Part-2
Iranian+ Saudi Conflict
Armed Industry, Election Year in US & Pakistan
Everyone knows the relationship between War & Trade yet after the formation of Nation State this lethal combination of War & Trade often used in International as well as National politics as game changer. In order to give moral legitimacy to wars they used attractive slogans based on Nationalism, Religion, Sub-religion, Sub-nationalism, Old regional conflicts smartly and recent Saudi+Iranian conflict is also a reflection of such game plan. Keeping in view that this is election year in the US and Ronald Trump's anti-muslim statements one can understand who is who behind the Conflict. In conflict zones, local power brokers too used such opportunities against their local partners. What crown prince did in Saudi Arabia is a trick too while burning of KSA embassy in Iran too a reflection of local politics. Iranian President rightly criticized protesters timely yet in International Media promoters of armed industry downplayed his statement smartly and published only conflict base parts. Earlier, when KSA announced 34 countries alliance, same trick was followed in International media by associated it with the misleading term "The sunni alliance". Infact 23 Sunni countries are out of it and indonesia already left and in this situation calling it Sunni alliance looks strange yet it has appeal among various extremist muslim groups due to their old conflicts. Read the piece and enjoy
The link is here
کسی بھی چومکھی لڑائی کی طرح ایک بار پھر میدان سج رہا ہے کہ
پاکستان کے لیے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا لازم ہے۔ وزیراعظم کو اس چومکھی لڑائی
میں پارلیمان کی رائے لینی چاہیے کہ مسئلہ اس قدر سیدھانہیں جس قدر بنایا جا رہا
ہے۔ جو لوگ سعودی ایرانی تنازعہ کو محض شیعہ سنی کی گردان تک محدود رکھ کر دیکھیں
گے وہ 1980 کی دہائی کی طرح ایک دفعہ پھر مغالطوں میں رہیں گے اور اس کا خمیازہ
پوری قوم بھگتے گی۔
اس جنگ کو شیعہ سنی کالب میں ڈھالنا ایک چال ہے۔ ایرانی صدر نے
سعودی سفارتخانہ پر حملہ کی پرزور مذمت کی مگر میڈیا میں ان کے بیانات کے اس حصہ
کو ہی نمایاں کیا گیا جو متنازعہ تھا۔ اس کام میں محض پاکستانی میڈیا ہی شامل نہ
تھا بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی پیش پیش تھا۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ کے میڈیا ہاﺅسوں
میںاسلحہ سازوں کا کتنا اثر ہے اس کا اندازہ سعودی سفارتخانے پر حملے اور 34 ممالک
کے اتحاد بارے ہونے والی بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹنگ سے بخوبی ہوا۔ یاد رہے،جب
سعودی عرب نے 34 ممالک کے اتحاد کا اعلان کیا تھا تب بھی بین الاقوامی میڈیا نے
اسے ”سنی اتحاد“ کا گمراہ کن نام دیا تھا۔ حالانکہ اس اتحاد میں 23 سے زیادہ سنی
ممالک شامل ہی نہیں ہوئے تھے اس کے باوجود بین الاقوامی میڈیا میں موجود اسلحہ ساز
کمپنیوں کے نمائندوں نے اس موقعہ سے اپنا الو سیدھا کیا
جیسے پاک بھارت جنگ کو ”ہندومسلم تضاد“
کے تیل سے بھڑکایا جاتا ہے ویسے ہی سعودی ایرانی جنگ میں ”شیعہ سنی تضادات“ کا
چھڑکاﺅ ہوتا ہے۔ مذہب / فرقہ اور قوم پرستی کے ملغوبہ سے جنگی جنون کو
ہوا دینا وہ کھیل ہے جسے امریکیوں نے برطانوی پالیسی سازوں سے سیکھا ہے۔ یہ کھیل
نوآبادیاتی کھیل کا حصہ تھا اور 9/11 کے بعد بھی بہت سی قوتیں اسے جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جس کا آج ہم سب کو سامنا ہے۔
چین واحد ملک ہے جو اسلحہ بیچنے اور خریدنے والے دونوں گروہوں میں
ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلحہ ساز کمپنیاں چین پر اس طرح اثرانداز
نہیں ہو سکتیں جس طرح وہ دیگر ممالک پر ہوتی ہیں
اگر آپ کی نظر بین الاقوامی سطح پر چلنے والے عسکری معیشت پر ہو گی
تو آپ کو اسلحہ ساز کمپنیوں کی طاقتوں کابھی بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ ایک محتاط
اندازے کے مطابق آج کل دنیا میں ہر سال اسلحہ سازیوں پر 157 کھرب روپے سے زیادہ کا
کاروبار ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا 2014-15ءکا کل بجٹ 4 کھرب روپے ہے۔ کہاں 4 کھرب
اور کہاں 157 کھرب، اب ہمارے جیسے چند کھرب کے بجٹوں والے ملک ان اسلحہ ساز کمپنیوں
کے نزدیک کیا حیثیت رکھتے ہیں یہ بات لکھنے کی ضرورت چنداں نہیں۔
اسلحہ ساز کمپنیاں سرد، گرم اور خفیہ (proxy) جنگوں پر پلتی ہیں۔ برما،
کیوبا، افغانستان، عراق کے محاذوں کے ٹھنڈا پڑنے، ایرانیوں کے سمجھوتہ کرنے اور
شام و یمن کی جنگ کے شروع نہ ہونے سے دنیا کی طاقتور اسلحہ ساز کمپنیوں اور ان کے
پروردہ سیاستدانوں کو سخت مایوسیوں کا سامنا ہے۔
Part 1
No comments:
Post a Comment