میونخ کی ایک تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں جہاد کا حکم صرف حکومت دے سکتی ہے، کوئی فرد اپنے طور پر جہاد کاا علان نہیں کر سکتا۔
یہی با ت ا ٓرمی چیف ایک بار پہلے بھی کسی ملکی تقریب میں کہہ چکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک اصولی موقف ہے جس کا وہ ا عادہ کر رہے ہیں مگر آرمی چیف کو اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دینا چاہئے کہ پاکستان میں آج تک ایساکوئی جہاد نہیں کیا گیا جس کے لئے حکومت یا آرمی چیف نے حکم جاری نہ کیا ہو۔
قارئیں کی راہنمائی کے لئے میں تاریخ میں جھانک کر ساری تفصیل بیان کروں گا کہ کونسی جنگ کس کے حکم پر لڑی گئی۔
کشمیر پر بھارت نے جارحانہ قبضہ کیا تو قائد اعظم نے فوج کو حکم دیا کہ وہ کشمیر سے بھارتی فوج کو مار بھگائے ، مگر بد قسمتی سے آرمی چیف ایک گورا تھا ،ا س نے قائد اعظم کے حکم کی نافرمانی کی چنانچہ کشمیر کے لئے پہلا جہاد حکومت وقت کے قلم کے تحت شروع نہ ہو سکا ، کشمیر کی صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر ایک قبائلی لشکر نے اپنے طور پر کشمیر میں جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس پر جماعت اسلامی کے اس وقت کے سربراہ مولانا مودودی نے فتوی جاری کیا کہ جہاد کا حکم صرف ریاست جاری کر سکتی ہے۔ اس فتوے کی وجہ سے ا ٓج تک قوم کے ایک حصے نے مولانا مودودی کو معاف نہیں کیا اور ان پر آزادی کشمیر کے مخالف کی پھبتی کسی گئی۔
بہر حال قبائلی لشکر نے اپنا جہاد جاری رکھاا ور پاک فوج کے ایک جرنیل محمد اکبر خان رنگروٹ نے فوج کو بھی ا س جہاد میں شریک کر دیا ۔ میں یہ نہیں جانتا کہ اسوقت کے آرمی چیف نے جنرل اکبر خاں کی اس حرکت کا نوٹس لیا یا نہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس لشکر نے بڑی تیزی سے بھارتی فوج کا قلع قمع کرنا شروع کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ جب جہادی دستے سری نگرایئر پورٹ کے قریب پہنچ گئے تو بھارتی وزیر اعظم پنڈٹ نہرو کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اورو ہ بھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچا اور لگا سیز فائر کی بھیک مانگنے۔ سلامتی کونسل نے بھارت کی اپیل پر جنگ بند کرا دی۔ اس طرح پاکستان کا پہلا جہاد اختتام پذیر ہو گیا، عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ یہ جہاد قبائلی لشکر نے کیا مگر فوج کی جنگوں کی تاریخ میں اس جنگ کی اونر شپ قبول کی گئی۔ تو اس طرح یہ جہاد بھی پاک فوج کے کھاتے میں لکھا گیا۔
کشمیر ہی میں دوسرے جہاد کاا ٓغاز آپریشن جبرالٹر کے نام سے کیا گیا۔ اس کے لئے اسوقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت کشمیر کے متنازعہ علاقے کی جنگ کو عالمی سرحدوں تک نہیں پھیلائے گا مگر جب دریائے توی عبور کر لیا گیا اور جوڑیاں فتح کر کے اکھنور کے دروازے پر جہادی دستوںنے دستک دی تو بھارتی فوج نے کشمیر کو بچانے کے لئے لاہور کی سرحد پر چوروں کی طرح حملہ کر دیا، اس جنگ کے جواب میں پاک فوج فیلڈ مارشل ایوب خان کے حکم پر حرکت میں آئی جنہوںنے ایک نشری تقریر میں کہا کہ لاالہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔
یہ تھی دوسری ا ور تیسری لڑائی جو حکومت اور آرمی چیف کے حکم پر لڑی گئی۔
اکہتر میں مشرقی پاکستان میں ایک فوجی آپریشن کا حکم بھی جنرل یحی خاں نے جاری کیا۔ ڈھاکہ میں متعین لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان نے مشرقی صوبے کے عوام کے خلاف آپریشن کرنے سے معذرت کی تو انہیں واپس طلب کر لیا گیاا ور ان کی جگہ جی ایچ کیو نے جنرل ٹکا خاں کو ڈھاکہ بھیجا جنہوںنے برضا و رغبت یہ آپریشن کیا مگر اس کے نتیجے میں مشرقی صوبے کی آبادی کی اکثریت ملک سے باغی ہو گئی، بھارت نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایک مکتی باہنی کھڑی کر کے اسے کلکتہ کے کیمپوں میں تربیت دی۔پاکستان نے اس دفاعی اسٹریٹیجی کی بنیاد پر کہ مشرقی محاذ کا دفاع مغربی سرحد سے کیا جا سکتا ہے۔، فیروز پورا ور سلیمانکی کے محاذوں پر آفنسو لانچ کیا جس کاابتدائی فائدہ پاکستان کو ضرور پہنچا مگر اس آفنسو نے بھارت کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی فوج کو مشرقی محاذ پر متحرک کر دے، بھارتی یلغار کا مقابلہ کرنے کی سکت ہماری مشرقی کمان میں نہ تھی، اوپر سے مغربی محاذ پر نیم دلانہ آفنسو کیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں مشرقی پاکستان میں سرنڈر کرنا پڑا۔
یہ چوتھی لڑائی تھی جو حکومت وقت ہی کے حکم سے لڑی گئی۔ اور ہار پر منتج ہوئی۔
پانچویں لڑائی کارگل میں برپا ہوئی ۔ اس کے سلسلے میں اس وقت کی حکومت کا دعوی ہے کہ اسے اعتماد میں لیے بغیر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے یہ لڑائی چھیڑ دی۔ اس جنگ کا داخلی تنازعہ مارشل لا کے نفاذ پر منتج ہوا۔
درمیان میں ایک ا ور پاک بھارت جنگ بھی چھڑی ۔ یہ جنگ دنیا کے بلند ترین مقام سیاچن پر بھارتی فوج کے جارحانہ قبضے کی وجہ سے چھڑی اور انیس سو چوراسی سے آج تک لڑی جا رہی ہے۔ اس دوران کئی سویلین اور فوجی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر کسی نے یہ جنگ بند کرانے کی کوشش نہیں کی۔
ایک جنگ افغان سرحد پر چھڑی۔ یہ گوریلا جنگ تھی جو افغانستان پر سوویت روس کے فوجی قبضے کو ختم کرانے کے لئے شروع ہوئی۔ یہ لڑائی جہاد کے نام سے لڑی گئی اور ا سکا حکم جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے دیا تھا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے کہ بعد میں امریکہ ہی نہیں ساری دنیا اس جہاد کی پشت پر کھڑی ہو گئی، افغان جہادی کمانڈروں کا وائٹ ہاﺅس میں استقبال ہوا۔تو یہ لڑائی یا جہاد بھی کسی فرد کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
اب ایک جنگ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ اس کاا ٓغاز جنرل مشرف نے لال مسجد سے کیا۔ یہاں سے یہ جنگ سوات ا ور مالاکنڈ تک پھیل گئی اور جنرل کیانی نے اس وقت کی زرداری حکومت کی اونر شپ میں اس جنگ میں فتح حاصل کی۔ نواز شریف کا دور شروع ہوا تو وہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کے حق میں تھے، اکثر سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی مذاکرات ہی کے حق میں تھیں اور امریکی جنگ میں کودنے کے لئے تیار نہ تھیں ۔ سیاست دانوںنے یہاں تک کہا کہ اس جنگ میں کوئی کتا بھی ڈرون حملے میں مارا جائے تو وہ شہید ہو گا مگر آرمی پبلک اسکول کا ایک سانحہ ہوا جس کے بعد حکومت وقت ا ور پوری قوم نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہو گئی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو قومی ا ونر زشپ مل گئی۔
دہشت گردی کی اس جنگ میں دوسری طرف کے عناصر کو قوم نے دشمن کے ایجنٹ ہی تصور کیا ، اب کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد قوم کے خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے۔کل بھوشن اور اس جیسے را کے دوسرے دہشتگردوں کی سربراہی میں لڑی جانے والی اس جنگ کو کوئی بھی جہاد کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ کل بھوشن اگرچہ نام بدل کر حسین مبارک پٹیل کا روپ دھار چکا ہے لیکن اگر وہ پکڑا نہ جاتا تو پھر بھی کوئی شبہہ کر سکتا تھا کہ دہشتگردی کی جنگ میں مسلمانوں کا کوئی کردار ہے ، لیکن اب جبکہ دشمن کا چہرہ ننگا ہو چکا ہے ا ور حسین مبارک پٹیل کے چہرے کا نقاب اتر چکا ہے اور بھارت بھی اسے کل بھوشن یادیو ہی سمجھتا ہے تو ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسلام یا پاکستان میں جہاد کا حکم ریاست ہی جاری کر سکتی ہے۔ اب ہمیں ڈیفنسو ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ دہشت گردی کے نام پر جو جہاد جاری ہے ، اس کی کمان کل بھوشن یادیو کے ہاتھ میں ہے، حافظ سعید کے ہاتھ میں نہیں ، نہ اظہر مسعود کے ہاتھ میں ہے۔اس نام نہاد جہاد کی لگام بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے جو سر عام کہہ رہا ہے کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دلوا کر رہے گا۔
براہ کرم ہمارے فوجی یا سیاسی قائدین آئندہ یہ کہنے کے بجائے کہ پاکستان میں جہاد کا حکم کوئی فرد نہیں دے سکتا،اس کی جگہ یہ کہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے نام پر جو جہاد جاری ہے وہ نریندر مودی کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے ہاتھ میں ہے۔یہ جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی ہے اور اس میں ہمارے لاکھوں افراد کو شہید یا زخمی کیا جاچکا ہے۔
مجھے تو ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی ایک لڑائی ایسی نظر نہیں آتی جسے کسی پاکستانی فرد یا تنظیم نے شروع کیا ہو ۔ تو پھر ہمیں وضاحتیں کرنے کی کیا ضرورت!!
No comments:
Post a Comment