Bad Signals from London &
Destabilization in Pakistan
Geo-Politics and National politics are interlinked. Resonance
of London Plan in recent “Container Crisis” was not a new thing in Pakistan.
Same feelings were there in February 1972, when Pakistan had to leave Common
Wealth under the leader of Zulfiqar Ali Bhutto. From 2008 Pakistan is again on
democratic path and in mid-2013 Pakistan has witnessed the First democratic
Transition. Destabilization of this process is neither in the interest of
Pakistan nor in the interest of Geo-politics. No doubt increasing role of China
in world politics is disturbing for many countries and in Afghanistan all the
three countries including Pakistan, China and US are in close contact which is
rare. Recent international oil crisis smartly damaged Oil producing economies like
Iran, Saudi Arabia, Venezuela and Russia but Non-OIL producing countries like Pakistan have a chance to strengthen its economy. In this regard Pakistan should have a
powerful Government and vibrant elected tier. Like 1969-73 current period is
also an era of change of international alliances and players. Till 16 December
1971 Government was in few hands in Pakistan and country was under Marshallah
from 13 years yet after December 20th, 1971 Bhutto played his part
very well unilaterally. But in current circumstances there is an assembly and
they are ready to face every challenge too. This is the 3rd
political government in Pakistan after ZAB (20 December 1971-5July 1877) and
Zardari (2008-2013) and if one make a comparison of first two years of these
three political governments with 4 Marshallah governments we can easily
understand why political governments always face difficulties and who were
behind it internally and externally. From Iraqi drama of 1972 till Container
Crisis 2014 story looks same. Read the
article in WEEKLY HUMSHEHRI
دوسری جنگ عظیم سے قبل برطانیہ سب سے بڑی سپرو پاور تھا تو جنگ کے بعد امریکہ نے یہ تخت حاصل کیا اور اب چین آگے آرہا ہے مگر ہمیں تو ان سب کے ساتھ ساتھ ہی چلنا ہے۔ ایک مضبوط حکومت اور بااختیار اسمبلی کے بغیر ہم اس بین الاقومی کھیل میں استعمال تو ہو سکتے ہیں مگر اپنے ملک و خطہ کے مفادات کے نگران نہیں بن سکتے۔ ڈکٹیٹر تو اتنے ہی طاقتور تھے کہ ایک فون کال پر ’’پالیسی شفٹ ‘‘پر راضی ہوجاتے تھے۔ 1969 سے 1973 کے درمیان دنیا تیزی سے بدل رہی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے یا لٹا معاہدہ کے مطابق انہی سالوں میں امریکہ کو بحراحمر و بحرہند کی سمندری تجارت کا تاج، برطانیہ سے منتقل ہونا تھا۔ ہمارے ہاں تو کوئی اسمبلی تھی ہی نہیں۔ اختیار چندلوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ جنھیں رام کرنا آسان بھی تھا۔ بین الاقوامی و خطہ کے سیاسی منظر نامہ سے لاتعلق ہمارے پالیسی ساز اپنا رانجھا راضی کرنے میں رجھے رہے۔ ایسے نازک وقت میں 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن بھی شروع کردیا۔ 16دسمبر 1971 کے بعد بھی اس سے سبق نہ سیکھا گیا۔ -
1971 میں بنگلہ دیش بنانے میں ہماری اپنی کن غلط پالیسیوں کا ہاتھ تھا اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وطن عزیز 13 سالوں سے آمریت تلے پس رہا تھا۔ 16دسمبر کے بعد بھٹو دامے سخنے پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں جتے ہوئے تھے۔ تعلیم و صنعتوں، بینکوں وغیرہ کو قومیانے کا فیصلہ معاشی کی بجائے سیاسی تھا۔ زیرک بھٹو ایک طرف بھارتی قید میں موجود 93 ہزار پاکستانیوں کو چھڑانے کے لیے بھارت سے مذکرات کو ممکن بنانے میں جتےُ ہوئے تھے تو دوسری طرف نیشنل عوامی پارٹی (ولی) اور دیگر پارٹیوں سے جمہوری بندوبست کے لیے مذکرات کررہے تھے۔ مذاکرات کامیاب بھی ہوگئے اورنیپ کی صوبائی حکومتیں بھی بن گئیں، سب آئین پر بھی متفق ہوگئے۔ مگر عین وقت پر خفیہ اداروں کے چند افسروں کی طرف سے ’’عراقی ڈرامہ‘‘ سامنے لاکھڑا کر دیا گیا۔ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے بانیوں میں سے ایک، تربت کے رحیم ظفر، تو یہ اقرار کر چکے کہ چند بلوچ رہنماؤں کے عراق کے ساتھ تعلقات تھے اور عراقی حکومت کے ساحلی علاقوں میں ایران مخالفت کے حوالہ سے کچھ بلوچوں کو تربیت بھی دی جارہی تھی۔ خود بزنجو صاحب اپنی سوانح میں یہ لکھ چکے کہ بلوچستان میں نیپ کی حکومت بننے سے دوہفتے قبل بلوچستان اور کراچی میں ایران مخالف مظاہرے ہوئے اور چائے خانوں میں لگی شاہ ایران کی تصاویر پھاڑ یا جلا دیا گیا تھا۔ جس میں نیپ اور بی ایس او کے لوگ ملوث تھے۔ -
بین الاقوامی کھیل جس طرح 1969 سے 1972 میں چل رہے تھے ویسے ہی آج بھی جاری و ساری ہیں۔ طاقتور ممالک کی ایجنسیا ں بھی بہت بااختیار ہوتی ہیں اور سفارت خانے بھی۔ کبھی یہ ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو کبھی یہ دو مختلف راستوں سے ایک ہی نتیجہ کی طرف گامزن۔ ان کے لیے سب سے بہتر صورتحال ان ممالک میں ہوتی ہے جہاں فیصلے کرنے کا اختیار چند ہاتھوں میں ہی ہو۔ اپریل سے دسمبر تک چلنے والے منصوبہ کے ڈانڈے بھی لندن سے ملائے گئے۔ جو حکومت ایسے منصوبوں سے بچ نکلتی ہے اسے کمزور تو نہیں کہا جاسکتا۔ اب سوال تو یہی ہے کہ آخر ہمارے ہاں ہر مارشل لاء کو اپنے ابتدائی سالوں میں بین الاقوامی حمائیت ایسے ہی تو نہیں مل جاتی تھی۔ -
No comments:
Post a Comment