Who will control
Indian Extremists or Hindu Talibans?
Returning awards is a good move yet it is important for intellectuals
to accept riddles of freedom narrative too. All this is happening in a country which
itself is the world's largest democracy. Why Indian security agencies failed to
control Shiv Sena ? Or they are asserts of Indian establishment.
Nandini Krishnan rightly found roots of
fundamentalism from colonial times but writers like Nandini and Harbans Mukhia and
many other intellectuals, failed to identify their own follies and bad policies
in India from last 68 years. Why they
are in state of denial? It is true that
the British Indian government, their court historians and bureaucracy had played
with the religion extensively, but fundos who born during that colonial twist
were declared Heroes in post partition times. The famous Indian scholar, educator and writer
Krishan Kumar and famous Indian progressive intellectual Shabnam Hashmi map
rise of fundamentalism from 1960s. London based Farooq Bajwa and Indian writer
Dilip Hero agreed with Kumar and Hashmi in their books. India has a strong
'Hinduism Wrap narrow nationalism' strengthen after the Indian defeat from China
in 1962 and anti-Pakistan cold war. Now many
Indian writers are pinpointing roots of fundamentalism in post independence
India. Instead of blaming foreigners for
every crime & bad policies, it is high time for Indians to revisit their
narrative. Mody and BJP is ultimate
result of bad policies of Congress and South Hall.
It is time to revisit following questions
·
Delinking Freedom Narrative from lawlessness,
extremism and Fundamentalism
·
As a first step to reduce Pak-India tensions,
delink it from religion
·
Congress cannot justify herself merely by
pinpointing bad policies of BJP and Shiv Sena but it has to accept his bad
policies too.
·
Anti China Campaign will strengthen Shiv Sena
like narrow nationalists. Front Line State phenomenon already ruined Pakistan from within after Afghan Jihad So India better learn lesson and avoid "blessings" of Front Line State phenomenon
- Click and read complete Article here بھارتی ’’طالبان‘‘ سے کون نمٹے گا
’’طالبان‘‘ ایک رویے کا نام ہے جس میں مخالفین کو ’’نکرے‘‘ لگانے کو اولیت حاصل ہے۔ عرف عام میں اسے عدم برداشت کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں اس رویے اور عمل کے لیے فاشٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ اپنے مخالفین پر غداری، وطن دشمنی اور مذہب دشمنی کے الزامات سے وار کرتے ہیں۔ ان کی ڈکشنری میں’’مفاہمت‘‘ کالفظ نہیں ہوتا اور ان کی اولین ترجیح اقتدار پر قبضہ سے عبارت ہوتی ہے۔ اقتدار پر قبضہ کے بعد یہ تمام مخلوق پر من مرضی کے قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ روسی، امریکی، برٹش، بھارتی، پاکستانی، افغانی بھی ہوسکتے ہیں اور ان کا تعلق اسلام، مسیحت، ہندومت، بدھ مت وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر ان میں مشترک خاصیت دھونس، مارپیٹ اور دوسروں کو دباناہی ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی گھٹی انہیں ابتدائی دنوں ہی سے مل جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مخالف کونیست ونابود کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ 27 اکتوبر کومدراس سے تعلق رکھنے والی مشہور بھارتی لکھاری نندینی کرشنن نے بھارتی میڈیا میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان تھا’’بھارت میں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتا ہے؟‘‘۔ مضمون کا عنوان ہی آپ کو بہت سی باتیں سمجھا دیتاہے۔ ایک آزاد، جمہوری و سیکولر ملک میں نندینی جیسے بااثر لوگ بھی اگر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ جائیں تو پھر چوکنا تو ہونا ہی پڑتا ہے۔ نندینی کا کہنا ہے کہ آج بھارت میں عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والیوں کو’’زنا باالجبر‘‘ کا خطرہ ہے۔ وہ ادیب جو بلاخوف لکھنا چاہتے ہیں انہیں قتل ہوجانے کا دھڑکہ ہے۔ وہ صحافی جو حقائق پر مبنی رپوٹنگ کرتے ہیں انہیں یہ خوف کہ کسی بھی چوراہے پر ان کا منہ کالا کردیا جائے گا۔ جو لوگ بھارتی حکمران جماعت کے خلاف ہیں انہیں بدعنوانی یا کسی دوسرے الزام میں جیل جانے کا ڈر ہے۔ یہ سب اک ایسے ملک میں ہورہا ہے جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ کیا ایک شیوسینا کو بھارتی سیکورٹی ادارے قابو میں نہیں رکھ سکتے ؟ یا پھر بھارتی اسٹیبلشمنٹ ان بنیاد پرستوں کو مخصوص انداز میں استعمال کرتی ہے۔ نندینی نے تو ان رویوں کا’’کھرا‘‘ بجا طور پر نو آبادیاتی دور سے ڈھونڈ نکالا ہے مگر نندینی، ہربنس مکھیا اور ان جیسے بہت سے دیگر دانشور 1947 سے 2015کے درمیان گذرے 68سالوں کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ آخر وہ کیوں’’نسیان‘‘کا شکار ہیں؟ یہ درست ہے کہ برٹش انڈین سرکار اور اس کے درباری تاریخ دان و بیوروکریسی مذہب سے کھیلتے تھے مگر جو انڈے بچے اس کھیل کے دوران پیدا ہوئے اگر آپ نے انہیں 1947 کے بعد جدوجہد آزادی کے ہیرو قراردے رکھا ہے تو پھر محض نو آبادیاتی پالیسیوں پر ’’تبرا‘‘کرنے سے آپ لکیر ہی پیٹ رہے ہیں۔ مشہور بھارتی دانشور، ماہر تعلیم و مصنف کرشن کمار اور مشہور بھارتی ترقی پسند شبنم ہاشمی بھارت میں بنیاد پرستوں کے مضبوط ہونے کا ’’کھرا‘‘بجا طور پر 1960کے عشرے میں تلاش کرتے ہیں۔ لندن مقیم فاروق باجوہ اور دلیپ ہیرو بھی اپنی اپنی کتب میں ان لکھاریوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ بھارت میں مضبوط ہوچکی ’’ہندومت میں ملفوف تنگ نظر قوم پرستی‘‘ کو چین سے1962میں شکست کھانے سے پیداہونے والے ردعمل اور پاک بھارت سردجنگ کے تناظر میں سمجھنے والے لکھاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب آدھا سچ بولنے کی بجائے پورا سچ بولنے کی ہمت کرنی ہوگی کہ آخر ہم کب تک ہر خرابی کا الزام’’باہرلوں‘‘ پر دھرتے رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں ہمیں جو آزادیاں ملیں تھیں وہ مذاکرات کے ذریعہ حاصل ہوئیں تھیں۔ یہ مذاکرات انگریزوں، کانگرسیوں اور مسلم لیگیوں کے درمیان ہوئے تھے کہ-3جون1947 کو اک دستاویز پر سب نے اتفاق کیا اور پھر ایک ماہ تک برٹش اسمبلی میں اس دستاویز پر بحث ہوئی۔ جولائی1947میں برٹش اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعہ’’قانون آزادی1947‘‘ کی منظوری دی تھی۔ اب اگر ’’تقسیم ہند‘‘ اک سازش تھی تو اس سازشی دستاویز پردستخط کرنے والے تمام فریق بھی سازش کا حصہ ہوئے۔مگر کانگرس بھارتیوں کو یہ کہتی رہی کہ تقسیم ہند گریٹ گیم تھی اور ہم کو مجبور کر دیا گیا۔ یہی وہ تضاد تھا جسے بی جے پی نے استعمال کیا اور ہندووں کو بتایا کہ کانگرس بھی اس سازش میں حصہ دار تھی۔یہی نہیں بلکہ کانگرس نے اس آئینی رستہ سے آزادی حاصل کرنے کو1947 کے بعد داخل دفتر کردیا اور بچوں کوجدوجہد آزادی کے نام پر جو اسباق پڑھائے ان میں قانون شکنی کو جمہوری حق قرار دیا گیا۔ اگر کسی مجرم نے بھی کسی انگریز کو قتل کیا تو اسے جدوجہد آزادی کا ہیرو بنادیا گیا کہ اس کی سب سے بدترین مثال روس، برطانیہ سرد جنگ کے مخالف وائسرائے انڈیا لارڈ میو کی جزائر انڈیمان جیسے محفوظ مقام پرپراسرارموت ہے جسے1872میں اک قیدی کے ہاتھ مروایا گیا تھا۔ تین جلدوں پر مشتمل بھارت کی سرکاری دستاویز’’جدوجہد آزادای کے مجاہد‘‘ میں اس قاتل کانام بھی موجود ہے۔ یہی نہیں وہ آریہ سماجی جو برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں اور مسیحوں کو دوبارہ’’ہندو‘‘ بنانے کی مہمیں چلاتے رہے وہ بھی جدوجہد آزادی کے ہیرو قرار پا -
جدوجہد آزادی کی گمراہ کن کہانی کوئی تنہا واقعہ نہیں جس نے بھارت میں انتہا پسندی کو جلا بخشی بلکہ1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بالعموم اور1971 کے بعد بالخصوص جس پاک بھارت سرد جنگ کو تیز کیا گیا اس کا ’’ملفوف‘‘ حوالہ مذہب ہی تھا۔ بھارت میں پاکستان کی حمائیت کو مسلمانوں کی طرفداری اور مسلمانوں یا اسلام کی حمائیت کو پاکستان نوازی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ اس بدترین رویے کی خوفناک مثالیں بھارتی دانشور محترمہ شبنم ہاشمی اور مشہور بھارتی فلم ایکٹر نصیر الدین شاہ کے بیانات ہیں جنھوں نے برملا اس بات پرتاسف کا اظہار کیا کہ آج ان کی حب الوطنی پر شک کیا جارہا ہے۔ جدوجہد آزادی کے نام پر قانون شکنی کو بڑھاوا دینا، بنیاد پرستوں کو ہیرو کہنا اورمذہب میں ملفوف پاک بھارت سرد جنگ، یہ ہے وہ پورا سچ جس کی وجہ سے آج بھارت میں خود بہت سے بھارتی بھی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ مودی یا بی جے پی تو آج اقتدار میں آئے مگر قانون شکنی ، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے اس ماحول کو پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ خود کانگرس، پنڈت نہرو اور اندراگاندھی کی پالیسیوں کا ہے۔ اب تو بہت سے بھارتی بھی کانگرس کے طلسم سے باہر نکل چکے ہیں مگر پاکستان میں ایسے دانشور بکثرت موجود ہیں جو کانگرس کی الفت میں پورا سچ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ نندینی نے صحیح لکھا کہ ’’میں نہ تو دہریہ ہوں نہ ہی پاکستان پرست یا کچھ اور۔۔ میں تو نہ حرام جانور کھاتی ہوں نہ ہی حلال۔۔ میں متمول طبقہ سے بھی ہوں مگر جن اچھے دنوں کی امید ہمیں دلائی گئی تھی میں آج بھی اسے خواب ہی سمجھتی ہوں‘‘۔ کانگرس کی ہمالائی غلطیوں کا جواب بی جے پی کی حمائیت نہیں کہ یہ بات نندینی سمیت بھارتی عوام کو آج سمجھ آرہی ہے۔ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بی جے پی یا شوسینا کی حرکتوں کو جواز بناکر کانگرس اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈال دے۔ جو کچھ جدوجہد آزادی کے نام پر1947 کے بعد ’’بویا‘‘ جاتا رہا ہے، بی جے پی اور مودی سرکار اسی کا ’’پھل‘‘ ہے۔ تاہم زحمت میں رحمت یہ ہوئی کہ مودی اور شو سینا کی حرکتوں سے بھارتی معاشرے میں عشروں سے پنپنے والا یہ ناسور چاک ہوگیا جس پر سیکولر ازم کا پردہ ڈالا جاتا رہا تھا۔ پاکستان میں تو آج تینوں بڑی پارٹیوں میں سے کوئی ایک ’’بھارت دشمنی‘‘ میں ملوث نہیں کہ بھارتی سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کو اس سے بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بھلا ہو مودی سرکار کا کہ اب بہت سے بھارتی لکھاری بھی’’طالبان‘‘ جیسی جماعتوں کی بھارت میں موجودگی کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تاہم یہ طالبان کس نے پیدا کیے؟ ان کوکون آج بھی اپنا اثاثہ سمجھتا ہے؟ اس بارے بہت سے بھارتی دانشور اب بھی’’انکاری کیفیت‘‘ یعنی (State of denial) میں ہیں۔ شاید ان کو اب بھی چین مخالف محاذ میں فرنٹ لائن بننے کا خیال ستاتا ہے۔ بھارت1962 سے چین کا زخم خوردہ ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ شکست خوردہ قوم پرستی انہیں اندھی گلی کی طرف ہی دھکیل سکتی ہے۔ اگر کل کو چین مخالف محاذ گرم بھی ہوگیا پھر شوسینا جیسی قوتیں کانگرس اور بی جے پی دونوں کو نگل جائیں گی اور بھارتی معاشرے کے ساتھ وہی ہوگا جو افغان جہاد کے بعد پاکستان کے ساتھ ہوچکا ہے۔ جیسے پاکستان میں بنیاد پرستوں کو ریاستی مفاد میں استعمال کرنے والے یہ بھول گئے تھے کہ انہیں کوئی’’باہرلا‘‘ بھی استعمال کرسکتا ہے، ایسے ہی بھارتی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی شوسینا پر اعتبار کیے بیٹھی ہے۔ شو سینا سوا ارب کے بھارت میں اک معمولی اقلیت ہے۔ اگر وہ آج یوں بھارت میں دندناتی پھررہی ہے تو یہ یقیناًیہ سب’’ پس پردہ محافظوں‘‘ کے مرہون منت ہے۔ آج بھارتی دانشور بھارت میں بنیاد پرستوں کی طاقت سے باخبر ہوچکے ہیں۔ کل کو وہ ان کے محافظوں کو بھی جان لیں گے۔ اس کھیل سے بھارت اندرون خانہ معاشرتی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف بیرون خانہ اس کے سافٹ امیج پر پانی پڑ رہا ہے۔ بھارتی دانشور صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایوارڈ واپس کررہے ہیں جو مزاحمت کی اک شکل ہے۔ مگر جب تک وہ جدوجہد آزادی سے متعلق پھیلائی گئی گمراہ کن داستانوں پر ازسرنو غور اور پاکستان دشمنی کو داخل دفتر نہیں کریں گے وہ اس گرداب میں پھنسے رہیں گے۔جب تک کتا کنوئیں میں پڑا ہے، محض بھجن پڑھنے سے پانی پاک نہیں ہوگا۔ -
No comments:
Post a Comment