ریفرنڈم اور بعد: خدا حافظ یورپ؟
عامر
ریاض
جس یورپی برتری کے تھیسس کو 19 ویں صدی میں پروان
چڑھایا گیا تھا اور جس کے انڈے بچے ہمارے جیسے ممالک میں براﺅن صاحبوں کی شکل میں
تادم تحریر دندنا رہے ہیں کیا اس یورپی برتری کے تھیسس کے خاتمے کا وقت قریب آگیا
ہے؟
Goodbye Europe, Goodbye European Supremacy....But what next
انقلاب
روس کی موت پر خوشیاں منانے والے اب انقلاب فرانس کی باقاعدہ موت کے منتظر ہیں۔ 23
جون کو فیصلہ کچھ بھی آئے، نسلی برتری اور جعلی قوم پرستی کے خالق فتح یاب ہوں یا
پھر فیصلہ یورپ کا حصّہ رہنے کے
حوالہ سے ہو، کہ جو ماحول 22 جون تک بذریعہ یورپی
میڈیا بنادیا گیا ہے اور جس کا شکار برطانیہ کی جواں سال ممبر اسمبلی “جوکاکس“ (Jo Cox)ہوئی
اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بات محض یورپ میں شمولیت پر اصرار کی نہیں بلکہ بے یارومددگار پناہ گزینوں اور تارکین وطن شہریوں کی ہے جو آج کل بوجوہ نشانہ خاص
ہیں۔ لندنی میر کے حالیہ انتخابات میں چلائی جانے والی بدترین انتخابی مہم سے لے
کر 23 جون کے ریفرنڈم کے لیے چلنے والی مہم کے دوران جو زبان، کلمات اور جملے
استعمال کیے گئے اگر انہیں ” ایک صفحہ پر“ مجتمع کردیا جائے تو والٹیر، روسو ہی نہیں
بلکہ شکسپیر بھی خود کو یورپی کہلوانے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ جین آسٹن تو بیچاری
1813 میں “تعصب اور تکبر” لکھ کر اہل
انگلستان کو “بغض” سے بچنے کی راہ دکھا
چکی تھی کہ جو کچھ گذشتہ چھ ماہ میں
شہریوں نے بھگتا اس کے بعد تو اس شہرہ آفاق ناول کی 200 ویں سالگرہ منانے والے بھی
حیران و پریشان ہیں۔ 21 ویں صدی میں نسلی برتری کے اسقدر حامی خود انگلستان میں
موجود ہیں کہ یوں لگتا ہے آکسفورڈ کا علم دریائے ٹیم برد ہوچکا ہے۔ سونے پر سہاگہ حضرت ٹرمپ نے چڑھایا ہے جو اہل انگلستان کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ یورپ سے نکل
جائیں۔ جب یہی بات نپولین کہتا تھا کہ انگلستان کا یورپ سے کوئی تعلق نہیں تو
برطانوی دانشور تلملاتے تھے کہ واٹر لو کے 200 سال بعد اہل لندن کو یہ دن بھی
بھگتنے تھے۔ یاد رہے، چند ہفتے قبل جب اوبامہ نے برطانیہ کو لندن آکرانہیں یورپ
میں رہنے کے فوائد گنوائے تھے تو جعلی وطن پرست انگریزوں نے اسے کہا تھا کہ امریکیوں کو برطانوی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
مگر
اب وہی وطن پرست ٹرمپ کی ہدایات کو کیوں خاموشی سے سن رہے ہیں۔ کسی بھی برطانوی
دانشور یا کالم نویس نے ٹرمپ کو وہی جواب کیوں نہیں دیا؟ چرچل سے کیمرون تک “امریکی دربار” میں حاضریاں لگوانے والے جو
مزاحمت آج دکھارہے ہیں وہ انھوں نے 1942 میں دکھائی ہوئی تو پیٹر کلارک جیسے
برطانوی پروفیسروں کو کتب نہ لکھنی پڑتیں کہ جس میں پروفیسر صاحب اپنے منتخب
وزیراعظم کے پارلیمان میں بولے جانے والے جھوٹ پر سیخ پاء تھے۔
یورپ میں ہونے والا یہ ریفرنڈم کئی ایک حوالوں
سے اہمیت کا حامل ہے اور یورپ میں اس کی اہمیت اور ہے جبکہ یورپ کے باہر اسے بالکل
اور انداز میں دیکھا جارہا ہے۔ جرمن، فرانس، اٹلی اور برطانیہ کی باہمی چپقلشوں نے
جو گُل 20 ویں صدی میں کھلائے تھے ان کا نتیجہ پہلی اور دوسری جنگ عظیموں میں اہل
یورپ بھگت چکے ہیں کہ آج کے یورپ میں تارکین وطن کی تعداد دوسری جنگ عظیم کی نسبت
کہیں زیادہ ہے۔ کچھ اہم یورپی ممالک میں یہ تناسب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے
تناسب سے بھی زیادہ ہے۔انہیں چھیڑنے سے وہ کس کا فائدہ کر رہے ہیں یہ وہی جانتے
ہیں۔ریفرنڈم کوئی بھی جیتے، برطانیہ یورپی یونین کا حصّہ رہے یا نہ رہے، کسی بھی
صورتحال میں یہ حقیقت کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ آج کے یورپ میں نسلی تفاخر کو جاری
رکھنے والے گروہ مضبوط ہورہے ہیں۔ یہ وہ انتہا پسند ہیں جنھیں افغانستان، عراق،
ایران اور سعودی عرب کے کھاتے نہیں ڈالا جاسکتا۔ غالباً دس برس پہلے اک برطانوی
خاتون نے مجھ سے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے سرکاری دفاتر میں نسل پرستوں
کی بڑھتی ہوئی چاپ ہمیں پریشان کررہی ہے۔ وہ چاپ اب اسقدر تیز ہوچکی ہے کہ لندنی
میر کے انتخابات اور23جون کے ریفرنڈم کی مہم میں اس کو برابر سنا جارہا ہے۔
یہ
کہا جاسکتا ہے کہ جس یورپی برتری کا خواب برطانیہ نے اہل یورپ کو 19 ویں صدی میں
دکھایا تھا وہ 14 اگست 1941 کے بعد بتدریج روبہ زوال ہے۔ اس خواب پر یورپ کی دائیں
بازو کی جماعتیں برابر پہرہ دیتی رہیں۔ سرد جنگ میں وہ امریکہ بہادر کے پچھلگ تھے
کہ بعد از سرد جنگ انہیں دوبارہ ابھرنے کی امید تھی مگر کمبخت چین نے ان کے خوابوں
کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اہل برطانیہ کا مسئلہ دیگر یورپ سے ذرا مختلف ہے کہ وہ یورپی
یونین کی صورت میں جرمن کی قیادت کو قبولنے پر بھی تیار نہیں اور یوں وہ دہرے چکر
میں پھنسا ہے۔ 1995 کے بعد برٹش پالیسی سازوں نے آف شور کمپنیوں کی دولت اور جی
20کے ذریعہ احیاءکی کوششیں شروع کیں تھیں جوْْْْوار آف ٹیررٗ کے بعد بوجوہ بار آور
ثابت نہ ہوئیں۔ اگر ریفرنڈم میں اہل برطانیہ نے یورپ میں رہنے کا فیصلہ کربھی لیا
تو یہ تضادات جاری رہیں گے۔
جس
یورپی برتری کے تھیسس کو 19 ویں صدی میں پروان چڑھایا گیا تھا اور جس کے انڈے بچے
ہمارے جیسے ممالک میں براﺅن
صاحبوں کی شکل میں تادم تحریر دندنا رہے ہیں کیا اس یورپی برتری کے تھیسس کے خاتمے
کا وقت قریب آگیا ہے؟ کیا انتہا پسندیوں کی ہر شکل کے خلاف دنیا کے عقلیت پسندوں
کو اب اک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔یہی وہ سوال ہے جو ریفرنڈم کے بعد بھی تنگ کرتا
رہے گا۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر یورپ سے تارکین وطنوں کو نکالنے کا کام ہوا
تو کیا آسڑیلیا، کینیڈا اور امریکہ کی باری نہیں آئے گی جو پیداوار ہی تارکین وطنوں
کی ہیں۔ پناہ گزینوں کے مسلہ پر اقوام عالم
بلعموم اور اقوام متحدہ بلخصوص کب تک خاموش بیٹھے گی؟انسانی حقوق پر کام
کرنے والے کب تک پناہ گزینوں کو وطنی ریاستوں کے خفیہ اداروں پر چھوڑیں گے؟
آزادی،مساوات اور انسانیت کے نعروں کا کیا بنے گا؟ جب خود
یورپ میں انتہاپسند اسقدر مضبوط ہیں، میڈیا ان کا رہنما ہے تو وہ دیگر انتہاپسندوں
کو کیا میغام دے رہے ہیں۔ یہ سوال تادم تحریر تشنہ طلب ہیں۔
Further readings
Offshore Syndrome: European Union & Tax Loot....Extracts of a study
Further readings
Offshore Syndrome: European Union & Tax Loot....Extracts of a study
No comments:
Post a Comment