Development Projects & Misleading resistance
یہ درست ہے کہ جب بھرپور مشاورت کے بعد کوئی منصوبہ نہیں بنتا تو اس پر سٹیک ہولڈروں کی طرف سے اعتراضات بجا طور پر اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر جب منتخب قیادتوں کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ ان کی حکومتیں اپنی آئینی میعاد پوری کرسکیں گی، تو پھر وہ ہر کام جلد از جلد کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اورنج ٹرین منصوبے پر سڑکوں پر ہونے والی سیاست کا فیصلہ اب عدالتوں میں ہوگا، کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی بے معنی اعتراضات کو چھوڑتے ہوئے تاریخی عمارات جیسے اہم ترین مسئلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔
تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنا اک بہتر قدم ہوتا
ہے۔ تاہم اس تکلیف کی آڑ میں اس منصوبہ ہی کو ختم کرنے کی مہمیں اسارنا قابل تحسین
نہیں ہوتا۔ جیسے آج کل پرویز الٰہی، شیخ رشید وغیرہ میٹرو اور اورنج ٹرین کی
مخالفت کو اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھے ہیں وہ اُسی گندی سیاست کا تسلسل ہے جو فوجی
آمریتوں کی پیروی کے سوا کچھ نہیں
موٹروے پر سفر کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس سڑک نے
لاتعداد پنڈوں اور سرگودھا، فیصل آباد جیسے اچھے بھلے شہروں کا اسلام آباد ولاہور
تک جو سفر آسان کیا ہے اس کا فائدہ نرے امیروں کو نہیں بلکہ عام آدمی خصوصاً متوسط
طبقہ و ہنر مندوں کو بھی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ فوجی دور میں لاکھ
مخالفتوں اور ق لیگوں کی تخلیق کے باوجود نوازشریف کی حمائیت جاری رہنے کی ایک بڑی
وجہ بھی یہی تھی۔
بھٹو صاحب کے دور میں جن کچی بستیوں کو لاہور و
دیگر شہروں میں بسایا گیا تھا انہی میں سے بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کو ضیا آمریت
کے دوران کارکن بھی ملتے رہے تھے۔
آج بھی لوگ سرگودھے کے پنجابی ملک فیروز خان نون
کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے8 ستمبر1958 کو گہرے سمندر سے منسلک تاریخی شہر و بندرگاہ
گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کروایا تھا۔1954میں ایک امریکی سروے میں گوادر
بندرگاہ کی اہمیت بارے انکشاف کیا گیا تھا کہ اس کے بعد فیروز خان نون کے دور میں
گوادر کو عمان سے خریدا گیا۔
عوامی تحفظات کے تحت کسی ترقیاتی منصوبے کی حمایت یا مخالفت ایک اہم سوال ہے، اور یقیناً عوامی امنگوں کے خلاف کوئی منصوبہ ان پر تھوپنا نہیں چاہیے۔
ماضی میں کالا باغ ڈیم کی حمایت و مخالفت نے پاکستان اور پاکستانیوں کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، وہ ہماری تاریخ کے خوفناک تجربوں میں سے ایک ہے۔ چاہے بجلی کی قلت ہو، یا بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، چاہے سیلابی صورتحال پیدا ہوجائے، یا بارشوں کی کمی کی وجہ سے زراعت کے لیے پانی دستیاب نہ ہو، ان سب کا سہرا بڑے ڈیموں کی تعمیر، خصوصاً کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو سیاست کی نذر کر دینے کے سر ہے۔
Read the complete article
Further readings
No comments:
Post a Comment