Saturday, October 17, 2015

Hate Speech among Youth in Pakistan: Media & Education played vital role


Hate Speech among Youth in Pakistan


Media & Education played vital role

Why we failed to promote tolerance among Youth? Why social media is full of biases? How our universities, scholars, textbook writers, journalists, intellectuals etc are busy in spreading hate in general? These are the basic questions. Few weeks back, i tried to address these issues in a Two Part series in The News on Sunday and this article is in continuation. It is with reference of a survey of Bargad.
Ethnic and linguistic biases play equal role in spreading hate speech, according to the report. The alarming revelation is about the role of teachers and seniors who play a very negative role. More than 55 per cent students said they have experienced hate speech from their friends and superiors.


تعلیم یافتہ نوجوان میں نفرت کا فروغ اور ہمارا میڈیا 
عامر ریاض۔۔۔۔۔ صفورا چورنگی پر فرقہ واریت کے بد ترین واقعہ میں کراچی کے اعلیٰ ترین ادارے سے تعلیم یافتہ نوجوان کی گرفتاری کا سن کر کم از کم مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا تھا کہ جن نفرتوں کو ہم بذریعہ نصاب و میڈیا پھیلاتے رہے ہیں اس کا ایک نہ ایک دن یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ کراچی سے خیبر تک، موجود سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ اور دیگر عملہ میں آپکو جابجا ایسے مخصوص ذہنی رجحان کے حامل خواتین وحضرات سے پالا پڑتا ہے جو اختلافات کو برداشت نہ کرنے کی روشں میں مبتلا ہیں۔ شاندار علمی ریکارڈ رکھنے والی یونیورسٹیوں کو برباد کرنے میں گذشتہ37سالوں کے دوران بڑا کردار تو ریاست کے ’’پہرے داروں‘‘ نے سرانجام دیا تو دوسری طرف تعلیم کو مادرپدرنجی شعبہ کے حوالہ کرنے یعنی تعلیم کو محض منفعت کا ذریعہ قرار دے کررہی سہی کسر بھی پوری کرچکے ہیں۔ یاد رہے، ان دونوں بدترین عوامل کا آغاز جنرل ضیاالحق کے’’اسلامی مارشل لاء‘‘میں ہوا جبکہ ان کو عروج جنرل پرویز مشرف کے ’’سیکولر مارشل لاء‘‘ میں حاصل ہوا۔ مارشل لاء نیک ہویا بد، سیکولر ہویا اسلامی، بدنیتی سے لگایا جائے یا کسی اعلیٰ عرفہ مقصد کے تحت، اس کا نتیجہ نسلیں بھگتتی ہیں کہ یہ اداروں کی تنزلی ہی سے عبارت رہتا ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جس میں قومیتی، لسانی، جغرافیائی، مذہبی مسلکی رنگارنگی بھی ہے اور لامتناہی سرحدیں بھی کہ یہاں مارشل لاء یا آمریت انتشار پھیلانے والوں کی جنت بن جاتا ہے۔ گورنیس(طرزحکومت) سے تعلیم تک یہاں ایسے ایسے تجربے کیے گئے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ تعلیم کے شعبہ پر تو خاص کرم رہا کہ ایوب، یحیٰ، ضیا اور مشرف کے دور میں اس کی خوب درگت بنی۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں علم پر پہرے لگے اوردو نمبر پی ایچ ڈیاں کرنے والوں کی بھرمارسے ان کا حلیہ بگڑ چکا ہے جبکہ نجی یونیورسٹیاں پیسہ کمانے کی مشینیں پیدا کررہی ہیں۔ تعلیم کا علم سے رشتہ ہر جگہ ٹوٹ چکا ہے کہ ایسے میں نوجوانوں میں انتہا پسندیوں کا در آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ ان انتہاپسندیوں کا سب سے بڑا ثبوت نوجوان طلباء و اساتذہ کے رویے ہیں جن میں اعتدال پسندی کی بجائے اضطراب، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے ماردھاڑ اور رواداری کی بجائے انتقام نمایاں ہے۔ہر کوئی مانتا ہے کہ انسانوں پر ظلم کی بدترین شکل غلامی ہے اور غلاموں میں سب سے خوفناک مثال ان ذہنی غلاموں کی ہوتی ہے جو خود کو’’آزاد‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی مثال ایسے پرندے کی ہوتی ہے جسے’’پر‘‘ کاٹ کر پنجرے سے’’ آزاد‘‘ کردیا ہوتا ہے۔ یہ اپنے بزرگوں کی خوبیوں ، خامیوں پر نظر نہیں رکھ سکتے کہ انہیں تو بغیر تحقیق ہر وقت بزرگوں کو مورد الزام ٹہرا کر جعلی خود اعتمادی کو مقدم رکھنا ہوتا ہے۔ 

انگریزی میں اسےIllusion of Freedom کہتے ہیں کہ پاکستانی پڑھے لکھے نوجوان بارے جس تحقیق کا احوال آپکے روبرو ہے اس میں’’آزادی کے واہمہ‘‘ بارے خوب خبر ملتی ہے۔ اگر آپ تعصبات سے ہٹ کر تجزیہ نہیں کرسکتے، اگر آپ خوبیوں اور خامیوں ، کامیابیوں اور ناکامیوں کو سامنے رکھ کر تحقیق نہیں کرسکتے تو پھر آپ اُس پرندے کی مانند ہیں جسکے ’’پر‘‘ کاٹ کر پنجرے سے باہر کردیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں کام کرنے والی تنظیم’’برگد‘‘ نے حالیہ دنوں میں امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ برائے امن(USIP) کے تعاون سے پاکستان کی 14 سرکاری ونجی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوانوں میں ’’میڈیا اور نفرت انگیز بیان یعنی Hate Speechکے حوالہ سے تحقیق کروائی۔ یہ تحقیق انتہا پسندی کے حوالہ سے ہمارے بہت سے خود ساختہ مفروضوں کو توڑنے کی بھی اک کوشش ہے۔ جن یونیورسٹیوں میں یہ تحقیق کی گئی ان کا تعلق خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور پنجاب سے تھا۔ 

۔ ہم امید کرتے ہیں برگدمستقبل میں اس تحقیق کو زیادہ بڑے پیمانے پر کرے گا تاکہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ ہمارے نوجوان میں انتہا پسندیاں کیوں بڑھ رہی ہیں اور انتہا پسندیوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں اور میڈیا میں کونسے اقدامات کرنا چاہیں۔ تحقیق میں نوجوانوں سے جو18سوالات پوچھے گئے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ -1 کیا آپ نفرت انگیز بیان(Hate Speech)سے واقف ہیں؟ -2 کیا آپ بھی اشتعال انگیز بیان کا شکار ہوئے؟ -3 کیا آپ کبھی میڈیا اور متبادل میڈیا/سماجی میڈیا پراشتعال انگیز جملوں کا شکار ہوئے؟ -4 آپ کے خیال میں نفرت انگیز بیان کہاں زیادہ عام ہیں ؟ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ۔ -5 کیا آپ نفرت انگیز مواد کے خلاف کسی موجودہ پاکستانی قانون سے آگاہ ہیں؟ -6 نفرت انگیز مواد کو ختم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار زیادہ کارآمد ہے؟ طلباء کی کثیر تعداد یعنی 91.2 فی صد نے اقرار کیا کہ وہ نفرت انگیز بیان سے واقف ہیں۔ حتٰی کہ 51.2 فی صد طلباء نے یہ تک بتایا کہ وہ خود نفرت انگیزیوں کا شکار رہے ہیں۔ 15.2 فی صد طلباء نے بتایا کہ ان نفرت انگیزیوں کی وجہ ان کا مذہب یا فرقہ تھا جبکہ اسی تناسب کے ساتھ طلباء نے نفرت انگیزیوں کی وجہ زبان یا قومیت بھی بتائی۔ اب ہمارے ہاں تو نفرت انگیزیوں کی واحد وجہ مذہب یا فرقہ ہی کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ تحقیق میں زبان اور قومیت کی وجہ سے پھیلائی جانے والی نفرت انگیزیوں کا تناسب برابر ہی ہے۔ تقریباً 21 فی صد طلبا نے نفرت انگیزیوں کی وجہ نقطہ نظر کو قراردیا جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہماری سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔اسے انگریزی زبان میں’’اکیڈیمک فریڈم‘‘ کہتے ہیں کہ اگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علمی ماحول نہیں ہوگا تو پھر ہم’’ دولے شاہ‘‘ کے چوہے ہی پیدا کریں گے۔ علمی ماحول کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ آپ یونیورسٹی میں دوران لیکچر ہر طرح کا سوال کرسکیں اور ہر ممکنہ پہلو کو زیر بحث لاسکیں۔ مگر جب یونیورسٹی کے اساتذہ ہی دونمبر پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھتے ہوں گے تو بھلا ان سے تحقیق کی امید کون کرے۔ جب یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلباء میں مکالمہ ہی نہ ہوگا تو پھر اختلافات کو تحمل سے سننے، سمجھنے کا حوصلہ نوجوانوں میں کیسے پنپے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اور اساتذہ یونیورسٹیوں میں یا تو مناظرہ کرتے ہیں یا پھر تقدس کے نام پر انہیں خاموش کردیا جاتا ہے۔ یہ تقدس کبھی مذہب کے نام پر لاگو ہوتا ہے ، کبھی ڈسپلن کی آڑ لیتا ہے تو اکثر قوم پرستی کے نام پر اسے نافذ کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی صوبائی سطح پر ہویا ملکی سطح پر طلباء کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں کو دبانے کے حوالہ سے اس کا اثر انتہائی مہلک پڑتا ہے۔ ایسے طلباء کا تناسب بھی خاصا تھا جن کے مطابق یونیورسٹیوں میں نفرت انگیزیوں کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔ یہ حقیقت حال سے راہ فرار کا مخصوص انداز ہے جسے عرف عام میںState of denialکہا جاتا ہے۔ راہ فرار کا تعلق بھی عملی تنزلی ہی سے ہے کہ اس مسئلہ کو بوجوہ ہماری یونیورسٹیاں حل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیاں اور اُن کے پیدا کردہ دانشوروصحافی خود راہ فرار کی مجسم تصویر ہیں۔ 28 فی صد طلباء اس بات پر متفق تھے کہ نفرت انگیزیاں پھیلانے میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ترین ہے۔ یہی نہیں بلکہ تقریباً 48 فی صد طلباء نے برملا یہ بتایا کہ نفرت انگیزیاں پھیلانے والوں میں 21 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان پیش پیش ہیں۔ سوشل میڈیا یعنی ٹویٹر،فیس بک ، بلاگ وغیرہ پر تو آج ہر نوجوان براجمان نظر آتا ہے کہ اسے ایسا میڈیا کہا جاتا ہے جس میں’’ایڈیٹر‘‘ نہیں ہوتا۔ یہاں آپ کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنے تعصبات،تفاخر اور اخلاقیات کا خود ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اب اگر 21 سے30سال کے نوجوان نفرت انگیزیاں پھیلانے میں ملوث ہیں تو آپ ان کی اخلاقی تربیتوں اور رواداری بارے خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سروے نے بھی یہی بات اعدادوشمار سے ثابت کی ہے جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔ اسی سروے میں سب سے حیرت ناک انکشاف جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ حالت زار کا شافی ثبوت ہے۔ 82 فی صد طلباء اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان میں نفرت انگیزیوں سے نمٹنے کے حوالہ سے کوئی قوانین موجود ہیں؟ نہ تو انہیں تعزیراتِ پاکستان کے ماڑے، چنگے قوانین کا علم ہے نہ ہی انھوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ1996کی دفعہ153-A بارے سنا ہے جس میں نفرت انگیز بیان سے نمٹنے کا ویژن شامل ہے۔ یاد رہے، یہ سب یونیورسٹیوں کے طلباء ہیں جو محض انٹرنیٹ پر بیٹھ کر بھی ان قوانین کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان خود تحقیق کرنے کے جذبہ سے عاری ہیں اور ہمیشہ کسی ’’مصلح‘‘ کے منتظر رہتے ہیں۔ سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوجوانوں نے نفرت انگیزیوں کا ذکر تو سن رکھا ہے، وہ اکثر و بیشتر نفرت انگیز حرکتوں کی نشاندہی بھی کردیتے ہیں۔ مگر اس جنجال سے باہر کیسے نکلا جائے؟ اس بارے ان کے جوابات انتہائی کمزور تھے۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ نصابی کتب نے ان کے اذہان کو کیسے کیسے تعصبات سے بھر دیا ہوا ہے۔ اگر انہیں ملک میں موجود ایسے قوانین ہی کا علم نہیں جو نفرت انگیزیوں کے خلاف بنائے گئے ہیں تو پھر وہ انہیں بہتر بنانے یا ان پر عملدرآمد بارے کیسے سوچ سکتے ہیں؟ آپ چاہیں تو ’’برگد‘‘ کی یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر پڑھ سکتے ہیں کہ آپکو ازخود اندازہ ہوجائے گا کہ انتہا پسندی کا زہر ہمیں کس حد تک گھائل کرچکا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو