Friday, October 30, 2015

Who will control Indian Extremists or Hindu Talibans?


Who will control

Indian Extremists or Hindu Talibans?

Returning awards is a good move yet it is important for intellectuals to accept riddles of freedom narrative too.  All this is happening in a country which itself is the world's largest democracy. Why Indian security agencies failed to control Shiv Sena ? Or they are asserts of Indian establishment.
Nandini Krishnan rightly found roots of fundamentalism from colonial times but writers like Nandini and Harbans Mukhia and many other intellectuals, failed to identify their own follies and bad policies in India from last 68 years.  Why they are in state of denial?  It is true that the British Indian government, their court historians and bureaucracy had played with the religion extensively, but fundos who born during that colonial twist were declared Heroes in post partition times.  The famous Indian scholar, educator and writer Krishan Kumar and famous Indian progressive intellectual Shabnam Hashmi map rise of fundamentalism from 1960s. London based Farooq Bajwa and Indian writer Dilip Hero agreed with Kumar and Hashmi in their books. India has a strong 'Hinduism Wrap narrow nationalism' strengthen after the Indian defeat from China in 1962 and anti-Pakistan cold war.  Now many Indian writers are pinpointing roots of fundamentalism in post independence India.  Instead of blaming foreigners for every crime & bad policies, it is high time for Indians to revisit their narrative.  Mody and BJP is ultimate result of bad policies of Congress and South Hall.
It is time to revisit following questions
·         Delinking Freedom Narrative from lawlessness, extremism and Fundamentalism
·         As a first step to reduce Pak-India tensions, delink it from religion
·         Congress cannot justify herself merely by pinpointing bad policies of BJP and Shiv Sena but it has to accept his bad policies too.

·         Anti China Campaign will strengthen Shiv Sena like narrow nationalists. Front Line State phenomenon already ruined Pakistan from within after Afghan Jihad So India better learn lesson and avoid "blessings" of Front Line State phenomenon 



’’طالبان‘‘ ایک رویے کا نام ہے جس میں مخالفین کو ’’نکرے‘‘ لگانے کو اولیت حاصل ہے۔ عرف عام میں اسے عدم برداشت کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں اس رویے اور عمل کے لیے فاشٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ اپنے مخالفین پر غداری، وطن دشمنی اور مذہب دشمنی کے الزامات سے وار کرتے ہیں۔ ان کی ڈکشنری میں’’مفاہمت‘‘ کالفظ نہیں ہوتا اور ان کی اولین ترجیح اقتدار پر قبضہ سے عبارت ہوتی ہے۔ اقتدار پر قبضہ کے بعد یہ تمام مخلوق پر من مرضی کے قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ روسی، امریکی، برٹش، بھارتی، پاکستانی، افغانی بھی ہوسکتے ہیں اور ان کا تعلق اسلام، مسیحت، ہندومت، بدھ مت وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر ان میں مشترک خاصیت دھونس، مارپیٹ اور دوسروں کو دباناہی ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی گھٹی انہیں ابتدائی دنوں ہی سے مل جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مخالف کونیست ونابود کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ 27 اکتوبر کومدراس سے تعلق رکھنے والی مشہور بھارتی لکھاری نندینی کرشنن نے بھارتی میڈیا میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان تھا’’بھارت میں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتا ہے؟‘‘۔ مضمون کا عنوان ہی آپ کو بہت سی باتیں سمجھا دیتاہے۔ ایک آزاد، جمہوری و سیکولر ملک میں نندینی جیسے بااثر لوگ بھی اگر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ جائیں تو پھر چوکنا تو ہونا ہی پڑتا ہے۔ نندینی کا کہنا ہے کہ آج بھارت میں عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والیوں کو’’زنا باالجبر‘‘ کا خطرہ ہے۔ وہ ادیب جو بلاخوف لکھنا چاہتے ہیں انہیں قتل ہوجانے کا دھڑکہ ہے۔ وہ صحافی جو حقائق پر مبنی رپوٹنگ کرتے ہیں انہیں یہ خوف کہ کسی بھی چوراہے پر ان کا منہ کالا کردیا جائے گا۔ جو لوگ بھارتی حکمران جماعت کے خلاف ہیں انہیں بدعنوانی یا کسی دوسرے الزام میں جیل جانے کا ڈر ہے۔ یہ سب اک ایسے ملک میں ہورہا ہے جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ کیا ایک شیوسینا کو بھارتی سیکورٹی ادارے قابو میں نہیں رکھ سکتے ؟ یا پھر بھارتی اسٹیبلشمنٹ ان بنیاد پرستوں کو مخصوص انداز میں استعمال کرتی ہے۔ نندینی نے تو ان رویوں کا’’کھرا‘‘ بجا طور پر نو آبادیاتی دور سے ڈھونڈ نکالا ہے مگر نندینی، ہربنس مکھیا اور ان جیسے بہت سے دیگر دانشور 1947 سے 2015کے درمیان گذرے 68سالوں کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ آخر وہ کیوں’’نسیان‘‘کا شکار ہیں؟ یہ درست ہے کہ برٹش انڈین سرکار اور اس کے درباری تاریخ دان و بیوروکریسی مذہب سے کھیلتے تھے مگر جو انڈے بچے اس کھیل کے دوران پیدا ہوئے اگر آپ نے انہیں 1947 کے بعد جدوجہد آزادی کے ہیرو قراردے رکھا ہے تو پھر محض نو آبادیاتی پالیسیوں پر ’’تبرا‘‘کرنے سے آپ لکیر ہی پیٹ رہے ہیں۔ مشہور بھارتی دانشور، ماہر تعلیم و مصنف کرشن کمار اور مشہور بھارتی ترقی پسند شبنم ہاشمی بھارت میں بنیاد پرستوں کے مضبوط ہونے کا ’’کھرا‘‘بجا طور پر 1960کے عشرے میں تلاش کرتے ہیں۔ لندن مقیم فاروق باجوہ اور دلیپ ہیرو بھی اپنی اپنی کتب میں ان لکھاریوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ بھارت میں مضبوط ہوچکی ’’ہندومت میں ملفوف تنگ نظر قوم پرستی‘‘ کو چین سے1962میں شکست کھانے سے پیداہونے والے ردعمل اور پاک بھارت سردجنگ کے تناظر میں سمجھنے والے لکھاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب آدھا سچ بولنے کی بجائے پورا سچ بولنے کی ہمت کرنی ہوگی کہ آخر ہم کب تک ہر خرابی کا الزام’’باہرلوں‘‘ پر دھرتے رہیں گے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں ہمیں جو آزادیاں ملیں تھیں وہ مذاکرات کے ذریعہ حاصل ہوئیں تھیں۔ یہ مذاکرات انگریزوں، کانگرسیوں اور مسلم لیگیوں کے درمیان ہوئے تھے کہ-3جون1947 کو اک دستاویز پر سب نے اتفاق کیا اور پھر ایک ماہ تک برٹش اسمبلی میں اس دستاویز پر بحث ہوئی۔ جولائی1947میں برٹش اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعہ’’قانون آزادی1947‘‘ کی منظوری دی تھی۔ اب اگر ’’تقسیم ہند‘‘ اک سازش تھی تو اس سازشی دستاویز پردستخط کرنے والے تمام فریق بھی سازش کا حصہ ہوئے۔مگر کانگرس بھارتیوں کو یہ کہتی رہی کہ تقسیم ہند گریٹ گیم تھی اور ہم کو مجبور کر دیا گیا۔ یہی وہ تضاد تھا جسے بی جے پی نے استعمال کیا اور ہندووں کو بتایا کہ کانگرس بھی اس سازش میں حصہ دار تھی۔یہی نہیں بلکہ کانگرس نے اس آئینی رستہ سے آزادی حاصل کرنے کو1947 کے بعد داخل دفتر کردیا اور بچوں کوجدوجہد آزادی کے نام پر جو اسباق پڑھائے ان میں قانون شکنی کو جمہوری حق قرار دیا گیا۔ اگر کسی مجرم نے بھی کسی انگریز کو قتل کیا تو اسے جدوجہد آزادی کا ہیرو بنادیا گیا کہ اس کی سب سے بدترین مثال روس، برطانیہ سرد جنگ کے مخالف وائسرائے انڈیا لارڈ میو کی جزائر انڈیمان جیسے محفوظ مقام پرپراسرارموت ہے جسے1872میں اک قیدی کے ہاتھ مروایا گیا تھا۔ تین جلدوں پر مشتمل بھارت کی سرکاری دستاویز’’جدوجہد آزادای کے مجاہد‘‘ میں اس قاتل کانام بھی موجود ہے۔ یہی نہیں وہ آریہ سماجی جو برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں اور مسیحوں کو دوبارہ’’ہندو‘‘ بنانے کی مہمیں چلاتے رہے وہ بھی جدوجہد آزادی کے ہیرو قرار پا - 
جدوجہد آزادی کی گمراہ کن کہانی کوئی تنہا واقعہ نہیں جس نے بھارت میں انتہا پسندی کو جلا بخشی بلکہ1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بالعموم اور1971 کے بعد بالخصوص جس پاک بھارت سرد جنگ کو تیز کیا گیا اس کا ’’ملفوف‘‘ حوالہ مذہب ہی تھا۔ بھارت میں پاکستان کی حمائیت کو مسلمانوں کی طرفداری اور مسلمانوں یا اسلام کی حمائیت کو پاکستان نوازی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ اس بدترین رویے کی خوفناک مثالیں بھارتی دانشور محترمہ شبنم ہاشمی اور مشہور بھارتی فلم ایکٹر نصیر الدین شاہ کے بیانات ہیں جنھوں نے برملا اس بات پرتاسف کا اظہار کیا کہ آج ان کی حب الوطنی پر شک کیا جارہا ہے۔ جدوجہد آزادی کے نام پر قانون شکنی کو بڑھاوا دینا، بنیاد پرستوں کو ہیرو کہنا اورمذہب میں ملفوف پاک بھارت سرد جنگ، یہ ہے وہ پورا سچ جس کی وجہ سے آج بھارت میں خود بہت سے بھارتی بھی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ مودی یا بی جے پی تو آج اقتدار میں آئے مگر قانون شکنی ، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے اس ماحول کو پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ خود کانگرس، پنڈت نہرو اور اندراگاندھی کی پالیسیوں کا ہے۔ اب تو بہت سے بھارتی بھی کانگرس کے طلسم سے باہر نکل چکے ہیں مگر پاکستان میں ایسے دانشور بکثرت موجود ہیں جو کانگرس کی الفت میں پورا سچ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ نندینی نے صحیح لکھا کہ ’’میں نہ تو دہریہ ہوں نہ ہی پاکستان پرست یا کچھ اور۔۔ میں تو نہ حرام جانور کھاتی ہوں نہ ہی حلال۔۔ میں متمول طبقہ سے بھی ہوں مگر جن اچھے دنوں کی امید ہمیں دلائی گئی تھی میں آج بھی اسے خواب ہی سمجھتی ہوں‘‘۔ کانگرس کی ہمالائی غلطیوں کا جواب بی جے پی کی حمائیت نہیں کہ یہ بات نندینی سمیت بھارتی عوام کو آج سمجھ آرہی ہے۔ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بی جے پی یا شوسینا کی حرکتوں کو جواز بناکر کانگرس اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈال دے۔ جو کچھ جدوجہد آزادی کے نام پر1947 کے بعد ’’بویا‘‘ جاتا رہا ہے، بی جے پی اور مودی سرکار اسی کا ’’پھل‘‘ ہے۔ تاہم زحمت میں رحمت یہ ہوئی کہ مودی اور شو سینا کی حرکتوں سے بھارتی معاشرے میں عشروں سے پنپنے والا یہ ناسور چاک ہوگیا جس پر سیکولر ازم کا پردہ ڈالا جاتا رہا تھا۔ پاکستان میں تو آج تینوں بڑی پارٹیوں میں سے کوئی ایک ’’بھارت دشمنی‘‘ میں ملوث نہیں کہ بھارتی سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کو اس سے بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بھلا ہو مودی سرکار کا کہ اب بہت سے بھارتی لکھاری بھی’’طالبان‘‘ جیسی جماعتوں کی بھارت میں موجودگی کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تاہم یہ طالبان کس نے پیدا کیے؟ ان کوکون آج بھی اپنا اثاثہ سمجھتا ہے؟ اس بارے بہت سے بھارتی دانشور اب بھی’’انکاری کیفیت‘‘ یعنی (State of denial) میں ہیں۔ شاید ان کو اب بھی چین مخالف محاذ میں فرنٹ لائن بننے کا خیال ستاتا ہے۔ بھارت1962 سے چین کا زخم خوردہ ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ شکست خوردہ قوم پرستی انہیں اندھی گلی کی طرف ہی دھکیل سکتی ہے۔ اگر کل کو چین مخالف محاذ گرم بھی ہوگیا پھر شوسینا جیسی قوتیں کانگرس اور بی جے پی دونوں کو نگل جائیں گی اور بھارتی معاشرے کے ساتھ وہی ہوگا جو افغان جہاد کے بعد پاکستان کے ساتھ ہوچکا ہے۔ جیسے پاکستان میں بنیاد پرستوں کو ریاستی مفاد میں استعمال کرنے والے یہ بھول گئے تھے کہ انہیں کوئی’’باہرلا‘‘ بھی استعمال کرسکتا ہے، ایسے ہی بھارتی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی شوسینا پر اعتبار کیے بیٹھی ہے۔ شو سینا سوا ارب کے بھارت میں اک معمولی اقلیت ہے۔ اگر وہ آج یوں بھارت میں دندناتی پھررہی ہے تو یہ یقیناًیہ سب’’ پس پردہ محافظوں‘‘ کے مرہون منت ہے۔ آج بھارتی دانشور بھارت میں بنیاد پرستوں کی طاقت سے باخبر ہوچکے ہیں۔ کل کو وہ ان کے محافظوں کو بھی جان لیں گے۔ اس کھیل سے بھارت اندرون خانہ معاشرتی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف بیرون خانہ اس کے سافٹ امیج پر پانی پڑ رہا ہے۔ بھارتی دانشور صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایوارڈ واپس کررہے ہیں جو مزاحمت کی اک شکل ہے۔ مگر جب تک وہ جدوجہد آزادی سے متعلق پھیلائی گئی گمراہ کن داستانوں پر ازسرنو غور اور پاکستان دشمنی کو داخل دفتر نہیں کریں گے وہ اس گرداب میں پھنسے رہیں گے۔جب تک کتا کنوئیں میں پڑا ہے، محض بھجن پڑھنے سے پانی پاک نہیں ہوگا۔ - 

Newline Punjabi Novel got International Award written by Nain Sukh


Newline Punjabi Novel 

got International Award

written by Nain Sukh

Khalid Mahmood (Pen name Nain Sukh) is advocate by profession and his novel Madhu Lal Hussain , Lhore di Vel is a latest work. Newline has already published his three books. His books are available at Readings 

MADHO LAL HUSSAIN – LAHORE DI VEL (NOVEL)
Nain Sukh’s novel, Madhoo Lal Hussain, covers the historical, cultural, social, and literary life of Lahore from the sixteenth to twenty first century. The novel documents the human situation in a unique manner under the colonial period followed by the post-partition period of Lahore. The novelist assimilates the history of four hundred years and then draws its memorable picture in a creative manner. The novel focuses not only on the conflict between secular and fundamentalist forces in this region’s history of the last four hundred years, but also highlights contemporary forms of the clash.
Nain Sukh has written a successful novel by employing the stream of consciousness technique imaginatively by mixing events of the past with the contemporary situation. Due to its language, theme, technique, and craftsmanship Madho Lal Hussain can be termed as a topmost work of fiction in Punjabi published in Persian script. Though terse in reading, Madho Lal Hussain is indeed very valuable in its depiction of the history and cultural richness of Lahore.


An introduction to the novel

This novel tells the story of a painter named Hussain, who teaches at the National College of Arts, Lahore, and of a social worker Mahboob ul Haq, an employee of Green and Clean City which is a non-governmental organization. Both of them are modern incarnations of Madho Lal Hussain. They together make a couple who have witnessed the execution of Mansur bin Hallaj in the fire burning at the shrine of Madho Lal Hussain. On the 23rd of March, they bear witness to the martyrdom of Bhagat Singh and they remember the death of Dulla Bhatti with the traditional praise songs for him.
In 2005, the festival of Basant was banned and it led to a darkening of the skies above Lahore. This colorlessness became the basis of this narrative. Then in 2011, an American spy named Raymond Davis killed two residents of Lahore, a strange event whose impact on the cultural psyche of Punjab remains unexamined. On the surface, the narrative spans from 2005 to 2011 but it is not limited to the contemporary era. Informed by the longue durée of Punjab, the story traces the evolution of the cultural self and tries to uncover a tolerant, multi-layered, syncretistic and pluralistic past. 
In telling the modern homoerotic tale of Hussain and Mahboob, the ur-text or the protonarrative of the novel, the source of inspiration, has beenHaqeeqatul Fuqra (The Reality of the Mendicants), the 16th century biography of Madho Lal. The legend of Madho Lal Hussain is a communal love story, now almost half a millennium old, in which a Muslim Sufi saint and a Hindu Brahman boy create a conjoined self through their love for each other. In the era of the Mughal king Jalal Uddin Akbar, when the court-appointed religious authority of Makhdoom Ulmulk Maulan Abdullah Sultanpuri is supported by Mirza Nizam Uddin as the executor of the royal will at Sheikhupura Fort and the magistrate of Lahore Malak Ali is always ready to serve, the powers of this officialdom are challenged by Madho Lal Hussain and Dulla Bhatti who are patronized by the same saint. In this story of forbidden love between Shah Hussain, a Muslim saint and Madho Lal, a Brahman Hindu boy, the will of the people is shown to be in conflict with the royal decree. 
Madhu Lal Hussain: A Celebration of Lahore is a novel based on the life story of Shah Hussain and Madho Lal, two historical figures of Punjab whose life stories are preserved in Haqeeqatul Fuqra (The Reality of the Mendicants) as well as through the communal folklore. The novel tells the story of the rulers and the ruled of Punjab, the masters and the serfs, the exploiters and the wretched of the earth, the two dominant elements constituting the local longue durée. The historical characters of the Mughal e Azam, Nauratan, Chaudhries, and officiating and officious Mullahs create the dominant cultural group which continues to the modern times, through its connivance with all types of colonizers. Trying to cope with the exploitative powers of this group are the sons and daughters of the marginalized: the son of a prostitute who becomes a painter, the son of Ahmedi parents who falls in love with a Muslim man, the communists, the social workers, the nerdy, book-loving revolutionaries, the provocateurs, and the agitators of the masses, all recent incarnations of historical figures of resistance. 
The characters that populate this narrative also populate Lahore and Punjab: the jogis, the mendicants, the artists, the communists, the right-wingers, the left-leaners, and the faqirs whose love does not subscribe to the ideology of procreation, the accursed share of the popular economy. This novel is a study of Lahore, specifically, and Punjab, generally, as it has been structured throughout the centuries by everyday struggles of the ordinary people and the long historical structures that have conflicted and collaborated to create the modern cultural self of modern Lahoris.

News about the Novel and Radio Program



Tuesday, October 27, 2015

Is Shirani alone in opposing Co-education in Pakistan?


Is Shirani alone in opposing Co-education in Pakistan?

Links of the Published article , click below


As par news flashed in Media Council of Islamic Ideology wants Co-education abolished at earliest. It is reported that "Reiterating its previous recommendation for separate systems of education for men and women, Pakistan’s top religious body has asked the government to abolish the co-education system within the minimum time period." For me, it is not a new news, I already read 12"Sacred" documents related to education in Pakistan. The other unfortunate reality is my up to date knowledge of Public Private Biased textbooks as i am doing research since 2009 on it. The difference between what Shirani said and what is written in education documents as well as published in textbooks is of Atheist and Hypocrite. Since, the First Education Conference, held at November 1947 till 2009 Education Policy there is not any single recommendation in favor of C0-education. The reluctance about co-education is a proof of the mindset we have regarding girls and women in general. Reflections of that mindset are part of policies and textbooks, the end product. The case is same regarding public and private school textbooks as you can easily find biases based on gender, culture, religion, school of thought (sects) and urbanization (against rural & tribal livings). I can easily trace recommendations against co-education from 1947, 1951 reports education conferences, Sharief commission report 1959, Hamud ur Rahman report 1966, New education policy 1969 as well from 1972, 79, 92, 98 and 2009 education policies.  Till 1969 education policy, prepared under the guidance of General Sher Ali Patoddi and signed by Air Marshal (R) Noor Khan, our policy makers were against separate women universities yet there was a tiny voice headed by Jamat e Islami in its favor. But that tiny voice got strength due to Pak-India cold war started with new zeal in post 1965 war scenario across the borders. It was the same policy which also recommended abolishment or nationalization of Christian missionary schools as their working was considered a halt in propagation of Ideology of Pakistan. In 1972 Bhutto government coined a mid-way and 1972 education policy said "The proportion of women teachers in primary schools will be progressively increased even if this involves lowering the minimum academic qualification in certain areas. This will enable boys and girls to study together in a single school staffed exclusively by women teachers." So from that day we are in search of women teachers. In the documents of 1979, 1992, 1998 and 2009 education policies we repeated that claim time and again. Our civil military elite have double standards regarding co-education too.  Their children are enjoying fruits of co-education and in their personal life they are liberal enough yet for common Pakistanis they set different rather absurd education standards.  They are promoting elite education institutions at the cost of public education. But Mr Shirani is not a hypocrite like them and openly demands abolition of co-education system. I am a critic of orthodox people like Shirani yet what he said is not a new thing. 





مخلوط تعلیم مولانا شیرانی اور اسلامی نظریاتی کونسل
عامر ریاض


اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی سے تو ہر کسی کو یہی اُمید تھی کہ ملا نے جب سے عقلی علوم یعنی معقولات (Rational Sciences) کارستہ چھوڑ کر محض منقولاتی علوم کو “جن جھپا” ڈالا ہے تب سے ایسے تمام مکاتب فکر کے علماء میں عقلیت سے ناتہ کمزور ہوچکا ہے۔ مخلوط تعلیم کے خلاف ان کے تازہ بیان نے خود اسلامی نظریاتی کونسل کا مذاق بنادیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اس زائدالمعیاد(Outdated)ادارہ کو اب بند کردینا چاہیے۔ میں گذشتہ دس سال سے تعلیمی تحقیق سے وابستہ ہوں اور نہ صرف پاکستان کی اہم تعلیمی دستاویزات کا تفصیلی جائرہ لے جاچکا ہوں بلکہ 2010 سے چھپنے والی نصابی کتب پربھی میری برابر نظر ہے۔ شاہد اسی لیے مجھے شیرانی صاحب کا بیان پڑھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ جن12‘‘مقدس’’ تعلیمی دستاویزات کا جائزہ لیا گیا تھا ان میں ایک بھی ایسی نہیں جس میں مخلوط تعلیم کے حوالہ سے واضح سفارش موجود ہو۔
یہی نہیں بلکہ صنفی تعصب (Gender Bias)کے حوالہ سے تو میں نصابی کتب میں چھپنے والی تصاویر پر مشتمل تحقیق بھی شائع کرواچکا ہوں۔ حیران نہ ہوں، نجی سکولوں یا سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ہماری نصابی کتب جن نمایاں ترین تعصبات کی عملی تفسیر ہیں ان میں صنفی، دیہی، ثقافتی،لسانی ،مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اوّلیت حاصل ہے۔ شیرانی صاحب پر بھلے غصہ نکال لیں مگر جو کچھ گذشتہ 64سالوں سے ہمارے پالیسی ساز تعلیمی دستاویزات میں لکھ رہے ہیں اور جو تصاویر ومواد ہم سرکاری سکولوں ، کالجوں میں اپنے بچوں کو پڑھا اور دکھا رہے ہیں وہ شیرانی صاحب کے ارشادات کی عملی تفسیرہی تو ہے۔
نومبر1947 کو ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس ہویا 1951 کی دوسری تعلیمی کانفرنس،1959کا شریف کمیشن ہو،1966 کا حمود الرحمن تعلیمی کمیشن برائے طلبا یا پھر نور خان اور شیر علی پٹودی کی تیار کردہ1969کی تعلیمی پالیسی ان سب میں مخلوط تعلیم بارے تحفظات نمایاں ہیں۔ ایک طرف‘‘رنڈی رونا’’ یہ ہے کہ ہم غریب ملک ہیں، وسائل کم ہیں، تعلیم کے لیے کہاں سے فنڈ لائےں تو دوسری طرف انہی دستاویزات میں لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے بنانے کے سفارشات خود اپنا تمسخر اڑارہی ہیں۔1969کی تعلیمی پالیسی نے تو تمام حدیں ہی پارکردیں تھیں۔ اس پالیسی سے قبل پالیسی ساز یہ اقرار کرتے رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سطح پر نوجوانوں کی شعوری سطح بلندہوچکی ہوتی ہے اس لیے عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کی ضرورت نہیں۔ حمودالرحمن کمیشن تک ہمارے تعلیمی پالیسی ساز خواتین کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کے قائل نہ تھے البتہ اک محدود اقلیت یہ تکرار کرتی رہتی تھی۔ مگر1965کی جنگ کے بعد شروع ہونے والی پاک بھارت سردجنگ کی وجہ سے شامل ہونے والے نئے کھلاڑیوں کی وجہ سے ماڑاموٹا اعتدال بھی جاتا رہا۔
یوں 1969 کی تعلیمی پالیسی نے عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کی سفارش بھی کرڈالی۔ یادرہے یہ وہی باکمال تعلیمی پالیسی ہے جس نے مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کو نظریہ پاکستان کے خلاف سازش قراردیتے ہوئے انہیں بند کرنے یا قومیانے کی سفارش کی تھی۔ 1972 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں سے چو ر مملکت نے نئے پاکستان کے باسیوں کو‘‘قومی دلاسہ’’ دینے کے لیے تعلیم، صنعت اور بڑی بڑی کمپنیوں کو قومیانے کا سیاسی فیصلہ کرڈالا۔ 1972کی تعلیمی پالیسی اسی کشمکش کے دوران بنائی گئی تھی کہ اس میں مخلوط تعلیم کے لیے اک درمیانہ راستہ ڈھونڈے کاآہر کیا گیا ۔ یہ کہاگیاکہ پہلی سے پانچویں تک اگر تمام اساتذہ خواتین ہوں تو پھر پرائمری تک مخلوط تعلیم کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہ ریت میں گردن چھپانے والی ”شترمرغ“ والی پالیسی تھی۔ 1966 کی تعلیمی دستاویز یہ بات بتاچکی تھی کہ مشرقی پاکستان میں صرف 30فیصدی اور مغربی پاکستان میںمحض50فیصدی استاد باقاعدہ تربیت یافتہ تھے۔مجموعی طور پرپاکستان میں50فی صد سے بھی کم اساتذہ‘‘استاد’’ کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ ایسے میں جب تعلیم کو قومیا لیا گیا تو مزید غیر تربیت یافتہ اساتذہ تعلیمی بندوبست میں آگئے۔ ایک ایسی صورتحال میں جہاں تربیت یافتہ اساتذہ ہی نہ ہوں اور عورتوں میں خواندگی کی شرح بھی کم ہو، آپ کو اتنی بڑی تعداد میں تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کہاں سے ملنی تھیں؟
1998,1992,1979اور 2009کی تعلیمی پالیسیاں پڑھ لیں آپ کو مخلوط تعلیم کے حوالہ سے1972کی پالیسی کے منتخب کردہ درمیانی راستہ کی تکرار ہی نظر آئے گی۔ نہ تو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی کہ تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کی تلاش تاحال جاری ہے۔ جنس کو اوّلیت دیتے ہوئے بنائی جانے والی پالیسی کا یہی انجام ہونا تھا۔ یہ وہ گھٹیا ذہنیت ہے جس کا پردہ سعادت حسن منٹو نے تو 60برس قبل چاک کردیا تھا مگر ہمارے سول وملٹری بیوروکریسی، اشرافیہ اور پالیسی ساز اس چاک گریبان پر پردے ڈالنے میں تادم تحریر”ر جھے“ ہوئے ہیں۔
2011-12, 2009-10 اور 2014-15 کی نصابی کتب کا جائزہ لینے کے بعد میں نے جو رپورٹیں لکھیں ان میں نمایاں ترین تعصبات میں صنفی تعصب برابر ہمارا منہ چڑارہا تھا۔ دیہاتوں میں تو عورتیں ہمیشہ سے کام کرتی تھیں کہ گائے کے گوبر سے پاتھیاں بنانا، جنگل بیلے سے لکڑیاں چن کے لانا، دور دور سے پانی بھر کے لانا اور کھیتوں میں عورتوں کا بہت سے کام کرنا ، دیہی روایات کا انمٹ حصّہ تھا۔ شہروں میں بھی گذشتہ 65 برسوں میں عورتوں کے حوالہ سے نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں۔ آج بڑی تعداد میں خواتین دفاتر میں کام کررہی ہیں، گاڑیاں چلاتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ، آرٹ، صحافت، تعمیرات کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین موجود نہیں۔ اسمبلیوں میں خواتین موجود ہیں اور اب تو فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں میں بھی انہیں شامل کیا جارہا ہے۔ مگر نصابی کتب میں یہ دکھانا “گناہ عظیم” ہے۔ لڑکیوں کو سٹاپو،کیڑی کاٹا، کیرم جیسی ان ڈور کھلیں کھیلتے نصابی کتب میں دکھایا جاتا ہے مگر فٹ بال ، کرکٹ وغیرہ جیسی آٹ ڈور کھیلیں صرف لڑکے کھیلتے ہیں۔ پرائمری کی کتب میں جب یہ دکھایا جائے گا کہ لڑکا گانا گارہا ہے ، پڑھ رہا ہے، موٹر سائیکل چلارہا ہے، بازار جارہا ہے اور لڑکی گھریلو کاموں میں مشغول ہے تو پھر ہم اپنے بچوں کو آخر کیا سکھارہے ہیں؟
اسلام میں کافر کی بجائے منافق سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ شیرانی صاحب جیسے‘‘کافروں’’ کی نسبت ہمیں اصل خطرہ پالیسیاں بنانے والے ‘‘منافقوں’’ سے ہے۔ میں تو خود شیرانی صاحب سمیت منقولاتی استدلال رکھنے والے تمام مکاتب فکر کے علماءکا ناقد ہوں مگر67سالہ تعلیمی ریکارڈ کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ شیرانی صاحب نے جو کہا ہے اس پر ہمارے پالیسی ساز اور اعلیٰ اذہان عملی طور پر کار بند ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سرکاری تعلیم کا بیڑہ غرق کرکے نجی اشرافیہ کے تعلیمی کاروبار کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔ شیرانی صاحب کو ہم ضرور کوسیں، اسلامی نظریاتی کونسل پر بھی حسب توفیق تنقید کریں مگر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے پالیسی ساز اور سول ملٹری اشرافیہ کیوں خود اس منافقت کا پر تو ہے؟ نصابی کتب تو مختلف قسم کی متعصبانہ ذہن سازیوں میں ملوث ہے مگر بطور سول سوسائٹی ہم کس قسم کی حساسیت کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ ہم میں سے اکثر توکبھی کسی سرکاری سکول، کالج گئے ہیں نا ہی ان اداروں میں پڑھائی جانے والی کتب بارے ہمیں کچھ علم ہے۔ میں تو مشکور ہوں علامہ شیرانی کا کہ جن کے بیانات کی وجہ سے، منفی انداز سے ہی سہی، مگر ہمیں آئینہ تو دیکھنے کو ملا۔ یہی ہمارا اصل چہرہ ہے کہ جس پر انگریزی کا میک اپ کرکے ہمیں گمراہ رکھا جاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اپنے بچوں کو تو مخلوط تعلیم دلواتے ہیں، ان کے لیے پرکشش و پر تعیش مخلوط ماحول بناتے ہیں مگر عام پاکستانیوں کو گڑی سڑی اخلاقیات کے بھنور میں غلطاں رکھنے پر کمر بستہ ہیں۔ شیرانی صاحب جیسے چند ایک سر پھرے تو اس‘‘کفر’’ کا برسر عام اعلان بھی کرتے ہیں مگر ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اس پر بذریعہ منافقت عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں تو لبرل ہیں مگر عام پاکستانیوں کے مقدر کو اپنی ایسی پالیسیوں کے ذریعہ داغدار رکھنا چاہتے ہیں۔ 

Saturday, October 24, 2015

Why Republicans are still playing with Religion? American Moody


Why Republicans are still playing with Religion?

American Moody

Upcoming US election is an effort to revive cold war with a difference. Like Moody new Republican presidential candidate is trying to attract voters of the majority religion in Us i-e Christians.  Playing with religion is still common and the last republican president G W Bush too used such notions not only against Muslims but also against Guys during his tenures. It was Bush junior who used the tern Crusades after 9/11 and before Iraq War. It is their history and they love to make nexus of Religion, Nationalism and War. Some time they use nationalism, as they did against JFK, some time they mix religion with war, an old British Empire legacy, as they did during and after Afghan Jihad. They ruined whole Pak-Afghan-Iran region in late 1970s, made President Carter a horrible example and inducted Jihadis throughout the world.  In order to defeat President Carter they smartly supported Islamic change in Iran from the other side of the fence in usual Machiavellian style. AlQaida and Talibans are byproduct of that bad policy and till 9/11 that byproduct even became a threat for United States itself.  But Republicans does not learn lesson from it and still using nexus of Religion, Nationalism and War. Either they are following Moody of India or like AlQuida, Moody is too their product yet both are Children of colonialism. During his recent election campaign Moody used nexus of Hindu religion, War with China and Narrow nationalism in India and defeated Congress. Recent statement of new republican presidential candidate is in the same line.

Saturday, October 17, 2015

Hate Speech among Youth in Pakistan: Media & Education played vital role


Hate Speech among Youth in Pakistan


Media & Education played vital role

Why we failed to promote tolerance among Youth? Why social media is full of biases? How our universities, scholars, textbook writers, journalists, intellectuals etc are busy in spreading hate in general? These are the basic questions. Few weeks back, i tried to address these issues in a Two Part series in The News on Sunday and this article is in continuation. It is with reference of a survey of Bargad.
Ethnic and linguistic biases play equal role in spreading hate speech, according to the report. The alarming revelation is about the role of teachers and seniors who play a very negative role. More than 55 per cent students said they have experienced hate speech from their friends and superiors.


تعلیم یافتہ نوجوان میں نفرت کا فروغ اور ہمارا میڈیا 
عامر ریاض۔۔۔۔۔ صفورا چورنگی پر فرقہ واریت کے بد ترین واقعہ میں کراچی کے اعلیٰ ترین ادارے سے تعلیم یافتہ نوجوان کی گرفتاری کا سن کر کم از کم مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا تھا کہ جن نفرتوں کو ہم بذریعہ نصاب و میڈیا پھیلاتے رہے ہیں اس کا ایک نہ ایک دن یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ کراچی سے خیبر تک، موجود سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ اور دیگر عملہ میں آپکو جابجا ایسے مخصوص ذہنی رجحان کے حامل خواتین وحضرات سے پالا پڑتا ہے جو اختلافات کو برداشت نہ کرنے کی روشں میں مبتلا ہیں۔ شاندار علمی ریکارڈ رکھنے والی یونیورسٹیوں کو برباد کرنے میں گذشتہ37سالوں کے دوران بڑا کردار تو ریاست کے ’’پہرے داروں‘‘ نے سرانجام دیا تو دوسری طرف تعلیم کو مادرپدرنجی شعبہ کے حوالہ کرنے یعنی تعلیم کو محض منفعت کا ذریعہ قرار دے کررہی سہی کسر بھی پوری کرچکے ہیں۔ یاد رہے، ان دونوں بدترین عوامل کا آغاز جنرل ضیاالحق کے’’اسلامی مارشل لاء‘‘میں ہوا جبکہ ان کو عروج جنرل پرویز مشرف کے ’’سیکولر مارشل لاء‘‘ میں حاصل ہوا۔ مارشل لاء نیک ہویا بد، سیکولر ہویا اسلامی، بدنیتی سے لگایا جائے یا کسی اعلیٰ عرفہ مقصد کے تحت، اس کا نتیجہ نسلیں بھگتتی ہیں کہ یہ اداروں کی تنزلی ہی سے عبارت رہتا ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جس میں قومیتی، لسانی، جغرافیائی، مذہبی مسلکی رنگارنگی بھی ہے اور لامتناہی سرحدیں بھی کہ یہاں مارشل لاء یا آمریت انتشار پھیلانے والوں کی جنت بن جاتا ہے۔ گورنیس(طرزحکومت) سے تعلیم تک یہاں ایسے ایسے تجربے کیے گئے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ تعلیم کے شعبہ پر تو خاص کرم رہا کہ ایوب، یحیٰ، ضیا اور مشرف کے دور میں اس کی خوب درگت بنی۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں علم پر پہرے لگے اوردو نمبر پی ایچ ڈیاں کرنے والوں کی بھرمارسے ان کا حلیہ بگڑ چکا ہے جبکہ نجی یونیورسٹیاں پیسہ کمانے کی مشینیں پیدا کررہی ہیں۔ تعلیم کا علم سے رشتہ ہر جگہ ٹوٹ چکا ہے کہ ایسے میں نوجوانوں میں انتہا پسندیوں کا در آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ ان انتہاپسندیوں کا سب سے بڑا ثبوت نوجوان طلباء و اساتذہ کے رویے ہیں جن میں اعتدال پسندی کی بجائے اضطراب، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے ماردھاڑ اور رواداری کی بجائے انتقام نمایاں ہے۔ہر کوئی مانتا ہے کہ انسانوں پر ظلم کی بدترین شکل غلامی ہے اور غلاموں میں سب سے خوفناک مثال ان ذہنی غلاموں کی ہوتی ہے جو خود کو’’آزاد‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی مثال ایسے پرندے کی ہوتی ہے جسے’’پر‘‘ کاٹ کر پنجرے سے’’ آزاد‘‘ کردیا ہوتا ہے۔ یہ اپنے بزرگوں کی خوبیوں ، خامیوں پر نظر نہیں رکھ سکتے کہ انہیں تو بغیر تحقیق ہر وقت بزرگوں کو مورد الزام ٹہرا کر جعلی خود اعتمادی کو مقدم رکھنا ہوتا ہے۔ 

انگریزی میں اسےIllusion of Freedom کہتے ہیں کہ پاکستانی پڑھے لکھے نوجوان بارے جس تحقیق کا احوال آپکے روبرو ہے اس میں’’آزادی کے واہمہ‘‘ بارے خوب خبر ملتی ہے۔ اگر آپ تعصبات سے ہٹ کر تجزیہ نہیں کرسکتے، اگر آپ خوبیوں اور خامیوں ، کامیابیوں اور ناکامیوں کو سامنے رکھ کر تحقیق نہیں کرسکتے تو پھر آپ اُس پرندے کی مانند ہیں جسکے ’’پر‘‘ کاٹ کر پنجرے سے باہر کردیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں کام کرنے والی تنظیم’’برگد‘‘ نے حالیہ دنوں میں امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ برائے امن(USIP) کے تعاون سے پاکستان کی 14 سرکاری ونجی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوانوں میں ’’میڈیا اور نفرت انگیز بیان یعنی Hate Speechکے حوالہ سے تحقیق کروائی۔ یہ تحقیق انتہا پسندی کے حوالہ سے ہمارے بہت سے خود ساختہ مفروضوں کو توڑنے کی بھی اک کوشش ہے۔ جن یونیورسٹیوں میں یہ تحقیق کی گئی ان کا تعلق خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور پنجاب سے تھا۔ 

۔ ہم امید کرتے ہیں برگدمستقبل میں اس تحقیق کو زیادہ بڑے پیمانے پر کرے گا تاکہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ ہمارے نوجوان میں انتہا پسندیاں کیوں بڑھ رہی ہیں اور انتہا پسندیوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں اور میڈیا میں کونسے اقدامات کرنا چاہیں۔ تحقیق میں نوجوانوں سے جو18سوالات پوچھے گئے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ -1 کیا آپ نفرت انگیز بیان(Hate Speech)سے واقف ہیں؟ -2 کیا آپ بھی اشتعال انگیز بیان کا شکار ہوئے؟ -3 کیا آپ کبھی میڈیا اور متبادل میڈیا/سماجی میڈیا پراشتعال انگیز جملوں کا شکار ہوئے؟ -4 آپ کے خیال میں نفرت انگیز بیان کہاں زیادہ عام ہیں ؟ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ۔ -5 کیا آپ نفرت انگیز مواد کے خلاف کسی موجودہ پاکستانی قانون سے آگاہ ہیں؟ -6 نفرت انگیز مواد کو ختم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار زیادہ کارآمد ہے؟ طلباء کی کثیر تعداد یعنی 91.2 فی صد نے اقرار کیا کہ وہ نفرت انگیز بیان سے واقف ہیں۔ حتٰی کہ 51.2 فی صد طلباء نے یہ تک بتایا کہ وہ خود نفرت انگیزیوں کا شکار رہے ہیں۔ 15.2 فی صد طلباء نے بتایا کہ ان نفرت انگیزیوں کی وجہ ان کا مذہب یا فرقہ تھا جبکہ اسی تناسب کے ساتھ طلباء نے نفرت انگیزیوں کی وجہ زبان یا قومیت بھی بتائی۔ اب ہمارے ہاں تو نفرت انگیزیوں کی واحد وجہ مذہب یا فرقہ ہی کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ تحقیق میں زبان اور قومیت کی وجہ سے پھیلائی جانے والی نفرت انگیزیوں کا تناسب برابر ہی ہے۔ تقریباً 21 فی صد طلبا نے نفرت انگیزیوں کی وجہ نقطہ نظر کو قراردیا جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہماری سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔اسے انگریزی زبان میں’’اکیڈیمک فریڈم‘‘ کہتے ہیں کہ اگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علمی ماحول نہیں ہوگا تو پھر ہم’’ دولے شاہ‘‘ کے چوہے ہی پیدا کریں گے۔ علمی ماحول کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ آپ یونیورسٹی میں دوران لیکچر ہر طرح کا سوال کرسکیں اور ہر ممکنہ پہلو کو زیر بحث لاسکیں۔ مگر جب یونیورسٹی کے اساتذہ ہی دونمبر پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھتے ہوں گے تو بھلا ان سے تحقیق کی امید کون کرے۔ جب یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلباء میں مکالمہ ہی نہ ہوگا تو پھر اختلافات کو تحمل سے سننے، سمجھنے کا حوصلہ نوجوانوں میں کیسے پنپے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اور اساتذہ یونیورسٹیوں میں یا تو مناظرہ کرتے ہیں یا پھر تقدس کے نام پر انہیں خاموش کردیا جاتا ہے۔ یہ تقدس کبھی مذہب کے نام پر لاگو ہوتا ہے ، کبھی ڈسپلن کی آڑ لیتا ہے تو اکثر قوم پرستی کے نام پر اسے نافذ کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی صوبائی سطح پر ہویا ملکی سطح پر طلباء کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں کو دبانے کے حوالہ سے اس کا اثر انتہائی مہلک پڑتا ہے۔ ایسے طلباء کا تناسب بھی خاصا تھا جن کے مطابق یونیورسٹیوں میں نفرت انگیزیوں کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔ یہ حقیقت حال سے راہ فرار کا مخصوص انداز ہے جسے عرف عام میںState of denialکہا جاتا ہے۔ راہ فرار کا تعلق بھی عملی تنزلی ہی سے ہے کہ اس مسئلہ کو بوجوہ ہماری یونیورسٹیاں حل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیاں اور اُن کے پیدا کردہ دانشوروصحافی خود راہ فرار کی مجسم تصویر ہیں۔ 28 فی صد طلباء اس بات پر متفق تھے کہ نفرت انگیزیاں پھیلانے میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ترین ہے۔ یہی نہیں بلکہ تقریباً 48 فی صد طلباء نے برملا یہ بتایا کہ نفرت انگیزیاں پھیلانے والوں میں 21 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان پیش پیش ہیں۔ سوشل میڈیا یعنی ٹویٹر،فیس بک ، بلاگ وغیرہ پر تو آج ہر نوجوان براجمان نظر آتا ہے کہ اسے ایسا میڈیا کہا جاتا ہے جس میں’’ایڈیٹر‘‘ نہیں ہوتا۔ یہاں آپ کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنے تعصبات،تفاخر اور اخلاقیات کا خود ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اب اگر 21 سے30سال کے نوجوان نفرت انگیزیاں پھیلانے میں ملوث ہیں تو آپ ان کی اخلاقی تربیتوں اور رواداری بارے خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سروے نے بھی یہی بات اعدادوشمار سے ثابت کی ہے جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔ اسی سروے میں سب سے حیرت ناک انکشاف جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ حالت زار کا شافی ثبوت ہے۔ 82 فی صد طلباء اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان میں نفرت انگیزیوں سے نمٹنے کے حوالہ سے کوئی قوانین موجود ہیں؟ نہ تو انہیں تعزیراتِ پاکستان کے ماڑے، چنگے قوانین کا علم ہے نہ ہی انھوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ1996کی دفعہ153-A بارے سنا ہے جس میں نفرت انگیز بیان سے نمٹنے کا ویژن شامل ہے۔ یاد رہے، یہ سب یونیورسٹیوں کے طلباء ہیں جو محض انٹرنیٹ پر بیٹھ کر بھی ان قوانین کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان خود تحقیق کرنے کے جذبہ سے عاری ہیں اور ہمیشہ کسی ’’مصلح‘‘ کے منتظر رہتے ہیں۔ سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوجوانوں نے نفرت انگیزیوں کا ذکر تو سن رکھا ہے، وہ اکثر و بیشتر نفرت انگیز حرکتوں کی نشاندہی بھی کردیتے ہیں۔ مگر اس جنجال سے باہر کیسے نکلا جائے؟ اس بارے ان کے جوابات انتہائی کمزور تھے۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ نصابی کتب نے ان کے اذہان کو کیسے کیسے تعصبات سے بھر دیا ہوا ہے۔ اگر انہیں ملک میں موجود ایسے قوانین ہی کا علم نہیں جو نفرت انگیزیوں کے خلاف بنائے گئے ہیں تو پھر وہ انہیں بہتر بنانے یا ان پر عملدرآمد بارے کیسے سوچ سکتے ہیں؟ آپ چاہیں تو ’’برگد‘‘ کی یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر پڑھ سکتے ہیں کہ آپکو ازخود اندازہ ہوجائے گا کہ انتہا پسندی کا زہر ہمیں کس حد تک گھائل کرچکا ہے۔ 

Friday, October 16, 2015

Lessons of by-election for All: Political Parties, Institutions and Azad Media

Lessons of by-election for All

Political Parties, Institutions and Azad Media


Military was there at polling Stations in and out yet hue and cry of pre-poll rigging and huge use of money proved that involvement of military is not enough for free and fair elections.  Among the major financial beneficiaries of election campaign, Free Media remain on the top yet media criticized big hoardings, out of size posters, distribution of money and food items in poor but not a single anchor pinpointed huge flux of TV Adds.  ECP for poor arrangements and courts for stay orders remain under criticism by many sections. So for all, there are lessons but no one is ready to share complete Truth.  In NA 122 & 144 PTI did not listen to his workers, in NA 144 and PP 147 PML Nawaz chose bad candidates while PPP leadership failed to attract PPP disappointed workers in general.  Like NA 246, Free Media prepared a huge camping of a by-election and in this camping hidden agenda was to divert huge election spending towards media. Almost every channel did its best and in many ways it was a huge media campaign but it failed to attract people and less than 43% people used their voting right. The election process and results once again remind us that the only solution is electoral reforms. Are all stake holders ready to learn lessons?

Read the story at weekly HumShehri

فی الوقت یہی لگتا ہے کہ لاہوریوں اور اوکاڑویوں نے جو فیصلے این اے 122، این اے 144 اور پی پی 147 میں سنائے ہیں ان کی ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے تحت تشریح کر رہا ہے۔ پورا سچ سننے کی کسی میں ہمت نہیں یا وہ روایتی چالاکی کے سہارے ڈنگ ٹپانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی آدھا سچ بولنے پر کمر بستہ ہے۔ ہر پولنگ سٹیشن پر فوج تعینات تھی مگر قبل از انتخابات دھاندلی کے شور نے ثابت کر دیا کہ محض پولنگ ڈے پر فوجوں کی تعیناتی سے مسئلہ 
حل نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں اصلاحاتی سکیم کی منظوری کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ 

 لاہورکا ضمنی الیکشن، کس پارٹی کے لیے کیا پیغام ہے

اہور اور اوکاڑہ کے انتخابی نتائج نے نہ صرف تینوں وفاقی پارٹیوں بلکہ ملک پاکستان کے مقتدر آئینی اداروں اور میڈیا کو اپنے چاک گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات کہ کوئی ’’دھاندلیوں‘‘ کی آڑ لے کر لوگوں کی توجہ دوسری طرف کرنے میں مگن ہے، کوئی ادارہ جاتی کمزوریوں کا راگ الاپتا ہے تو کوئی فتح کے جشن میں طرز حکمرانی کی خامیوں کو چھپانا چاہتا ہے جبکہ’’ میاں مٹھو‘‘ آزاد میڈیا موجودہ انتخابی عمل پر اتنی ہی تنقید کرتا ہے جس سے اس کی’’ اشتہاری مہموں‘‘ میں اضافہ ہو سکے۔ 
ایک ایسے وقت میں جب سندھ اور پنجاب میں بسنے والے 70 فیصد سے زائد پاکستانی بلدیاتی انتخابات میں جانے کو تیار ہیں، ہمیں اس بات پر فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا میڈیا اور صنعت سازی کی طرح انتخابی عمل پر بھی پیسے والوں کا ہی راج رہے گا؟ کیا انتخابی اصلاحات کی کمیٹی 15 کروڑ لوگوں کے بلدیاتی انتخابات میں جانے سے قبل قابل قدر تجاویز کے تحت انتخابی عمل میں عام آدمی کی بطور انتخابی امیدوار شرکت کو بڑھانے کے حوالہ سے اقدامات کر سکتی ہے؟ یا پیسے کی حکمرانی پر سب میں ’’حسین اتفاق‘‘ برقرار رہے گا؟ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ لاہوریوں اور اوکاڑویوں نے جو فیصلے این اے 122، این اے 144 اور پی پی 147 میں سنائے ہیں ان کی ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے تحت تشریح کر رہا ہے۔ پورا سچ سننے کی کسی میں ہمت نہیں یا وہ روایتی چالاکی کے سہارے ڈنگ ٹپانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی آدھا سچ بولنے پر کمر بستہ ہے۔ 

ہر پولنگ سٹیشن پر فوج تعینات تھی مگر قبل از انتخابات دھاندلی کے شور نے ثابت کر دیا کہ محض پولنگ ڈے پر فوجوں کی تعیناتی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں اصلاحاتی سکیم کی منظوری کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ امید ہے کہ تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم کی بھی پارلیمان میں ’’باعزت‘‘ واپسی کے بعد اصل مسائل کی طرف پارلیمان دوبارہ سے توجہ دے سکے گی۔ الیکشن ٹربیونل سال ہا سال فیصلے نہیں دیتے اور اگر دے دیں تو عدالتوں سے ملنے والے ’’سٹے‘‘ منصف اور منصفی دونوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ ’’سٹے‘‘ کی گنگا میں بیوروکریٹ،سیاستدان، کاروباری حضرات ہر کوئی اشنان کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا کروڑوں روپے کے اشتہار چلانے کو تو جائز سمجھتا ہے مگر بڑے بڑے ہورڈنگ لگانے یا گلی، محلوں میں راشن تقسیم کرنے وغیرہ جیسے اقدامات پر تابڑ توڑ’’اخلاقی‘‘ حملے کرتا ہے۔ خیبر پی کے کا وزیر اعلیٰ این اے 122 میں آئے تو جائز، وفاقی وزراء آئیں تو غلط.۔ کراچی کے حلقہ 246 کی طرح لاہور کے این اے 122 کے لیے جس طرح آزاد میڈیا نے ہیجان آمیز نشریات کا طوفان کھڑا کیا وہ بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ اس میڈیائی مہم میں بڑے بڑے اینکر شامل رہے اس لیے اس کے خلاف بولنا فیشن کے خلاف ہے۔ اِس قدر بڑی میڈیا مہم کے باوجود محض 40 فیصد کے قریب لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔ لاہور اور اوکاڑہ دونوں ہی میں الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ حد سے زیادہ ہے مگر لوگوں کا بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نہ آنا عوام میں میڈیا کے اثر کا پردہ چاک نہیں کر رہا؟ تشہیر جب حد سے زیادہ ہونے لگے تو پھر الٹی گنگا بہنے لگتی ہے۔ اس الٹی گنگا کو سرعام بہتے تو گیارہ اکتوبر کو ہر ایک نے دیکھا مگر مقتدر میڈیا کو بھلا کون سمجھائے؟ حکمران مسلم لیگ(ن) کلثوم نواز کے بھانجے کو نہ بچا سکی جبکہ اوکاڑہ میں ’’جج‘‘ نے انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ مگر وہ محض ایاز صادق کی فتح کا جشن منانے میں غلطاں ہیں۔ این اے 122 کی فتح بڑی کامیابی ضرور ہے مگر اس کامیابی کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے؟ کیا یہ سبق کافی نہیں مستقبل کی پیش بندی کے لیے۔ نئی انتخابی اصلاحات کی آمد کے بعد حکمران بننے والی سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کے چند اہم لیڈر حکومتی عہدوں پر نہ بیٹھیں۔ یہی وہ دباؤ ہے جو سیاسی جماعتوں کو اِس بات پر مجبور کرے گا کہ سیاسی پارٹی کی بطور جماعت الگ حیثیت برقرار رہے اور پارٹی کے اہم عہدیدار اور وزراء الگ الگ ہوں۔ اگر 2018ء تک جمہوری تسلسل برقرار رہا تو سیاسی جماعتوں پر اپنی صف بندی کرنے اور باختیار ادارے بنانے کے حوالہ سے کارکنوں اور عوام کا دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان تحریک انصاف علیم خان کی چمک کے باوجود انتخاب ہار گئی کہ ان موصوف کے خلاف خود پی ٹی آئی میں ایک موثر گروپ موجود ہے۔ مگر عمران خان اس سبق کو یاد نہیں رکھنا چاہتے کیوں؟ اس بارے یا تو عمران خان بتا سکتے ہیں یا علیم خان کہ دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ اوکاڑہ میں جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا اس سے نہ صرف عمران خان کو دھچکہ لگا بلکہ وہ گمراہ کن تاثر بھی ہوا ہو گیا جس کے ذریعہ 2011ء سے’’ معصوم پیپلیوں‘‘ کو بغض نواز شریف میں تحریک انصاف کے نزدیک کیا جا رہا تھا۔ نہ عمران کا جلسہ کام آیا نہ ہی پی پی پی پر شب خون مارنا، الٹا اشرف سوہنا کی تو ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ اشرف سوہنا کی شکست سے سبق حاصل کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کی قیادت ’’جج‘‘ صاحب کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے کمر بستہ نظر آئی۔ ’’جج‘‘ نے علیم خان کی طرح پیسے بہت خرچے تھے مگر اس کو فیصلہ کن کامیابی دلانے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ناراض لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ تو اور بھی زیادہ گھمبیر ہے کہ پنجاب کے دل لاہور میں پیدا ہونے والی یہ پارٹی اب صوبہ پنجاب میں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرح چند سو ووٹ لے پاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس یہ پارٹی پنجابیوں کے دل جیتنے کی بجائے پنجاب کو توڑنے میں غلطاں ہے۔ بلاول بھٹو کو نئی ٹیم اور نئی لائن بنانے سے جو بھی روک رہا ہے وہ نہ تو پیپلز پارٹی کا ہمدرد ہے نہ ہی بلاول بھٹو کا۔ پیپلز پارٹی کے راہنما محض ٹاک شو میں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں مگر وہ گلی، محلوں اور پنڈوں میں مقیم پیپلز پارٹی کے ورکروں کے پاس جانے سے گریزاں ہیں۔ پنجاب میں آمدہ بلدیاتی انتخاب میں اگر پی پی پی کارکردگی نہ دکھا سکی تو پھر 2018ء کو اس کے ’’جنازے‘‘ کو نہ تو کوئی کندھا دے گا اور نہ ہی ’’فاتحہ خوانی‘‘ کے لیے آئے گا۔ اصل مسئلہ انتخابی شکست نہیں بلکہ انتخابی عمل میں نظر ہی نہ آنا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بدترین صورتحال کو کسی بھی طرح طالبان کے کھاتے نہیں ڈالا جا سکتا کہ اس کی بنیادی وجہ تو پنجاب مخالف پالیسیاں، کارکنوں سے رابطہ کا فقدان اور پنجاب میں غیر ذمہ دار قیادت ہی ہے۔ گیارہ اکتوبر کو دو قومی اور ایک صوبائی نشست پر ہونے والا انتخابی معرکہ اپنے اندر سیاسی جماعتوں، آئینی اداروں اور آزاد میڈیا کے لیے بہت سے اسباق لیے ہے۔ یہ وہی اسباق ہیں جن بارے 2011ء کے بعد خصوصی طور پر بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ مگر ہر کوئی اپنے چاک گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش میں مبتلا ہے۔ میڈیا، فوج سمیت کوئی ایک ادارہ یا کوئی ایک سیاسی جماعت تن تنہاء کچھ نہیں کر سکتے، یہ بات جتنی جلدی سب سمجھ لیں اتنی جلد ہم مسائل کے حل کی طرف بڑھنا شروع کر سکیں گے۔ الیکشن ڈے پر پولنگ سٹیشنوں پر دھونس، زبردستی اور ملی بھگت کو روکنے کے لیے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی ایک مسئلہ ہے مگر قبل از پولنگ ڈے مقتدر قوتوں اور پیسے کی چمک کو انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہونے دینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا حل سکیورٹی اداروں کے پاس نہیں بلکہ اس کے لیے انتخابی اصلاحات سے گذرنا لازم ہے۔ انتخابی عمل میں مقتدر قوتوں بشمول حکمرانوں اور کروڑوں اربوں روپوں سے کی جانے والی سرعام مداخلتوں کو روکنے کے لیے سیاسی تصفیہہ کے ذریعہ اگر کوئی بندوبست نہ بنا تو پھر انتخابی عمل پر سوالات اٹھتے ہی رہیں گے۔ اس تمامتر صورتحال میں عوام کے علاوہ دوسرا بڑا مظلوم سیاسی کارکن ہیں۔ وہ چکی کے دونوں پاٹوں میں پستے ہیں اور ان میں سے کچھ ’’چمک‘‘ کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنی پارٹی سے ناراض ہو کر وہ ’’بغض معاویہ‘‘ میں ایسا انتخاب کرتے ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ بُرا ہوتا ہے۔ بھارت میں کانگرس کی غلط پالیسیوں سے تنگ آ کر بہت سے کانگرسیوں نے بی جے پی جیسی بنیاد پرست جماعت کو ووٹ دے ڈالے تھے اور آج وہ سب اپنے اس گناہ کو بھگت رہے ہیں۔ ایسا ردعمل عموماً سیاسی کارکنوں کو اندھی گلی میں لے جاتا ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج میں اشرف سوہنا کے انجام سے یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ سیاسی کارکن ردعمل میں فیصلے کرنے سے گریز کریں۔ جیسے امریکہ، برطانیہ نے روس کو ختم کرکے طالبان اور القاعدہ کو پنپنے کا موقع فراہم کیا ویسے ہی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ختم کرکے مسلم لیگ (ن) نئے جنجال میں پھنستی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک میں تین وفاقی پارٹیاں ہیں اور ان تینوں کے پاس ایک ایک صوبائی حکومت بھی ہے۔ ایسے میں اگر یہ سب مل کر عوامی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمہوری کھیل کے اصول طے کر لیں تو پھر یہ آئینی اداروں اور میڈیا کو بھی جمہوری راستے پر لانے کے لیے دباؤ بڑھا سکیں گے۔ بصورت دیگر ہم سب مل ملا کر لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ کر عملی تفسیر بنے رہیں گے۔ 

Thursday, October 15, 2015

How the Britain was lost by US in 2nd World War..Review of Peter Clark Book


How the Britain was lost by US

in 2nd World War

Review of Peter Clark Book by Aamir Riaz

We in South Asia have to rewrite their history for once. How many of us have heard about infamous LEND-LEASE ACT, From 1941 till 1945 under the act a total of $50.1 billion (equivalent to $656 billion today) worth of supplies were shipped, or 17% of the total war expenditures of the U.S.[2] In all, $31.4 billion went to Britain, $11.3 billion to the Soviet Union, $3.2 billion to France, $1.6 billion to China, and the remaining $2.6 billion to the other Allies. Reverse Lend-Lease policies comprised services such as rent on air bases that went to the U.S., and totaled $7.8 billion; of this, $6.8 billion came from the British and the Commonwealth.i don't know many readers knew about these facts yet I can myself accept that after reading about the Act passed by US assembly cleverly I have to revisit post 1937 history of the world and perticularly of South Asia. How many people had an eye on it during 1940s is still a big question mark. The first major effect of Lend and Lease Act was  Atlantic Charter signed at 14 August 1941. Britain and France signed it first and then till December 1941another 24 countries including Russia, China, etc had endorsed it in a conference held at Washinghton. All got huge US fundings. It was another big victory of US after 1918 14 Points presented by then US president Woodrow Wilson. Both documents supported end of colonialism smartly. It marked as bigining of the End of colonialism and birth of a planned Cold War. In 1943, it was Soviet Union who disbanned 3rd International, the pionier communist international organization and later formed Com-in-form , a pro-soviet lobby. Chinese used Lend and Lease arms against the King. So that Act played an important role during 1940s. 
When Wilson was calling Shorts after WW1,It was Allama Iqbal who smelled it in-time and warned the Empire to listen what Wilson said. His address was on the record at Mochi Gate public meeting presided by Mian sir Fazl e Hussein organized by Lhorites in protest of Jallianwala Bagh massacre, also known as the Amritsar massacre in early 1919. But when Roosevelt unfoldef post Lend and Lease politics , few were aware from its impacts. Had UK accepted dominion status for all colonies instead of few after WW1, things may be different for her in 1940s. Out of 8 points in Atlantic Charter at lea st three were in favor of decolonization. 
  1. No territorial gains were to be sought by the United States or the United Kingdom;
  2. Territorial adjustments must be in accord with the wishes of the peoples concerned;
  3. All people had a right to self-determination 
Peter Clark, a British Professor simply argued that why his leaders hide facts even in the parliament. His book The Last Thousand Days of the British Empire along with Mr Plokhy's book Yalta: The Price of Peace played an important role in unfolding hidden politics well.
What we in South Asia teaching our children in Text books and what our court historians or smart anti-colonial historians are writing since 1947 is completely different from what Peter explored from 5000 pages letter exchanged between Winston Churchill and Franklin D. Roosevelt. Why after 67 years we South Asians are still stick with official British position. If we understand it then we can understand post Soviet politics well. From G8 till G20, Britain tries to regain old gllory but he failed to smell New Global alliences. Now read the Review i did for 
Weekly HumShehri at late 2014.


Politics, Extremism,Religion, Education, Textbooks & Youth...Myth and Reality


Politics, Extremism,Religion, Education, Textbooks  & Youth...Myth and Reality

In this post you will find some articles Published in daily AJ KAL during 2010. I will try to add other articles too








Saturday, October 10, 2015

Study findings: ‘Textbooks full of gender, urban biases’ Tribune


Study findings: ‘Textbooks full of gender, urban biases’

Published: October 5, 2015




                                                        
ISLAMABAD:An expert through a detailed study has pointed out a number of instances of gender, urban and religious biases prevalent in the Punjab textbooks.



Aamir Riaz, who has worked as a reviewer with the Punjab Textbook Board, has conducted a study on textbooks published by the board for the year 2014-2015. The study covers English, Ethics, Islamiat, Urdu and Pakistan Studies from class one to 10.
Riaz, while sharing findings of his research in his presentation at a literature festival here last Friday, said textbooks favoured urban living over rural living. He said that the English textbooks were particularly full of urban bias.
Riaz said that urban bias was visible in the titles of Urdu books too.
He said that religious and sectarian bias was noted in books of Pakistan Studies. Riaz said that in some books an anti-India mindset was being promoted. He said that unfortunately praise for military dictators was still part of the textbooks.
He said that the role of military governments in the weakening of the process of nation-building hardly got mentioned.
Riaz said that representation of gender across textbooks was questionable on normative grounds. While citing example of gender bias, he said that mixed public gatherings might not get acknowledged by an author. Similarly, he said a girl might always get shown doing household chores in illustrations in a textbook.
Riaz lamented that women were associated with numerous trades but under the influence of a specific mindset, somehow we did not want to accept it.
He said that in some instances some positive development had also taken place. Some sections of books now promote religious tolerance and plural values, he said.
Riaz said that introduction of a book of ethics in the province back in 2010 was a good step but trained teachers and markers were needed who had yet to be recruited.
Published in The Express Tribune, October 5th, 2015.

Note: There are two errors in the reporting. I reviewed textbooks of PCTB as independent researcher. At CLF i have the presentation with me but unfortunately due to some technical fault at CLF, i cannot show it to audience at that meeting yet i shared it with reporter. Thanks
Regarding Urban Bias, rejection of diversity, twists in history Public and private textbooks including elite school textbooks have numerous deficiencies. 

Wednesday, October 7, 2015

Of satire and humour: A Review of the book READ NO EVIL



Of satire and humour

The book is a real treat to peruse and ponder; the author has candidly sought to unveil the grossness of human behaviour in the typical Pakistani perspective

The link of Newspaper
http://www.pakistantoday.com.pk/2015/10/03/features/of-satire-and-humour/


Mohammad Ali Khan’s Read No Evil is a book of satire and humour meant to censure the vices and evils rampant in the society. The title of the book is reminiscent of the popular American fiction writer Steven W White’s e-published fantasy novel Read No Evil – ‘a thrilling novel of suspense that challenges the perception of readers with altered text, hidden codes and other clues not found in conventional fiction’.
But the analogy cannot be stretched any further as in the former book, the unwary reader is led to perceive a volley of satiric attacks on evils like pride, vanity, hypocrisy, misanthropy et al in the form of an interior monologue juxtaposed in sharp contrast to the fantastic ‘Sci-Fi’ world of make-believe, pivoted on the possibilities of ‘computer intelligence’, in the latter book.
Satire is a popular literary genre concerned with social criticism on a wider scale. Sometimes it is harsh and unrelenting like Swift’s but for the most, it is camouflaged in a seemingly harmless verbiage prima facie seeking to amuse the reader. Irony, sarcasm, innuendo, inversion, inflation, and wit are its cardinal elements.
Noted American satirist Ambrose Bierce viewed satire, although pessimistically, as ‘an obsolete kind of literary composition in which the vices and follies of the author’s enemies were expounded with imperfect tenderness’. The actual pitted against the fictive and vice versa is a common practice with literary satirists. Swift excelled in the art when he employed allegory to disguise his satiric designs.
The book in view has been dexterously designed to denigrate the vices and evils rampant in the society. Since satire evokes humour, the hall-mark of a true humourist is his ability to laugh at himself which the author here does in abundance. For all his pride and arrogance, the humourist (or satirist) might rail at the whole human race, including his own stock and milieu, but he would rarely forget that he himself was a member of it. This is the impression that a thoughtful reader is apt to gather from a reading of the text in this case. The diction is pungent while its ironic implications are incisively pertinent to the contemporary socio-cultural scenario.
The book encloses some twenty-eight chapters which the author denominates ‘self-essays’ purported to be ‘the result of a fit of (a long-drawn) creative drunkenness’. He further elaborates that ‘this book is not strictly limited to the upwardly mobile strata of our society; humour and satire is for everyone’. According to him ‘the various topics discussed herein take a critical look at the various aspects of our society and culture’. The protagonist of the essays might be the author’s own persona but the themes in more than one way are highly ‘relatable’.
The titles of the essays bear a schematic design consistent with their actual import e.g.,Cinderella – the Un-bed StoryTo Retire from Religion, Pakistani Mythology, Tickle Your Soul, Save the Rooster, Son of the Soil, Geography Unearthed, Team Work, The Whole Tooth, Islamabad, The Morning Predicament, The Devil in Pattaya, Beware of Dog, and A Conversation. The satirist knows which targets are worthy of abuse; he aims at them with marked conviction and concision, too.
Some excerpts from the book would highlight its ruling attributes foreshadowing its curt satiric intent:
‘We neither expect the Mufti to carry all the religious symbols nor expect the Pope to jeopardise his career by getting married. Nevertheless, if secularisation of religiosity could further lead to retirement of these religious persons it would be a great gift to the human world.’ (To Retire from Religion)
‘Pakistan was created in the past and it remains so for over six decades now. All the school children of the country believe its creation to be a past event and if need be, they cautiously refer to it in future anxious.’ (Pakistan – A Grammatical Perspective)
‘To the ascetic his tirade, at places focused on human infirmities including the sensual, might seem a little obscene, but then obscenity is a part of life and hence it cannot be estranged from literature’
‘Politically speaking, Pakistan is supposed to be an Islamic Democratic Republic, which on a practical level carries none of those attributes. The micro-bikini of democracy is specifically designed to prolong the ecstasy of a few who refuse to reach the climax of their greed.’ (Pakistani Mythology)
‘I am the only human being who can unabashedly lay claim to belonging to Islamabad without having to explain where I originally came from. How many of us can make that claim? Let us be realistic, no one. This does arouse jealousy in the human heart, but then my family did not come with a mandate to change hearts.’ (Son of the Soil)
‘The land inhabited by the humans is called real estate. Despite the overwhelming ratio of water in the constitution of the Earth, humans prefer to live on land whilst having swimming pools in their backyards.’ (Geography Unearthed)
‘The hoard of cars and taxis at an intersection, offers a special case study in individual pragmatism. Without any prejudice towards the volume of traffic, which is an indirect result of years of the nation’s favourite nocturnal pastime, the problem that it creates for the person on the main road is unspeakable.’ (Taken for a Ride)
‘Armed to the chest, she is rumoured to have squeezed her way forcefully through the various facets of life, ensuring her promotion on a regular basis. The importance given to her by the hopeful male fondlers in the office is exemplary… Her female colleagues can do nothing but scorn her behind her back.’ (TeamWork)
‘The concept behind this trail (Trail Three, a popular walking track in the Margallas) originally was to provide egoistical levity to the high and mighty living in Islamabad. The elite were supposed to climb their way up the mountain, discuss metaphysical aspects amongst each other and finally look down upon the entire city. In case these activities resulted in shedding of physical weight, was purely incidental.’ (Islamabad)
‘The mere fact that two persons face off, albeit across a flimsy separation called net, exudes competitiveness. Had it been for the people of the Sub-Continent to develop the rules of the game (Tennis), their inane nature would have forced both players to stay on the same side of the court in a spirit of friendship and be the winners at the same time, thereby marking the end of competition and excellence.’ (Sports Illustrated)
‘I looked around sheepishly to observe if the spectators in the hall were watching me to find out if my face gave away my dark side. For a person brought up in layers of artful hypocrisy, this was a natural reaction. To my surprise, however, everyone seemed to be keenly watching the show, unaware of my presence… There was perhaps nothing evil about it; if it had been, some entity might have tried to stop it. There was no Satan amongst us; only humans. Perhaps this was not even the time to think about vice and virtue. The girls were virtuously going about their act whilst the spectators watched them with reverent appreciation.’ (The Devil in Pattaya)
All said, the book is a real treat to peruse and ponder. The author has candidly sought to unveil the grossness of human behaviour in the typical Pakistani perspective. To the ascetic his tirade, at places focused on human infirmities including the sensual, might seem a little obscene, but then obscenity is a part of life and hence it cannot be estranged from literature. Herbert Read has already classified vulgarity into the one badly done and the other, nicely done. The latter adorns literature, cf. Lawrence (DH) and Manto.
Read No Evil
Author: Mohammad Ali Khan
Publishers: New Line/Readings, 12-K, Gulberg 2, Lahore
Pages: 193; Price: Rs350
Another Link
EXTRACTS OF THE BOOK

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...