Roots of Misleading Narrative & Purge against Progressives
It was a time when both Pakistan and India were trying to won US camp and both used Communist Purge smartly just to get place in the court of US. In fact both used old colonial tactics. In Pakistan after infamous objective Resolution some powerful political actors coined double edge weapon of religious nationalism and that narrative served not only to attract new world rulers but also proved helpful in isolating progressives from policy making who were critical against elite.
Here i reproduced many fatwas published before the first progressive writers conference held at Lhore, November 1949. You can well understand what we are reaping today is what we sow in past.
no doubt that there were many mistakes by PWA but here i am just talking about the misleading narratives and its impact on future only.
آٹھ اکتوبر1949ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ نے مولانا
محمد علی خطیب سنہری مسجد لاہور کا فتویٰ چھاپا جس میں لکھا تھا ’’موجودہ دور میں
جو ملا حدہ اپنے عقائد باطلہ کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف رنگوں میں تبلیغ کرتے
ہیں، مثلاً کمیونسٹوں کا فرقہ یا ترقی پسند مصنفین، ان کے لئے شرعی حکم کی رو سے
حکومت وقت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کوپوری طرح سے کیفرکردار تک پہنچائے۔۔۔
ایسے لوگوں کے لیے
شریعت میں یہ سزا ہے کہ ان کو پھانسی کے تحتے پر لٹکا دیا جائے
Another Article regarding the Purge and its supporters..Click & Read...Flip Side of Intizar Hussain
ترقی پسند مخالف مہم
میں مشہور صحافی شورش کاشمیری کا رسالہ چٹان بھی پیش پیش رہا کہ 14نومبر 1949ء کی
اشاعت میں اس ہفتہ وار رسالہ نے لکھا، ’’اس ہفتہ لاہور میں ترقی پسند مصنفین ایک
کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔۔۔ یہ لوگ روس کے محکمہ خارجہ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے
ہیں کہ پاکستان کا ادبی ذہن ذہن مخصوص کمیونسٹ سانچوں میں ڈھلا ہوا ہے''۔حمائیت
کر
نے والوں کو دھمکاتے ہوئے اسی مضمون میں لکھا ہے، ’’ ہماری مصدقہ معلومات یہ ہیں
کہ انجمن کو ان لوگوں نے بھی ترقی پسندوں کو چندہ دیا ہے جنھیں آج تک قائد فنڈ یا
کشمیر فنڈ میں کوئی رقم دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان میں مسلم لیگ کے جلیل المرتبت
اور پاکستان گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ حکام بھی ہیں۔‘‘
15۔اکتوبر
1949کو ٹیکسالی دروازہ کے اندر اک جلسہ عام جمعیت علماء پاکستان نے منعقد کیا جس
میں حکومت کو متبنہ کرتے ہوئے کہا گیا، ’’ترقی پسند جو اجلاس کرنا چاہتے ہیں اس کا
اثر اسلامیان پاکستان کو گمراہ کرنے والا ہے اور قرارداد مقاصد کے لیے مضر ثابت ہو
گا۔اس لیے اس اجلاس کا انعقاد ممنوع قرار دیا جائے‘‘۔ایسی آوازیں یکدم کراچی سے
پشاور تک بلند ہونے لگیں۔
Another misleading Narrative penned by none the other but Ahmad Ali Khan
ترقی پسندوں کو غدار
قرار دینے والے اس حقیقت سے نظریں چرائے بیٹھے تھے کہ1943سے 1947کے فیصلہ کن معرکہ
میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔مگر پاکستان کے قیام
کے بعد اشرافیہ نے ترقی پسندوں کو داخل دفتر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ کہیں
عوامی حقوق کے تحفظ پر مبنی پالیسیاں نہ بن جائیں اور اشرافیہ کی حکمرانی کا خواب
ادھورا رہ جائے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ
پہلے تین سالوں میں پاکستان اور بھارت دونوں کی اشرافیہ امریکی اتحاد میں شامل
ہونے کی متمنی تھی کہ 1948میں دونوں ممالک نے ترقی پسندوں کی مخالفت کو بطور عمل
انگیز استعمال کرنے کی پالیسیاں بنائیں۔