Panama 2
Specter of Offshore & Political Circus
Read Complete article Published at weekly Humsheri
Regarding Offshore Civil military elite, media owners, major political parties and Judges are on same page as their numerous players are in Offshore business but all are blaming each other. Involvement of Pakistan in Panama Leak is not bigger than informal economy of Pakistan and every Pakistani knew how smuggled items are coming in markets. Expulsion of army officers by current COAS confirmed the fact that mafia of informal economy has roots in all sectors which is alarming. In spite of this panama 2 is haunting them. The only way out for civil military elite in Pakistan is to accept their malpractices and establish a Truth & Reconciliation Commission under Parliament. Just read what BB and General (r) Talat masood said.
پانامہ
ٹوآرہا ہے:پارلیمان سچ اور مفاہمتی کمیشن بنائے
عامر
ریاض
زمانہ گذرا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستانی اشرافیہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کی طرح “سچائی و مفاہمت کا کمیشن” بنائیں اور اپنے“ گناہوں” کا اعتراف کرتے ہوئے معقول رقم قومی خزانے میں جمع کروائےں اور آئندہ کے لیے توبہ کرلیں۔ یہی بات ایک اور حوالہ سے جنرل (ر) طلعت مسعود نے بعداز 9/11 کہی تھی۔ طلعت صاحب نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ اب وقت آگیا ہم سرد جنگ میں کی جانے والی “حرکات وسکنات” کو تسلیم کرلیں اور سیاسی مفاہمت کے ساتھ آگے چلیں۔ سیاسی بصیرتوں کے فقدان ہی کی وجہ سے آمر مطلق جنرل مشرف نے ان کی بات سنی ان سنی کردی اور ق۔لیگ، پیٹریاٹ اور ایم ایم اے کے ذریعے ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی اپنالی۔ اس دہری پالیسی کا خمیازہ پاکستان نے اور فائدہ مشرف نے اٹھایا۔ اب خان صاحب بھی مشرفی تقلید میں سرگرم عمل ہیں۔
زمانہ گذرا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستانی اشرافیہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کی طرح “سچائی و مفاہمت کا کمیشن” بنائیں اور اپنے“ گناہوں” کا اعتراف کرتے ہوئے معقول رقم قومی خزانے میں جمع کروائےں اور آئندہ کے لیے توبہ کرلیں۔ یہی بات ایک اور حوالہ سے جنرل (ر) طلعت مسعود نے بعداز 9/11 کہی تھی۔ طلعت صاحب نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ اب وقت آگیا ہم سرد جنگ میں کی جانے والی “حرکات وسکنات” کو تسلیم کرلیں اور سیاسی مفاہمت کے ساتھ آگے چلیں۔ سیاسی بصیرتوں کے فقدان ہی کی وجہ سے آمر مطلق جنرل مشرف نے ان کی بات سنی ان سنی کردی اور ق۔لیگ، پیٹریاٹ اور ایم ایم اے کے ذریعے ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی اپنالی۔ اس دہری پالیسی کا خمیازہ پاکستان نے اور فائدہ مشرف نے اٹھایا۔ اب خان صاحب بھی مشرفی تقلید میں سرگرم عمل ہیں۔
اب
ہر کسی کو 9مئی کا انتظار ہے کہ دیکھیں اس بار نامے کس کس کے نام نکلتے ہیں۔ جن کے
نامے پانامہ ون میں نکلے تھے وہ تو کچھ زیادہ “اتاولے” ہیں۔ آف شور کے حمام میں سب
ننگے ہیں کہ ٹیکس کلچر کو “مقدس” قرار دینے والی بین القوامی اشرافیہ اور اس کی
ہمدرد اس“ گند” میں گوڈے گوڈے پھنسے ہوئے ہں۔ انسانی حقوق، شفافیت اور بہترین
خدمات کے حوالہ سے مشہور ملک سویڈن وغیرہ جیسے ممالک، جمہوریت کی ماں کہلانے والا
ملک برطانیہ، بدترین آمریتوں اور بادشاہتوں کا مسکن مشرق وسطی یا پھر ریاست ہائے
متحدہ امریکہ، ٹیکس بچانے والی جنتوں کے سبھی متوالے نکلے۔ ان ممالک کے عام آدمی
بھی حیران ہیں کہ شیکسپیر، روسو، کانٹ، والٹیر اورفرینکلن بننجمن کی باتیں کرنے
والے محض پیسے کی پجاری ہی نکلے اور ٹیکس بچانے والوں کے مفادات کو پالیسیوں میں
اولیت دی۔ مساوات اور آزادی کے نام پر اقتدار سنھبالنے والوں نے بیروکریٹوں اور
مالیاتی امور کے ماہرین کے ذریعہ ٹیکس بچانے کے لیے20 ویں صدی کے آخری عشروں میں باکمال قوانین تو تخلیق کرلیے مگر وہ
آج بھی اس بارے کوئی سیاسی یااخلاقی جواز پیش نہیں کرسکتے ہیں۔ جہاں معمولی سی بات
پر وزیر، مشیر استعفیٰ دے دیتے ہیں وہاں کم ازکم 40 سال سے ٹیکسوں کے مد میں
قانونی طریقوں سے کھربوں ڈالر بچائے گئے ہیں۔یہ وہ تضادہے جس کی طرف یورپی یونین
تو برابر متوجہ رہی مگر آف شورزرکثیر نے “نجی میڈیا” کو بوجوہ بولنے نہ دیا۔ رقمیں
بچانے والوں میں صرف سیاستدان ہی شامل نہیں بلکہ فنکار، ایکٹر، بزنس مین، سول
ملٹری افسران، میڈیا مالکان سمیت ہر قماش کے حضرات شامل ہیں۔ ظاہر ہے جس کے پاس
100,50 کروڑ ہوگا وہی آف شور کاروبار میں رقم لگائے گا کہ یہ سب اس اشرافیہ کا کیا
دھرا ہے جو دن رات ہمیں اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں۔ مولوی، پادری، پنڈت،
دانشور، اینکر، پروفیسر سب انہی کے اسیر ہیں۔ اگر یورپ میں آف شور کا
کاروبار کرنے والوں نے اپنے ممالک کواس آف شور کاروبار کے حساب سے ٹیکس دیا ہوتا
تو آج چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت نہ ہوتا۔
بین
القوامی میڈیا کے مطابق دنیا کے 170 ممالک کے امیر لوگوں نے 2لاکھ سے زائد آف شور
کمپنیاں، ٹرسٹ وغیرہ بنائے ہیں۔ محض بھارت کی 612 کمپنیاں ہیں جن کے مالکان میں
سیاستدان کم جبکہ کاروباری حضرات زیادہ ہیں۔ تاہم امریکہ سے پاکستان و بھارت تک
سرگرم عمل تمام اہم سیاسی جماعتوں میں آف شور کاروبار کرنے والوں کا سرمایہ گردش
کرتا ہے۔ سوئس بینک تو عرصہ دراز سے یہی کام کررہے تھے جبکہ آف شور کمپنیوں کی
یلغار 1980 کی دہائی سے شروع ہوئی۔ وہ بین القوامی مالیاتی ادارے جو ان آف شور
کمپنیوں کو بناتے ہیں ان میں سے اک کمپنی کامن ویلتھ ٹرسٹ لمیٹڈ (CTL) بھی ہے جو 1944 میں بنائی گئی تھی اور اس کا ہیڈ کواٹر بدنام
زمانہ برطانوی جزیرے “برٹش ورجن آیس لینڈ” میں بنایا گیا۔ 2013 سے یورپی یونین میں
“ناجائز” کاروباروں کے حوالہ سے زیادہ پیش رفت ہوئی اور پھر خبریں بھی نکلنے لگیں۔
پانامہ لیکس کی وجہ سے شہرت پانے والے بین القوامی ادارے انٹرنیشنل کنسورشیم آف
انویسٹی گیٹو جرنلزم (ICIJ) نے اپریل 2013 کو پاکستان کے حوالہ سے جو خبر چھاپی تھی اس میں
چوہدری مونس الٰہی کا نام لیا گیا تھا۔ چھوٹے چوہدری صاحب کے والد جنرل پرویز مشرف
کے دور میں پنجاب کے مختار کل تھے۔ چوہدری مونس الٰہی نے تو حسب روائیت کمپنی کی
ملکیت سے صاف انکار کرڈالا تھا مگر آئی سی آئی جے والوں نے کارپوریٹ ریکارڈ میں سے
مالک کے گھر کا پتہ ڈھونڈا تو وہ ظہور الٰہی روڈ گلبرگ کا وائٹ ہاﺅس
نکالا۔ آج کل یہی چوہدری خاندان عمران خان کی کرپشن مکاﺅ
مہم میں بھی شامل ہے اور کچھ عرصہ پہلے یہ دھرنوں میں بھی پیش پیش تھے۔
کسی بھی بین القوامی مسئلہ سے اپنا الو سیدھا
کرنے کا “گُر” ہمیں خوب آتا ہے۔ افغان جہاد اور 9/11 کے مواقع آئے تو جنرل ضیاءاور
جنرل مشرف نے ان واقعات کو اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ورتا۔ وہ اس موقع پر پاکستان
کے بیرونی قرضے معاف کرواسکتے تھے یا ملک کے لیے کوئی اور اہم ترین رعائیت مانگ
سکتے تھے کہ جیسا ترکی اور مصر نے کیا تھا۔ اپنا الو سیدھا کرنے والا وہی کام اب
عمران خان بھی کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ ضیاءو مشرف کی سیاستوں کا “رلا” ہی تو
ہیں۔ خان صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پانامہ ون میں کتنے ملک ریاضوں کا نام
آیا ہے۔ وہ ان لیکس کی ٹائمنگ کو بھی مدنظر نہیں رکھنا چاہتے کہ جب چینی سرمایہ
کاری کی وجہ سے ہمارے اپنے دوست بھی ہم سے نالاں ہیں۔البتہ بطور حذب اختلاف پیپلز
پارٹی کا پارلیمانی کمیشن بنانے والا مطالبہ زیادہ موزوں ہے کہ یہ معاملہ اتنا
سادہ نہیں اور نہ ہی وزیراعظم کو ہٹانے سے آف شور کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
زمانہ
گذرا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستانی اشرافیہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جنوبی
افریقہ کی طرح “سچائی و مفاہمت کا کمیشن” بنائیں اور اپنے“ گناہوں” کا اعتراف کرتے
ہوئے معقول رقم قومی خزانے میں جمع کروائےں اور آئندہ کے لیے توبہ کرلیں۔ یہی بات
ایک اور حوالہ سے جنرل (ر) طلعت مسعود نے بعداز 9/11 کہی تھی۔ طلعت صاحب نے جنرل
مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ اب وقت آگیا ہم سرد جنگ میں کی جانے والی “حرکات وسکنات”
کو تسلیم کرلیں اور سیاسی مفاہمت کے ساتھ آگے چلیں۔ سیاسی بصیرتوں کے فقدان ہی کی
وجہ سے آمر مطلق جنرل مشرف نے ان کی بات سنی ان سنی کردی اور ق۔لیگ، پیٹریاٹ اور
ایم ایم اے کے ذریعے ڈنگ ٹپاﺅ
پالیسی اپنالی۔ اس دہری پالیسی کا خمیازہ پاکستان نے اور فائدہ مشرف نے اٹھایا۔ اب
خان صاحب بھی مشرفی تقلید میں سرگرم عمل ہیں۔ حیران نہ ہوں،آج کل خان صاحب کو آصف
زرداری اور پیپلز پارٹی کی کرپشن نظر آنا بوجوہ کم ہوگئی ہے کہ یقینا اس کا فائدہ
خان صاحب کو کم اور پیپلز پارٹی کو زیادہ ہوگا۔ 2008 سے جس“ مک مکا” کو انھوں نے
اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غبارے کو انھوںاپنے تازہ عمل سے خود ہی پنکچر کر
ڈالا ہے۔ پیپلز پارٹی تو پہلے بھی مفاہمت کا“ کلمہ” پڑھتی تھی اس لیے اب خان صاحب
اخلاقی جواز بھی کھوچکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ جب بھی“ مک مکا” یا پی پی پی کی
کرپشن کی بات کریں گے تو انہیں یہ دن یاد دلائے جائیں گے۔
تاحال
سامنے آنے والے انکشافات میں آف شور کمپنیوں، اکاﺅنٹ
ہولڈروں اور لمی چوڑی رقوم کا ذکر تو تواتر سے ہورہا ہے مگر یہ بات ابھی راز ہی ہے
کہ یہ آف شور کمپنیاں کس کس مد میں کاروبار کرتی رہی ہیں۔ پانامہ ون کی وجہ سے یہ
بات بھی سامنے آچکی ہے کہ برطانیہ میں کون سی قوتیں ہیں جو یورپی یونین کا حصّہ
نہیں بننا چاہتیں کیونکہ یورپی یونین والے آف شور بزنس کو ٹیکس مد میں شامل کرنے
پر کمر بستہ ہے اور تیزی سے اس طرف بڑھ رہی ہے۔ اس بدلتے ہوئے منظرنامہ پر نظر
رکھنے کی بجائے ہم خود اس کھیل کا شکار ہوگئے۔ چلیں، روس اور چین کی بات نہیں کرتے
کہ دونوں ممالک نے پانامہ ڈرامہ کے ذریعہ اپنے رہنماﺅں
پر لگنے والے الزامات کو “سامراجی سازش” قرار دے کر داخل دفتر کردیا تھا۔ روس کی
متحرک حذب اختلاف نے بھی بوجوہ زیادہ“ گھپ” نہیں ڈالی۔ مگر بھارت میں بھی یہ مسئلہ
زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا حالانکہ اس میں سیاستدان اور سرابھ متل جیسے کاروباری
بھی شامل تھے۔ پانامہ ون میں مشہور بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے علاوہ 500
بھارتیوں کے نام آئے تھے۔ اس کے جواب میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے ان سب کو سوال
نامے جاری کردیے ہیں۔مگر ہمارے ہاں بات کا بتنگڑ بنانے والا میڈیا بھی ہے اور خان
صاحب جیسے سیاستدان بھی جو کچھ جلدی میں ہیں۔ فوری مفاد میں وہ “اگا چھوڑ تے پچھا
چوڑ” کے مخمضے میں پھنستے چلے جارہیں اور اس کا مہلک اثر ان کی اپنی پارٹی پر ہی
پڑ رہا ہے جو اب مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ اگر خان صاحب فوری مفاد کی بجائے سیاسی
بصیرتوں سے کام لیتے تو اس سے ملک و قوم دونوں کا فائدہ ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ
پیپلز پارٹی کسی تیزی میں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ نہ ہو کہ جب -9 مئی کو بہت سے دیگر
پردہ نشینوں کے نام بھی آجائیں تو خان صاحب مزید تنہا ہوجائیں۔ یہ بات ہر کسی کو
معلوم ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے تادم تحریر کھربوں ڈالر اسلحہ ساز کمپنیوں اور
سیکورٹی سے متعلقہ کاروباروں میں کمائے گئے ہیں۔ اسلحہ، جہازوں اور آبدوزوں وغیرہ
کے ٹھیکوں میں کمیشن کھانے والوں کا اس آف شور کاروبار سے کیا تعلق ہے اس بارے
خبریں آرہی ہیں۔ پانامہ ون میں تو اسلحہ بیچنے والے اک مالدار امریکی ٹھیکے دار کا
نام نامی شامل بھی تھا۔ اگر پانامہ ٹو میں یہ فہرست آگئی تو پھر ملا کی دوڑ مسیت
تک ہی ٹہر جائے گی۔
چین،
بھارت اور روس میں پانامہ ون کے بعدجونرم درعمل آیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آف شور
بزنس کے“ گھن چکر” بارے سب کو معلوم ہے۔ وہ سب جانتے ہیں کہ منافع پر ترتیب دیے
گئے نظام میں سرمایہ دار ہر دم منافع زیادہ کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔ آف شور کا
کاروبار نہ چین، پاکستان، بھارت جیسے ممالک نے شروع کیا ہے نہ ہی وہ اسے ختم
کرسکتے ہیں۔ اس کے خاتمہ کا فیصلہ بھی امریکہ و یورپ میں ہوگا تو آف شور کا بھوت
ہمارے ہاں بھی اپنی موت مرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے ملک پر اس کا اثر
پڑنے نہیں دیا۔ پر اپنے خان صاحب کو کون سمجھائے کہ وہ تو محض “باری” کے انتظار
میں بیتاب ہیں۔ اس بیتابی نے انہیں پہلے بھی مروایا تھا حالانکہ پی پی پی نے انہیں
عزت دار واپسی کا راستہ دینے کی بہت کوشش کی تھی۔ اب اس “دھرنا ٹو” میں وہ دوبارہ
سے اسی ڈگر پر گامزن ہیں۔ اپنے سابقہ برادر نسبتی کی طرح وہ آف شور بزنس کو “حلال”
قرار دینے پر کمر بستہ ہیں۔ حالانکہ خود یورپ میں آف شور بزنس کرنے والے اکثر
سرمایہ دارقانون کے مطابق تمام ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنے منافع کو آف شور میں
لگاتے ہیں۔ مگر اس بظاہر قانونی کاروبار کا ان کے پاس کوئی سیاسی واخلاقی جواز
نہیں ہے۔ جس کاروبار میں نہ تو یہ پوچھا جائے کہ رقم کیسے کمائی تھی اور کیسے لائی
گئی ہے اور پھر ملکیت کے بارے تمام معلومات صیغہ راز رکھنے کی ضمانت موجود ہوتو
اسے کتنا جائز یا حلال کہا جاسکتا ہے اس بارے آپ خود سمجھ دار ہیں، فیصلہ کرلیں۔
جب یورپی یونین والے بھی آف شور بزنس کو ریگولر بزنس میں ضم کرنے کے جتن بذریعہ
قانون سازی کر رہے ہیں تو پھر ہمیں بھی اسی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مگر اس کے لیے
خان صاحب کو چوراہوں کی بجائے اسمبلیوں کا رخ کرنا ہوگا جو ان کے لیے بدستور تکلیف
دہ ہے۔
Further readings & relevant links
European Union & Tax Loot....Extracts of a study
Civil Military Conflict? Who is playing with whom
Coming Soon: ICIJ to Release Panama Papers Offshore Companies Data
“A lot of it is legal, but that’s exactly the problem. It’s not that they’re breaking the laws, it’s that the laws are so poorly designed.”
New Bank Leak Shows How Rich Exploit Tax Haven Loopholes
Son of Leading Pakistani Politician Tied To Secret Caribbean Company
Global media investigation finds 612 Indian firms in tax havens
Panama Papers' data to be made public on May 9
Who Uses the Offshore World
Why the top 10 tax havens don't include Panama
The 'who's who' of European tax havens