حملوں کو حسن بن صبا سے جوڑتے ہیں تو کچھ جاپانی خودکش پائلٹوں کی دوسری جنگ عظیم والی کہانی سناتے ہیں مگر اب ایک دہائی سے کتابوں، تحقیقی مضمونوں اورخصوصا خودکش حملوں کے پیچھے’’جذبہ ایمانی‘‘ کا ذکرخاصہ بڑھ گیا ہے۔ اگر خودکش حملوں سے متعلق اعداد و شمار نکالے جائیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تیزیاں2005کے بعد عراق جنگ کے دوران آئیں۔ جارج بش اور ٹونی بلیر اپنی اپنی کتب میں یہ بات کرچکے ہیں کہ دہشت گردی مخالف مہموں کا رخ افغانستان سے عراق کی طرف موڑنے پر امریکہ و برطانیہ’’ایک صفحہ‘‘ پر نہیں تھے۔ تاحال ماہرین اس بارے میں اتفاق نہیں رکھتے کہ خودکش بمبار صرف’’ جذبہ ایمانی‘‘ کے تحت یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ سری لنکا کے تاملوں اور جاپانی پائلٹوں میں سے تو کوئی مسلمان نہیں تھا جبکہ ان کی کاروائیوں کا محرک مذہب یا فرقہ کی بجائے قوم پرستی تھا۔ البتہ2005کے بعد خودکش حملوں میں جو تیزیاں آئیں ہیں ان میں’’ اسلامی شدت پسندی‘‘ کا عنصر نمایاں رہا ہے۔ اسلامی شدت پسندی کے عنصر کے نمایاں ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان بمباروں کو کوئی بین الاقوامی خفیہ ادارے استعمال نہیں کررہے۔ اگر آپ میں سے کسی نے1917میں چھپنے والے سیڈیشن کمشن رپورٹ پڑھی ہوتو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ1905میں ہونے والی تقسیم بنگال سے 1914میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم کے دوران ہونے والی شدّت پسند کاروائیوں میں جرمنی اور برطانیہ کے خفیہ ادارے’’ بنیاد پرست ہندو و قوم پرستی‘‘ کو ایک دوسرے کے خلاف برٹش انڈیا میں بخوبی استعمال کرتے رہے تھے۔
مذہب اور قوم پرستی کو کھلی اور خفیہ جنگوں میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی روایت تو بہت پرانی ہے اور اس کی مثال دنیا کے ہر حصّہ اور ہر مذہب یا فرقہ سے دی جاسکتی ہیں۔ مگر اصل سوال تو ان کاروائیوں کے پیچھے متحرک قوتوں کے معاشی مفادات کا ہوتا ہے کہ ان تک پہنچنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سڈیشن رپورٹ کے مصنفین نے بڑی مہارتوں سے کہانی بنائی اور سلطنت برطانیہ کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کو’’جرمن ہندو‘‘ سازش کا خطاب دیا۔ ایسا لکھتے ہوئے ہشیار مصنفین نے برطانیہ کے خفیہ اداروں کی مہموں کا ذکر بڑی آسانی سے گول کردیا ۔ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ خودکش بمباروں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور مرد بھی تاہم ان میں مشترک بات یہ ہوتی ہے کہ خودکش بمبار کسی نہ کسی شدید جسمانی و ذہنی معذوری کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں اور دہشت گردی بارے تحقیق کرنے والے شکاگو پرا جیکٹ کے ڈئریکٹر رابرٹ پیپ(Pape)نے اک افغان پتھالوجسٹ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ2007 میں افغانستان میں ہونے والی%80خودکش حملوں میں استعمال ہونے والا بمبار پہلے سے معذور تھے۔ ہمارے ہاں تو معذوروں کو معاشرے کا حصّہ بننے سے روکنے کے حوالہ سے بہت سے کام ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے ہمیں زیادہ موثر پالیسی کی ضرورت ہے مگر دہشت گرد مخالف مہم میں تاحال اس پہلو پرتو بہت کم کام ہوا ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے پبلک پالیسی کے پروفیسر نے اپنے حالیہ تحقیقی کام میں یہ بھی بتایا ہے کہ دہشت گردی اور خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی اکثریت جمہوریت مخالف ذہنی رجحانات رکھتی ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر البر ٹو عبادی نے مشہور امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان کے تحقیقی مقالہ کا عنوان ’’غربت، سیاسی آزادی اور دہشت گردی کی بنیادیں‘‘ہے اور یہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ 2008 میں چھپنے والے اس مضمون کو ہمارے پالیسی سازوں اور دفاعی ماہرین کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ یوں خودکش حملوں اور دہشت گردی کا گہرا تعلق سیاست سے ہے مگر خودکش حملوں کے منصوبہ ساز خودکو مقبول عام کرنے کے لیے کبھی مذہب اورکبھی غربت کی آڑ لیتے ہیں۔ حال ہی میں صفورا چورنگی میں ہونے والے واقعہ میں کراچی کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالب علموں کی موجودگی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اصل مسئلہ سیاست ہی سے جڑا ہوا ہے۔ جمہوریت مخالف اسلام کی آڑ لیتے ہیں۔ہمارے ہاں تو جمہوریت کے خلاف ہر روز پروگرام ہوتے ہیں اور بڑے بڑے دانشورٹی وی چینلوں پر جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف ایسے - 

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...