Part 3
Saudi+Iranian Conflict
Old Vs New Narratives and Changed International Scenario
Here is the last part and It is reminding about changes already done in the first 15 years of 21st Century. Revolutionary Cuba, Anti-American Iran and Pro-Moscow India are on the other side of pendulum, Elected government of Pakistan did not send her troops in Yemen war, US & UK are trying to develop strongest relations with Red China, Germany and Turkey are taking leads Yet protectors of old narratives are still confused. Like Iran of early 1970s, KSA is reluctant to accept Changed International Scene. SU-24 plane crisis elevated Turkey which reminds us 1962 Cuban Missile Crisis. It is a smart move to place turkey as an important key international player. Remember, Turkey gaining importance after 100 year isolation yet during those 100 years Turkey gradually strengthen democratic path. Likewise Germany remained victim of both WWs and faced partition during 20th century but germans never compromised modernity & democracy. Iran and KSA should learn lessons from Turkey and Germany. Read the last piece
ہر نئی صدی کے پہلے دو عشرے ہمیشہ غیر معمولی اہمیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ کم از کم 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدیوں کے تجربات یہی بتا رہے ہیں۔ کیا دنیا اک بار پھر بدل رہی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس پر میں گذشتہ تین سال سے لکھ رہا ہوں۔
کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستان اپنے مربی سعودی عرب کی مرضی کے خلاف 'جنگِ یمن' میں شامل ہونے سے انکاری ہوجائے گا۔ روس سے دوستی کا دم بھرنے والے ہندوستانی 21ویں صدی میں امریکی حاشیہ بردار ہو جائیں گے۔ یہ سب دنیا کے بدلنے کی علامات ہیں جس میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ ہی کوئی مستقل دشمن۔ مگر لگتا ہے بالعموم سعودی عرب اور بالخصوص مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے
حکمران دیوار پر لکھا پڑھنے سے بوجوہ قاصر ہیں۔
خطے کی سیاست میں جو اہم مقام سعودی عرب کو 1970 کے عشرے کی ابتداء میں ملا تھا، اس کے اختتام کا وقت قریب ہے۔ ایران کی طرح آج سعودی عرب کو بھی یہ تطہیر منظور نہیں۔ ایران اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کا طلبگار ہے مگر عالمی سیاسی شطرنج کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خطے کی چوکیداری کا تاج اب ترکی کے سر پر سجایا جائے گا۔ یمن کی جنگ میں اس کا ٹریلر چل چکا ہے کہ جنگ بندی کے معاملے میں ایران، سعودی عرب اور یمن تینوں نے ترکی کے کردار کو تسلیم کیا۔
انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت اور بیرونی دباﺅ سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو اپنی طرز حکمرانیوں کو بدلنا ہوگا۔ ترکی اور پاکستان اس کایا کلپ پر پہرہ دے سکتے ہیں، کیونکہ بدلتے موسموں کو سمجھنے ہی میں سب کی عافیت ہے۔ 2016 کا یہی پیغام ہے کہ سمجھنے والوں کے لیے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment