Altaf, Taliban and Pakistan
Story of a Misleading narrative
Karachi people largely voted for JI, JUP & MQM in Past in various local, provincial and national elections held in Pakistan. None of the political party could solve their issues yet they isolated Karachi from rest of the country. It happened largely due to misleading narratives spread by all the above stated three parties based on prides and prejudices. It is time to rethink about the politics and various narratives.
Click and read complete article published in Humshehri
الطاف
حسین، طالبان اور پاکستان
عامر
ریاض
ضیاالحقیوں
کا انجام سامنے آ چکا ہے کہ جو ”درندے“ سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کے خلاف
اُسارے گئے تھے وہ بالآخر ریاست پاکستان کے لیے ”ناسور“ ثابت ہوئے۔ ان ناسوروں نے
محض پٹھانوں اور اُردو بولنے والوں ہی کو گمراہ نہ کیا بلکہ ہر پاکستانی کو انتہا
پسندیوں کی طرف دھکیلنے کے لیے عمل انگیز کا کام کیا۔ الطاف حسین نے جو کچھ کہا وہ
کوئی نئی بات نہیں کہ وہ 2004 میں بھی قیام پاکستان کو مسلمانوں کی تاریخی غلطی
قرار دے چکے ہیں۔ مگر اس وقت اک فوجی آمر براجمان تھا اور ایم کیو ایم اس کی حواری
تھی اس لیے ”پاسداران پاکستان“ نے ”دڑ وٹ“ لیا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو بھٹو دَور
میں حیدرآباد ٹربیونل والا مشہور زمانہ مقدمہ ولی خان وغیرہ کے خلاف چلا تھا۔ اس
مقدمہ کا فیصلہ 1975 میں سامنے آیا جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے
نیشنل عوامی پارٹی کو بین قرار دیتے ہوئے 5 سال کے لیے اس کی قیادت پر انتخابی عمل
میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔ نیپ کی قیادت جیل میں تھی کہ ضیاالحقیوں کے
تحت قومی اتحاد بنوا دیا گیا اور جیل بند قیادت کو اس میں شمولیت پر اکسایا گیا۔ 5
جولائی 1977 کو مارشل لاءلگانے کے بعد ضیاالحق نے ولی خان وغیرہ کو محض بھٹو دشمنی
میں رہا کر دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ مذاق بنا دیا گیا کہ اگر ولی خان
وغیرہ بے قصور تھے تو انہیں عدالتوں ہی سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ اس ”نیکی“ کا صلہ
ولی خان نے خوب دیا کہ جب ضیاالحق کو اپنے وعدے کے مطابق 90 روز میں انتخابات
کروانے کے حوالہ سے سخت دباﺅ کا سامنا تھا تو
ولی خان نے ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا نعرہ لگا کر اپنے مربی ضیاالحق کو خوش کر
دیا۔ جن شواہد و حقائق کی بنیاد پر پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے نیپ پر پابندی لگائی
تھی انہیں رہا ہونے کے بعد نہ ولی خان وغیرہ نے چیلنج کیا نہ ہی ضیاالحق عدالتوں
کو اس قابل سمجھتا تھا کہ اس کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتا۔
الطاف
حسین کا بیان قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی ہے مگر اس بات کی ضمانت کون دے گا
کہ اس مقدمہ کاحشر بھی ویسا ہی نہیں ہو گا جیسا ضیاالحق نے کیا تھا؟ ایک ایسے جیل
بندشخص کو رات کی تاریکی میں ہونے والے معاہدہ کے ذریعہ کراچی کامیئر بننے کی
اجازت دی گئی جس نے کھلے عام الطاف حسین کے بیان کی مذمت تک نہیں کی بلکہ مئیر
بنتے ہی ایسی زبان بولی جو نئے تال میل کے اشاروں سے لبریز تھی۔دال میں کیا کالا
ہے اس بارے جلد یا بدیر سب کو معلوم ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم میں ہونے والی اس
تطہیر کا نتیجہ اگر پرویز مشرف کی سیاست میں واپسی کی صورت نکلا تو یہ ضیاالحقیوں
کا تسلسل ہی گردانا جائے گا۔
وہ کون
سی پالیسی ہے کہ جس کے تحت ہم طالبان اور ایم کیو ایم کو آنے والے کل میں زندہ رکھنا
چاہتے ہیں؟ یہ سب اسی پرانے بیانیے کا شاخسانہ ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے ہاں چلتا
آیا ہے۔ 9/11 کے بعد جب ہم نے بطور ریاست طالبان مخالف لائن اپنائی تو فوراً سے
پیشتر اچھے اور برے طالبان کا نظریہ سامنے آ گیاجو ”دہری پالیسی“ کا اہم ستون تھا۔
اچھے طالبان وہ تھے جو ریاست پاکستان پر حملہ نہیں کرتے تھے اور محض امریکیوں یا
افغانیوں کے درپئے رہتے ہیں جبکہ برے ان کا الٹ تھے۔ مگر اس فیصلہ کا اختیار
بہرحال طالبان ہی کے پاس رہا کہ وہ کب تک ”اچھے“ رہیں گے اور کب ”برے“ بن جائیں
گے۔ جو کچھ ایم کیو ایم کے ساتھ الطاف کی گمراہ کن تقریر کے بعد ہو رہا ہے اس میں
بھی ”اچھے“ اور ”برے“ مہاجر بنائے جا رہے ہیں۔ تاہم اس فیصلہ کا اختیا ربھی بہرحال
ایم کیو ایم کے پاس ہی رہے گا وہ کب تک ”اچھے“ رہتے ہیں اور کب ”بروں“ میں شامل
ہونے کادوبارہ اعلان کرتے ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں کہ ”ناسوروں“ کو پالنے کی
پالیسی جاری رہے گی۔
مشرقی
پاکستان گنوانے کے بعد بھی ”پاسداران پاکستان“ نے صوبائی خودمختاری کی مخالفت ترک
نہیں کی تھی بلکہ ضیا شاہی میں صوبوں کو لڑانے کی مہموں کو اُسارا جاتا رہا تھاکہ
پنجاب بمقابلہ تین صوبوں کا کھیل بڑی ہشیاری سے ترتیب دیا گیا تھا۔ بھلا ہو
سیاستدانوں کا جنہوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعہ 2010 میں صوبائی خودمختاری کے درینہ
مسئلہ کو بخوبی حل کیا تھا۔ اب طالبان اور ایم کیو ایم کے ”کارناموں“ کے بعد بھی
پاسداران ”ناسور“ پالنے کے پرانے بیانیے سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ مصطفی کمال، فاروق
ستار، عشرت العباد، آفاق احمد، الطاف حسین اور پرویز مشرف اسی پرانے بیانیے کے
کردار ہیں۔ اس پرانے بیانیے کے مطابق ایسے ”اثاثے“ بنائے جاتے ہیں جو قانون و آئین
سے ماوراءہوں۔ کیونکہ یہ اثاثے طاقت و منفعت پر پل کر جوان ہوتے ہیں اس لیے بڑی
طاقتوں اور ڈالروں، پاﺅنڈوں کی طرف راغب
ہونا ان کا مقدر ہوتا ہے۔ قانون و آئین سے ماوراءرہنے کے راز انہیں پہلے سے معلوم
ہوتے ہیں کہ یہ سب بندوبست کسی بھی طرح اک آزاد و خود مختار ریاست و معاشرے کے لیے
مناسب نہیں۔ مگر وہ جو پرانے بیانیوں کے اسیر ہیں وہ اس کھیل ہی کو مقدر سمجھے
بیٹھے ہیں۔ بار بار اس اندھی گلی سے گذرنے کے بعد انہیں اندھیروںسے رغبت ہے کہ وہ
کسی نئے بیانیے سے اسی طرح خائف ہیں جیسے تاریک غار میں اچانک روشنی یک دم ڈر سا
پیدا کر دیتی ہے۔ مگر یہی روشنی اندھی گلی سے باہر نکلنے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔
معراج
محمد خان بھٹو دَور میں قید تھے کہ ضیاالحقی دَور شروع ہو گیا۔ انہیں جیل سے سیدھا
ضیاالحق کے پاس لے جایا گیا۔ ابھی ضیاءکو اقتدار میں آئے ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے۔
جب ضیاالحق معراج محمد خان کو بھٹو دشمنی پر راضی نہ کر سکا تو آخری تجویز یہی دی
کہ کراچی جا کر مہاجروں کی جماعت بناﺅ۔ معراج نہ مانے
تو قرعہ الطاف بھائی کے نام نکل آیا۔ معراج کا طویل انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے
جسے میں نے اپنے بلاگ Punjab Punch
پر
بھی رکھا ہے۔یہ انٹرویو 2011 میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور ان کے مرنے تک کسی نے اس
کی تردید نہیں کی تھی۔
آخر وہ
کون سی خواہش تھی جس کی تکمیل کے لیے مہاجروں پر ضیاءمہربان ہو رہے تھے؟ مہاجر
پارٹی بنانے کی پالیسی کس نے کب؟ کہاں؟ کیوں؟ بنائی تھی؟ یقینا یہ پالیسی ضیاءکے
اقتدار میں آنے سے پہلے ترتیب دی جا چکی تھی۔ مہاجر اک سندھی کے وزیراعظم بننے سے
بھنائے بیٹھے تھے کہ اس خلیج کو پاسداران نے بخوبی استعمال کیا۔ اس پالیسی کا
جنازہ گذشتہ دنوں کراچی میں نکلتے سب نے دیکھا جب ”میت“ کو اس کے اپنے بھی کندھا
دینے سے کترا رہے تھے۔
سوال
یہ ہے کہ آخر ہم کب تک ایسی ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیوں کے
سہارے چلتے رہیں گے؟ اگر کوئی غدار ہے تو کھلی عدالتوں میں مقدمہ چلائیں تاکہ وہ
اپنے سہولت کاروں بارے بھی بتا سکے۔ پھر انہیں کوئی ضیاالحق، مشرف استعمال نہ کر
سکے۔ مگر اس کے لیے ”ناسوروں“ کو پالنے والا بیانیہ بدلنا ہو گا کہ اصل مسئلہ اس
پالیسی کا ہے جو بدلتی نظر نہیں آ رہی۔
No comments:
Post a Comment