Thursday, February 22, 2018

Fixing popular leaders proved futile many times yet it weaken State largely


Unpublished 

Fixing popular leaders proved futile many times yet it weaken State largely

مقبول عام لیڈروں کی بے دخلیاں اور سٹیبلشمنٹ

آگے کیا ہوگا؟ بازی کون جتے، کون ہارے؟

عامر ریاض


مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کے انتخابات سے بحثیت پارٹی نکالنے کے بعد بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دھکم پیل سمجھ آتی ہے۔ملک کو انتشاری سیاستوں کی طرف کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ایجنڈا آہستہ آہستہ کھل رہا ہے جو نئی صف بندیوںکا متقاضی ہے۔ 

اب کچھ ایسا قانون ڈھونڈا جائے جس کے ذریعے میرا نام ، میاں محمد نواز شریف،بھی عدالتی حکم سے بدل دیا جائے؟یہ بات آج اس لیڈر نے کہی جسے اس کے مخالف بھی موجودہ پاکستان کا سب سے مقبول عام لیڈر سمجھتے ہیں۔ان کے خلاف سپریم کورٹ سے ایک ایسے قنون کے حوالے سے فیصلہ آیا جس پر تین آمروں کا منحوس سایہ رہا کہ بھٹو سے موجودہ دور تک جمہوری حکمران اسے بار بار اسے نکالتے رہے مگر اس قانون کے راکھے  تاحال زیادہ تگڑے نکلے۔عمل نیتوں کے اظہار کا سب سے قوی و توانا ذریعہ کہ لوگ اسی پر اعتبار کریں گے جو ہو رہا ہے۔ویسے بھی سوشل میڈیا کے عہد میں رام رام جتنا بھی جپ لیں چھری بھی نظر آتی ہے۔ 

پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول عام لیڈروں کو جب جب سیاست سے بے دخل کرنیکی کوششیں کی گئیں ہیں اس میں اگر وقتی طور پر کامیابیاں مل بھی جائیں تب بھی ریاست سے اعتبار اٹھتا ہے اور عدم اعتماد کے اس ماحول سے انتشاری صورتحال جنم لیتی ہے کہ ایسے سیاسی خلاء کو کسی دیدہ یا نادیدہ قوت کے ذریعے استعمال کرنے کا امکانات روشن ہوتے ہیں۔مقبول عام لیڈر کسی ایک یا دو شہروں یا اضلاع کی سطح کا ہو یا پھر قومی سطح کا، ہر دو صورتوں میں ریاست کی رٹ کے حوالے سے المناک نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ ہماری تاریخ ایسے ہی واقعات سے اٹی پڑی ہے۔

لیاقت علی خان کے دور سے ایوبی عہد تک حسین شہید سہروردی کی سیاست کو نہ چلنے دیا۔تحریک پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سہروردی کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے کبھی انہیں غدار تو کبھی بھارتی ایجنٹ تک کہا گیا کہ وہ اپنی پرسرارموت تک مشرقی و مغربی پاکستان کے مقبول ترین رہنما تھے۔ اس سیاسی خلاء کو شیخ مجیب الرحمن نے پر کیاتو چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

بلوچستان کے نسبتا پسماندہ پختونوں کے نمائندہ رہنما عبدالصمد اچکزئی تھے کہ جن کی سیاست کو ریاست نے چلنے نہ دیا جبکہ چارسدہ کے پختونوں نے سٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ان کو تنہا تک کر دیا مگر کیا ان کی سیاست ختم ہو گئی؟ آج ان کا ایک بیٹا بلوچستان کا گورنر اور دوسرا پاکستانی سیاست کا بڑا نام ، محمود خان اچکزئی۔

ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پہلے ان کی حکومت کو دھاندلی کے الزام میں برطرف کیا گیا، پھر انہیں ایک مقدمے میں پھسا کرپھانسی دے دی گئی۔تمام ریاستی مشینری ان کے ’’جرائم‘‘ کا راگ الاپنے لگی کہ ضیا شاہی میں پی پی پی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بجائے بڑے بڑے جگادری بھٹو کی منتقم مزاجی اور آمرانہ رویوں کا ببانگ دہل اعلان کیا کرتے تھے۔یہ مخصوص تھانیداری سٹائل ہے کہ اگر کوئی طاقتور کسی عام لڑکی کا ریپ کر دے تو تھانیدار لڑکی کے اطوار اور کریکٹر کو نشانہ بنا کر ملزم کو ہشیاریوں سے ریلیف دیتا ہے۔مسلہ یہ نہیں کہ بھٹو نے کجھ کیا تھا یا نہیں مگر ضیا دور میں ایسی باتیں کرنے کا مطلب ضیا کی ہشیار مدد تھی۔پھرمحض پی پی پی کو ختم کرنے کے لیے ملکی سیاست کو فرقہ وارانہ ، قومیتی و لسانی دلدلوں میں اترنے کی راہ دکھلائی گئی۔مگر کیا آصف زرداری کی قیادت سے قبل، اس پارٹی کو زندہ درگور کیا جا سکا؟جس زرداری کو پی پی پی کی کرپشن کا ’’گھما‘‘ قرار دلوایا گیا، پھر اسی کو صدر تک بنانا پڑا۔یہ اثر تھا اس سیاسی خلاء کا جو متحرمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونا لازم تھا۔

 یہ جو آج کل ایم کیو ایم کی دال جوتوں میں بٹ رہی ہے یہ بھی ایک سیاسی خلا کا نتیجہ ہے  جسمیں لیڈر ہی نے خودکش کا کردار ادا کیا۔اس خلاء کو کون، کس کی ہلا شیریوں سے پر کرے گا کہ خدشات واہموں کی صورت  عروس العباد میں محو رقص نظر آتے ہیں۔کبھی مشرف کو تخت پر بٹھانے کے سفنے دیکھے جاتے ہیں تو کبھی 12 مئی کے مئیر کو آگے کیا جاتاہے۔

 کیا اب ایک اور سیاسی خلاء پنجاب میں پیدا کرنے کی تیاریاں ہیں؟کیا پنجاب اور کراچی کے ممکنہ سیاسی خلاء کو سواد اعظم سے پر کرنے کی تیاریاں ہیں؟کیا ’’پاکستانی مودی‘‘ ایران و چین مخا لف ہشیار ایجنڈے کے لیے کارگر رہے گا؟اس کا ایک ٹریلر فیض آباد میں چلایا گیا تھا جبکہ ضمنی انتخابات میں بھی اس کی طاقت و افادیت کے اندازے لگانے کی کوششوں کا ذکر زبان زدعام ہے۔تاہم اس نئے سیاسی گھمے کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر کی نئی پرانی جتھے بندیاں زیادہ الرٹ نظر آتی ہیں کہ ایم ایم اے کے مردے میں جان دالنے کی کوششیں اسی ڈر کا سیاسی اظہار معلوم ہوتا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے ایرانی بندگاہ چاہ بہار کو گوادر سے ملانے کے عزم کے بعد ہی امریکہ بہادر کے خارجہ وزیر ٹیلرسن نے سی پیک کو متنازعہ علاقے میں چلایا جانے والا منصوبہ کہا تھا کہ وہ یہ بات بھول جانا چاہتے تھے کہ تربیلا ڈیم کا منصوبہ اسی متنازعہ علاقے میں بنایا گیا تھا اور ورلڈ بینک، بھارت اور امریکہ اس میں سہولت کار تھے۔چین و ایران مخالف ایجنڈے کے ڈانڈے پنجاب و کراچی میں بنائی جانے والی نئی جتھے بندی سے ملتے ہیں یا نہیں یہی وہ سوال جس کو بروقت بھاپنا پاکستان کے لیے اہم۔ سوال زیادہ مگر سب سوال خدشات سے اٹے پڑے ہیں۔ 

نواز شریف کے خلاف مزید فیصلے بھی آ سکتے ہیں، بلوچستان سے کراچی اور اب پنجاب میں آزاد سینیٹروں کا بھنڈار بھی تیارہونے کوہے مگر اس سب کا عوامی سطح پر کیا تاثر جائے گا یہ زیادہ سوچنے والی بات نہیں۔

جب غداریوں کے مقدموں سے لیڈروں کو بونا نہ بنایا جا سکا تو کرپشن  کے کیسوں سے یہ بیل منڈھے کیونکر چڑھائی جا سکتی ہے کہ نتیجہ الٹا ہی نکلے گا۔عمران خان کو بھی یہ بات تسلیم کر نی پڑی کہ نواز شریف عوامی سطح پر اپنا بیانیہ منوانے میں کامیاب رہے ہیں البتہ وہ اس کا ذمہ دار اقامہ والے  عدالتی فیصلے کو قرار دیتے ہیں۔

 دوسری طرف نواز کے دوسرے بڑے مخالف بلاول بھٹو بھی پرویز مشرف کے کیس میں عدالتوں ہی کو موردالزام قرار دیتے ہیں۔آج لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے مشرف کیس کو عدالت پر داغ قرار دیا اور کہا کہ نواز کی مقبولیت میں اصافہ کی وجہ یہ ہے کہ عدالت محض نواز کے خلاف فیصلے دے رہی ہے۔مطلب ہر دو صورتوں میں عدالت ہی نشانہ خاص،جو مستقبل کے حوالے سئ معنی خیز۔یوں یہ تاثر زیادہ مضبوط ہورہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کو شکست نہیں دے سکتیں تو اب عدالتوں کے فیصلوں سے مدد لینے پر کمر بستہ ہیں۔اس بیانیے سے اپوزیشن جماعتیں اپنی کمزوریوں کو ازخود فاش کر رہی ہیں جو پہلے سے معلوم شکست کا شاخسانہ ہے۔ 

ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ محاذ آرائیاں بڑھیں گی کہ اگر نواز شریف کی مقبولیت کم نہ ہوئی تو انتخابات کو موخرکرنے کے آبشن پر غور بھی ہو سکتا ہے۔مگر یہ اتنا آسان نہیں جتنا 1977اور1999میں تھا۔مگر جو خلا پنجاب و کراچی میں پیدا کیا جا رہا ہے وہ کسی انہونی کے لیے اک نادر موقعہ ضرور پیدا کر ے گا۔

ایک ا یسے موقعہ پر جب پاک امریکہ تعلقات انتہائی خراب ہیں اور پاکستان بارے منی لانڈرنگ مخالف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پیرس میں سرگرم عمل ہے ، اس دباو کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ایسے میں مقبول عام لیڈروں کے خلاف مہمیں عمل انگیز کا کام کر سکتیں ہیں اور ہم برابر اسی کی جانب قدم بہ قدم بڑھ رہے ہیں۔کیا انتشاری صورتحال ہمارا مقدر ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی کو پریشان کر رہا ہے

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...