Published@Weekly HumShehri
Fight
against extremism & terrorism
PARLIAMENT AT DRIVING SEAT
A GOOD SYMBOL
Reservations about 21st
amendment remain on the political agenda but the important question is
increasing role of Parliament in Pakistani political arena. But don’t expect
that our Gulu media will appreciate it ever. From 2008 till today, Parliament
is gradually moving towards driving seat and this issue needs your attention.
Allama Iqbal and Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah participated in assembly
elections during colonial period when those assemblies had no powers. Their
choices were visible as they did not participated in movements like Khilafat,
Hijrat, Civil disobedience (Satya Grah) but joined assemblies formed under
limited franchise. Supremacy of
parliament is the prime issue so that people should know who is in decision
making and who is making the decisions. From 2008 till 2014 parliament is successfully
moving toward it yet non elected elite is not ready to accept this change. Whenever
sitting government lost choices, leader of the opposition comes for rescue it
in the larger interest of democratic continuity which is rare in our recent
past. Just map the events yourself i-e
1.
Reinstating Chief Justice Iftiqar M Chudhry
2.
Removal of General Mushraf from
president house
3.
Approval of NFC award
4.
Approval of historic 18th
amendment in constitution of 1973
5.
Strengthening of election commission of
Pakistan
6.
Making of an independent election commissioner
with consensus of leader of the house and opposition
7.
Making of interim governments for
holding 2013 elections
8.
Historic transition to democracy by
vote
9.
21st amendment in
constitution in order to combat extremism and terrorism
Read the article published in weekly
Humsheri in its latest issue (available in market from 12th January
2015). On-line link is available in the bottom of the post
Extracts
دونوں ایوانوں میں ایک بھی ووٹ 21 ویں ترمیم کے خلاف نہ آیا کہ جو پیغام پارلیمان کے ذریعہ دیا گیا ہے یہی کام اگر 2002ء میں کر لیا جاتا تو آج سیاستدانوں کو خصوصی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ بھی نہ پینا پڑتا۔ -
جو تجزیہ نگار کمر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتے تھے کہ دھرنوں کے بعد حکومت اور پارلیمان ’’زیرو‘‘ہوچکے ہیں اور حکومت وحزب اختلاف ’’تھلے‘‘ لگ چکے ہیں، انہیں اپنے تجزیے واپس لے لینے چاہئیں۔ مگر گلو میڈیا میں نئی نئی تاویلیں نکالنے والے مستریوں کی بہتات ہے جو ’’کاں چٹا ہے ‘‘کی عملی تفسیر ہیں۔ 21 ویں ترمیم پر ’’باروبینچ‘‘ کے تحفظات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں مگر پاکستانی سیاست میں سب سے اہم ترین مسئلہ یہی رہا ہے کہ ’’فیصلے کہاں ہوں گے اور کون یہ فیصلے کریں گے‘‘۔ -
اقبال و قائداعظم تو ان اسمبلیوں کے انتخابات بھی لڑتے رہے کہ جن کے پاس انتہائی محدود اختیارات تھے مگر انھوں نے گھراؤ جلاؤ کی بجائے جمہوری سیاست ہی کو اولیت دی۔ جب پاکستان بن گیا تو امریکی ریڈیو کے صحافی نے انہیں پوچھا کہ آپ کیسا آئین بنا رہے ہیں؟ قائداعظم کا جواب تھا کہ آئین بنانا تو آئین ساز اسمبلی کا کام ہے۔ ایسے ہی قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں نواب آف قلات احمد یارخان نے قائداعظم سے کہا کہ آپ اس قوم کو آئین بناکر دے دیں۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ تم ایک ریاست کے مالک ہو جبکہ پاکستان ایک ملک ہے، جس کی ایک منتخب آئین ساز اسمبلی ہے۔ آئین وہی اسمبلی بنائے گی۔ یہ بات احمد یار خان نے خود 1976ء میں ایک انٹرویو میں ریکارڈ کروائی تھی۔ شومئی قسمت ہمارے ہاں آج بھی ایسے دانشور ہیں جو اقبال و جناح کا نام لے کر غیر جمہوری قوتوں کو دوام بخشتے رہیں۔ہم دھیرے دھیرے اپنے کھوئے ہوئے راستے کی طرف آرہے ہیں کہ یہی بات پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد میں ہے۔ -
پارلیمان کی بالادستی کا یہی مطلب ہے کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں سب مل بیٹھ اور افہام و تفہیم سے ملکی مفاد کے لیے کام کرسکیں۔ پارلیمان کی بالادستی کا مطلب ’’منتخب نمائندوں کی تھانیداری‘‘ نہیں مگر اسے جان بوجھ کر غلط رنگ دیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پارلیمان کی بالادستی کا مختلف طریقوں سے تمسخر اُڑایا جاتا ہے۔ اکثر اس میں صحافی اور دانشور پیش پیش رہتے ہیں۔ -
No comments:
Post a Comment