Thursday, February 26, 2015

South Punjab: Rising Middle Class & Extremism



South Punjab

 Rising Middle Class & Extremism

http://issuu.com/hum_shehri/docs/02.03.2015/24?e=12088494/11606713


Visit of literate youth of South Punjab in Lhore organized by Bargad provided an opportunity to understand what young leaders are thinking regarding their future.  Their questions were pertinent yet answers were absurd, their knowledge was limited yet courage was up to the mark, never the less their search for solutions remains intact during the visits of Government College & Historical places.

Link of the article published in weekly Humshehri

http://humshehrionline.com/?p=9904#sthash.26n6r38c.dpbs 


کسی بھی معاشرے میں درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہی میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی طبقاتی حیثیت کی وجہ سے بیک وقت اشرافیہ کی پرتعیش زندگیوں سے لے کر چھونپڑیوں اور کچی بستیوں میں کسما پرسی کی زندگی گزارنے والوں تک کے حالات سے باخبر رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی نظریں اور غریبوں کی امیدیں مڈل کلاس پر ٹکی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کی جتنی بھی تحریکیں ہیں ان میں بنیادی قوت محرکہ درمیانے طبقہ ہی کے نوجوان رہے ہیں۔ آج کل ماہرین یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں 16 سے 35 سال کے نوجوانوں کا تناسب بہت بڑھ چکا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک بھر میں مڈل کلاس کی گنتیاں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ مگر مڈل کلاس کو محض اپنی بڑھ چکی تعداد پر اترانا نہیں چاہیے کہ انہیں استعمال کرنے والے بھی انتہائی چوکس ہیں۔ یوں اس کار جہاں میں درمیانہ طبقہ کو پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے کہ انہی معاشروں نے تیزی سے ترقی کی ہے جن کی مڈل کلاس جذباتیت، نعرے بازیوں اور ہر قسم کی انتہا پسندیوں و موقع پرستیوں سے بچتے ہوئے اعتدال کا دامن تھام کر نئے راستے ڈھونڈتی ہے۔ -

یہاں مڈل کلاس کی موقع پرستیوں اور کامرانیوں کا ذکر اس لیے آگیا کہ پچھلے دنوں غیر سرکاری تنظیم برگد کے وسیلہ سے جنوبی پنجاب سے آئے 200 سے زائد طلبا و اساتذہ میں کچھ وقت گزارنے کو موقع ملا۔ یہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ملتان سے پنجند تک پھیلے ’’وسیب ‘‘کے نمائندہ تھے اور ان کا تعلق بہاولپور، لودھراں، مظفر گڑھ اور ملتان کے اضلاع سے تھا۔ کیونکہ ’’برگد ‘‘عرصہ دراز سے ملک بھر کی اہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں سے براہ راست رابطہ میں ہے اس لیے خواندہ نوجوانوں کے ساتھ یہ تنظیم گاہے بگاہے تو اتر سے پروگرام کرتی رہتی ہے۔
جنوبی پنجاب کے یہ نوجوان تین روزہ دورے پر پنجاب کے دل لاہور آئے اور جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ نوجوان قذافی سٹیڈیم کے پاس ’’پنجابی کمپلیکس ‘‘میں آخری پروگرام انجوائے کر رہے تھے۔ آج وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی عظیم درس گاہ سے ہوکر آئے تھے اور یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ مستقبل میں وہ اپنے اضلاع کے تعلیمی اداروں کو گورنمنٹ کالج لاہور جیسا بنائیں گے۔ ان کے سوالات و تبصروں میں اضطراب بھی تھا اور تجسس، احتجاج اور کچھ کرنے کا عزم بھی۔
  
وہ اپنے وسیب کے قریشیوں، جتوئیوں، کھروں، 

گیلانیوں، خاکوانیوں، خانوں اور جٹوں کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف تھے کہ اس لیے وہ ردعمل میں جمشید دستی کی بغاوت کو سراہنے تک کے لیے تیار تھے مگر اسے رول ماڈل نہیں سمجھتے تھے۔ ان نوجوانوں میں باریش بھی تھے، شلوار قمیضوں میں ملبوس بھی اور سوٹ پینٹ زیب تن کیے بھی۔ خواتین میں کچھ نے تو برقعہ یانقاب اوڑھا تھا تو کچھ دوپٹہ پہنے تھیں اور ایسی بھی تھیں جن کے لیے ان چیزوں کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔ لاہور میں وہ مہمان تھے اس لیے میزبانوں نے انہیں گھر کے بہترین مقامات ہی دکھانے تھے کہ جب انہیں اس شہر کی 300 سے زائد رجسٹرڈ وہ غیر رجسٹرڈ کچی آبادیوں بارے بتایا تو وہ کچھ حیران بھی ہوئے۔ مگر جلد انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ اشرافیہ ہر شہر اور علاقہ میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ چاہے لاہور، ملتان، مظفر گڑھ، بہاولپورہو یاپھر کراچی، لاڑکانہ، کوئٹہ یا پشاور طاقت کے تھموں یعنی اشرافیہ میں اتحاد بھی خوب ہوتا ہے۔ اگر مڈل کلاس میں اتحاد ہو جائے تو وہی انقلاب آتا ہے جس کا مظاہرہ لوگوں نے دسمبر 1970ء میں پیپلز پارٹی کی فتح کی شکل میں دیکھا تھا۔ جنوبی پنجاب سے باہر نوکریوں اور کاروبار کے سلسلہ میں لاہور، اسلام آباد جانے والے درمیانہ طبقہ کے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں کہ اگر وسیب میں رہنے والی تمام مڈل کلاس اور وسیب سے باہر ملازمتیں کرنے والی مڈل کلاس کو یکجا کر لیں تو تجربہ، دانشمندی اور عزم دھیرے دھیرے’’ تعصب و تقاخر‘‘ پر سبقت لے سکتا ہے۔ مگر انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ یہ وقت مڈل کلاس کو جوڑنے کا ہے نہ کہ زبان و فرقہ پر لڑنے کا۔ مڈل کلاس جب تک اپنے علاقوں میں معیاری تعلیم اور ملازمتوں و کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں یکجان نہیں ہوگی تب تک ان کا ہیجان بڑھتا ہی رہے گا۔ یہ طلباء و طالبات سرکاری تعلیم اداروں میں پڑھ یا پڑھا رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ خود لاہور کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کی حالت بھی آج کے دور میں مخدوش ہوچکی ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور تو کسی نہ کسی طرح ماضی کی روایات کے سبب ’’عزت سادات ‘‘بچائے ہوئے ہے مگر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، دیال سنگھ کالج، ایم اے او کالج اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کے حالات مخدوش ہی ہیں کہ اب باوا آدم ’’نجی تعلیم ‘‘ بن چکی ہے۔ اب ہر پنجابی نوجوان تو نجی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا کہ آج سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانا ایک طبقاتی سوال بن چکا ہے اور اس طبقاتی سوال سے پہلو تہی کے لیے مذہب، فرقہ، زبان اور لہجوں کے فرق کو اشرافی طبقے خوب استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بدلنا محض جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ جنوبی پنجاب کی مڈل کلاس اس تحریک کو لیڈ کر سکتی ہے۔ یاد رکھیں، پنجاب کی اُبھرتی ہوئی مڈل کلاس کو 20ویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں اصل طاقت لاہور کے سرکاری سکولوں اور کالجوں نے ہی دی تھی جہاں بہاولپور، ملتان، ڈجی خان سے لے کر لاہور، فیصل آباد، پنڈی، اٹک، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، تک کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا آتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ یونینسٹ پارٹی کے میاں فضل حسین کی کاوششوں سے 1923ء سے 1933ء کے درمیان پنجاب کے گیارہ ہزار پنڈوں میں سکول کھولے گئے تھے کہ ان سکولوں نے پنجاب بھر کی مڈل کلاس کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے تھے۔ کسی بھی مڈل کلاس کا پہلا حدف معیاری تعلیم اور نوکریوں و کاروبار کے نئے مواقع کا اپنے علاقوں میں حصول ہوتا ہے۔ اس دوران ان کے لیے دوسروں کے تجربوں سے سیکھنا بھی ہوتا ہے تاکہ محض جذباتیت میں انہیں کوئی استعمال نہ کرسکے۔ برگد والوں نے جنوبی پنجاب کے خوانداہ نوجوانوں کے اس دورہ کو بجا طور پر ’’دورہ امن‘‘ کا نام دیاکہ آج جس انتہا پسندیوں کا ٹانکہ جنوبی پنجاب سے جوڑا جاتا ہے یہ نوجوان اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی تصویر تھے۔ ان علاقوں میں انتہا پسندیوں اور فرقہ پرستیوں کا بڑا حوالہ تو فاٹا سے قربت ہے کہ کسی زمانے میں یہ علاقے فاٹا اور دریائے سندھ کے پار کے رستے تاجروں اور لشکر کشیاں کرنے والوں کی گزر گاہیں تھیں۔ لیہ اور ملتان اس کاروبار کے مرکز رہے مگر جب سے فاٹا جاسوسوں اور سمگلروں کی آماجگاہ بن چکا ہے تو ان رستوں پر فرقہ پرستوں، سمگلروں اور جاسوسوں کا راج ہے۔ میانوالی، بھکر، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور جیسے علاقے ڈیورنڈ لائن اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پی کے) بننے کے بعد نشانہ خاص رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا یہ وہ حوالہ ہے جس نے اس وسیب کی صدیوں پرانی رواداری اور بردباری پر مبنی روایات کو چاٹ ڈالا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب محکمہ تعلیم مختلف علاقوں کے طلباء میں میل جول کا بندوبست کرتا تھا اور ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقریروں، کھیلوں کے مقابلے ہوئے تھے۔ اس کمی کو برگد نے پورا کرکے یقیناًمثبت قدم اٹھایا ہے۔ مگر چاروں صوبوں کے وزراء تعلیم کو بین اضلاعی اور بین الصوبائی سطح پر ایسے مقابلوں کی ریت دوبارہ ڈالنی چاہیے۔ اپنے اس دورہ میں نوجوانوں نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کی آخری تقریب میں بھی شرکت کی، لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر بھی کی اور گورنمنٹ کالج بھی گئے۔ اگر آئندہ پروگرام میں انہیں لاہور کی کچی بستیوں اور سرکاری ہسپتالوں کا دورہ بھی کروا دیا جائے تو وہ ڈیفنس،ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ کے اردگرد لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے ’’لہوریوں‘‘کو غربت اور کم وسائل سے تمٹتا خود دیکھ لیں گے۔ سرکار سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے جب سے بین الاضلاعی اور بین الصوبائی سطح پر طلباء میں میل جول کو داخل دفتر کر ڈالا تب سے مسائل اور زیادہ گھمبیر ہوچکے ہیں۔ سونے پر سہاگہ افغان جہاد نے چڑھایا تھا کہ جب انہی تعلیم اداروں کو ’’جہادی بھریتوں ‘‘کا مرکز بنا ڈالا گیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاری تعلیم درس گاہوں میں نہ صرف سرکاری تعلیم کا معیار نسبتاً بہت بہتر ہوتا تھا بلکہ انہیں روزگار کے لیے دردر ٹھوکریں بھی نہیں کھانی پڑتیں تھیں۔ مگر اب ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، کاروبار کو مدنظر رکھ کر انہیں تعلیم نہیں دی جاتی تو دوسری طرف جب یہ مارکیٹ میں نوکریوں کے لیے آتے ہیں تو مالک کے لیے یہ کسی کام کے نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ مسئلہ بالعموم پورے پنجاب اور بالخصوص پورے ملک کا ہے اس لیے اشرافی (Elite) طبقوں کا مفاد یہی ہے کہ ملک بھر کی مڈل کلاس اس مسئلہ پر یکجان نہ ہو۔ اشرافی طبقوں کو 1970ء کے انتخابات کا تجربہ ہے جب درمیانے طبقوں سے تعلق رکھنے والوں نے بالخصوص پنجاب میں میدان مار لیا تھا۔ بس درمیانے طبقہ والوں کو قابو میں کرنے کے لیے زبانوں، فرقوں کا ایسا ’’گھما‘‘ تیار کیا گیا کہ یہ تاحال سر پٹختے پھرتے ہیں۔ لسانی و فرقہ پرست تنظیمیں ان کو استعمال تو کرسکتی ہیں مگر ان کے مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔ جمشید دستی جیسے لیڈروں کا آگے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جنوبی پنجاب کی مڈل کلاس 1980ء کی دہائی کی نسبت زیادہ متحرک ہو چکی ہے مگر مڈل کلاس کے مسائل کا حل وسیع پیمانے پر کی جانے والی جدوجہد کا متقاضی ہے۔ 1940ء کی دہائی کے بعد اُبھرنے والی پنجاب مسلم لیگ اور 1970ء کی پیپلز پارٹی اس کی مثالیں تھیں مگر اشرافی طبقوں کی چالیں آج زیادہ کار گر ہیں جو تعصبات کی بنیاد پر انہیں منقسم رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ 2013ء کے انتخابات میں بالعموم لسانی اور فرقہ پرست سیاست کے علمبرداروں کی دال نہیں گلی جو مڈل کلاس کے باشعور ہونے کی علامت ہے۔ اُمید ہے برگد والے لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد سے بھی طلبا وطالبات کو جنوبی پنجاب کے انہی چاروں اضلاع میں لے کر جائیں گے۔ جس انتہا پسندی کا جنوبی پنجاب شکار ہے اس کا حل نوجوانوں میں وسیع سطح پر ڈائیلاگ شروع کروانے سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے والے خواندہ نوجوانوں میں کم از کم تصفیہ سے وہ دباؤ بڑھے گا جس سے پاکستان کو تعصبات اور نفرتوں سے پاک کرنے میں مدد ملے گی۔ امن اور رواداری تو پہلی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر تعلیم اور روزگار کا خواب بھی ادھورا رہتا ہے۔ ملتان سے پروگرام میں آئے ایک طالب علم کا یہ کہنا درست تھا کہ جنوبی پنجاب کے طالب علموں کو مواقع ملیں تو وہ ملک بھر میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں مگر انہیں یہ یاد بھی رکھنا چاہیے کہ اشرافی طبقات اور نودولتیوں نے اس ملک میں مجموعی طور پر مڈل کلاس کو ہر سطح پر پیچھے رکھنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی بندو بست اس قدر مہنگا ہے کہ مڈل کلاس کا جو چھوٹا حصّٰہ اس بھیڑ چال میں شامل ہوتا بھی ہے اسے اپنی دونسلوں کا خراج دینا پڑتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانا ہی وہ رستہ ہے جو درمیانے اور نچلے طبقات کو تگڑا کرنے کا سبب بن سکتا ہے کہ اس کے لیے ہر اس عمل سے بچنا ہوگا جو مڈل کلاس کو منقسم کرے۔ ’مڈل کلاس کی آڑ لے کر مڈل کلاس کو منقسم کرنے والوں کو پہچاننے کے بعد ہی نئے رستے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔’امید جوان‘ کے تعاون سے برگد کا یہ عمل اس لیے خوش آئند ہے کہ خواندہ نوجوانوں کو ’’خیالی دنیا‘‘ سے نکالنے کے لیے ایسے ہی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ میں اپنی بات کو بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کے جملوں پر ختم کرتا ہوں کہ شاید تیرے دل میں اُتر جائے میری بات۔ بزنجو صاحب کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھنا جانتے تھے اور بلوچ درمیانہ طبقہ کو سرداروں کی موقعہ پرستیوں اور ریاست پاکستان کی غلط پالیسیوں سے بیک وقت آگاہ کرتے رہے۔ ان کی سوانح کراچی کے پرانے ترقی پسند اور ان کے دست راست بی ایم کٹی نے لکھی۔ انگریزی میں لکھی کتاب ’’In search of solutions‘‘ کے صفحہ 2014 میں کتاب ختم کرتے ہوئے بزنجو صاحب اس طرح تجزیہ کر رہے ہیں ’’تمام تر ممکنات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پنجاب کو گالیاں دینے اور علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے سے ہماری جدوجہد بار آور نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس ہمیں پاکستانی وطنی ریاست میں رہتے ہوئے مل جل کر قومیتوں کے معاشی و سیاسی حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔‘‘ بزنجو صاحب تو 1989ء میں راہی ملک عدم ہوگئے تھے مگر ان کا تجزیہ تادیر درمیانہ طبقہ کے لیے انتہاپسندیوں سے بچنے کا ذریعہ بنتا رہے گا۔ - 

Counter Narrative: Deconstruct Colonial Knowledge First...Thapar


Counter Narrative For Combating Extremism

Deconstruct Colonial Knowledge First...Thapar

http://issuu.com/hum_shehri/docs/02.03.2015/30?e=12088494/11606713

'Despite passage of several years colonial stereotype still colours our perceptions of who we are, what we were and where we are headed. it was important to determine the authenticity of the very past that has and is shaping our society. History was carved out in pre-colonial era to deepen the division between Hindus and Muslims. The Indian historian said we take the version of narration at face value and ignore the intensive investigation that should always be crucial to a statement from the past.  Historian James Mill concocted the theory of divide in the subcontinent. Colonial writings overall projected Somnath as the cause of hostility between Hindus and Muslims. In a successful attempt to sow hatred between Muslims and Hindus, Lord Ellenborough during his address to the House of Commons in 1843 talked about bringing back the gates of Somnath temple from Ghazni, which he claimed were stolen during one of the raids of Mehmood Ghaznavi. Conceptions of ancient India developed in the 19th century, mainly through the work of scholars like Max Muller who argued for the Aryan invasion theory. This theory, was supported by little evidence, but remained the accepted version of history for more than a hundred years. Challenging such long-held beliefs critically is essential',

This was nutshell of what Romila Thapar, a Punjabi Khatri, said during her Keynote address in Lhore Literary festival. The issue is raised in right direction but in the case of Punjab, Kashmir, Sindh, KPK, FATA and Kabul same colonial masters played mainly on the conflicts between Muslims Vs Sikhs and Punjabi Vs Pathans. Before annexation of the Lhore Darbar, Muslims were in heavy majority while Sikhs were largest minority. In order to misled Muslim majorities they constructed Muslim Trauma under the banner of Sikha Shahi (Barbaric rule of Sikhs) and to misled Sikh minorities they constructed Sikh Trauma under the banner of Muslim invaders (mainly referring Mahmud Ghazni, Nadir Shah and Ahmad Shah Abdali, Mir Manno). Trauma syndrome played an effective role in perpetuating prides and prejudices among followers of two religions. They not only played with religions but also with sub religious sects, languages, dialects, scripts. The communal based trauma syndrome was further gained importance selectively among so-called champions of faiths in either religion (Hindus, Muslims, and Sikhs). The Trauma syndrome further extended through Gazetteer knowledge Factory which was based on castes or titles like Rajputs, Jats, Lohars, Tailies, Kashmiris, and Khans etc. Gazetteers used the word Nation (Qoom) for Caste, profession and title which further promoted divisions in society smartly. Construction of Historical continuities was another weapon invented in 19th century not only in Britain but also in our lands i-e from ancient Greeks till Great Britain, from Ashok till Congress, from Muhammad bin Qasim till Muslim League, from Madadid Alif Sanni till jamiat Ulma e Hind/Islam/Taliban. Without deconstructing colonial past we cannot develop a counter narrative for future regarding combating extremism. In the light of these stray thoughts i wrote a piece for weekly Humshehri after listening Aysha jalal presentation about Romila's Lhore days and Keynote address of Romila Thapar. Read and enjoy the twists of history 

میلے تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر اس تیسرے ادبی میلہ کی خصوصیت مایہ ناز پنجابی تاریخ دان رومیلا تھاپر کی آمد تھی کہ انھوں نے اپنے افتتاحی خطاب ہی میں میلہ لوٹ لیا۔ یوں وہ بیپسی سدھوا اور پران نیؤل پر سبقت لے گئیں۔میں تو عرصہ دراز سے رومیلا تھاپرکی تحریروں کا اسیر ہوں کہ 1990ء کی دہائی میں اپنے صفدر میر کے وسیلہ سے ان سے ملا تھا اور اب 2015 ء میں بھی وہ اسی جرأت رندانہ کی عملی تفسیر نظر آئیں۔ البتہ ان کے تازہ خطاب سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی لاجواب کتاب قدیمی انڈیا یعنی Ancient India میں بہت سے اضافے کیے ہیں اور نئے نام (Early India: From the origin to A.D.1300) سے چھپوایا ہے۔ نئی تحقیق کے کچھ لشکارے تو ان کے خطاب میں نظر آئے کہ اب اس کو خریدنے کا’’ کشٹ ‘‘بھی کرنا ہی پڑے گا۔ ان کالاہور سے کیا تعلق رہا کہ یہ داستان مشہور پاکستانی تاریخ دان عائشہ جلال نے مزے لے لے کر سنائی اور حاضرین نے بھی اسے خوب انجوائے کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مال روڈ اور انارکلی کا بازار، شہر لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب اور اردگرد کے اضلاع و صوباں کے لیے پر کشش مقامات تھے۔ ایک دن نوجوان رومیلا مال روڈ پر واقع ’’جے رے اینڈ سنز‘‘ نامی  دکان پر جاپہنچیں۔ جے رے اینڈ سنزغالباً 14 اگست 1947ء کے بعد بند ہوگئی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد یہ جگہ کتابوں کی دکان ہی رہی مگر بورڈ فیروز سنز کا لگا دیا گیا۔ نوجوان رومیلا جے رے اینڈ سنز پہنچیں اور آسکر وائلڈ کی کتاب خریدنا چاہی۔ دکاندار نے کتاب ہاتھ میں پکڑ کر رومیلا سے کہا، ابھی تم چھوٹی ہو،بڑی ہو کر اس کتاب کو پڑھنا۔لگتا ہے رومیلا نے مال روڈ کی اس دکان کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ ایسا کچھ کرکے دکھائے گی کی اسے دوبارہ یہ جملہ سننے کو نہ ملے۔  -

86سالہ رومیلا تھاپر کا تعلق پنجابی کھتری خاندان سے ہے کہ ان کے بڑے بھائی رمیش تھاپر سی پی آئی (ایم) کے اہم لیڈر تھے جو 1922ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر بھی انہی کا کزن ہے۔ رومیلا تھاپر کی تاریخ پیدائش تو 30 نومبر 1931ء ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی سے سند لینے کے بعد لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیذ(SOAS) میں پڑھتی رہیں۔ امریکہ، فرانس کی یونیورسٹیوں میں تو یہ استادوں اور محققوں کو لیکچر دیتی رہیں۔ 20 فروری کو جب وہ افتتاحی خطاب کر رہی تھیں تو ان کو سننے والوں کی اکثریت نوآبادیاتی ’’متولیوں ‘‘کی تھی کہ رومیلا کے دلائل نوآبادیاتی علم کے سومنات پر برس رہے تھے۔ ان کا وزنی گرز کبھی ہندو، مسلم تضادات کے گرد قصے گھڑنے والے 19 ویں صدی کے دانشور جیمس مل پر برس رہا تھا تو کبھی آریاؤں کی آمد کا قصہ گھڑنے والا میکس ملر ان کی زد میں آتا تھا۔ حتیٰ کہ انھوں نے برطانوی دارالعوام کی خبر بھی لی اور لارڈ ایلن بروہ کی حجامت بھی کر ڈالی۔ نوجوان متجسس جبکہ ادھیڑ عمر ضمیر کی خلش کے ساتھ رومیلا تھاپر کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی جس مطلبی تاریخ کا دھڑن تختہ رومیلا تھاپر کر رہی تھیں اس پر ایمان رکھنے والے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بکثرت موجود ہیں۔ رومیلا تو یہ باتیں عرصہ دراز سے لکھ رہی ہیں مگر ان تینوں ریاستوں کی کلچرل اشرافیہ کو رومیلا کی باتیں آج کے دور میں خصوصی طور پر سمجھ آئیں گی کہ وقت بدل رہا ہے۔ نوآبادیاتی دور کی پھیلائی تاریخی کہانیوں میں ہندو مسلم تضاد اور آریاؤں کی آمد بارے داستانیں تو شامل ہیں مگر ہمارے خطہ یعنی کشمیر، پنجاب، خیبر پی کے، قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں سکھ، مسلم اور پنجابی، پٹھان تضاد کی داستانیں لکھوائی گئیں تھیں۔ یہی نہیں بلکہ گزئیڑوں کے ذریعے کہیں راجپوتوں، جٹوں وغیرہ کا ذاتوں، لقبوں اور پیشوں کا رلاملاتقاخر بنایاگیا تو کہیں تیلیوں، کمہاروں، جولاہوں، مصلیوں وغیرہ کو رگیدا گیا۔ لاہور دربار کی آزاد بادشاہی کو’’ سکھ حکومت ‘‘کہنا بھی اُسی پالیسی کا مظہر تھا جس کے تحت سکھوں کو نادرشاہ اور احمد شاہ کا نام لے کر مسلمانوں کے خلاف کرنا لازم تھا تو مسلمانوں کو ’’سکھا شاہی‘‘ کی اصطلاح گھڑ کر باور کرانا ضروری تھا، کہ سکھ تو مسلمانوں کے ویری تھے۔ محض مذہبی تاریخ کو بنایا نہیں گیا بلکہ فرقہ وارانہ حوالوں کو بھی خصوصی طور پر تاریخ کا حصّٰہ قرار دیا گیا۔ اورنگ زیب کو ایک مسلک کا نمائندہ بنایا تو داراشکوہ کو دوسے مسلک کا ہیرو بنادیا۔ کہیں مادری زبان لگا دی تو کہیں اُردو، ہندی کو زبردستی نافذ کر دیا۔ ذرا غور کریں، وہ کون سی پالیسی تھی جس کے تحت 1880ء میں افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد بھی اسے برٹش انڈیا میں شامل نہ کیا گیا تھا؟ یہی نہیں بلکہ گندھمک معاہدہ کے بعد ڈیورینڈ لائن اور فاٹا کو بنایاگیا کہ جس کے بعد 6 اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر صوبہ سرحد بنایا گیا؟ یہی نہیں بلکہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان، برما وغیرہ کو انگریزی قبضہ میں لینے کے باوجود یا تو برٹش انڈیا سے نکال باہر کیا یا پھر شامل ہی نہ کیا؟ بھگتوں اور صوفیوں کی تعلیمات کو نئے سکولوں کی نصابی کتب سے باہر رکھا گیا؟ بڑے بڑے انگریز مخالف بھی اسی نوآبادیاتی مطلبی تاریخ کے بوجوہ اسیر ہیں۔ اب ساری باتیں رومیلا تھاپر نے تو نہیں کرنی کہ وہ چراغ جلا گئیں ہیں کہ راستہ آپ نے خود طے کرنا ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ رومیلا کے باکمال کام کو جناح، نہرو اورمجیب کے دسیوں میں کون آگے بڑھاتا ہے؟ یہی آج کا چیلنج ہے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ راج دربار کے بدلتے خیالات کے تحت راتوں رات بدل جانے والے تو ہر معاشرے میں نئے مواقع ڈھونڈ لیتے ہیں مگر کیا کوئی کبھی اشوک، سکندر اعظم، پورس، محمد بن قاسم کی بجائے مصلیوں مسلم شیخوں، دلتوں، چوڑوں، چماروں، دستکاروں، ہنرمندوں، شودروں کی عوامی تاریخ بھی لکھے گا؟ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو ’’یورپی تنازعات‘‘ کے ضمن میں رقم کرے گا؟ یونان سے سلطنت برطانیہ، اشوک سے کانگرس، محمد بن قاسم سے مسلم لیگ، مجددالف ثانی سے جمعیت علما ہند/اسلام /طالبان، بندہ بیراگی سے اکالی دل جیسے خود ساختہ تاریخی تسلسلوں سے پیچھے ہٹ کر ہی ہم اپنے ماضی کا ازسرنو جائزہ لے سکتے ہیں کہ یہی رومیلا تھاپر کے خطاب کا ’’تت‘‘ تھا۔ یونیورسٹیوں میں تاریخ، سیاسیاست، سماجیات، پالیسی سٹڈیز، سندھیالوجی اور پاکستان سٹڈیز کے شعبہ جات تو ہیں، ایسے ہی مذہبی، نظریاتی اور قوم پرست گروہوں نے بھی ادارے کھڑے کر رکھے ہیں مگر اپنے خیالات و نظریات کے ازسرنو جائزے کے لیے جرأت رندانہ کی ضرورت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب جملہ یاد آرہا ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا۔ شاید جنوبی ایشیائی دانشوروں کو بھی نوآبادیاتی دور کے سحر کے ٹوٹنے سے چوڑوں، مصلیوں، چماروں، دست کاروں، مسلم شیخوں اور شودروں کی تاریخ سمجھنے کی توفیق مل جائے۔ لاہور لٹریری فیسٹول تو ختم ہوچکا مگر جو باتیں رومیلا تھاپر کہہ گئیں ہے اگر ہم انھیں پلے باندھ لیں تو نہ صرف انتہا پسندیوں کی دلدل سے نکلنے کی اُمید پیدا ہوگی بلکہ ہم سب رل مل کے اپنے خطہ کی عوامی تاریخ لکھنے کی طرف بھی گامزن ہو سکیں گے۔ -

For Complete Article click here
http://humshehrionline.com/?p=9897#sthash.CasDJfJI.dpbs

External links

Need to reassess past ideologies: Thapar

LAHORE: An eminent Indian scholar and historian said ideologies that were intended to encourage the creation of nation states in the subcontinent now need to be reassessed.
Romila Thapar made the remark while speaking on the topic ‘The Past and Present’ at the three-day Lahore Literature Festival, which started on Friday. She said that despite passage of several years colonial stereotype still colours our perceptions of who we are, what we were and where we are headed.
Thapar insisted that the colonial readings should be viewed for what they gave birth to, adding that they need to be replaced by nurturing sensitivity as to how we listen to the dialogue between the past and the present. She said it was important to determine the authenticity of the very past that has and is shaping our society. Connecting the dots, she explained how history was carved out in pre-colonial era to deepen the division between Hindus and Muslims.
The Indian historian said we take the version of narration at face value and ignore the intensive investigation that should always be crucial to a statement from the past.
Thapar, during her address, said that a Scottish historian James Mill concocted the theory of divide in the subcontinent.
Referring to the image presented in the colonial era of Somnath temple, she said colonial writings overall projected it as the cause of hostility between Hindus and Muslims.
She said in a successful attempt to sow hatred between Muslims and Hindus, Lord Ellenborough during his address to the House of Commons in 1843 talked about bringing back the gates of Somnath temple from Ghazni, which he claimed were stolen during one of the raids of Mehmood Ghaznavi.

Published in The Express Tribune, February 21st, 2015.
http://tribune.com.pk/story/841781/need-to-reassess-past-ideologies-thapar/


The past as present

Yaqub Bangasih 
The keynote speech at the Lahore Literary Festival this year was given by the distinguished historian Professor Romila Thapar. In her excellent address, Professor Thapar took us on a journey of discovering ancient India — of which she is a specialist — pointing out at the outset that “history is a dialogue between the present and the assumed past”. At a time when Hindu nationalists are reading all kinds of things into India’s past to validate their policies and actions, Professor Thapar emphasised that “history is not fantasy” and that we should analyse the past by the help of facts which the writings of the time tell us; but that, too, with a pinch of salt.
In her broad engagement with the topic, she traced how conceptions of ancient India developed in the 19th century, mainly through the work of scholars like Max Muller who argued for the Aryan invasion theory. This theory, Dr Thapar maintained, was supported by little evidence, but remained the accepted version of history for more than a hundred years. Challenging such long-held beliefs critically is essential, she said. The historian, in this sense, is a kind of ‘detective’.
Taking the example of the famous destruction of the Somnath temple by Mahmud of Ghazni, Professor Thapar — who has written a book solely on the subject — talked about how nearly all the manuscripts from the period conflict with what was actually destroyed at Somnath by Mahmud. In fact, Professor Thapar exclaimed, the modern notion of ‘Hindu trauma’, after the destruction of the temple, has its origins in something as recent as the House of Commons debate in the 1840s, where a Member of Parliament said that the destruction of Somnath “caused trauma to the Hindus of India”. Since then, this notion has seeped into Hindu identity and politics in India and has given currency to its more fundamentalist manifestations today.
The eminent historian, Eric Hobsbawm, once noted: “If there is no suitable past, it can always be invented.” This sentence succinctly sums up what is being done to history in Pakistan. Our history textbooks — or those of Pakistan Studies — are a superb collection of historical fantasies and half-truths. The confusion in our country regarding history, and its reflection in our contested identity cannot be denied. Nearly every week, students in my class, when confronted with facts they had never heard about, ask me, “Why was this not taught to us?” While the reasons for this deception — and yes, it is deception — have been mentioned by me and others elsewhere many times, here I want to point out how, after nearly a decade of being taught falsehoods and embellishments, confrontation with the truth (read: near-truth) is something which either leads to revulsion, indignation, outright rejection, or simply sadness. Engagement with the facts so late in the day makes most students hope that they never heard of such things, so that whatever they were taught, and believed, for a decade might not be challenged.
If we are to educate our children in history, we need to begin the process early — as early as grade two or three, so that they are taught from the outset how to appreciate, learn and engage with the past, and utilise that knowledge and insight to make their country a better place.
In her speech, Professor Thapar noted how history is an extremely political subject and that its varied versions are used by politicians and others all around the world to validate themselves and their policies. Therefore, this subject cannot be taken lightly or ignored. Unfortunately, history is considered a subject for failures in Pakistan. If you cannot get into computer sciences, natural sciences or law, then history is the last option for many. The paucity of good scholars and scholarship in Pakistan on the subject are evidence of a lack of interest and engagement.
I hope Professor Thapar’s timely intervention, and Professor Ayesha Jalal’s strong endorsement of the same during her introduction of the talk, and the breath of fresh thinking stimulated by the Lahore Literary Festival might lead to a re-engagement with the historical — not imagined — past so that we can work towards a real rather than imagined future.
Published in The Express Tribune, February 23rd,  2015.
Like Opinion & Editorial on Facebook, follow @ETOpEd on Twitter to receive all updates on all our daily pieces.

  • http://tribune.com.pk/story/842512/the-past-as-present/

Friday, February 20, 2015

21 February: Colonial legacy and Pakistani Mother Tongues



Colonial legacy and Pakistani mother tongues

Written @ International Mother Tongue Day


21st February is International Day for Mother Tongues. Although there is a politics in the selection of 21st February yet here in this article we will try to de-construct double standards of colonial language politics and its resonance in post 1947 Pakistan.  After 67 years, if we have still failed to develop a reasonably justified language policy in Pakistan than we have no justification to blame colonial masters alone.  Experts in education are well aware from the importance of mother tongues as medium of instruction at primary level yet during Musharaff period we adopted a policy to introduce English from class one onward.  Till today only KPK government of PTI is following that bad policy. Language is not merely a tool of communication but it has continuity of history, traditions and knowledge in it. Linguistic diversity of Pakistan is its strength but under One Nation, One Religion and One Language policy our policy makers rejected linguistic diversity which was a continuation of colonial past. When Bengalis protested after February 1952 incidents, our State announced Bengali as co-national language under the demand of Jugto (United) front. It was a stage when we could accept linguistic diversity but bureaucracy had to deal with protestors only. Even than Father of Urdu, Molvi Abdul Haq arranged a Dharna protest in front of National assembly in Karachi against inclusion of Bengali as co-national language. It was Fazlur Rahman (first education minister) who accepted linguistic diversity during his historic speech at First Education Conference held at November 1947 yet the space for acceptance of diversity shrunk in post Objective Resolution politics.
In order to understand double standards during Raj we should keep in mind following facts
1.       Persian was replaced with English in 1837 yet Persian remained State language in the last South Asian independent State Lhore Darbar (Punjab, Peshawar, FATA, and Kashmir & Gilgit-baltistan) till 1849. After annexation of the Punjab Persian was replaced by English
2.       Urdu was imposed in the Punjab including Peshawar at 1865
3.       Urdu was imposed in Kashmir in 1872
4.       Urdu was imposed in Qallat in 1878
5.       Hindi was imposed in Madrass presidency in 1867
6.       Hindi was imposed in UP at 1900
7.       Bengali was imposed in Muslim majority Bengal after 1850 yet colonial masters prefer Devnagri script and rejected Persian script
8.       Sindhi was imposed in Sindh after 1851 yet colonial masters prefer Arabic script and rejected Persian and Landay scripts of Sindhi
9.       According to G W Litner Punjabi was written in 6 scripts among them 3 were commercial scripts. These were Landay, Shah Mukhi, Mahajni, Sarafa, Devnagri, Gurkukhi.
10.   After 1870s colonial masters smartly imposed Gurmukhi script of Punjabi in areas where Sikhs had comparatively higher percentage
Rejection of Persian was the prime policy and for this colonial masters used Urdu, Hindi and in some areas mother tongues too. They not only played with languages, dialects but also with scripts. Till 1849 Persian was an international language. It was language of the Ottoman Court who had rule over three continents. In Central Asia, South Asia, Middle East, Turkey, Iran and Africa   people could understand Persian. In our part of the world Muslims, Hindus and Sikhs were master in that language.  Among Hindus and Sikhs, colonial masters called Persian a language of Muslims; among Muslims they introduced Urdu as a replacement of Persian. Among Sikhs they promoted Punjabi in Gurmukhi script so that Punjabi Muslims could opt Urdu and among Bengalis they promoted Devnagri script so that Bengali Muslims felt deprived.  According to Wood’s dispatch of 1854, colonial masters remained reluctant to introduce mother tongues in the Frontier Policy Region i-e Punjab including Peshawar, Kashmir including Ladakh, Gilgit & Baltistan, FATA and Baluchistan. They had fears from rise of nationalisms in those areas.
What colonial masters did regarding languages is an old story but under which pressure we continued that policy? Playing with languages, scripts and dialects was a colonial legacy and especially after Objective Resolution our ICS officers followed it smartly under One Nation, One Religion and One Language policy.  On contrary, India formed a Language Commission in 1948 popularly known as Dar Commission which collected information regarding Indian languages before Constituent assembly before the formation of Indian Constitution.  The commission declared a list of 96 languages spoken at Indian soil, among them 26 had more than 5,000 speakers. So those 26 languages were allowed to be used as medium of instruction at primary level. It was recoded by J P Naik & Syed Noor ullah in their book “History of Indian Education” (Urdu) published by press trust of India in 1966. In Pakistan we had ICS officers and people like Molvi Abdul Haq who twisted speech of Jinnah and Allahbad address of Allama Iqbal just to create a centralist State.  Rejection of linguistic diversity proved fatal not only for the State but also for the Pakistani nationalism itself.  After 1971, Z A Bhutto realized it but civil military bureaucracy was not ready to delink themselves from the colonial legacy. However, 1973 constitution was the first Pakistani official document which accepted Pakistani Mother Tongues and Government started protection of Pakistani mother tongues by supporting Sindhi, Punjabi, Pashto, Balochi and Brahvi literary boards. It was the first step yet after 5th July 1977 that policy was rejected under Islamization of Zia and rest is history.  It is duty of elected parliament to announce a language commission at federal level which not only resolve status of English and Urdu but also accept linguistic diversity and instead of playing with languages and dialects resolve these issues. A language census is also essential in this regard after resolving language dialect controversies throughout Pakistan.  Now read the piece Published in weekly Humshehri written at the special event of International mother tongue day.  At Lhore, we are celebrating this day at 21st February 2015 under the banner of Punjabi Adbi Board.

READ article Online at

پنجابی اپنا حق مانگتے ہیں۔۔۔ مادری زبانیں اہمیت رکھتی ہیں - 

67 سالوں میں بھی اگر ہم پاکستان مادری زبانوں کا دیرینہ مسئلہ حل نہیں کر سکے اور بوجوہ نوآبادیاتی دور کی پالیسیوں کے اسیر ہیں تو اس میں کسی ’’باہرلے‘‘ کا قصور نہیں۔ ایک طرف اُردو کی حاکمیت کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف انگریزی کی ’’چاکری‘‘۔ مادری زبانوں میں جو زور لگا لے اسے تخت نشینی مل جاتی ہے مگر پالیسی بدستور واضح نہیں۔ بنگالیوں نے زور لگایا تھاتو انہیں اُردو کے ساتھ تخت نشینی دے کر 1956ء کے آئین میں دو قومی زبانیں مان لی گئی تھیں۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق اس پر بھی خاصے سیخ پا ہوئے تھے اور کراچی میں آئین کی منظوری سے قبل مرکزی اسمبلی کے باہر ہزاروں متوالوں کو لے کر دھرنا دے مارا تھا مگر وہ بھی ناکام رہا۔ آخری ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور میں تو حالات اتنے دگرگوں ہوگئے تھے کہ پورے ملک میں پہلی جماعت سے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا بوگس اعلان بھی سننے کو ملا۔ پنجاب نے تو خیر اس پالیسی سے اب توبہ کر لی ہے مگر خیبر پختونخوا کی انقلابی حکومت کے پالیسی ساز تاحال ’’مشرفی‘‘ پالیسی ہی کے بوجوہ اسیر ہیں کہ مادری زبانوں کی بجائے انگریزی پر زور پرانے آقاؤں کو خوش کرنے کا پیغام ہی ہے۔ برٹش انڈین دور میں زبانوں، لہجوں، رسم الخطوں کے حوالہ سے دوہری پالیسی تھی کہ جس کے دو تھم تھے۔ اوّل: فارسی کو ایسے ختم کیا جائے کہ مادری زبانوں کے فارسی سے جو رشتے تھے وہ بھی ختم ہو جائیں اور جو لازوال علمی اثاثہ فارسی میں تھا اسے بھی لوگ دھیرے دھیرے بھول جائیں۔ دوم: انگریزی کی حاکمیت قائم کر دی جائے اور علم، جدیدیت، سائنس کی آڑ لے کر یہ ثابت کر دیا جائے کہ جو انگریزی نہیں جانتا وہ جاہل، گنوار اور گھٹیا ہے۔ یوں آکسفورڈ اور کیمبرج کے دانشوروں نے ہمیں یہ بتایا کہ کچھ مخصوص زبانیں اور تہذیبیں اعلیٰ و ارفع ہوتی ہیں اور زیادہ تر زبانیں اور تہذیبیں گھٹیا اور بدبو دار ہوتی ہیں۔ تہذیبی و لسانی برتری کا یہ وہی تھیسس ہے جسے گورے حکمرانوں کے جانے کے بعد پاکستان و بھارت میں ’’دیسی گوروں‘‘ نے اُردو اور ہندی کے نام سے پھیلایا۔ مادری زبانوں کے دن پر اس ’’تہذیبی تھیسس‘‘ کو اگر ہم تج دیں تو شاید پاکستانی زبانوں کی رنگا رنگی کی بدولت ہم اپنے وطن کو بھی مضبوط کر سکیں گے اور یہاں پر بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زبانوں اور ان سے جڑے کلچر کا احترام کرنا بھی سیکھ لیں گے۔ - 

جیسے نئے حکمران پرانے حکمرانوں کی برائیوں کو ڈھونڈنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں ایسے ہی انگریزوں نے 1830ء کی دہائی میں بالعموم اور مارچ 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کے بعد بالخصوص زبانوں کی برتری والے ’’تہذیبی تھیسس‘‘ کو پھیلا یا۔ جس کسی کو زبانوں کے حوالہ سے گورے حکمرانوں کی دہری پالیسی بارے کھرا ڈھونڈنا ہو وہ 1854 کا ووڈز ڈسپیچ (Wood\’sDespatch) پڑھ لے تو چانن ہوجائے گا۔ اپنی پالیسی پر عمل کے لیے انگریزوں نے کہیں اُردو، ہندی کا استعمال کیا تو کہیں مادری زبان کو بھی نہ بخشا۔ بنگالی اور سندھی مادری زبانوں کے مثال سامنے ہے جنھیں انگریزوں نے 19ویں صدی میں ایسے تسلیم کیا کہ مسلم اکثریت والے بنگال میں فارسی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط میں بنگالی لگائی جبکہ فارسی اور لنڈے رسم الخط میں لکھی جانے والی سندھی کو ختم کرکے عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی سندھی کو پروموٹ کیا۔ لنڈے وہ رسم الخط ہے جس میں انگریزوں کے آنے سے قبل پنجابی و سندھی زبانیں لکھی جاتی تھیں۔ آج کتنے بنگالی اور سندھی ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ ان کی زبانیں کسی زمانے میں فارسی اور لنڈے رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں؟ البتہ مولانا عبیداللہ سندھی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ 1865ء میں پنجاب بشمول پشاور، 1872ء میں سری نگر اور 1878ء میں قلات میں انگریزوں نے اُردو لگائی تھی جبکہ 1867ء میں تاملوں کو ہندی میں جکڑ ڈالا تھا۔ انگریز جس دور میں ہمارے ہاں آئے اس دور میں فارسی کا شمار ان زبانوں میں ہوتا تھا جس کو بولنے، سمجھنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ نے اس زبان کو تسلیم کیا ہوا تھا جس کی تین براعظموں پر حکومت تھی۔ وسط ایشیا، ایران، افغانستان اور خود ہمارے ہاں فارسی کا راج رہا۔ مگر ہمیں یہ بتایا گیا کہ فارسی تو صرف ایرانیوں کی زبان ہے۔ یوں مسلمانوں کو فارسی سے دور کرنے کے لیے کمال چابکدستی سے عربی اور اُردو کو بطور ’’خفیہ ہتھیار‘‘ استعمال کیا گیا۔ تاریخ تعلیم ہند مطبوعہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مصنفین جے پی نائیک اور سیّد نور اللہ نے اپنی کتاب میں مدارس کی طویل فہرست دی ہے جہاں فارسی رسم الخط میں بنگالی لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور فارسی کتب بھی پڑھائی جاتی تھیں۔ 19 ویں صدی کے ہنگیرین دانشور اور انگریز دور میں پنجاب میں محکمہ تعلیم سے وابستہ جی ڈبلیو لائٹنر نے 1882ء میں لکھی اپنی کتاب نما رپورٹ ’’پنجاب میں دیسی تعلیم‘‘ (انگریزی) میں پنجابی، فارسی تعلیمی سلسلہ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جس میں دلّی سے لے کر پشاور تک ہر ضلع کا الگ ذکر بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں سندھی زبان کے علاوہ پنجابی کو بھی اپنے مخصوص ’’خفیہ طریقے‘‘ سے انگریزوں نے استعمال کیا اور گورمکھی رسم الخط میں پنجابی مخصوص پنجابی علاقوں میں لاگو کر کے یہ تاثر دیا تھا کہ پنجابی محض سکھوں کی زبان ہے۔ مسلم اکثریت کے پنجابی اضلاع خصوصی طور پر جنوبی پنجاب پر اس کا انتہائی مہلک اثر پڑا۔انگریزوں سے قبل تو سکھ، ہندو بھی فارسی پڑھتے تھے۔ مگر انہیں یہ کہا گیا کہ فارسی مسلمانوں کی زبان ہے اس سے دور رہو۔ 20 ویں صدی کے آغاز سے قبل یوپی میں اُردو کی بجائے ہندی کو پروان چڑھایا تو اُردو کا نزلہ پنجاب پر آن پڑا۔ انگریزوں سے قبل پنجابی زبان 6 سے زیادہ رسم الخطوں میں لکھی جاتی تھی جن کا ذکر جی ڈبلیو لیٹنر (Litner) نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ ان رسم الخطوں میں مہاجنی، صرافہ، لنڈے، دیوناگری، شاہ مکھی، گورمکھی شامل تھے۔ لنڈے ہمارا قدیمی رسم الخط تھا جسے انگریزوں نے جان بوجھ کر الگ زبان قرار دینے کے جتن کیے۔ رسم الخطوں، زبانوں، لہجوں سے گورے حکمران خوب کھیل کر چلے گئے مگر ہم آج تک اس بارے کوئی ڈھنگ سے پالیسی ہی نہ بنا سکے۔ بھارت نے 1947ء میں اپنے قیام کے بعد کسی حد تک انگریزی پالیسی سے جان چھڑا لی تھی اور ڈار کمیشن نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو بھارت میں بولی جانے والی زبانوں بارے اعدادو شمار دے ڈالے تھے جسے بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ بعض لہجوں اور زبانوں کے مسئلے اس وقت حل نہیں ہوئے تھے مگر جب ریاست نے بھارتی مادری زبانوں کو تسلیم کر لیا اور پرائمری تک ان کی اجازت دے دی تو پھر لہجوں اور زبانوں میں بحث کی گنجائش بھی بڑھ گئی۔ 1962ء میں چین سے شکست کھانے کے بعد البتہ اس پالیسی سے مراجعت کی گئی اور بھارت میں ہندی پر زور بڑھا تو اس کا ردعمل بھی آیا۔پارلیمنٹ کے ذریعے پاکستانی مادری زبانوں کو تکریم دلوانے کا رستہ ہی مناسب ہے کہ ہم انگریزی، اُردو سمیت تمام پاکستانی زبانوں کے دیرینہ مسئلہ پر ایک وفاقی سطح کا کمیشن بنائیں مگر اس سے پہلے پارلیمنٹ یہ فیصلے کر لے کہ -1 کوئی زبان یا تہذیب گھٹیا یا گنوار نہیں ہوتی۔ -2 مادری زبان میں کم از کم پرائمری تعلیم دینا ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ -3 مادری زبانوں کو قبول کرتے ہوئے بڑی مادری زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کیا جائے۔ -4 پاکستان بھر میں متنازعہ اور مر رہی زبانوں اور رسم الخطوں سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی گنجائش موجود ہو۔ - 
پاکستان بشمول کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں بولی جانے والی زبانوں کے اعداد و شمار سائنسی اصولوں کے تحت اکٹھے کیے جائیں۔ اس رنگارنگی کو ہر وہ پاکستانی قبولنے کو تیار ہے جو کسی زبان کو اعلیٰ یا گھٹیا نہیں سمجھتا۔ ہمارے پالیسی سازوں اور تعلیمی پہلوانوں کو صوفیا ہی سے سبق سیکھنا چاہیے جنھوں نے مادری زبانوں کے ذریعہ اس خطہ کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے تو پھر پاکستانی قوم پرستی کے داعی محض انگریزی پالیسیوں کے اسیر کیوں ہیں؟
آج نہ ہمیں انگریزی، اُردو سے لڑنے کی ضرورت ہے نہ ہی زبانوں، رسم الخطوں اور لہجوں کی لڑائی میں پڑنے کی ضرورت ہے بلکہ قومی سطح پر اس تہذیبی تھیسس سے فقط جان چھڑاتے ہوئے ہم مل جل کر نئے راستے بنائے جا سکتے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ پنجابی ادبی بورڈ کا سالانہ سرکاری فنڈ فقط 2 لاکھ روپے سالانہ ہے کہ محض 16 ہزار روپے میں بورڈ کو پورے 30 دن گزارنے ہوتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس سال پنجاب کی بیوروکریسی نے دو لاکھ کی بجائے صرف 50 ہزار ہی پر بورڈ کو ٹرخانے کی کوشش کی ہے۔ نگران دور میں البتہ نجم سیٹھی نے بورڈ کو 25 لاکھ دے ڈالے تھے۔ پنجاب کی بیوروکریسی نجم سیٹھی کا تو بوجوہ کچھ بگاڑ نہیں سکتی البتہ نزلہ بورڈ پر گر رہا ہے۔ بیوروکریسی کا پنجابی زبان کے حوالہ سے یہ رویہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ مجرمانہ بھی ہے اور اس بارے پنجاب سرکار کی خاموشی معنی خیزہے۔ لٹریری فیسٹیول کے لیے تو فنڈ مل جاتے 
ہیں مگر پنجابی کے لیے فنڈ دیتے وقت سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سمیت دنیا بھر کے ماہرین تعلیم پرائمری کی سطح پر مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت بارے دلائل دے چکے ہیں مگر ہمارے ہاں مادری زبانوں اور ان سے جڑے کلچر کو نصابی کتب سے تاحال دیس نکالا دیا ہوا ہے۔ - 

Sunday, February 15, 2015

Killing of Subhas: Nehru, Britain and Stalin


Killing of Subhas: Nehru, Britain and Stalin

Collaborations of local and international interests


Revelations of Swami Subraminum shocked all people yet Sawami’s half-truth cannot hide pupils of Patel anymore. Swami refers a letter written by Nehru in 1945 in which he informed than British Prime Minister about a telephone call from Stalin regarding custody of Subhash. He also informed presence of 39 secret files about Subhas in South Block. The case of Subhas Chandar Bose’s killing is still pending in India even after three judicial commissions. Before this revelation of Swami, researcher and writer Sughata Bose (Grandson of Surat Chandar Bose) wrote an excellent biography of Naita Ji “His Majesty’s Opponent “in which he not only recorded all evidences but also pinpointed bad role played by British media and Indian Communists too. Why the Empire was so much against the Bose? What fears Congress had from return of Subhas in India? Nehru wanted to join US but due to the pressure of Subhas return and Talnagana movement he had to join socialist block. Like mid-1940s, situation is again ripe and pressure is also there but this time unlike Congress partner in arms is BJP yet Swami will relay on half-truth. 
International politics is changing its course these days in which interest of the people is at back seat while interest of big power players is on driving seat as usual. Recently a leader of ruling Indian party revealed an old post WW2 truth regarding killing of Subhas Chandar Bose but as usual timing of this revelation is tricky rather in continuity. He smartly blamed nexus of Pandat Nehru, Britain and Stalin yet failed to mention BJP involvement in the new agenda. In search of new partners Sawami is rightly reluctant but researchers should take killing of Bose as a challenge so that people should know full truth. Swami did not mention names of Gandhi and Patel because BJP itself is a legacy of both leaders. South Hall is still hiding secret files and after these revelations it is under pressure from Modie government. I wrote on this issue time and again and sharing some stray thoughts with you. Read the review and check the links.


عامر ریاض۔۔۔۔۔ بی جے پی کے راہنما سوامی سبرا مینیم نے ایک ہی تیر سے تین ٹارگٹ ڈھیر کیے۔ بھارتی ریاست کی بنیاد رکھنے والی جماعت آل انڈیا کا نگرس اور اس کے بانی پنڈت جواہر لال نہرو تو سوامی کے جاری کردہ جنوری 2015 کے بیان کا پہلا ٹارگٹ تھے جبکہ باقی دو ٹارگٹوں میں روس کے مرد آہن جوزف سٹالن اور سلطنت برطانیہ شامل تھے۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کے حوالہ سے بہت صفحات کالے کیے مگر بھارتی عوام دانتوں میں انگلیاں دباتے سوچتے رہے کہ کانگرس کا ماضی اس قدر داغدار ہے۔ شاید اسی لیے دلی میں کانگرس کا مکمل صفایا بھی ہوگیا۔ مگر ان انکشافات کے پیچھے کون سی سیاست کارفرما ہے اگر یہ سمجھ آجائے تو سوامی جی کا’’ آدھا سچ ‘‘بھی سمجھ آجائے گا۔ سوامی جی نے محض یہ نہیں کہا کہ آزاد ہند فوج کے انقلابی رہنما کو جہاز کے حادثہ میں مارنے والی خبر غلط تھی۔ بلکہ انھوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دسمبر 1945 کو روسی صدر کا مریڈ جوزف سٹالن نے نہرو کو خط لکھ کر سبھاش کی روس میں گرفتاری کی خبرسنا ڈالی تھی۔ 26 جنوری 1945 کے دن پنڈت نہرو نے اپنے سیکرٹری شیام لال جین کو ایک خط ٹائپ کرنے کا حکم دیا جو برطانیہ کے وزیراعظم کے نام تھا۔ اس خط کے بعد اعلیٰ برطانوی حکام بھاگے بھاگے نئی دہلی آئے اور پھر بوس کو روس ہی میں ختم کر دینے کا منصوبہ بنا۔ بین الاقوامی کھیل میں بڑی طاقتوں کی کشمکش اور مفادات کی ننگی جنگ کا شکار ہمارے جیسے ملکوں کے کتنے ہی رہنما ہو چکے ہیں؟ اس باے پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ 2007 کے دسمبر میں بے نظیر بھٹو کا دن دیہاڑے قتل بھی بین الاقوامی مفادات کے ٹکراؤ کا مقامی نتیجہ تھا۔ سبھاش چندر بوس کے قتل کے حوالہ سے اب تک بھارتی حکومتیں تین عدالتی کمیشن بنا چکی ہیں۔ پہلا کمیشن 1956 میں بنا تھا جب پاکستان سے بوس کے دیرینہ ساتھی پنڈی کے شاہنواز خان بھی گئے تھے۔ دوسرا کمیشن 1977 جبکہ تیسرا مُکرجی کمیشن 1999 میں بنا تھا۔ یہ کمیشن کیوں ناکام رہے اس کا انکشاف سوامی جی نے کر ہی ڈالا۔ مگر اس بیان میں نہرو کے سبھاش کے قتل میں ملوث ہونے کی خبر سوامی جی کا آدھا سچ ہے۔ سبھاش کی برسی کے موقع پر سوامی جی کے انکشافات کی ٹائمنگ توجہ طلب کہ اس وقت بھارت پرانی یاریاں چھوڑ کر نئے صنم خانوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ چانکیہ کے زریں سیاسی اصولوں کے تحت نئے بین الاقوامی ساتھی ڈھونڈنے کے لیے اگر بزرگوں کی پگڑیاں بھی اچھالنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بھارتی دانشور تو عرصہ سے جانتے تھے کہ سبھاش کی موت میں مہاتما گاندھی، نہرو اور پٹیل کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور رہا ہے۔ مگر سوامی جی نے ایک ہی بیان سے کانگرس کو بھی تھلے لگا دیا اور نئے بین الاقوامی کرم فرماؤں کو بھی قہقہے لگانے کا موقعہ دے دیا۔ سبھاش چندر بوس دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی بین الاقوامی سیاست میں جنوبی ایشیائی عوام کی آزادی کے لیے رستہ تلاش کر رہے تھے۔ انہیں بنگال سے پنجاب تک پھیلی ہوئی رنگا رنگی کا پورا گیان تھا۔ 1921 میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے نہ صرف پر تعیش اور پرکشش نوکری تج ڈالی تھی بلکہ چترنجن داس (سی آر داس) سے آن ملے تھے۔ یہیں ان کی ملاقات سی آر داس کے دوسرے ہونہار چیلے حسین شہید سہروردی کے ساتھ ہوئی۔ سی آر داس اور پنڈت موتی لال نہرو نے گاندھی جی کی غلط پالیسیوں سے تنگ آکر 1922 میں کانگرس کو چھوڑ کر سوراج پارٹی بنائی تھی۔ 1924 میں جب سی آر داس کلکتہ کے میئر بنے تو کانگرس کی پالیسی کے برعکس سی آر داس نے معاہدہ لکھنؤ کو رد کر دیا تھا اور بنگالی مسلمانوں کو کلکتہ میونسپلٹی میں 50 فی صد سیٹیں دے دیں تھیں۔ گاندھی جی، جمعیت علماء ہند اور مرکزی خلافت کمیٹی کی مخالفت کے باوجود سی آر داس نے 1923 کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ جون 1925 میں سی آر داس تو مر گئے مگر اپنے دونوں ہونہار شاگردوں کو سلطنت کی سازشوں سے آگاہ کر گئے۔ 1929 میں بوس لاہور آئے اور پنجابی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا، آپ میں شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ بنگالیوں نے پنجابی ادب و تاریخ سے کیا کچھ سیکھا ہے۔ بنگالی شاعری میں پنجابی صوفی شاعروں کے کلام کے ترجمے گائے جاتے ہیں۔ لاکھوں بنگالی جو جدوجہد کرتے رہے ہیں اس میں پنجابی ادب و تاریخ کا حصہ نمایاں ہے۔ ان کی یہ تقریر جگت ایس برائٹ کی کتاب ’’منتخب تقاریر و بیانات‘‘ (انگریزی) میں موجود ہے جو انٹرنیٹ پر آن لائن پڑھی جاسکتی ہے۔ 1925 سے 1939 کے درمیان بوس آل انڈیا کانگرس میں سرگرم رہے مگر مہاتما گاندھی، سیٹھ جی ڈی برلا، مولانا ابوالکلام آزاد اور سردار پٹیل نے مل کر اس ’’مرد حر‘‘ کو کیسا تگنی کا ناچ نچایا اس کا احوال سرت چندر بوس کے پوتے اور مایہ ناز سکالر سوگھاتا بوس نے اپنی معرکۃالآرا کتاب His Majesty\’s Opponent میں تفصیل سے لکھا ہے۔ جنوری 1939 میں کانگرس کو اپنا صدر چننا تھا اور امیدوار تھے سبھاش چندر بوس۔ بوڑھے ٹیگور نے ان کی خوب مدد کی مگر گاندھی، آزاد، برلا اور پٹیل ان کے بڑے مخالف تھے۔ بوس نے گاندھی کی حاکمیت کو شکست تو دے دی مگر انہیں جلد صدارت سے الگ کر دیا گیا۔ 3جولائی 1940 کو بوس نے کلکتہ میں راج کی لگی نشانی ’’ہال ویل ‘‘کے مجسمہ کو ہٹانے کے لیے مہم شروع کی تو سلطنت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اب وہ بوس کو حرف غلط کی طرح مٹانے پر تل گئے۔ بوس کو گرفتار کر لیا گیا۔ 25 دسمبر 1940 کو بوس جیل سے فرار ہوئے اور اپنے پنجابی، پٹھان دوستوں کی مدد سے ’’گونگے،بہرے‘‘ مرید کا روپ اپنائے کابل کی ’’لاہور سرائے‘‘ میں جا اترے۔ ہٹلر کے روس پر حملہ سے قبل بوس روس، جرمنی،اٹلی اور جاپان کے اتحاد کا خواب دیکھتے تھے مگر اب ان کی نظریں کسی نئے مورچے کی تلاش میں جم گئیں کہ جہاں سے سلطنت کو ایسی ذک پہنچائی جائے جس سے وہ انڈین نو آبادی سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے۔ یہیں سے ان کے رابطے بنگال کے پرانے انقلابی راس بہاری بوس سے بڑھ گئے جو ’’غدر پارٹی‘‘ کے دور سے سلطنت کے سر کا درد بنے ہوئے تھے۔ جولائی 1943 میں بوس کو نیا مورچہ سنگاپور میں نظر آگیا کہ یہاں چاپانیوں نے انگریزوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہاں سیالکوٹ کے پنجابی موہن سنگھ نے ایک تنظیم بنارکھی تھی جس کا نام انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے)تھا۔ سلطنت کو بھی معلوم تھا کہ اس کے اصل وَیری سنگاپور میں اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ مگر بوس تو روپوش تھے اور ان کے متعلق کبھی جرمنی، کبھی جاپان اور کبھی اٹلی کے حوالہ سے خبریں آ رہی تھیں۔ خفیہ والے الگ پریشان تھے اور ہرکارے ملک، ملک بوس کی بوُ سونگھتے پھر رہے تھے۔ بوس کو اب سنگاپور پہنچنا تھاجبکہ سلطنت نے ان کو روکنا تھا۔ بس اس اہم موڑ پر برطانوی میڈیا کے نمایاں کردار بی بی سی نے سلطنت کی مدد کی اور بوس کی موت کی خبر شائع کر دی۔ سوگھاتا نے یہ کہانی بڑے درد اور کمال دانشمندی سے لکھی ہے۔ بی بی سی پر خبر شائع ہوتے ہی بوس کے اصل وَیری مہاتما گاندھی ریڈیو پر آئے اور بوس کی موت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بڑی چلاکی سے بوس کی خبر کی تصدیق کردی۔ یہی وہ لمحہ تھا جو بوس پر بھاری گذرا کہ جس نے بھی یہ خبر سنی وہ سلطنت کے غیض و غضب کا قائل بھی ہوا اور مایوس بھی۔ اگلے دن بوس آزاد ہند ریڈیو پر آئے اور تمام سازش کو بے نقاب کر دیا۔ اب سلطنت کو معلوم ہوگیا کہ بوس سنگاپور میں ہیں تو انہیں ناکام کرنے کے بڑے منصوبہ پر کام شروع ہوگیا۔ یہ وہی موقع ہے جب برٹش سرکار نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پر لگی 18 سالہ پابندی ہٹالی گئی اور انڈین کمیونسٹوں نے نئے نئے رسالے و اخبار شروع کر دیے تھے۔ ان اخبارات و رسائل میں بوس کو فاشزم کا ایجنٹ اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کر انقلابیوں اور بوس میں فاصلے پیدا کرنے کا کام شروع ہوگیا۔ انقلابی رسالوں میں بوس کے کارٹون بھی چھاپے گئے اور تمسخر بھی اڑایا گیا۔ روس، امریکہ، چین، برطانیہ اتحادی تھے اور جاپان کو ختم کرنے کے بعد نیا بندوبست بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ بوس نے اس ہم موقع پر برٹش انڈین آرمی پر ضرب کاری لگائی اور لاتعداد فوجی انگریزوں کی پُرتعیش نوکری چھوڑ کر بوس سے آن ملے۔ بوس برٹش انڈین آرمی کی مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیوں کو خوب پہچانتے تھے جو تعلیم سے فوج تک سلطنت نے پھیلا رکھی تھیں۔ ٹیگور کی طرح بوس کو بھی ’’بندے ماترم‘‘ جیسی مسلم دشمن کانگرسی پالیسیوں سے اختلاف تھا کہ وہ سی آر داس کے شاگرد تھے۔ بس انھوں نے آئی این اے کے لیے اقبال کے ’’ترانہ ہندی‘‘ کو بطور قومی ترانہ اپنایا اور فوج میں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں کو ایک ہی ’’میس‘‘ میں بٹھا کر کھانا کھانے کا حکم دیا۔ بوڑھے چوہدری اقبال گوندل سنگاپور میں آئی این اے کے ساتھ رہے تھے۔ 2002 میں بھی جب میں ان سے بوس کی بات کرتا تو ان کی آنکھوں میں چمک بڑھ جاتی، ہاتھوں کی کپکیاہٹ یکدم ختم ہو جاتی اور وہ تادیر اس مرد حر بارے بولتے چلے جاتے۔ یہ سب بوس کی پالیسیوں اور جرأت رندانہ کا کمال تھا۔ آزاد ہند فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد بوس نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے چین کے ساحلی علاقوں تک کے طوفانی دورے کیے اور آزاد ہند فوج کے لیے لوگ بھی بھرتی کیے اور رقم بھی۔ عورتوں نے زیور اتار کر اس کی طرف پھینکے اور ماوؤں نے اپنے لال اس کی فوج میں دیے۔ مگر جس بین الاقوامی مفادات کے تلاطم میں بوس زندہ تھا وہاں اس سب کی پرواہ کوئی نہیں کرتا بلکہ سب مفادات کے کھیل میں رجھے ہوتے ہیں۔ جاپان پر ایٹم بم گرا کر ’’اتحادیوں‘‘ نے جنگ عظیم میں برتری قائم کرلی اور اس کے بعد دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کرکے سرد جنگ شروع کر دی۔ مگر بوس تو وطن کی آزادی کے لیے آئی این اے کو کھڑا رکھنا چاہتے تھے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ بوس کو اسی دوران گرفتار کر لیا گیاتھا اور پھر فضائی حادثہ میں بوس کے مرنے کی خبر چلا دی گئی۔ یہ بوس کی موت بارے دوسری جھوٹی خبر تھی۔ بوس تو یہ چاہتے تھے کہ وہ واپس وطن آئیں اور اگر انھوں نے غداری کی ہے تو جنگی قیدی کی حیثیت سے ان کا ٹرائل کیا جائے۔ مگر بڑی طاقتیں بوس کی انڈیا آمد کو بطور دباؤ استعمال کر رہی تھیں جبکہ انڈیا میں موجود کانگرس بوس کی واپسی سے بوجوہ خوفزدہ تھی۔ نہرو، گاندھی، پٹیل یہ جانتے تھے کہ بوس اگر زندہ واپس آگیا تو اس کے سامنے وہ سیاسی بونے بن جائیں گے۔ روسیوں کا مفاد اس میں تھا کہ وہ بوس کی واپسی کا کارڈ دکھا کر نہرو کو سرد جنگ میں روسی بلاک کے ساتھ رہنے پر آمادہ کریں۔ کانجی دوارکاداس ان دنوں امریکہ میں تھے کہ اپنی کتاب آزادی کی طرف سفر (1937 یا1947 )میں انھوں نے نہرو کے کانجی کو لکھے ذاتی خطوط بھی چھاپ دیے جس میں پنڈت جی امریکی بلاک میں شامل ہونے پر زور دے رہے تھے۔ سلطنت مگر بوس کو نشان عبرت بنانا چاہتی تھی کہ جس نے آئی این اے کے ذریعہ سلطنت کے جھومر برٹش انڈین آرمی میں دراڑ ڈالی تھی۔ بس جب سب کے مفاد سانجھے ہوئے تو بوس کا شکار کر لیا گیا۔ 1953 تک نئی دنیا بن چکی تھی اور یہی وہ سال ہے جب ٹائمز انڈیا کے مطابق بوس کو بھی مار ڈالا گیا۔ نہرو اب روسی بلاک میں تھا اور انتخابات جیتنے کے بعد اسے بوس کی واپسی کا ڈر بھی نہیں رہا تھا۔ -
یوں سوامی جی نے آدھا سچ تو بولا ہے مگر وہ گاندھی اور پٹیل کی بجائے سارا نزلہ نہرو پر ہی ڈالتے ہیں کیونکہ پٹیل اور گاندھی کے چیلوں ہی کی مدد سے بی جے پی اقتدار پر براجمان ہے۔ سوامی جی بوجوہ آج کا سچ نہیں بتاسکتے کہ آج بھارت جس نئے بین الاقوامی تال میل کا حصّٰہ بن رہا ہے اس میں کانگرس کی بجائے بی جے پی سودے کر رہی ہے۔ ان نئی سودے بازیوں میں مودی سرکار نئے اتحادیوں کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ مگر سبھاش کا بھوت تو برابر جنوبی ایشیائی سیاست میں اندرون خانہ اور بیرونی سطح پر ہونے والی سیاست کا پردہ چاک کرتا رہے گا۔ بوس کی کہانی ابھی سربستہ راز ہے کہ اس ضمن میں ان خفیہ فائلوں سے کھرا ڈھونڈا جاسکتا ہے جو بقول سوامی جی ساؤتھ ہال (جہاں بھارتی وزیراعظم براجمان ہوتا ہے) میں موجود ہیں۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی باہرلوں اور اندر موجود چند گروہوں کے مفادات کی سانجھ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مگر بین الاقوامی یا ملکی سطح پرہونے والی سازشوں کے باوجود لوگوں کے دلوں سے ان مقبول عام اور ہردلعزیز شخصیات کو کون نکال سکتا ہے۔ -

Some other links

The victim of the great game
An exhaustive biography of Subhas Chandra Bose is the best work to date to clarify some of his paradoxes
By Aamir Riaz
Published in The News, Pakistan at 24rth June 2014
http://jang.com.pk/thenews/jun2012-weekly/nos-24-06-2012/lit.htm#1

Friday, February 13, 2015

GSP+ An oppurtunity for Pakistan: Will Parliament protect it?

GSP+  (Generalized System of Preferences) 

An oppurtunity for Pakistan

Will Parliament protect it?

http://humshehrionline.com/?p=9561#sthash.yJrcY25l.dpbs

On the one hand China is investing in Pakistan while on the other hand EU especially Germany, Belgium, France, etc are opening access of Pakistani products in EU. According to Zulfiqar Shah of DRI  in one year (from Jan 2014 to Jan 2015) in spite of dharnas, explosions and sectarian killings Pakistan got additional business of one billion $ from EU. But there are forces in Pakistan who are against it. Who are they? What they want? What are the hindrances in it? What parliament can do in protecting this opportunity? Media and civil society can play their role in this regard but issue is their capacity and understanding. No reform agenda can get success without the vibrant support of elected tier. The questions were discussed in a seminar Jointly organized by HRCP and DRI in Lhore. Read the article and find what was said and what was not said in it.
جنوری 2014 کو یورپی یونین نے پاکستان کو ان چند ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا تھا جنھیں عمومی ترجیحاتی سیکم Gerneralized Scheme of Prefrences یعنی جی ایس پی کے تحت خصوصی رعائتیں دی جاتی ہیں۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے ممالک کی مخصوص اشیاء کو یورپی ممالک میں ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے عوض ان ممالک کو انسانی حقوق سے متعلق 27 کنونشنوں کو قانونی شکل دینا ہوگی۔ جرمنی کے شہر برلن میں قائم ڈیموکریٹک رپورٹنگ انٹرنیشنل (DRI) نامی ادارے کے ذوالفقار شاہ کے بقول دھرنوں، بم دھماکوں اور انتشار کے باوجود جنوری 2014 سے 2015 تک کے گذرے ایک سال میں پاکستان نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی ممالک سے ایک ارب ڈالر (ایک کھرب روپے) کا اضافی کاروبار کیا ہے۔ ذوالفقار شاہ جس سیمینار سے خطاب کر رہے تھے اس کا انعقاد انسانی حقوق کمیشن اور ڈی آر آئی نے مشترکہ طور پر لاہور میں کیا تھا۔ جی ایس پی وہی تجارتی بندوبست ہے جس کی منظوری 1960 کی دہائی میں اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ترقی و تجارت نے دی تھی اور 1971 سے اس پر سرعت سے کام ہونے لگا تھا۔ مگر امریکہ روس سرد جنگ کے دوران تجارتوں کا معاملہ بھی جنگوں اور عسکری مہموں ہی کے طابع رہا۔ سرد جنگ میں عام اشیاء کی تجارتوں کی بجائے اسلحہ کے تاجروں ہی کا راج تھا مگر اب 21 ویں صدی میں دنیا بدلنے لگی ہے۔ اس سیمینار سے ذوالفقار شاہ کے علاوہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اسامہ طارق، سماجی انصاف کے لیے سرگرم پیٹر جیکب، صحافی عامر سہیل،پنجاب بار کونسل کی منزہ ہاشمی ایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کمیشن کے آئی اے رحمن صاحب نے خطاب کیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سول سوسائٹی کو اس ضمن میں متحد ہو کر حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ ریاست پاکستان جی ایس پی (پلس) سے فائدہ بھی اٹھا سکے اور جن 27 کنونشنوں کو قانونی شکل دینی ہے اس پر عملدرآمد بھی ہوسکے۔ تاہم اس مجلس میں پاکستان کے منتخب اداروں اور سیاسی قیادتوں سے مل کر اس جد و جہد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے ویژن کا فقدان نظر آیا۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نگرانی کا کام تو کر سکتے ہیں مگر عملدرآمد کے لیے انہیں صوبوں اور مرکز میں موجود منتخب اداروں ہی سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سول سو سائٹی اور میڈیا میں بھی ایسے شیر بکثرت موجود ہیں جو آمروں کی زبان ہی بولتے و لکھتے ہیں۔ سیمینار میں صحافی عامر سہیل کی تقریر اسی پیرائے میں کی گئی اور اس پر تالیاں بجانے والے سول سوسائٹی کے نمائندے بھی یہ بھول گئے کہ انہیں جو جدوجہد کرنی ہے وہ انہیں بری، بھلی منتخب قیادتوں کی مرہون منت کامیاب ہوگی۔ یہ درست ہے کہ سول سو سائٹی میں موجود واضح اکثریت جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ہونے والی طویل جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے مگر جنرل ایوب خان اور جنرل مشرف کے چلائے بندوبستوں کی ناکامیوں سے انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اصلاحاتی ایجنڈہ صرف سیاسی حمائیت ہی سے تسلسل کے ساتھ کامیابیوں کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ پیٹر جیکب کا اسرار تھا کہ ہمیں یورپ کے ہر عمل کو ’’سازش‘‘ کے پیرائے ہی میں دیکھنے کی عادت کو ختم کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو پیٹر صاحب نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو ان معاملات کی نگرانی بارے زیادہ جاندار رپورٹنگ کرنا ہوگی۔ - 

اسامہ طارق نے توجہ دلائی کہ جن 27 کنونشنوں کو پاکستان میں عملی جامہ پہنانا ہے ان میں مزدوروں کی تنظیم سازی کے حقوق بھی شامل ہیں۔ وکلاء کی نمائندہ منزہ ہاشمی نے یاد دلایا کہ پنجاب بار کونسل میں پہلی بار ایک خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں جس سے خواتین کے خلاف رویوں میں کمی آئے گی۔ وکلاء تحریک نے ہمیں بحیثیت ادارہ مضبوط کیا ہے مگر آج ضرورت یہ ہے کہ پنجاب بار کونسل کی انسانی حقوق کمیٹی کو بھی تگڑا کیا جائے اور دسٹرکٹ بار کی سطح پر بھی ایسی کمیٹیوں کی تشکیل کو ممکن بنایا جائے۔ انھوں نے گلہ کیا کہ جی ایس پی (پلس) بارے تو نہ وکلاء کو پتہ ہے نہ ہی جج حضرات کو۔ جی ایس پی (پلس) سے سرمایہ داروں نے تو فائدے اٹھانے شروع کر دیے ہیں مگر مزدوروں اور عام پاکستانیوں تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے اس کے لیے ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے عامر سہیل نے دعویٰ کیا کہ صحافیوں کا نیٹ ورک وکلاء سے بڑا بھی ہے اور جمہوری بھی مگر وہ یہ نہ بتاسکے کہ جی ایس پی (پلس) کے حوالہ سے خود صحافیوں کی معلومات کتنی ہیں۔ البتہ صحافیوں کی حالت زار بارے عامر سہیل نے یہ ضرور کہا کہ اکثر صحافیوں کو کنڑیکٹ تو دور کی بات، صحافیوں والا کارڈ تک نہیں دیا جاتا۔ آخر میں انسانی حقوق کے ترجمان اور لکھاری آئی اے رحمن نے حاضرین کو ان دنوں بارے بتایا جب وہ برسلز میں یورپی یونین کو جی ایس پی پلس سیٹٹس پاکستان کو دینے پر آمادہ کر رہے تھے۔ وہاں بہت سے ممالک پاکستان کو یہ گنجائش دینے کے خلاف تھے۔ 2014 میں کامرس منسٹر کے ساتھ یورپی یونین کے نمائندے کی ملاقات کے دوران میں بھی موجود تھا۔ نمائندے نے واضح طور پر وزیر کو بتایا تھا کہ اگر آپ نے پھانسیاں دیں تو یہ جی ایس پی (پلس) کی خلاف ورزی ہوگی۔ - 

رحمن صاحب نے سری لنکا کی مثال بھی دی جس سے جی ایس پی (پلس) کا سٹیٹس واپس لے لیاگیا تھا کیونکہ انسانی حقوق کے حوالہ سے اس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ سول سوسائٹی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا استدلال یہ تھا کہ آپ جی ایس پی (پلس) سے منفعت کمانے والوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ ان حقوق کو بھی پورا کریں جس کے عوض یہ رعائیت دی گئی ہے۔ سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے والوں کی مثال سامنے ہے۔ آج وہ انسانی حقوق کے حوالہ سے نسبتاً زیادہ عمل کررہے ہیں اور ان کا کاروبار لوڈ شیڈنگ کے باوجود بہتر ہے۔ رحمن صاحب کا کہنا تھا کہ جی ایس پی (پلس) سے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت دوگنا تو ہوجائے گی مگر جن عوامی سہولتوں کے عوض یہ فائدہ اٹھایاجارہا ہے اس بارے بھی تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ وہ عوام کو مل رہی ہیں یا نہیں؟
تعلیم کے حوالہ سے رحمن صاحب نے جو اعدادوشمار دیے وہ روائیتی ہی تھے۔ سرکاری سکولوں میں پرائمری پاس کرنے والوں اور مڈل سرکاری سکولوں میں داخل ہونے والوں کے تناسب میں فرق تو ہے مگر ان میں سے بہت سے بچے نجی تعلیمی اداروں میں چلے جاتے ہیں۔ انہیں ڈراپ آوٹ کے زمرے میں ڈال کر آج کل ان کی تعداد ڈھائی کڑوڑ بتائی جاتی ہے جو درست نہیں۔ عورتوں کے متعلق عمومی رویوں کی مثال دیتے ہوئے رحمن صاحب نے پاکستان کی پہلی سول سرونٹ خاتون کی مثال دی۔ جب وہ پہلی دفعہ دفتر پہنچی تو سپریڈنڈنٹ نے بتایا کہ یہاں صرف مردوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اگر سول سو سائٹی والے سکولوں کے نصاب کا جائزہ لیں تو انہیں عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف بننے والے ذہنی رجحان سے بخوبی آگاہی ہوجائے گی۔ پہلی سے 10 ویں تک کی اُردو، انگریزی کی نصانی کتب میں دفتر چلاتے، گاڑی چلاتے یا فنون لطیفہ سے متعلق کسی ایک خاتون کی تصویر بھی نہیں ہوتی۔ دیہات اور کھیتوں میں تو خواتین سارے کام کرتی ہیں مگر نصابی کتب میں خواتین کو محض گھریلو کام کرتے ہی دکھایا جاتا ہے۔ یہ محض تعلیم کی کمی یا پسماندگی کا مسئلہ نہیں بلکہ اک مخصوص ذہنیت کی علامات ہیں۔ سیمینار کے بعد سوالات کا سیشن بھی ہوا جس کے لیے ڈی آر آئی والوں کو مبارک باد دینی چاہیے۔ عموماً ہماری مجلسیں، سیمینا وغیرہ ’’ون وے ٹریفک‘‘کا رنگ لیے سجائی جاتی ہیں۔ حاضرین شودروں کی طرح براہمنوں کا درس سنتے، سردھنتے اور کسی اگلی مجلس تک نیاز کھانے کے بعد رخصت ہوجاتے ہیں۔ مگر ڈی آر آئی نے سوالات کے لیے مناسب وقت دیا۔ منتظمین کو چاہیے کہ وہ مقررین کو بھی سوال و جواب کے وقفہ میں موجود رہنے کا پابند کریں۔ ایک صاحب نے بجا طور پر توجہ دلائی کہ فیصل آباد سمیت ملک بھر میں بہت سے غیر رجسٹرڈ کاروباری و صنعتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جب وہ رجسٹرڈ ہی نہیں تو قوانین پر عملدرآمد کہاں سے ہوگا۔ ان اداروں کے مالک یا تو بہت بااثر ہیں یا پھر با اثر افسران کی انہیں پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے اور سنا ہے چین صدر کی دوبارہ آمد آمد ہے تو دوسری طرف جرمن، بلجیم، فرانس، سپین، نیدرلینڈجیسے یورپی ممالک پاکستان کو اپنی منڈیوں تک رسائی دینے کی راہیں نکال رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک طرف پھانسیوں نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ خراب کیا ہے تو دوسری طرف ہڑتالوں، مار دھاڑ کی سیاستوں، دھرنوں اور بم دھماکوں نے ناطقہ بند کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے۔ تجارتی طور پر مستحکم اور انسانی و سیاسی حقوق کے حوالہ سے بہتر ریکارڈ رکھنے ہی سے نہ صرف پاکستان کا وقار بلند ہوگا، تاجروں اور صنعت کاروں کو منفعت ملے گی بلکہ اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔ مگر اس کے لیے منتخب قیادتوں، اسمبلیوں اور متعلقہ پارلیمانی و سٹینڈنگ کمیٹیوں کو رہنما کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ کچھ قوتوں کو یہ راستہ بوجوہ پسند نہیں اور کچھ بغیر سوچے سمجھے پاکستان میں افراتفری ہی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے نمائندے میڈیا میں بیٹھ کر یہ لکھتے ہیں کہ جی ایس پی (پلس) کی رعائیت ختم بھی ہوگئی تو کچھ نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو 21 ویں ترمیم کے مشکل فیصلہ کے وقت فوجی عدالتوں کو دو سال کا محدود وقت دینے یہ پیغام شامل تھا کہ پاکستان اسے مستقل پالیسی کی حیثیت سے اپنانا نہیں چاہتا۔ سول سوسائٹی کو یورپی یونین کو پاکستان کی مخصوص صورتحال سے بھی باور کروانا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں جان بوجھ کر اس حوالہ سے غلط فہمیوں کو پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اب جنوری 2016 میں یورپی یونین کو پاکستان کی اس حوالہ سے کارگردگی کا جائزہ لینا ہے۔ پاکستان کی مشکلات محض مقامی نہیں بلکہ یہ خطہ سرد جنگ کا ہاٹ پوائنٹ رہا ہے۔ بحیثیت تجارتی گذرگاہ پاکستان خطہ اور دنیا میں اپنی اہمیت دوبارہ سے جتلا سکتا ہے اور تجارتوں کے بڑھنے سے عام آدمی تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیمانی ادارے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر اسلحہ بیچنے والے بین الاقوامی ادارے اور ان کے مقامی دوست ہمارے خطہ کو محض مار دھاڑ اور اسلحہ و ڈرگ کی تجارت ہی کے لیے مختص رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں 2008 سے جاری پہلے جمہوری تسلسل اور منتخب قیادتوں بارے تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ ایک کھٹن رستہ ضرور ہے مگر ہماری پارلیمنٹ تاحال جمہوری تسلسل پر برابر پہرہ دے رہی ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج سیاستدانوں کو نئی صورتحال کا کہیں زیادہ ادارک ہے۔ سول سو سائٹی اور میڈیا اس ضمن میں نگران کا کام کرسکتے ہیں۔ مگر کیا کریں، ڈی آر آئی کی کاوشوں اور جی ایس پی (پلس) جیسے موضوعات کی بجائے میڈیا رٹینگ میں ’’الطاف عمران دنگل‘‘ جیسے غیر ضروری اور ہیجان بڑھانے والے واقعات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ کاروبار ہوگا، تجارتیں چلیں گی تو مزدور تک ان ثمرات کو لیجانے کے مطالبہ پر بھی عملدرآمد کے راستے نکلیں گے۔ نگرانی اور تھانیداری میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی میڈیا اور سول سو سائٹی بہترین معاونین کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ -

Tuesday, February 10, 2015

A New Punjabi novel Madhu Lal Hussain…..Lhore di Wail Written by Nain Sukh



A New Punjabi novel


Madhu Lal Hussain

Lhore di Wail

Written by Nain Sukh

· A novel in the backdrop of legendary saint of Lhore Mahdu Lal Hussain
· A novel about social and political history of the Lhore


Available@ READINGS, Lahore 

Price Rs 500/only Pages 472

Place your order Online and get discount too


Back Title


Contents


Credit Page


Inner Title


Publisher Note


Spine



Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...