Thursday, November 13, 2014

November 30th: Is Bilawal coming to the Punjab with Open Mind?



November 30th

 Is Bilawal coming to the Punjab with Open Mind?


why Imran Khan Chose November 30th day for his Public gathering? has he fears?  

November 30th is day When Bilawal, maternal grandson of Bhutoo is coming to the Punjab. Establishment is not happy with his entry. Revival of PPP is a direct threat for those who want to bury PPP and its politics. PTI is also very disturb and that is why Imran Khan is also announced a show at the same day. Hysteric speeches of Sheikh Rashid and some other players is a proof in this regard. Gujrati Chudhries are fighting their last battle as after senate election they will be finished forever.  So in coming days you will watch more Supper Shows and Gulu Media will pick it as usual.

بلاول بھٹو کی سیاسی زندگی کا فیصلہ اس بات سے مشروط ہے کہ وہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ’’شملہ‘‘ دوبارہ سے بلند کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ وقت ان سے وہی امتحان لے رہا ہے جسے ان کے نانا نے 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں فقیدالمثال کامیابی سے پاس کیا تھا۔ وہ لاڑکانہ سے پارٹی بنانے لاہور آئے تھے اور پنجابیوں نے انھیں اس قدر ووٹ دیے تھے کہ یحییٰ خان، شیر علی پٹودی، جزل عمر اور ان کے حواریوں کے تمام تر منصوبے خاک میں مل گئے تھے۔ آج کسی کو اچھا لگے یا برا مگر یاد رکھنے والی بات یہی ہے کہ یہ ’’جی ٹی روڈ‘‘ اور ’’تخت لہور‘‘ ہی تھا جس نے بھٹو کو قائد عوام بنایا تھا۔ -

قائداعظم اور بھٹو نے پنجاب کے عوام کے مسائل وتحفظات کو سمجھا، اسے اپنی سیاست کا اوڑھنا بچھونا بنایا تو پنجاب نے انھیں ’’غیرپنجابی‘‘ ہونے کے باوجود قیادت کا تاج پہنایا کہ یہی بات پنجابیوں کو ممتاز کرتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جسے نہ تو آل انڈیا کانگرس سمجھ سکی نہ نیپ، اے این پی اور ایم کیوایم کہ پی پی پی کو تو بھولا ہوا سبق ہی یاد کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو ’’ہوم ورک‘‘ کر کے 30نومبر کو لاہور اتریں گے؟ - 

۔ سندھ میں موہنجوڈاڑو، پنجاب میں ہڑپہ و گندھارا، کے پی کے میں تخت بھائی اور بلوچستان میں مہرگڑھ اس بات کے امین ہیں کہ یہ خطے قدیم تہذیبوں کے امین ہیں۔ یہی وہ خطے ہیں جن کے تسلسل کو تسلیم کرتے ہوے 1973 کے آئین میں چاروں صوبوں کی مضبوطی کو وفاق پاکستان کی مضبوطی کے مماثل قرار دیا گیا تھا۔آئین میں ترمیم نسبتاً آسان ہے جبکہ صوبوں کے جغرافیہ میں کمی بیشی کے لیے اس سے بھی مشکل راستہ رکھا گیا۔ ان صوبوں کی خوبصورتی یہی ہے کہ ان میں ثقافتی، لسانی اور قومیتی رنگارنگی (diversity) ہے۔ اس رنگارنگی کو نفرتوں کی علامت بنانا تو ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ والوں کی پالیسی ہے کہ پیپلزپارٹی کو واضح طور پر ایسی قوتوں سے الگ نظر آنا چاہیے۔ - 

For reading complete article click here



No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...