Supremacy of Parliament and Judiciary
One step back, two step forward
عدلیہ
اور پارلیمانی بالادستی: اک قدم پیچھے، دو قدم آگے!
عامر
ریاض
سینٹ
آف پاکستان کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے 3 مئی 2016 کو متفقہ طور پر
2016 کے لیے اک نئی آئینی ترمیم کی منظوریاں دیں ہیں۔ اس ترمیم میں یہ نہ صرف آئین
پاکستان1973 کی ایڈہاک ججوں کی تعیناتیوں کے حوالہ سے متنازعہ شق 182کو ختم کرنے
کی سفارش موجود ہے بلکہ سپریم کورٹ میں خواتین ججوں کی لازمی شمولیت کی بھی سفارش
پر بحث کی گئی ہے۔ کیونکہ اس آمدہ ترمیم کے حق میں بار کونسلوں کے نمائندوں نے بھی
سٹینڈنگ کمیٹی کے روبرو حمائیت میں اپنا وزن ڈالا ہے اس لیے قوی امید ہے کہ اب
عدلیہ و پارلیمان میں روائیتی تکرار کی صورت پیدا نہیں ہوگی۔یہ اک بدلتا ہو
منظرنامہ ہے جس میں مفاہمت اور تصفیہ کو اولیت دیتے ہوئے جمہوری قبلہ درست کیا جا
رہا ہے۔
کچھ پالیسیاں اور مسائل ہمیں نو آبادیاتی ورثہ
میں ملے ہیں تاہم ان کو جاری رکھنے میں محض ہماری غلامانہ ذہنیت کا ہاتھ نہیں بلکہ
چند مفاداتی گروہوں کو بھی بعدازآزادی انہیں جاری رکھنا “وارا” کھاتا تھا۔ ریاست
سے بڑے ادارے، منتخب پارلیمان کو انتظامیہ (سول و فوجی) کے “تھلے” لگاکر رکھنا،
ریاست میں رہنے والے عام لوگوں کو “شہریCitizen” کی بجائے محکوم یعنی Subject سمجھنا یہ سب وہ پالیسیاں ہیں جو نو آبادیاتی عہد کا طرہ امتیاز
تھیں۔ 1947 کے بعد تادم تحریر پاکستان میں ایسے صاحبان علم و فضل پر مشتمل مخصوص
عناصر کی کمی نہیں جو اپنے مفادات کے تحت
نوآبادیاتی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔
عدلیہ، فوج، سول بیوروکریسی، سیاستدانوں اور میڈیا میں ایسا ذہنی رجحان رکھنے
والوں کی کمی نہیں جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والوں کو برداشت کرنے کو
تیار نہیں۔ قیام پاکستان سے یہ روش جاری ہے کہ پارلیمانی بندوبست میں کیڑے نکالنے
والے اول راز سے سرگرم عمل رہے۔ چار فوجی آمروں اور غیر منتخب عناصر کی مسلسل
مداخلتوں کے باوجود گذشتہ 68 سالوں کے مختصر عرصہ میں سیاستدانوں نے جمہوری
بندوبست اور پارلیمان کی اہمیت کے حوالہ سے کئی ایک سنگ میل عبور کیے ہیں۔ تاہم اس
لڑائی میں سیاستدانوں کو “دو قدم آگے، ایک قدم پیچھے” کی پالیسی کو مدنظر رکھنا
پڑتا ہے۔ گوکہ پارلیمانی بالادستی کے ناقد “ایک قدم پیچھے” ہٹنے کو ہمیشہ پارلیمان
کی کمزوری، نالائقی اور لاتعلقی ہی گردانتے ہیں اور پارلیمان کے وجود کو بھی
رگیدنے سے باز نہیں آتے تاہم ایسے عناصر کی نیت کا پردہ اسی وقت چاک ہوتا ہے جب
پارلیمان دو قدم آگے بڑھتی ہے (جیسے 18 ویں ترمیم کے وقت ہوا تھا) تو یہ سب چپ
سادھ لیتے ہیں۔ ایک قدم پیچھے ہٹنا، پارلیمانی نظام کو جاری رکھنے کے لیے اپنایا
جاتا ہے کہ اسے عام محاورہ میں“ کوڑا گھٹ” سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مگر میڈیائی شیر
اس کوڑے گھٹ کو سپرنگ بورڈ کی طرح استعمال کرتے ہوئے جمہوری بندوبست پر حملے کرتے
ہیں کہ اس تاریخ سے تمام پاکستانی بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ہرکاروں کو بھی پہچانتے
ہیں۔ 1973 کے آئین میں 19 ویں ،20 ویں اور 21 ویں ترامیم میں شامل بہت سی شقیں بھی
دوسری، آٹھویں اور 17ویں ترامیم میں موجود متنازعہ شقوں کی طرح ایک قدم پیچھے ہٹنے
کی مثالیں ہیں۔ تاہم وقت ثابت کررہا ہے کہ اگر پارلیمان کا تسلسل برقرار رہے تو وہ
ایک قدم پیچھے ہٹنے کے بعد دو قدم آگے ضرور جاتی ہے۔ 17ویں آئینی ترمیم کو داخل
دفتر کر کے جس طرح متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم لائی گئی تھی وہ اس دعوٰی کا ثبوت
ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ19 ویں، 20ویں اور 21 ویں ترامیم عدلیہ اور فوج کو
طاقتیں دینے سے متعلق ہیں۔
جن
جج صاحبان، وکلاءاور ماہرین نے 21 ویں ترمیم کے خلاف آواز بلند کی تھی ان کی بڑی
اکثریت 19ویں ترمیم کے وقت خاموش رہی تھی۔ ایسے ملنگ تو بہت کم تھے جو19ویں اور 21
ویں دونوں ترامیم پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ 21 ویں ترمیم کا “متنازعہ حصّہ” تو
دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے اختیارات سے متعلق ہے اور اس کے خاتمہ کی
تاریخ 7 جنوری 2017ہے۔ تاہم19 ویں ترمیم 2011اور 20 ویں ترمیم 2012سے آئین کا حصّہ
بن چکی تھےں۔ ان ترامیم کے کچھ “متنازعہ حصّوں” کو تو 22 ویں ترمیم کے ذریعے بدلا
گیا ہے تاہم ججوں کی تعیناتی کے حوالہ سے 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمان نے دو قدم
آگے بڑھنے کی کوششیں شروع کردیں ہیں۔ اس نئی ترمیمی بل پر بحث کے دوران عدالتی
نافرمانی یعنی Contempt of Court کے قانون میں ترمیم بارے بھی بحث ہوئی کیونکہ سینیٹر فرحت اللہ
بابر اس حوالہ سے بل پیش کرچکے تھے۔ تاہم سینیٹر صاحب نے اپنا ترمیمی بل فی الوقت
واپس لے لیاہے۔ سینٹ کمیٹی نے سپریم کورٹ میںججوں کی تعداد کے حوالہ سے بنائے گئے
قوانین اور خاتون ججوں کی لازمی شمولیت بارے بھی بحث کی کہ یہ بل سینیٹر بابر
اعوان نے پیش کیے۔ دوران بحث یہ بات تو کہی گئی کہ پاکستان میں آج تک سپریم کورٹ
میں کوئی ایک خاتون بھی جج نہیں بنی تاہم بابر اعوان کو اس حقیقت بارے کب پتہ
چلا؟کیوں پتہ چلا؟ اس بارے تحقیق کی ضرورت ہے۔
یہ
بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوری تسلسل کے ثمرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ویسے
تو اگر آپ 1972 سے 1977 کے درمیان کام کرنے والی قومی اسمبلی کے منظور کردہ قوانین
پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قانون سازی کے حوالہ سے بھی بھٹو
کی اسمبلی کی کارکردگی فقید المثال تھی۔ البتہ بھٹو کی حذب اختلاف نے ماسوائے آئین
سازی کے ان قوانین پر زیادہ بحث نہ کی کہ وہ سارا زور بھٹو سے جان چھڑانے پر ہی
صرف کرتے رہے۔ اب تو قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر 1947 سے تادم تحریر ہونے والی
اسمبلی کی بحثیں بھی رکھ دی گئیں ہیں جنھیں پڑھنے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا
پانی صاف نظر آنے لگتا ہے۔ قارئین اس ویب لنک www.na.gov.pj/en/debates.php پر کلک کریں اور 1972سے 1977کے دوران ہونے والی اسمبلی بحثوں کو
خود پڑھ ڈالیں۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ 1972 سے 1977کے درمیان ہماری پارلیمان نے
کیسے کیسے اہم مسئلوں پر قانون سازیاں کی تھیں۔ میثاق جمہوریت اور 18ویں ترمیم کے
بعد جس طرح سینیٹ اور قومی اسمبلی برابر پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے میں پھونک
پھونک کر قدم رکھ رہی ہے یہ اک دلچسپ داستان ہے جسے نجی میڈیا میں بوجوہ پذیرائی
نہیں مل رہی۔ چیرمین سینیٹ رضا ربانی برابر یہ دہائی دے رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم
پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جو وفاق کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
انہیں تاجے حوالداروں کا بھی پتہ ہے اور ہرکاروں کی بھی خبر ہے۔ پچھلے دنوں انھوں
نے دوبارہ سے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاق تعلیم اور صحت پر
اپنا قبضہ کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ میاںرضاربانی اس بات کے بھی حق
میں ہیں کہ مالیاتی بل کی منظوری میں سینیٹ کی طاقت کو بڑھایا جائے۔ جہاں رضا
ربانی اشرافیہ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور انتظامیہ کو پرانی روش بدلنے کی تلقین
کررہے ہیں وہیں وہ طلباء، اساتذہ اور نوجوانوں کو بھی یہ کہتے نظر آئے کہ انہیں
سوال کرنے کی جرات کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اگر
یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے خود پارلیمانی بندوبست کے خلاف ہوں گے اور
ہمیشہ کسی مسیحا کے انتظار میں محو رہیں گے تو پھر مستقبل کے یہ معمار اشرافیہ کی
چالوں کا شکار ہی بنیں گے۔ جمہوریت کے خلاف ذہن سازیوں میں ہمارے میاں مٹھو میڈیا
کا کردار بھی کچھ کم منفی نہیں۔ اس حوالہ سے سب سے اہم قدم صحافیوں کی نمائندہ
تنظیموں نے اٹھانا ہے کہ میڈیا میں ایسے اینکر نما دانشوروں کی تعداد کم نہیں جو
غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ منتخب نمائندوں بارے گانے
چلانے والے ڈائریکٹر نیوز بھی کسی سے کم نہیں جو کن موقعوں پر “درووٹ” لیتے ہیں
اور گانے چلانا تو دور کی بات، ایسی کوئی خبر دوبارہ نشر بھی نہیں کرتے یہ سب کو
معلوم ہے۔ ججوں کے ریمارکس کو کسی عدالتی فیصلے سے قبل ہی ٹیکروں کی شکل میں
چینلوں کی زینت بنانا بھی اک ایسا ہی متنازعہ مسئلہ ہے جو عدالتوں اور میڈیا کے
لیے باعث تکریم نہیں۔ پارلیمان کی بالادستی کو پارلیمان کی “غنڈہ گردی” سے تشبیہ
دینے کا مقصد نو آبادیاتی دور کی پالیسیوں کے تسلسل کے سواءکچھ نہیں۔ امریکہ
برطانیہ و یورپ کی مثالیں دینے والے آخر کیوں یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک میں منتخب
اسمبلیوں کے پاس کس قدر وسیع اختیارات ہیں؟ پاکستان میں جمہوریت کی خاطر صحافیوں،
طالب علموں، اساتذہ اور وکلاءبرادری کی تاریخ شانداررہی ہے۔ یہ جدوجہد اس بات کی
متقاضی ہے کہ پاکستان پارلیمانی بالادستی کی طرف بڑھے۔ مگر ان چار آمریتوں کے
ادوار میں ان میں ایسے عناصر بھی بھر دیے گئے ہیں جو پارلیمانی بندوبست اور
جمہوریت بارے نت نئے تحفظات تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ یوں جو لڑائی اسمبلیوں کے اندر
جاری ہے وہ پریس کلبوں، بار کونسلوں اور تعلیمی اداروں میں بھی برابر جاری و ساری
ہے۔ ہر چند مہینوں کے بعد ایسا طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے جس میں جمہوری و
پارلیمانی بندوبست کو براہ راست رگیدنا شروع کردیا جاتا ہے۔ تاہم بھٹو دور کے
برعکس 2008 کے بعد پاکستان میں حذب اختلاف نے اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کیا
جو قابل تحسین ہے۔ حالیہ دنوں میں انتخابی اصلاحات کے سلسلہ میں متفقہ طور پر 22
ویں ترمیم کی منظوری اس مضبوط ہوتے ویژن کا ثبوت ہے جس میں تحریک انصاف بھی شامل
ہوگئی۔ امید ہے عدلیہ اس بدلے ہوئے پس منظر سے خود کو ہم آہنگ کرنے کا موقع ضائع
نہیں جانے دے گی اور پارلیمان کی بالادستی و اداروں کی مضبوطی کے حوالہ سے اپنے
پرانے بیانیے کو بدلنے کا آہر کرے گی۔
Senate body passes bill to end appointment of ad hoc SC judges
Senate body okays ban on ad hoc judges in SC
Article 182: Appointment of ad hoc Judges
Raza Rabbani statement regarding post 18th amendment
History of Parliamentary Struggle Perceptions Vs Facts
NATIONAL ASSEMBLY DEBATES
Nineteenth Amendment to the Constitution of Pakistan
No comments:
Post a Comment