Wednesday, June 29, 2016

Is Britain ready to follow Hitler?




Is Britain ready to follow Hitler?

100 years back it happened with Germans and in that game Britain and France were partners but this time it is English who opted a suicidal mission under the leadership of conservative cum racist lobbies. Cameron played double game but it proved counterproductive. There are lessons in post Brexit for South Asians who should be-aware from rightist and narrow nationalists and their suicidal missions. Read the piece published in Online Humsheri, Lhore


برطانیہ: ہٹلر کا پیروکار بنے گا؟

عامر ریاض


کیا برطانیہ کے ساتھ وہی ہونے جارہا ہے جو اس نے 100برس قبل جرمنوں سے کیا تھا؟ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنوں کو ذلیل و رسواءکرنے میں فرانس، برطانیہ اکٹھے تھے کہ اس رسوائی کے ردعمل میں جب ہٹلر پیدا ہوا تو “فاشزم” کا لیبل لگا کر جرمنوں کو دوسری جنگ عظیم میں مزید رسوا کرنے کا سامان پیدا کیا گیا۔ مگر جو کچھ برطانیہ میں ہورہا ہے اس کا انتخاب خود انگلش قوم نے کیا ہے البتہ اس کا خمیازہ پورے برطانیہ کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ 23 جون کا ریفرنڈم یوں الٹا پڑجائے گا اس بارے زیرک انگلش قوم دھوکا کھاگئی کہ زوال میں غصّہ بڑھ جاتا ہے اور سمجھداری گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ بس یہی کچھ آج کل برطانیہ کے ساتھ ہورہا ہے کہ سفارت کاری پر مان کرنے والے برطانوی تفاخر کے ہاتھوں مات کھاگئے۔ لندن میں ریفرنڈم کے چھٹے روز بڑا مظاہرہ ہوا کہ جس میں یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں تقاریر کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ برطانیہ کی آٹو موبائل انڈسٹری کے نمائندگان نے بھی اک بیان جاری کیا جس میں یہ اقرار موجود ہے کہ برطانیہ کی کاریں بنانے سے وابستہ صنعت کو اس فیصلہ سے ازحد نقصان پہنچے گا۔ ریفرنڈم کا نتیجہ آتے ہی افتاد ڈیوڈ کیمرون پر پڑی اور انھوں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی بچانے کی خاطر استعفیٰ دینے کا اعلان کر ڈالا۔ کیا ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین میں برطانیہ کی شمولیت کا حامی تھا؟ بین القوامی میڈیا اور خصوصاً برٹش پریس پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ حضرت درحقیقت یورپی یونین کو بلیک میل کرنے میں غلطاں تھے۔ وہ ایک طرف انتہائی چالاکی سے جعلی قوم پرستوں اور نسل پرستوں کو ہلاشیری دے رہا تھا تو دوسری طرف خود یورپی یونین کو یہ کہہ رہا تھا کہ وہ برطانیہ کو “سپیشل سٹیٹس” دیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت نے اپنی کابینہ کو بظاہر کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور ان سے کہا تھا وہ ریفرنڈم میں اپنے “ضمیر” کے مطابق حمایت یا مخالفت کی مہم چلائیں۔ یہی وہ “ڈبل گیم” تھی جس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔ مگر نتیجہ دیکھ کر انھوں نے اک اورپینترہ بدلا جو پہلے سے سوچا ہوا لگتا ہے اورتین ماہ بعد اکتوبر میں استعفیٰ دینے کا اعلان فرما دیا۔اگر مسلہ اصول کا تھا تو انہیں فوری مستعفی ہو جانا چاہیے تھا کہ یہاں بھی دال میں کالا صاف دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ اعلان آرٹیکل 50 سے بچنے کے حیلے بہانے ہیں کہ یہ وہی آرٹیکل ہے جس کے تحت برطانیہ کو باقاعدہ یورپی یونین سے طلاق کی درخواست دائر کرنے پڑے گی۔ اس درخواست کے دائر ہونے کے بعد ہی یورپی یونین طلاق کے کاغذات کو حتمی شکل دینے کے حوالہ سے کارروائی شروع کرسکے گی۔
 گارڈین کی کالم نویس اور مشہور نوجوان صحافی جرمن نژاد ایلکس واں تنزیلمان کی کتاب “انڈین سمر” جس نے بھی پڑھ رکھی ہے وہ جانتا ہے کہ ٹھیک 100 سال قبل برطانیہ نے جرمنوں کے ساتھ کیسا بدترین سلوک کیا تھا۔ جو اس سے زیادہ تفصیلات پڑھنا چاہتا ہے وہ کیتھ جیفری کی کتاب “ایم آئی 6 ” پڑھ لے کہ برطانیہ نے کب جرمنوں کو دشمن نمبر ون قرار دیا تھا اس کی تاریخ معلوم ہوجائے گی جو 19ویں صدی کی آخری دہائیاں بنتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم تو اُسی دشمن کو برباد کرنے کی اہم کڑی تھی کہ جرمن نژاد امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھی اپنی کتاب “On China” میں اس بارے ذکر خیر کیا ہے۔ معاہدہ ورسیلز میں شکست خوردہ جرمنوں کو مزید ذلیل کرنے سے قبل برطانیہ میں 1917 کے سال اک حکم نامہ جاری ہوا تھا۔ یہ حکم نامہ ایلکس والاں تنزیلمان نے مستند حوالہ جات کے ساتھ کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس حکم نامہ کے مطابق برطانیہ میں نسلوں سے رہنے والے جرمن نژاد شہریوں کو یہ کہا گیا کہ وہ اپنے جرمن نام بدل ڈالیں۔ ان جرمن نژاد برطانوی شہریوں میں جرنیل، بیوروکریٹ سیاستدان، آرٹسٹ، سائنسدان وغیرہ شامل تھے کہ جن کی حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالا تھی مگر 1917 میں یہ سب انگلش قوم کی نسل پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے اور انہیں اپنے نام بدلنے پڑگئے۔ جرمنوں کو معاہدہ ورسیلز کے بعد اس قدر ذلیل کیا گیا کہ ہٹلر کی پیدائش مقدر ٹھہری۔ خود مانٹ بیٹن بھی انہی شرمندہ جرمن نژادوں میں شامل تھا اور بقول ایلکس واں، نام بدلوانے کی بدنام زمانہ مہم چلانے والوں میں ونسٹن چرچل جیسے جمہوریت پسند پیش پیش تھے۔ حیران نہ ہوں ڈیوڈ کیمرون بھی چرچل ہی کے مقلد ہیں اور انھوں نے بھی گھٹیا انگلش قوم پرستی کے زعم میں یورپی اقوام کو بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج پر برطانیہ میں ہر کوئی ایک دوسرے کو کوس رہا ہے۔ لندن جسے “عالمی مرکز معیشت” کا درجہ حاصل رہا، اب خطرے میں ہے اور برطانیہ کی بہت سی کمپنیاں اب یہاں سے رخصت لینے کی تیاریاں کررہی ہیں۔
ریفرنڈم کے نتائج اپنی جگہ سلطنت کی بے بسی کی تصویر ہیں کہ جیتنے یا ہارنے والوں میں فرق محض 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر ان نتائج کو نوجوان برطانوی شہریوں کے حوالہ سے دیکھا جائے تو نوجوانوں کی 72 فیصدی تعداد نے یورپ میں رہنے کو ترجیح دی جو معنی خیز ہے۔ قدامت پسند بزرگ برطانوی ان نتائج سے خوفزدہ ہےں کہ ان کی نئی نسل یورپ میں شامل ہونے کے لیے کسی بھی وقت نئے ریفرنڈم کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ نوجوان برطانوی شہریوں کی آرا ءاس بات کا ثبوت ہیں کہ جو بیانیہ برطانیہ کے قدامت پرستوں نے بنا رکھا ہے اسے ان کی نئی نسل ماننے کو تیار نہیں۔ آئندہ 5 یا 8 برسوں میں یہی نئی نسل ہر برطانوی محکمہ و سیکٹر میں موجود ہوگی کہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی۔ برطانیہ میں رہنے والی چار میں سے دو اقوام یعنی سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ والے یورپ میں رہنے کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔ مگر کیونکہ انگلش قوم برطانیہ میں 80 فیصدی آبادی پر مشتمل ہے اس لیے قدامت پرستی پر مشتمل نتائج یہیں زیادہ آئے۔ اس سب کے باوجود محض 4 فیصد سے بھی کم ووٹوں سے جیتے جانے والے ریفرنڈم کو نمائندہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟

خود کو دوبارہ سے دنیا کی نمبرون سپر پاور بنانے کا خبط برطانیہ کو لے ڈوبا کہ تفاخر عقل کو کھا جاتا ہے والی بات 20ویں صدی کے برطانیہ پر صادق آئی۔محض ملکوں ملکوںملکہ کی سالگرہ منانے سے “عزت سادات” بحال ہونے سے رہی کہ برطانیہ کی اشرافیہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس خبط میں برابر رُجھی رہی ہے۔ اس خبط میں محض کیمرون مبتلا نہیں کہ جسے یقین نہ ہو وہ ٹونی بلیر کی کتاب The Journeyپڑھ لے۔ روس، امریکہ، چین اور ترکی انگلش قوم کا تماشہ بڑی متانت سے دیکھ رہے ہیں جبکہ جرمنی اور فرانس، برطانیہ کو جلد از جلد یورپی یونین سے نکالنے میں کمربستہ ہیں۔ مگر برطانیہ والے اس سب پر کسی باہرلے کو الزام نہیں دے سکتے کہ یہ سب کیا دھرا تفاخر و تعصب میں رُجھے ان کے اپنے نسل پرستوں اور جعلی قوم پرستوں کا ہی ہے۔ یورپی یونین میں سپیشل سٹیٹس کا خواہشمند برطانیہ 23 جون کے بعد اس خصوصی سٹیٹس سے بھی محروم ہوگیا ہے جو اسے معاہدہ اٹلانٹک (14 اگست1941) کے بعد امریکیوں نے دے رکھا تھا اور وہ مصاحب خاص تھا۔ اس تطہیر کا ہمارے خطوں پر بھی نمایاں اثر پڑے گاالبتہ جنوبی ایشیائی قوم پرست اور دائیں بازو والے ہمیں گھجل کرنے کو تیار ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا پسندیوں نے برطانیہ کو جس دلدل کی طرف دھکیل دیا ہے اس میں دیگر اقوام کے لیے سبق موجود ہے کہ جعلی قوم پرستیوں اور نسل پرستیوں کا زمانہ لدچکا ہے اور یہ وطنی ریاستوں کے لیے عالمگیریت کے چل چلا میں زہر قاتل ہے۔ دائیں بازو کے ہرکارے دنیا بھر میں ان جعلی قوم پرستیوں اور نسلی تفاخروں کو بڑھاوا دے رہے ہیں کہ امریکہ سے جرمنی و فرانس تک ان کو دیکھا جاسکتا ہے مگر ان کے مخالفین بھی خاصے تگڑے ہیں۔ آخری نتیجہ میں یہ جعلی قوم پرست و نسل پرست خود سوزی کے سوا اپنی قوموں کو کچھ نہیں دے سکتے۔ برطانیہ مقیم پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو اس ریفرنڈم میں جس طرح نشانہ خاص بنایا گیا اس سے دائیں بازو کے انتہا پسندیوں پر مشتمل ذہنی خلجان کو سمجھنا مشکل نہیں کہ یہی وجہ ہے ٹرمپ نے بھی اہل برطانیہ کو یورپ سے علیحدگی کے حوالہ سے گمراہ کن مشورے دیے۔ اب یہ برطانیہ کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ “ہٹلر” پیدا کریں یا پھر اپنی غلط کاریوں سے سبق سیکھیں۔


Waving European Union flags and chanting "no Brexit", thousands gathered despite the pouring rain in central London on Tuesday to express their rage and dismay at Britain's vote to leave the EU.

LONDON: Britain's car sector on Wednesday said its growth depended on the country keeping "unrestricted access" to the European single market -- a situation thrown into doubt by Brexit.

Europe Meets Britain's Demands for Special Status

David Cameron's four key demands to remain in the EU revealed

Review Indian Summer

Anti German Campaign

1917 Britain’s King George V changes royal surname


No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...