Saturday, January 23, 2016

London: Use of Religion, Trump & Cameron's Old narrative and Combating Terrorism

London: Use of Religion, Trump & Cameron's Old narrative and Combating Terrorism

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 9/11 کے بعد جارج بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مخصوص رنگ دینے کے لیے بڑی چالاکی سے اُسے ’’صلیبی جنگ‘‘ کا عنوان دیا تھا۔ بعدازاں بش کے اس بیان کو مسلم انتہا پسندوں نے تادیر اپنے مضامین اور لٹریچر میں بطور تنقید استعمال کیا۔ ایسے انتہا پسند بیانات سے بش اور جہادیوں دونوں نے منفعت کمائی 


برطانیہ کے پالیسی ساز بعداز سرد جنگ ’’کھوئی ہوئی عالمی بادشاہت‘‘ کے دوبارہ حصول کے لیے سرگرم تھے اور جی ایٹ سے جی 20 بنانے کی سفارتی سرگرمیوں کے سفر میں وہ 1941ء سے قبل کی دنیا دوبارہ بسانا چاہتے تھے۔ مگر ان کے خواب بوجوہ ادھورے رہ گئے۔ اب اس تطہیر کا برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں سے کیا تعلق کہ غصہ انہی پر نکال رہے ہیں۔ اپنے تازہ ترین دوبیانوں میں موصوف کیمرون نے ’’چہرے کے پردے‘‘ اور انگریزی نہ سیکھنے کے عمل کو انتہا پسندیوں سے جوڑنے کا آہر کیا ہے اور ان کا مخاطب صرف اور صرف برطانیہ مقیم مسلمان ہیں۔ سکارف کا مسئلہ اس سے قبل فرانس میں بھی اٹھا تھا مگر فرانس نے تو اپنے سکولوں میں صلیب (کراس) کرپان اور چہرے کے نقاب (سکارف) سمیت تمام مذہبی علامتوں کو بند کرنے کی پالیسی بنائی تھی۔ اس کے برعکس کیمرون کے بیانات صرف اور صرف مسلمانوں ہی تک محدود ہیں۔ 

Hate Speech & Cameron Trump Nexus

یوں لگتا ہے کہ کیمرون بڑی چالاکی سے ٹرمپ کی مدد کرنے کا ساماں کر رہے ہیں کہ ان کے موجودہ ’’مسلمان دشمن‘‘ بیانات کا تعلق اس ماحول سے ہے جس کا مطلب مسیحوں کو کسی نہ کسی طرح ٹرمپ کی مدد کے لیے آمدہ کرنا ہے۔ یوں مذہب کو سیاست میں بخوبی استعمال کرنے کا رواج جاری ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آج برطانیہ میں مسلمانوں کا تناسب پاکستان میں غیر مسلموں کے تناسب سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کو بجا طور پر مذہبی اقلیتوں سے ناروا سلوک پر کوسا جاتا ہے تاہم جب یہی عمل جدیدیت اور لبرل ازم کا سرخیل ملک کرے تو پاکستانی لبرل اس پر خاموش رہتے ہیں۔ یہ دہرا معیار کسی بھی طرح خوش آئند نہیں اور نہ ہی اس خاموشی سے پاکستان میں انتہا پسندیوں کے خلاف جدوجہد کو تقویت ملتی ہے۔  
Promoting Extremism smartly

ایسے بیانات سے تو بس یہی ’’کھرا‘‘ملتا ہے کہ قدامت پرست، بنیاد پرست اور انتہا پسند دنیا کے ہر مذہب و خطہ میں پائے جاتے ہیں اور یہ اپنے مخصوص مفادات کو بچانے کے لئے مذہبی، فرقہ وارانہ اور نظریاتی روپ دھارتے ہیں۔ اگر آپ انتہا پسندوں کے خلاف انتہا پسند زبان ہی بولیں گے تو آپ انتہا پسند ماحول بنانے میں معاون بنیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ انتہا پسندوں اور ان کی خفیہ سیاست کو بے نقاب کریں کہ پھر جا کر کہیں ہم اس کے سدباب کی طرف بڑھ سکیں گے۔ 
Further Readings
Is Chinese Knot Ready to Unfold? ( From mideast to G-20)

http://punjabpunch.blogspot.com/2016/01/why-cameron-supporting-trump-what-is.html 

No comments:

Post a Comment

No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of Pak-US relations)

  No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of  Pak-US relations) Till to date 5 US Presidents visited Pakistan since 195...