Tuesday, February 13, 2018

My article about Asma Jahangir

Link of the article Published #Dawn blog
https://www.dawnnews.tv/news/1073333/13feb2018-gor-mein-koi-aur-parra-hai-magar-asma-amar-ho-chuki-hai-aamir-riaz-bm

ایہہ دھیاں ہٹاں تے نہیں ملدیاں
عاصمہ بارے یہی کہنا کافی کہ وہ 1980کی دہائی کے اوائل میں سیاسی، انسانی و سماجی حقوق کا علم لے کر جمہوری قافلے میں شامل ہوئیں اور چھا گئیں۔ پاکستان میں عوامی و سیاسی طاقت کے مرکز لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ کا شمار ان پنجابیوں میں ہوتا ہے جو انسانی، سیاسی و سماجی حقوق کے معاملے میں قومیتی تحفظات کو آڑے نہ آنے دیتی تھیں۔ان کا آخری خطاب ریاستی طاقت کے مرکز اسلام آباد میں ہونے والے پشتون جرگہ سے تھا جہاں انھوں نے پرعزم ہو کر یہ کہا کہ نقیب کا مسلہ محض پختونوں کا نہیں بلکہ اس کا تعلق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کرنے کی اس خوفناک روائیت سے ہے جو تادیر سے ملک خداداد پاکستان میں جاری و ساری ہے۔

Human Rights for all
انہوں نے دہشت گردی کے مقدمات میں پکڑے جانے والوں کو بھی شفاف ٹرائل دینے کی بات کی اور فوجی عدالتوں کو اک برا فیصلہ کہا اور یوں انسانی حقوق پر اپنا مؤقف دوست و دشمن سب کے لیے ایک سا رکھا۔
India Policy, Propaganda & the mindset
ہندوستان کے ساتھ تعلقات ان شجر ہائے ممنوعہ میں سے ایک ہے جن پر بات کرنے سے بڑے بڑے ڈرتے رہے مگر عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کا دفتر پیپلز ٹو پیپلز فورم کے پہلے پاکستانی اجلاس (منعقدہ 1996، لاہور) کا اس وقت مرکز تھا جب دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطح پر بھی گجرال فارمولے کا ذکر زور و شور سے جاری تھا۔
2013 میں انڈین ڈیفنس جرنل میں عسکری تجزیہ کار اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے سابق افسر بی رامن کا ایک مضمون شائع ہوا جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی کو بھی پہلے دن سے پاکستان سے بہتر تعلقات پرمبنی گجرال فارمولے سے سخت اختلاف تھا۔
بقول بی رامن ’’ہم نے گجرال فارمولا پر 15 فیصد سے زیادہ عمل نہ ہونے دیا۔‘‘ عاصمہ کو پاکستان میں بھارت نواز، بھارتی ایجنٹ، غدار اور پتہ نہیں کیا کیا نہیں کہا گیا۔ بی رامن کے اس تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ایک ذہنیت ایسی موجود ہے جو دونوں ملکوں میں خراب تعلقات کو ہی اہم سمجھتی ہے اور عاصمہ کے خلاف پروپیگنڈا اسی کا شاخسانہ تھا۔

Challenging Extremism much before 9/11
یہ کہنا تو درست نہیں کہ ان سے کبھی کوئی سیاسی غلطی نہیں ہوئی تھی کہ مشرف کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے غچہ کھا گئے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عاصمہ کا شمار انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور غیرجمہوری رویوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہیں صرف 11 ستمبر کے بعد انتہا پسندی کی مخالفت یاد نہیں آئی تھی۔ اسی لیے ان کے بیانیے میں اک پختگی نمایاں تھی۔

Struggle for Social & Political Rights: Asma proved more progressive from the Reds in many ways and led civil society
لاہور کے ککے ذئیوں کا عدلیہ سے رشتہ انگریز دور سے ہی تگڑا رہا۔ نواب کالا باغ اور ملک غلام جیلانی میں ہونے والے اختلافات میں جوان ہوئی عاصمہ کو زندگی کے بدلتے رنگوں سے واسطہ اوائل عمری ہی میں پڑ چکا تھا۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں سیاسی و سماجی تحریک کو اپنایا اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کی جانے والی جدوجہد کو جمہوری سیاست کے ساتھ جوڑا۔ یہی وہ عمل تھا جس کی وجہ سے بائیں بازو کے ساتھ ان کی قربت بڑھی۔
بائیں بازو اور سیاسی و سماجی حقوق کی جدوجہد میں وہ رشتے تو نہ بن سکے البتہ عاصمہ کا شمار اک ایسی جاندار آواز کے طور پر ہونے لگا جو ظلم کے خلاف پیچھے نہ ہٹتی تھی۔ یوں کئی اعتبار سے وہ انقلابیوں اور ترقی پسندوں سے بھی بہت آگے نکل گئیں۔
At her death, She made her opponents lonely & speechless 
ان کی وفات پر پرسہ دینے والوں کی فہرست بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ عاصمہ نے مر کر اپنے بدترین مخالفوں کو بھی تنہا کردیا۔ ملالہ یوسف زئی سے میر واعظ عمر فاروق تک ہی نہیں بلکہ تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس سمیت اک طویل فہرست ہے جنھیں عاصمہ کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑا۔
Polite self of a bold lady
مجھے یاد ہے جب ہم نے لاء کالج میں خون کے عطیات جمع کرنے کا کیمپ لگایا تو عاصمہ کلاس لے کر نیچے آرہی تھیں۔ میں اور میرے دوست انہیں کیمپ میں لے جانے کے لیے آئے تو عاصمہ نے آہستہ سے بتایا کہ وہ خون دیکھ نہیں سکتیں، اس سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ وہ اندر سے کتنی نازک مزاج تھیں، شاید اس کا اندازہ ہر کسی کو نہیں۔
Women Struggle 
باہمت عاصمہ سے کچھ اختلافات کے باعث دوریاں ہوگئی تھیں مگر اس دوران چند بار جب جب ملاقات ہوئی تو وہ جس متانت سے ملیں، وہ انہی کا کمال تھا۔ مجھے یاد ہے جب لاہور میں پیپلز ٹو پیپلز ڈائیلاگ کے پہلے اجلاس میں میری بیگم میرے ایک سالہ بیٹے سارنگ کو لے کر آئیں، تو عاصمہ نے ملتے ہی پوچھا 'کیہہ عامر پتر نوں چکدا ہے؟' جواب ہاں میں سن کر عاصمہ کے چہرے پر اطمینان اور خوشی جھلکتی دیکھی۔ وہ عورتوں کے حقوق کی محض باتوں کی حد تک علمبردار نہ تھیں بلکہ مرد حاکمیت کے سماج میں ہر سطح پر عورتوں کی برابری کو ضروری قرار دیتی تھیں۔
12 فروری 1983 کو لاہور کے مال روڈ پر چند عورتوں نے ضیا شاہی کو جس طرح تاراج کیا تھا، اس پر ہماری سیاسی تاریخ میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔ اس دن چند عورتوں پر کیے جانے والے تشدد نے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ ضیا کی بنائی خوفناک ریاست اندر سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ وہ آخری دن تک برسر پیکار رہیں اور پاکستان کو حقیقی فلاحی ریاست بنانے کی قسم اٹھا کے راہی ملکِ عدم ہوئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح عاصمہ بھی شبِ تار کو چیلنج کرنے کی زندہ علامت رہیں گی۔
 

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...