Lessons of by-election for All
Political Parties, Institutions
and Azad Media
Military was there at polling Stations in and out yet hue
and cry of pre-poll rigging and huge use of money proved that involvement of
military is not enough for free and fair elections. Among the major financial beneficiaries of
election campaign, Free Media remain on the top yet media criticized big hoardings,
out of size posters, distribution of money and food items in poor but not a
single anchor pinpointed huge flux of TV Adds. ECP for poor arrangements and courts for stay
orders remain under criticism by many sections. So for all, there are lessons
but no one is ready to share complete Truth.
In NA 122 & 144 PTI did not listen to his workers, in NA 144 and PP
147 PML Nawaz chose bad candidates while PPP leadership failed to attract PPP disappointed
workers in general. Like NA 246, Free
Media prepared a huge camping of a by-election and in this camping hidden
agenda was to divert huge election spending towards media. Almost every channel
did its best and in many ways it was a huge media campaign but it failed to
attract people and less than 43% people used their voting right. The election
process and results once again remind us that the only solution is electoral
reforms. Are all stake holders ready to learn lessons?
فی الوقت یہی لگتا ہے کہ لاہوریوں اور اوکاڑویوں نے جو فیصلے این اے 122، این اے 144 اور پی پی 147 میں سنائے ہیں ان کی ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے تحت تشریح کر رہا ہے۔ پورا سچ سننے کی کسی میں ہمت نہیں یا وہ روایتی چالاکی کے سہارے ڈنگ ٹپانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی آدھا سچ بولنے پر کمر بستہ ہے۔ ہر پولنگ سٹیشن پر فوج تعینات تھی مگر قبل از انتخابات دھاندلی کے شور نے ثابت کر دیا کہ محض پولنگ ڈے پر فوجوں کی تعیناتی سے مسئلہ
حل نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں اصلاحاتی سکیم کی منظوری کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
لاہورکا ضمنی الیکشن، کس پارٹی کے لیے کیا پیغام ہے
اہور اور اوکاڑہ کے انتخابی نتائج نے نہ صرف تینوں وفاقی پارٹیوں بلکہ ملک پاکستان کے مقتدر آئینی اداروں اور میڈیا کو اپنے چاک گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات کہ کوئی ’’دھاندلیوں‘‘ کی آڑ لے کر لوگوں کی توجہ دوسری طرف کرنے میں مگن ہے، کوئی ادارہ جاتی کمزوریوں کا راگ الاپتا ہے تو کوئی فتح کے جشن میں طرز حکمرانی کی خامیوں کو چھپانا چاہتا ہے جبکہ’’ میاں مٹھو‘‘ آزاد میڈیا موجودہ انتخابی عمل پر اتنی ہی تنقید کرتا ہے جس سے اس کی’’ اشتہاری مہموں‘‘ میں اضافہ ہو سکے۔
ایک ایسے وقت میں جب سندھ اور پنجاب میں بسنے والے 70 فیصد سے زائد پاکستانی بلدیاتی انتخابات میں جانے کو تیار ہیں، ہمیں اس بات پر فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا میڈیا اور صنعت سازی کی طرح انتخابی عمل پر بھی پیسے والوں کا ہی راج رہے گا؟ کیا انتخابی اصلاحات کی کمیٹی 15 کروڑ لوگوں کے بلدیاتی انتخابات میں جانے سے قبل قابل قدر تجاویز کے تحت انتخابی عمل میں عام آدمی کی بطور انتخابی امیدوار شرکت کو بڑھانے کے حوالہ سے اقدامات کر سکتی ہے؟ یا پیسے کی حکمرانی پر سب میں ’’حسین اتفاق‘‘ برقرار رہے گا؟ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ لاہوریوں اور اوکاڑویوں نے جو فیصلے این اے 122، این اے 144 اور پی پی 147 میں سنائے ہیں ان کی ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے تحت تشریح کر رہا ہے۔ پورا سچ سننے کی کسی میں ہمت نہیں یا وہ روایتی چالاکی کے سہارے ڈنگ ٹپانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی آدھا سچ بولنے پر کمر بستہ ہے۔
ہر پولنگ سٹیشن پر فوج تعینات تھی مگر قبل از انتخابات دھاندلی کے شور نے ثابت کر دیا کہ محض پولنگ ڈے پر فوجوں کی تعیناتی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں اصلاحاتی سکیم کی منظوری کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ امید ہے کہ تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم کی بھی پارلیمان میں ’’باعزت‘‘ واپسی کے بعد اصل مسائل کی طرف پارلیمان دوبارہ سے توجہ دے سکے گی۔ الیکشن ٹربیونل سال ہا سال فیصلے نہیں دیتے اور اگر دے دیں تو عدالتوں سے ملنے والے ’’سٹے‘‘ منصف اور منصفی دونوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ ’’سٹے‘‘ کی گنگا میں بیوروکریٹ،سیاستدان، کاروباری حضرات ہر کوئی اشنان کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا کروڑوں روپے کے اشتہار چلانے کو تو جائز سمجھتا ہے مگر بڑے بڑے ہورڈنگ لگانے یا گلی، محلوں میں راشن تقسیم کرنے وغیرہ جیسے اقدامات پر تابڑ توڑ’’اخلاقی‘‘ حملے کرتا ہے۔ خیبر پی کے کا وزیر اعلیٰ این اے 122 میں آئے تو جائز، وفاقی وزراء آئیں تو غلط.۔ کراچی کے حلقہ 246 کی طرح لاہور کے این اے 122 کے لیے جس طرح آزاد میڈیا نے ہیجان آمیز نشریات کا طوفان کھڑا کیا وہ بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ اس میڈیائی مہم میں بڑے بڑے اینکر شامل رہے اس لیے اس کے خلاف بولنا فیشن کے خلاف ہے۔ اِس قدر بڑی میڈیا مہم کے باوجود محض 40 فیصد کے قریب لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔ لاہور اور اوکاڑہ دونوں ہی میں الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ حد سے زیادہ ہے مگر لوگوں کا بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نہ آنا عوام میں میڈیا کے اثر کا پردہ چاک نہیں کر رہا؟ تشہیر جب حد سے زیادہ ہونے لگے تو پھر الٹی گنگا بہنے لگتی ہے۔ اس الٹی گنگا کو سرعام بہتے تو گیارہ اکتوبر کو ہر ایک نے دیکھا مگر مقتدر میڈیا کو بھلا کون سمجھائے؟ حکمران مسلم لیگ(ن) کلثوم نواز کے بھانجے کو نہ بچا سکی جبکہ اوکاڑہ میں ’’جج‘‘ نے انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ مگر وہ محض ایاز صادق کی فتح کا جشن منانے میں غلطاں ہیں۔ این اے 122 کی فتح بڑی کامیابی ضرور ہے مگر اس کامیابی کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے؟ کیا یہ سبق کافی نہیں مستقبل کی پیش بندی کے لیے۔ نئی انتخابی اصلاحات کی آمد کے بعد حکمران بننے والی سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کے چند اہم لیڈر حکومتی عہدوں پر نہ بیٹھیں۔ یہی وہ دباؤ ہے جو سیاسی جماعتوں کو اِس بات پر مجبور کرے گا کہ سیاسی پارٹی کی بطور جماعت الگ حیثیت برقرار رہے اور پارٹی کے اہم عہدیدار اور وزراء الگ الگ ہوں۔ اگر 2018ء تک جمہوری تسلسل برقرار رہا تو سیاسی جماعتوں پر اپنی صف بندی کرنے اور باختیار ادارے بنانے کے حوالہ سے کارکنوں اور عوام کا دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان تحریک انصاف علیم خان کی چمک کے باوجود انتخاب ہار گئی کہ ان موصوف کے خلاف خود پی ٹی آئی میں ایک موثر گروپ موجود ہے۔ مگر عمران خان اس سبق کو یاد نہیں رکھنا چاہتے کیوں؟ اس بارے یا تو عمران خان بتا سکتے ہیں یا علیم خان کہ دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ اوکاڑہ میں جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا اس سے نہ صرف عمران خان کو دھچکہ لگا بلکہ وہ گمراہ کن تاثر بھی ہوا ہو گیا جس کے ذریعہ 2011ء سے’’ معصوم پیپلیوں‘‘ کو بغض نواز شریف میں تحریک انصاف کے نزدیک کیا جا رہا تھا۔ نہ عمران کا جلسہ کام آیا نہ ہی پی پی پی پر شب خون مارنا، الٹا اشرف سوہنا کی تو ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ اشرف سوہنا کی شکست سے سبق حاصل کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کی قیادت ’’جج‘‘ صاحب کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے کمر بستہ نظر آئی۔ ’’جج‘‘ نے علیم خان کی طرح پیسے بہت خرچے تھے مگر اس کو فیصلہ کن کامیابی دلانے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ناراض لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ تو اور بھی زیادہ گھمبیر ہے کہ پنجاب کے دل لاہور میں پیدا ہونے والی یہ پارٹی اب صوبہ پنجاب میں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرح چند سو ووٹ لے پاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس یہ پارٹی پنجابیوں کے دل جیتنے کی بجائے پنجاب کو توڑنے میں غلطاں ہے۔ بلاول بھٹو کو نئی ٹیم اور نئی لائن بنانے سے جو بھی روک رہا ہے وہ نہ تو پیپلز پارٹی کا ہمدرد ہے نہ ہی بلاول بھٹو کا۔ پیپلز پارٹی کے راہنما محض ٹاک شو میں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں مگر وہ گلی، محلوں اور پنڈوں میں مقیم پیپلز پارٹی کے ورکروں کے پاس جانے سے گریزاں ہیں۔ پنجاب میں آمدہ بلدیاتی انتخاب میں اگر پی پی پی کارکردگی نہ دکھا سکی تو پھر 2018ء کو اس کے ’’جنازے‘‘ کو نہ تو کوئی کندھا دے گا اور نہ ہی ’’فاتحہ خوانی‘‘ کے لیے آئے گا۔ اصل مسئلہ انتخابی شکست نہیں بلکہ انتخابی عمل میں نظر ہی نہ آنا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بدترین صورتحال کو کسی بھی طرح طالبان کے کھاتے نہیں ڈالا جا سکتا کہ اس کی بنیادی وجہ تو پنجاب مخالف پالیسیاں، کارکنوں سے رابطہ کا فقدان اور پنجاب میں غیر ذمہ دار قیادت ہی ہے۔ گیارہ اکتوبر کو دو قومی اور ایک صوبائی نشست پر ہونے والا انتخابی معرکہ اپنے اندر سیاسی جماعتوں، آئینی اداروں اور آزاد میڈیا کے لیے بہت سے اسباق لیے ہے۔ یہ وہی اسباق ہیں جن بارے 2011ء کے بعد خصوصی طور پر بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ مگر ہر کوئی اپنے چاک گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش میں مبتلا ہے۔ میڈیا، فوج سمیت کوئی ایک ادارہ یا کوئی ایک سیاسی جماعت تن تنہاء کچھ نہیں کر سکتے، یہ بات جتنی جلدی سب سمجھ لیں اتنی جلد ہم مسائل کے حل کی طرف بڑھنا شروع کر سکیں گے۔ الیکشن ڈے پر پولنگ سٹیشنوں پر دھونس، زبردستی اور ملی بھگت کو روکنے کے لیے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی ایک مسئلہ ہے مگر قبل از پولنگ ڈے مقتدر قوتوں اور پیسے کی چمک کو انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہونے دینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا حل سکیورٹی اداروں کے پاس نہیں بلکہ اس کے لیے انتخابی اصلاحات سے گذرنا لازم ہے۔ انتخابی عمل میں مقتدر قوتوں بشمول حکمرانوں اور کروڑوں اربوں روپوں سے کی جانے والی سرعام مداخلتوں کو روکنے کے لیے سیاسی تصفیہہ کے ذریعہ اگر کوئی بندوبست نہ بنا تو پھر انتخابی عمل پر سوالات اٹھتے ہی رہیں گے۔ اس تمامتر صورتحال میں عوام کے علاوہ دوسرا بڑا مظلوم سیاسی کارکن ہیں۔ وہ چکی کے دونوں پاٹوں میں پستے ہیں اور ان میں سے کچھ ’’چمک‘‘ کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنی پارٹی سے ناراض ہو کر وہ ’’بغض معاویہ‘‘ میں ایسا انتخاب کرتے ہیں جو پہلے سے بھی زیادہ بُرا ہوتا ہے۔ بھارت میں کانگرس کی غلط پالیسیوں سے تنگ آ کر بہت سے کانگرسیوں نے بی جے پی جیسی بنیاد پرست جماعت کو ووٹ دے ڈالے تھے اور آج وہ سب اپنے اس گناہ کو بھگت رہے ہیں۔ ایسا ردعمل عموماً سیاسی کارکنوں کو اندھی گلی میں لے جاتا ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج میں اشرف سوہنا کے انجام سے یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ سیاسی کارکن ردعمل میں فیصلے کرنے سے گریز کریں۔ جیسے امریکہ، برطانیہ نے روس کو ختم کرکے طالبان اور القاعدہ کو پنپنے کا موقع فراہم کیا ویسے ہی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ختم کرکے مسلم لیگ (ن) نئے جنجال میں پھنستی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک میں تین وفاقی پارٹیاں ہیں اور ان تینوں کے پاس ایک ایک صوبائی حکومت بھی ہے۔ ایسے میں اگر یہ سب مل کر عوامی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمہوری کھیل کے اصول طے کر لیں تو پھر یہ آئینی اداروں اور میڈیا کو بھی جمہوری راستے پر لانے کے لیے دباؤ بڑھا سکیں گے۔ بصورت دیگر ہم سب مل ملا کر لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ کر عملی تفسیر بنے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment