Thursday, August 18, 2016

17 August 1988: End of Zia and Pakistani Politics in Post Zia Scenario






17 August 1988
End of Zia and Pakistani Politics in Post zia scenario 

For Complete Published Article Click HERE
  • At the time of signing of Geneva Accord Zia had lost local and international friends
  • Gorbachev was ready to create win win situation between Pakistan and Russia before Geneva Accord and he sent a representative to Zia yet according to Riaz M Khan, Zia and his kitchen partners lost that opportunity due to their lofty ideas regarding False Islamic Victory.
  • When conditions changed than preferences/ideologies have to follow the course yet it remain painful for followers of old narratives. People in pakistan were with PPP yet establishment remained reluctant to accept it.
  • Misleading Narrative of some groups within Establishment proved futile and counter productive for the State & Society. In post Zia times those narratives remained in practice largely. 
  • Two Horrible Decades 1988-2008: They did not allow any government to complete its tenure, they supported misleading fights in Kashmir and Jallalabad, They used politicians against each other yet politicians accepted their faults openly in 2006 and signed CoD, They played another bad game in Kargil at a time when Indian PM visited Minar e Pakistan. They run Taliban project and recognized them. They used double policy in post 9/11 scenario.These are symbols of misleading narratives 
  • Jut check last months of every dictator from Ayub to Mushraff and you will observe how he became Useless even in the eyes of those that were his supporter in early period. Case of Zia is worst because neither Hamid Gul nor Ghulam Ishaq Khan or Roedad Khan or Aslam Baig or Ijlal Haider zaidi never tried to expose culprits.
  • Two biggest crimes of Zia were abrogation of Constitution & Killing of the First Prime Minister.
  • Zia was not ready to investigate Ojri Camp incident and in haste fired Junejo ..it proved futile 
  • Afghan jihad was part of international power struggle between USSR and US+West and in this game both players used Islam extensively directly and through their cronies





ضیاءکا انجام اور پاکستان
عامر ریاض


آج 17 اگست ہے۔ ہمارے دوست پرویز مجید کا جنم دیہاڑ، دوہری خوشی کا باعث۔ اس لیے نہیں کہ ضیا الحق مرا تھا بلکہ اس لیے کیونکہ 5 جولائی 1977 سے مسلط کردہ آمریت کا جنازہ بھی اسی دن اٹھا تھا۔ مگر ضیاءالحق کو اگر عوامی طاقت سے دیس نکالا ملتا تو پھر کسی پرویز مشرف کو مارشلاءلگانے کی ہمت نہ ہوتی۔ نہ ہی اس ملک میں غلام اسحاق خان، روائداد خان، اجلال حیدر زیدی، حمید گل اور اسلم بیگ جیسوں کی دال گلتی۔ ضیا مخالف ماحول میں سیاسی تربیت کے باوجود یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ ضیاالحق کو عوامی، آئینی وعدالتی طاقت سے ختم ہونا چاہیے تھا۔ اگر ضیا کے مرنے کے 28 سال بعد تجزیہ کریں تو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ 28 سال بعد بھی ہم ضیاالحقیوں سے چھٹکارہ نہیں پاسکے۔ 14 اپریل 1988 وہ دن ہے کہ جب ضیاءالحق باامر مجبوری جنیوا معاہدے پر دستخط ہوتے دیکھ رہا تھا اور بے بس و لاچار تھا۔ سول ملٹری اشرافیہ کی اکثریت بشمول وزارت خارجہ بین الاقوامی تنہائی سے بچنے اور بدل چکے سیاسی منظر نامہ سے ہم آہنگ رہنے کے لیے جنیوا معاہدہ پر دستخط کے حق میں تھی۔ مگر ضیاءالحق اور اسکے بعض ناقاعبت اندیش حواری اس پر معاہدہ پر دستخط کے خلاف تھے۔ اس تضاد کی بنیاد خوش فہمی تھی جس کا ضیاالحق اور اس کے حواری شکار رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ افغان جہاد انھوں نے شروع کیا ہے جبکہ جنیوا معاہدہ پر ان کی مرضی کے بغیر ہونے والے دستخط اس دعویٰ کا منہ کالا کر رہے تھے۔ افغان جہاد اک بین القوامی کھیل کا حصّہ تھا جو اسلام کے نام پر روس کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے رچایا تھا۔ جنھوں نے یہ کھیل شروع کیا تھا، اس کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے انھوں نے ہی 1988میں اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس افغان جہاد پر پاکستان میں کوئی وسیع تر سیاسی تصفیہہ نہیں ہوا تھا۔ جیسا نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں دہشت گردی مخالف جنگ میں آج ہوا ہے۔ بلکہ ضیا الحق کی متنازعہ شریعت نے افغان جہاد کو مزید متنازعہ بنایا ہوا تھا۔ جنیوا معاہدہ سے ایک سال قبل خود ضیاا لحق نے 9 سال سربراہ رہتے والے جنرل اختر عبدالرحمن کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر ”درشنی پہلوان“ (چیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف) بنا ڈالا تھا۔ 1986 اس تیزی سے بدلتے منظر نامہ کا آغاز تھا کہ جب 10 اپریل 1986 کو لاہور کی سڑکوں پر ضیا الحق کے خلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کے فقیدالمثال استقبال کی صورت میں عوامی فیصلہ بھی آچکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بقول سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان، /71986 میں گوریا چوف کے نمائندے نے بھی ضیاالحق سے رابطے کرتے ہوئے ”عزت دار“ حل نکالنے کی کوشش کی تھی مگر طاقت کے نشے میں دھت ضیاالحق نے اس دعوت کو روسی کمزوری قرار دے کر مسترد کردیا۔ جنیوا معاہدے سے قبل جب محمد خان جونیجو نے کل پارٹی کانفرنس بلوائی تو ضیاالحق نے جونیجو اور اس کے حواریوں کو آستین کے سانپ سمجھنا شروع کردیا۔
یہ تجزیہ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اپریل 1988 تک ضیا الحق کے ساتھ نہ تو افغان جہاد سے منفعت کمانے والی سول ملٹری اشرافیہ تھی، نہ اسے بین القوامی حمائیت حاصل تھی اور نہ ہی عوام اور ان کی نمائندہ سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ تھیں۔ 14 اپریل 1988 سے قبل ہی ضیاالحق اک ہار چکی جنگ کا سپہ سالار بن چکا تھا۔ دستخط ہونے سے چار دن قبل 10 اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ میں پھٹنے والا اسلحہ کا انبار اس اضطراب کی علامت تھا جو اقتدار کی غلام گردشوں میں ان دنوں پک رہا تھا۔ جنیوا معاہدے پر دستخط کے بعد جب اوجڑی کیمپ سانحہ کی تحقیقات کا وقت آیا تو ضیا الحق کو میڈیا پر آکر کہنا پڑا کہ ”جرنیلوں کی سرزنش“ سے باز رہیں۔ اس اضطرابی کیفیت ہی میں ضیاالحق نے 29 مئی 1988 کو جونیجو حکومت کو برطرف کرکے اپنے ایک اور حمائیتی سے خود جان چھڑالی۔ یہی وہ وقت ہے جب غلام اسحاق خان، روئیداد خان، حمید گل، اجلال حیدر زیدی اور اسلم بیگ نئے منظر نامہ کا زائچہ تیار کرنے پر معمور کردیے گئے۔ ضیاالحق کے جرائم کی اک طویل فہرست تھی جس میں سب سے بڑا جرم اس نے 5جو لائی 1977 کو کیا تھا جو آئین پاکستان کا قتل تھا۔ ضیاالحق کا دوسرا بڑا جرم پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کا قتل تھا جس میں عدالتوں نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ مرحوم جسٹس نسیم حسن شاہ مرنے سے قبل خود اس کا اعتراف کرگئے تھے۔ اگر ضیاالحق کو ان دو جرائم کی سزا دے دی جاتی تو پاکستان کو ان عذابوں سے نہ گذرنا پڑتا جن کا ہم گذشتہ 28 سال سے شکار ہیں۔ حکمران ٹولہ جن کے نمائندوں کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے، کسی بھی صورت عوامی تائید سے ضیاالحق کو نکالنے کے حق میں نہیں تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر عدالتوں اور عوامی تائید کے ذریعہ ضیاالحق کی چھٹی ہوئی تو نہ صرف ملک پاکستان میں آئین وقانون کی حکمرانی قائم ہوجائے گی بلکہ کل کو سول ملٹری اشرافیہ کی باری بھی آجائے گی جو وسائل پر قابض ہیں۔ بین القوامی منظر نامہ پر حالات تیزی سے بدل رہے تھے کہ روسی صدر میخائل گوربا چوف سرد جنگ کے خاتمہ کا طبل بجا چکے تھے۔ اگر آپ اپنے ذہن میں ذرا دیر کے لیے 1986 سے 1992 تک کے حالات کی تصویر بنائیں تو اس میں کہیں ”تاریخ کا خاتمہ“ اور ”تہذیبوں کا تصادم“ جیسے عنوانات پر لکھے مضامین نظر آتے تھے تو کہیں انقلابی روس کی تطہیر۔ ہر ایک کی نظر بعداز سرد جنگ پر تھی کہہ راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو کی نظربوجوہ آنے والے کل پر تھی مگر دونوں کو چلنے نہ دیا گیا۔ پاکستان میں حکمران ٹولہ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر اور کابل میں اپنے عزائم کی تکمیل کی ایک اور ناکام مہم میں رجھا رہا۔ حکمران ٹولہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی بصیرتوں سے محروم تھا کہ اس کے نزدیک پاکستان کی بجائے اپنے قبضے کی اہمیت زیادہ تھی۔ اس نازک موقعہ پر اگر پاکستان کی ریاست کی ترجیحات کابل کی مسجد میں اذان اور دلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لگانے کی بجائے نئے حالات کے مطابق اپنا قبلہ درست کرنے پر ہوتیں تو ہمارے حالات آج کہیں بہتر ہوتے۔ بھلا ہو سیاستدانوں کا کہ انھوں نے میثاق جمہوریت (2006)کے بعد 2008 سے دوبارہ قبلہ درست کرنا شروع کیا کہ یہ کام اگست 1988میں ہونا چاہیے تھا۔ مشرف کو بھی اک موقعہ ملا تھا جو اس نے دہری پالیسی کی نذر کر ڈالا۔

ذرا غور کریں کہ 1988 کے حکمران ٹولہ نے ضیا الحق کو قربانی کا بکرا بناکر اپنا الو سیدھا کیا۔ آموں کی پیٹی میں بم کس نے رکھا؟ ضیاالحق کی خواہش کے بغیر اسلم بیگ اس جہاز میں سوار کیوں نہ ہوا؟ واضح ہدایات کے ہوتے ہوئے اتنے جرنیل ایک جہاز میں سوار کیسے ہوئے؟ حفاظتی اقدامات و سیکورٹی کیوں ناکام ثابت ہوئی؟ ایسے لا تعداد سوالات پر اس لیے بھی تحقیقات نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس حکمران ٹولہ کے مفاد میں نہیں تھا۔
آج ضیاالحق کو مرے 28 سال پورے ہوچکے ہیں مگر ضیا الحقیاں اب بھی ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے ذریعہ تمام ریاستی ہرکارے اور سیاسی جماعتیں ان ضیاالحقیوں کے خلاف لڑنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ تاہم جب تک 1988سے 2008 تک گذرنے والے 20 سالوں بارے ”سچ“ نہیں بولا جائے گا تب تک ضیا الحقیاں ہمارے سماج کو رگیدتی رہیں گی۔

No comments:

Post a Comment

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...