Sunday, January 17, 2016

Rise of Extremism & atrocities against Communists: Who will write History of Pakistani Progressives?


Rise of Extremism & atrocities against Communists

Who will write History of Pakistani Progressives?
Reporting & Review of the book Surkh Salam  


In recent past three books has been published and all the three books have lot of information regarding the Left politics in Pakistan, Pindi Conspiracy Case, Communist support for Pakistan Movement, Is t& 2nd Congress of CPI, Ban on CPP and history of post sanction politics and formation of numerous left groups throughout Pakistan. But Kamran Asdar Ali’s book is quite different from Jamal Naqvi & Ahmad Ali Khan books.  There are short coming in the book of Kamran yet he discuss many authenticate records too.  Read what I wrote in Weekly humshehri and respond

کیا پاکستان بائیں بازو تاریخ کا قرض اتار پائے گا


How Extremism strengthen: infected Legacy of Muhammad Hassan Askari, promotion of orthodoxy and rejection of Progressive thoughts & people
سعادت حسن منٹو جیسے باکمال لکھاری کا کندھا استعمال کرکے محمد حسن عسکری جیسوں کو بخشوانے والے بھی یہ نہیں لکھتے کہ کمیونسٹوں کو وطن دشمن وہ لوگ بھی کہہ رہے تھے جو 14۔ اگست 1947 تک قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ تحریک پاکستان کی حمائیت میں لکھے ترقی پسندوں کے مضمونوں کو بوجوہ بھلادیا گیا کہ کہیں نومولود ملک میں ترقی پسند جمہوری و لبرل فکر پالیسی کا حصّہ نہ بن جائے۔ بعد ازاں ان کی اس محنت کو سرد جنگ نے چار چاند لگائے اور وہ پاکستان کو قدامت پسندی کی طرف دھکیلنے میں کامیاب رہے۔ جب ہم نے خود مذہبی انتہا پسندیوں کو کمیونسٹ دشمنی میں سینے سے لگایا تھا تو پھر دوسروں سے گلہ کرنا درست نہیں۔ ملک پاکستان میں سردجنگ کے دوران سوشلزم کانام لینے والے ترقی پسندوں کو جس طرح گلیوں، محلوں، پنڈوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں دیوار سے لگایا گیا کہ اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔ آج 9/11 کے بعد تو مذہبی انتہا پسندی سب کو کھلتی ہے اور ہر کوئی طالبان کے اُگلدان میں اپنا گند بھی ڈالنے میں رجھا ہوا ہے کہ گریبان میں جھانکنا جوئے شیر لانے سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔ 



Contractors of Ideology of Pakistan & founders of extremism 
اصل مسئلہ تو’’نئے ٹھیکے داروں‘‘ کا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں ترقی پسندوں کی مخالفت میں جو گروہ پیش پیش رہے ان میں نو آبادیاتی دور کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کے علاوہ بہت سے خدائی خدمتگار بھی تھے جو ادب سے سیاست تک ہر جگہ خود ساختہ ٹھیکے دار بنے بیٹھے تھے۔ یہ وہی حضرات ہیں جو پاکستان میں انتہا پسندیوں کے اولین معمار بنے کہ وہ آج اس کا ذکر گول کرنا چاہتے ہیں۔


The important Question of Muslim majority provinces & the pitfall Lukhnow Pact of 1916 
ہندوستانی سیاست میں مسلم اکثریتی صوبوں کے کلیدی کردار بارے پیش گوئی اوّلین سطح پر تو تاریخی خطبہ آلہ آباد میں علامہ اقبال نے کی تھی کہ اس وقت خود محمد علی جناح بھی اس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ تاہم 1940 کی قرارداد کی منظوریوں تک بشمول قائداعظم علامہ کی بات کی حقانیت کو تمام مسلم لیگی سمجھ چکے تھے۔ کانگرسی حلقوں میں جن رہنماؤں کو مسلم اکثریتی صوبوں کے فیصلہ کن کردار کی بات اولین طور پر سمجھ آئی تھی ان میں مولانا عبیداللہ سندھی، چوہدری افضل حق، میاں افتخارالدین (صدر کانگرس پنجاب) اور راج گوپال اچاریہ پیش پیش تھے۔ اپریل 1942 میں راج گوپال اور میاں افتخارالدین جیسے کا نگرسیوں نے اپنی جماعت میں مسلم اکثریتی صوبوں کے حق خود ارادیت کے حوالہ سے قرار داد بھی پیش کی مگر گاندھی، نہرو، آزاد، پٹیل اور برلا کی موجودگی میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔ 1943 میں کمیونسٹ پارٹی نے بھی اس بات کو انڈین سیاست کے حل کے طور پر سمجھا اور اس کے حق میں پورے تین سال دلائل دیتے رہے۔ - 


اب تو وہ بھی مارشلاؤں کے خلاف لکھتے، بولتے بلکہ چلاتے ہیں جو انہی مارشلاؤں کی پیداوار ہیں۔ جو 16 دسمبر 1971 تک بنگالیوں کے خلاف سینہ سپر رہے وہ آج شستہ اور یوپی کی اُردو میں بنگالیوں کے قصیدے کمال ہوشیاری سے لکھتے ہیں۔ ان کے تازہ کالم پڑھنے کے بعد قاری بیچارہ یہ ہمت ہی نہیں کرتا کہ وہ پوچھے’’ حضرت خود آپ 16۔ دسمبر 1971 تک کیا بیچتے رہے‘‘۔ اب بنگالی تو آج پاکستان میں ہے نہیں کہ بتائیں کہ کس کس کی ہے مہر سرِ محصر لگی ہوئی۔ مگر پاکستانی لیفٹ کا ابھی اتنا برا حال نہیں ہوا کہ وہ تو اپنے ’’قتل نامہ‘‘ پر لگی مہروں پر بات بھی نہ کرسکے۔ البتہ اس کے لیے لیفٹ والوں کو گم شدہ جمہوری تاریخ کے ابواب رقم کرنے کا قصد کرنا پڑے گا -


کامران اسدر نے دلچسپ انداز تحریر کو اختیار کرتے ہوئے ایک طرف مشہور لکھاری سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کو مہارت سے کتاب کا حصّہ بنایا ہے تو دوسری طرف سجاد ظہیر، ان کی بیگم، کامل خان ممتاز کے والد، خدیجہ عمر، زیڈ اے احمد، محمود الظفر اور ان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رشتے داروں کا ذکر خوب کیا ہے جو روپوشی کے دنوں ان کے بہت کام آئے۔ یہ بات آئی اے رحمن کو تو پسند نہیں آئی مگر انتظار حسین نے کتاب بارے لکھے کالم میں اس کو سراہا ہے۔ یوں لگتا ہے اس پسند اور ناپسند کے پیچھے اپنے اپنے تعصبات و تحفظات کا اثرنمایاں ہے ۔


منحرف‘‘ کمیونسٹ رہنما جمال نقوی کی کتاب کو تو یاروں نے لفٹ ہی نہیں کروائی کہ زندیق کی ہمارے ہاں کوئی جگہ نہیں ہوتی چاہے ہم سیکولر ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان کی کتاب اس لیے اہم ہے کہ اپنے’’رضائی‘‘ رشتہ دار احمد ندیم قاسمی کی طرح انھوں نے بھی فیض صاحب کی وفات کے بعد ان کے ’’لتے‘‘ لینے کی ناکام کوشش بھی کی اور پنڈی سازش کیس بارے بھی ’’بے پر‘‘ کی اڑائی مگر خود پاکستان ٹائمز پر ایوبی قبضہ کے بعد اُس محبوس اخبار کے پہلے ایڈیٹر جا بنے۔



Further Readings

No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو