Is Shirani alone in opposing Co-education in Pakistan?
Links of the Published article , click below
As par news flashed in Media Council of Islamic Ideology wants Co-education
abolished at earliest. It is reported that "Reiterating its previous
recommendation for separate systems of education for men and women, Pakistan’s
top religious body has asked the government to abolish the co-education system
within the minimum time period." For me, it is not a new news, I already
read 12"Sacred" documents related to education in Pakistan. The other
unfortunate reality is my up to date knowledge of Public Private Biased
textbooks as i am doing research since 2009 on it. The difference between what
Shirani said and what is written in education documents as well as published in
textbooks is of Atheist and Hypocrite. Since, the First Education Conference,
held at November 1947 till 2009 Education Policy there is not any single recommendation
in favor of C0-education. The reluctance about co-education is a proof of the
mindset we have regarding girls and women in general. Reflections of that
mindset are part of policies and textbooks, the end product. The case is same
regarding public and private school textbooks as you can easily find biases
based on gender, culture, religion, school of thought (sects) and urbanization
(against rural & tribal livings). I can easily trace recommendations
against co-education from 1947, 1951 reports education conferences, Sharief commission
report 1959, Hamud ur Rahman report 1966, New education policy 1969 as well
from 1972, 79, 92, 98 and 2009 education policies. Till 1969 education
policy, prepared under the guidance of General Sher Ali Patoddi and signed by
Air Marshal (R) Noor Khan, our policy makers were against separate women
universities yet there was a tiny voice headed by Jamat e Islami in its favor.
But that tiny voice got strength due to Pak-India cold war started with new
zeal in post 1965 war scenario across the borders. It was the same policy which
also recommended abolishment or nationalization of Christian missionary schools
as their working was considered a halt in propagation of Ideology of Pakistan.
In 1972 Bhutto government coined a mid-way and 1972 education policy said
"The proportion of women teachers in
primary schools will be progressively increased even if this involves lowering the minimum academic qualification
in certain areas. This will enable boys
and girls to study together in
a single school staffed exclusively by women teachers." So from that day
we are in search of women teachers. In the documents of 1979, 1992, 1998 and
2009 education policies we repeated that claim time and again. Our civil military
elite have double standards regarding co-education too. Their children are enjoying fruits of co-education
and in their personal life they are liberal enough yet for common Pakistanis
they set different rather absurd education standards. They are promoting elite education
institutions at the cost of public education. But Mr Shirani is not a hypocrite
like them and openly demands abolition of co-education system. I am a critic of
orthodox people like Shirani yet what he said is not a new thing.
مخلوط تعلیم مولانا شیرانی اور اسلامی
نظریاتی کونسل
عامر ریاض
اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا
شیرانی سے تو ہر کسی کو یہی اُمید تھی کہ ملا نے جب سے عقلی علوم یعنی معقولات (Rational Sciences)
کارستہ چھوڑ کر محض منقولاتی علوم کو “جن جھپا” ڈالا ہے
تب سے ایسے تمام مکاتب فکر کے علماء میں عقلیت سے ناتہ کمزور ہوچکا ہے۔ مخلوط
تعلیم کے خلاف ان کے تازہ بیان نے خود اسلامی نظریاتی کونسل کا مذاق بنادیا ہے۔ یہ
کہا جارہا ہے کہ اس زائدالمعیاد(Outdated)ادارہ کو اب بند کردینا
چاہیے۔ میں گذشتہ دس سال سے تعلیمی تحقیق سے وابستہ ہوں اور نہ صرف پاکستان کی اہم
تعلیمی دستاویزات کا تفصیلی جائرہ لے جاچکا ہوں بلکہ 2010 سے چھپنے والی نصابی کتب
پربھی میری برابر نظر ہے۔ شاہد اسی لیے مجھے شیرانی صاحب کا بیان پڑھ کر کوئی حیرت
نہیں ہوئی۔ جن12‘‘مقدس’’ تعلیمی دستاویزات کا جائزہ لیا گیا تھا ان میں ایک بھی
ایسی نہیں جس میں مخلوط تعلیم کے حوالہ سے واضح سفارش موجود ہو۔
یہی نہیں بلکہ صنفی تعصب (Gender Bias)کے حوالہ سے تو میں نصابی
کتب میں چھپنے والی تصاویر پر مشتمل تحقیق بھی شائع کرواچکا ہوں۔ حیران نہ ہوں،
نجی سکولوں یا سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ہماری نصابی کتب جن
نمایاں ترین تعصبات کی عملی تفسیر ہیں ان میں صنفی، دیہی، ثقافتی،لسانی ،مذہبی اور
فرقہ وارانہ تعصبات کو اوّلیت حاصل ہے۔ شیرانی صاحب پر بھلے غصہ نکال لیں مگر جو
کچھ گذشتہ 64سالوں سے ہمارے پالیسی ساز تعلیمی دستاویزات میں لکھ رہے ہیں اور جو
تصاویر ومواد ہم سرکاری سکولوں ، کالجوں میں اپنے بچوں کو پڑھا اور دکھا رہے ہیں
وہ شیرانی صاحب کے ارشادات کی عملی تفسیرہی تو ہے۔
نومبر1947 کو ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس ہویا 1951
کی دوسری تعلیمی کانفرنس،1959کا شریف کمیشن ہو،1966 کا حمود الرحمن تعلیمی کمیشن
برائے طلبا یا پھر نور خان اور شیر علی پٹودی کی تیار کردہ1969کی تعلیمی پالیسی ان
سب میں مخلوط تعلیم بارے تحفظات نمایاں ہیں۔ ایک طرف‘‘رنڈی رونا’’ یہ ہے کہ ہم
غریب ملک ہیں، وسائل کم ہیں، تعلیم کے لیے کہاں سے فنڈ لائےں تو دوسری طرف انہی
دستاویزات میں لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے بنانے کے سفارشات خود اپنا تمسخر
اڑارہی ہیں۔1969کی تعلیمی پالیسی نے تو تمام حدیں ہی پارکردیں تھیں۔ اس پالیسی سے
قبل پالیسی ساز یہ اقرار کرتے رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سطح پر نوجوانوں کی شعوری
سطح بلندہوچکی ہوتی ہے اس لیے عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کی ضرورت نہیں۔
حمودالرحمن کمیشن تک ہمارے تعلیمی پالیسی ساز خواتین کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے
کے قائل نہ تھے البتہ اک محدود اقلیت یہ تکرار کرتی رہتی تھی۔ مگر1965کی جنگ کے
بعد شروع ہونے والی پاک بھارت سردجنگ کی وجہ سے شامل ہونے والے نئے کھلاڑیوں کی
وجہ سے ماڑاموٹا اعتدال بھی جاتا رہا۔
یوں 1969 کی تعلیمی پالیسی نے عورتوں کے لیے الگ
یونیورسٹیاں بنانے کی سفارش بھی کرڈالی۔ یادرہے یہ وہی باکمال تعلیمی پالیسی ہے جس
نے مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کو نظریہ پاکستان کے خلاف سازش قراردیتے ہوئے انہیں
بند کرنے یا قومیانے کی سفارش کی تھی۔ 1972 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں سے
چو ر مملکت نے نئے پاکستان کے باسیوں کو‘‘قومی دلاسہ’’ دینے کے لیے تعلیم، صنعت
اور بڑی بڑی کمپنیوں کو قومیانے کا سیاسی فیصلہ کرڈالا۔ 1972کی تعلیمی پالیسی اسی
کشمکش کے دوران بنائی گئی تھی کہ اس میں مخلوط تعلیم کے لیے اک درمیانہ راستہ
ڈھونڈے کاآہر کیا گیا ۔ یہ کہاگیاکہ پہلی سے پانچویں تک اگر تمام اساتذہ خواتین
ہوں تو پھر پرائمری تک مخلوط تعلیم کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہ ریت میں گردن چھپانے
والی ”شترمرغ“ والی پالیسی تھی۔ 1966 کی تعلیمی دستاویز یہ بات بتاچکی تھی کہ
مشرقی پاکستان میں صرف 30فیصدی اور مغربی پاکستان میںمحض50فیصدی استاد باقاعدہ
تربیت یافتہ تھے۔مجموعی طور پرپاکستان میں50فی صد سے بھی کم اساتذہ‘‘استاد’’ کے
معیار پر پورا اترتے تھے۔ ایسے میں جب تعلیم کو قومیا لیا گیا تو مزید غیر تربیت
یافتہ اساتذہ تعلیمی بندوبست میں آگئے۔ ایک ایسی صورتحال میں جہاں تربیت یافتہ
اساتذہ ہی نہ ہوں اور عورتوں میں خواندگی کی شرح بھی کم ہو، آپ کو اتنی بڑی تعداد
میں تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کہاں سے ملنی تھیں؟
1998,1992,1979اور
2009کی تعلیمی پالیسیاں پڑھ لیں آپ کو مخلوط تعلیم کے حوالہ سے1972کی پالیسی کے
منتخب کردہ درمیانی راستہ کی تکرار ہی نظر آئے گی۔ نہ تو من تیل ہوگا نہ رادھا
ناچے گی کہ تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کی تلاش تاحال جاری ہے۔ جنس کو اوّلیت دیتے
ہوئے بنائی جانے والی پالیسی کا یہی انجام ہونا تھا۔ یہ وہ گھٹیا ذہنیت ہے جس کا
پردہ سعادت حسن منٹو نے تو 60برس قبل چاک کردیا تھا مگر ہمارے سول وملٹری
بیوروکریسی، اشرافیہ اور پالیسی ساز اس چاک گریبان پر پردے ڈالنے میں تادم تحریر”ر
جھے“ ہوئے ہیں۔
2011-12,
2009-10 اور 2014-15 کی نصابی کتب کا جائزہ لینے کے
بعد میں نے جو رپورٹیں لکھیں ان میں نمایاں ترین تعصبات میں صنفی تعصب برابر ہمارا
منہ چڑارہا تھا۔ دیہاتوں میں تو عورتیں ہمیشہ سے کام کرتی تھیں کہ گائے کے گوبر سے
پاتھیاں بنانا، جنگل بیلے سے لکڑیاں چن کے لانا، دور دور سے پانی بھر کے لانا اور
کھیتوں میں عورتوں کا بہت سے کام کرنا ، دیہی روایات کا انمٹ حصّہ تھا۔ شہروں میں
بھی گذشتہ 65 برسوں میں عورتوں کے حوالہ سے نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں۔ آج بڑی
تعداد میں خواتین دفاتر میں کام کررہی ہیں، گاڑیاں چلاتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹری،
انجینئرنگ، آرٹ، صحافت، تعمیرات کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین موجود نہیں۔ اسمبلیوں
میں خواتین موجود ہیں اور اب تو فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں میں بھی انہیں شامل
کیا جارہا ہے۔ مگر نصابی کتب میں یہ دکھانا “گناہ
عظیم” ہے۔ لڑکیوں کو سٹاپو،کیڑی کاٹا، کیرم جیسی ان ڈور کھلیں کھیلتے نصابی کتب
میں دکھایا جاتا ہے مگر فٹ بال ، کرکٹ وغیرہ جیسی آﺅٹ
ڈور کھیلیں صرف لڑکے کھیلتے ہیں۔ پرائمری کی کتب میں جب یہ دکھایا جائے گا کہ لڑکا
گانا گارہا ہے ، پڑھ رہا ہے، موٹر سائیکل چلارہا ہے، بازار جارہا ہے اور لڑکی
گھریلو کاموں میں مشغول ہے تو پھر ہم اپنے بچوں کو آخر کیا سکھارہے ہیں؟
اسلام میں کافر کی بجائے منافق سے بچنے کی تلقین کی گئی
ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ شیرانی صاحب جیسے‘‘کافروں’’ کی نسبت ہمیں اصل خطرہ
پالیسیاں بنانے والے ‘‘منافقوں’’ سے ہے۔ میں تو خود شیرانی صاحب سمیت منقولاتی
استدلال رکھنے والے تمام مکاتب فکر کے علماءکا ناقد ہوں مگر67سالہ تعلیمی ریکارڈ
کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ شیرانی صاحب نے جو کہا ہے اس پر
ہمارے پالیسی ساز اور اعلیٰ اذہان عملی طور پر کار بند ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ
سرکاری تعلیم کا بیڑہ غرق کرکے نجی اشرافیہ کے تعلیمی کاروبار کو وسعت دینے کے
خواہاں ہیں۔ شیرانی صاحب کو ہم ضرور کوسیں، اسلامی نظریاتی کونسل پر بھی حسب توفیق
تنقید کریں مگر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے پالیسی ساز اور سول ملٹری اشرافیہ کیوں خود
اس منافقت کا پر تو ہے؟ نصابی کتب تو مختلف قسم کی متعصبانہ ذہن سازیوں میں ملوث
ہے مگر بطور سول سوسائٹی ہم کس قسم کی حساسیت کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ ہم میں سے اکثر
توکبھی کسی سرکاری سکول، کالج گئے ہیں نا ہی ان اداروں میں پڑھائی جانے والی کتب
بارے ہمیں کچھ علم ہے۔ میں تو مشکور ہوں علامہ شیرانی کا کہ جن کے بیانات کی وجہ سے،
منفی انداز سے ہی سہی، مگر ہمیں آئینہ تو دیکھنے کو ملا۔ یہی ہمارا اصل چہرہ ہے کہ
جس پر انگریزی کا میک اپ کرکے ہمیں گمراہ رکھا جاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ اور پالیسی
ساز اپنے بچوں کو تو مخلوط تعلیم دلواتے ہیں، ان کے لیے پرکشش و پر تعیش مخلوط
ماحول بناتے ہیں مگر عام پاکستانیوں کو گڑی سڑی اخلاقیات کے بھنور میں غلطاں رکھنے
پر کمر بستہ ہیں۔ شیرانی صاحب جیسے چند ایک سر پھرے تو اس‘‘کفر’’ کا برسر عام
اعلان بھی کرتے ہیں مگر ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اس پر بذریعہ منافقت عمل
پیرا ہیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں تو لبرل ہیں مگر عام پاکستانیوں کے مقدر کو
اپنی ایسی پالیسیوں کے ذریعہ داغدار رکھنا چاہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment