Friday, February 13, 2015

GSP+ An oppurtunity for Pakistan: Will Parliament protect it?

GSP+  (Generalized System of Preferences) 

An oppurtunity for Pakistan

Will Parliament protect it?

http://humshehrionline.com/?p=9561#sthash.yJrcY25l.dpbs

On the one hand China is investing in Pakistan while on the other hand EU especially Germany, Belgium, France, etc are opening access of Pakistani products in EU. According to Zulfiqar Shah of DRI  in one year (from Jan 2014 to Jan 2015) in spite of dharnas, explosions and sectarian killings Pakistan got additional business of one billion $ from EU. But there are forces in Pakistan who are against it. Who are they? What they want? What are the hindrances in it? What parliament can do in protecting this opportunity? Media and civil society can play their role in this regard but issue is their capacity and understanding. No reform agenda can get success without the vibrant support of elected tier. The questions were discussed in a seminar Jointly organized by HRCP and DRI in Lhore. Read the article and find what was said and what was not said in it.
جنوری 2014 کو یورپی یونین نے پاکستان کو ان چند ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا تھا جنھیں عمومی ترجیحاتی سیکم Gerneralized Scheme of Prefrences یعنی جی ایس پی کے تحت خصوصی رعائتیں دی جاتی ہیں۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے ممالک کی مخصوص اشیاء کو یورپی ممالک میں ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے عوض ان ممالک کو انسانی حقوق سے متعلق 27 کنونشنوں کو قانونی شکل دینا ہوگی۔ جرمنی کے شہر برلن میں قائم ڈیموکریٹک رپورٹنگ انٹرنیشنل (DRI) نامی ادارے کے ذوالفقار شاہ کے بقول دھرنوں، بم دھماکوں اور انتشار کے باوجود جنوری 2014 سے 2015 تک کے گذرے ایک سال میں پاکستان نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی ممالک سے ایک ارب ڈالر (ایک کھرب روپے) کا اضافی کاروبار کیا ہے۔ ذوالفقار شاہ جس سیمینار سے خطاب کر رہے تھے اس کا انعقاد انسانی حقوق کمیشن اور ڈی آر آئی نے مشترکہ طور پر لاہور میں کیا تھا۔ جی ایس پی وہی تجارتی بندوبست ہے جس کی منظوری 1960 کی دہائی میں اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ترقی و تجارت نے دی تھی اور 1971 سے اس پر سرعت سے کام ہونے لگا تھا۔ مگر امریکہ روس سرد جنگ کے دوران تجارتوں کا معاملہ بھی جنگوں اور عسکری مہموں ہی کے طابع رہا۔ سرد جنگ میں عام اشیاء کی تجارتوں کی بجائے اسلحہ کے تاجروں ہی کا راج تھا مگر اب 21 ویں صدی میں دنیا بدلنے لگی ہے۔ اس سیمینار سے ذوالفقار شاہ کے علاوہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اسامہ طارق، سماجی انصاف کے لیے سرگرم پیٹر جیکب، صحافی عامر سہیل،پنجاب بار کونسل کی منزہ ہاشمی ایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کمیشن کے آئی اے رحمن صاحب نے خطاب کیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سول سوسائٹی کو اس ضمن میں متحد ہو کر حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ ریاست پاکستان جی ایس پی (پلس) سے فائدہ بھی اٹھا سکے اور جن 27 کنونشنوں کو قانونی شکل دینی ہے اس پر عملدرآمد بھی ہوسکے۔ تاہم اس مجلس میں پاکستان کے منتخب اداروں اور سیاسی قیادتوں سے مل کر اس جد و جہد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے ویژن کا فقدان نظر آیا۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نگرانی کا کام تو کر سکتے ہیں مگر عملدرآمد کے لیے انہیں صوبوں اور مرکز میں موجود منتخب اداروں ہی سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سول سو سائٹی اور میڈیا میں بھی ایسے شیر بکثرت موجود ہیں جو آمروں کی زبان ہی بولتے و لکھتے ہیں۔ سیمینار میں صحافی عامر سہیل کی تقریر اسی پیرائے میں کی گئی اور اس پر تالیاں بجانے والے سول سوسائٹی کے نمائندے بھی یہ بھول گئے کہ انہیں جو جدوجہد کرنی ہے وہ انہیں بری، بھلی منتخب قیادتوں کی مرہون منت کامیاب ہوگی۔ یہ درست ہے کہ سول سو سائٹی میں موجود واضح اکثریت جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ہونے والی طویل جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے مگر جنرل ایوب خان اور جنرل مشرف کے چلائے بندوبستوں کی ناکامیوں سے انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اصلاحاتی ایجنڈہ صرف سیاسی حمائیت ہی سے تسلسل کے ساتھ کامیابیوں کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ پیٹر جیکب کا اسرار تھا کہ ہمیں یورپ کے ہر عمل کو ’’سازش‘‘ کے پیرائے ہی میں دیکھنے کی عادت کو ختم کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو پیٹر صاحب نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو ان معاملات کی نگرانی بارے زیادہ جاندار رپورٹنگ کرنا ہوگی۔ - 

اسامہ طارق نے توجہ دلائی کہ جن 27 کنونشنوں کو پاکستان میں عملی جامہ پہنانا ہے ان میں مزدوروں کی تنظیم سازی کے حقوق بھی شامل ہیں۔ وکلاء کی نمائندہ منزہ ہاشمی نے یاد دلایا کہ پنجاب بار کونسل میں پہلی بار ایک خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں جس سے خواتین کے خلاف رویوں میں کمی آئے گی۔ وکلاء تحریک نے ہمیں بحیثیت ادارہ مضبوط کیا ہے مگر آج ضرورت یہ ہے کہ پنجاب بار کونسل کی انسانی حقوق کمیٹی کو بھی تگڑا کیا جائے اور دسٹرکٹ بار کی سطح پر بھی ایسی کمیٹیوں کی تشکیل کو ممکن بنایا جائے۔ انھوں نے گلہ کیا کہ جی ایس پی (پلس) بارے تو نہ وکلاء کو پتہ ہے نہ ہی جج حضرات کو۔ جی ایس پی (پلس) سے سرمایہ داروں نے تو فائدے اٹھانے شروع کر دیے ہیں مگر مزدوروں اور عام پاکستانیوں تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے اس کے لیے ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے عامر سہیل نے دعویٰ کیا کہ صحافیوں کا نیٹ ورک وکلاء سے بڑا بھی ہے اور جمہوری بھی مگر وہ یہ نہ بتاسکے کہ جی ایس پی (پلس) کے حوالہ سے خود صحافیوں کی معلومات کتنی ہیں۔ البتہ صحافیوں کی حالت زار بارے عامر سہیل نے یہ ضرور کہا کہ اکثر صحافیوں کو کنڑیکٹ تو دور کی بات، صحافیوں والا کارڈ تک نہیں دیا جاتا۔ آخر میں انسانی حقوق کے ترجمان اور لکھاری آئی اے رحمن نے حاضرین کو ان دنوں بارے بتایا جب وہ برسلز میں یورپی یونین کو جی ایس پی پلس سیٹٹس پاکستان کو دینے پر آمادہ کر رہے تھے۔ وہاں بہت سے ممالک پاکستان کو یہ گنجائش دینے کے خلاف تھے۔ 2014 میں کامرس منسٹر کے ساتھ یورپی یونین کے نمائندے کی ملاقات کے دوران میں بھی موجود تھا۔ نمائندے نے واضح طور پر وزیر کو بتایا تھا کہ اگر آپ نے پھانسیاں دیں تو یہ جی ایس پی (پلس) کی خلاف ورزی ہوگی۔ - 

رحمن صاحب نے سری لنکا کی مثال بھی دی جس سے جی ایس پی (پلس) کا سٹیٹس واپس لے لیاگیا تھا کیونکہ انسانی حقوق کے حوالہ سے اس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ سول سوسائٹی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا استدلال یہ تھا کہ آپ جی ایس پی (پلس) سے منفعت کمانے والوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ ان حقوق کو بھی پورا کریں جس کے عوض یہ رعائیت دی گئی ہے۔ سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے والوں کی مثال سامنے ہے۔ آج وہ انسانی حقوق کے حوالہ سے نسبتاً زیادہ عمل کررہے ہیں اور ان کا کاروبار لوڈ شیڈنگ کے باوجود بہتر ہے۔ رحمن صاحب کا کہنا تھا کہ جی ایس پی (پلس) سے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت دوگنا تو ہوجائے گی مگر جن عوامی سہولتوں کے عوض یہ فائدہ اٹھایاجارہا ہے اس بارے بھی تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ وہ عوام کو مل رہی ہیں یا نہیں؟
تعلیم کے حوالہ سے رحمن صاحب نے جو اعدادوشمار دیے وہ روائیتی ہی تھے۔ سرکاری سکولوں میں پرائمری پاس کرنے والوں اور مڈل سرکاری سکولوں میں داخل ہونے والوں کے تناسب میں فرق تو ہے مگر ان میں سے بہت سے بچے نجی تعلیمی اداروں میں چلے جاتے ہیں۔ انہیں ڈراپ آوٹ کے زمرے میں ڈال کر آج کل ان کی تعداد ڈھائی کڑوڑ بتائی جاتی ہے جو درست نہیں۔ عورتوں کے متعلق عمومی رویوں کی مثال دیتے ہوئے رحمن صاحب نے پاکستان کی پہلی سول سرونٹ خاتون کی مثال دی۔ جب وہ پہلی دفعہ دفتر پہنچی تو سپریڈنڈنٹ نے بتایا کہ یہاں صرف مردوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اگر سول سو سائٹی والے سکولوں کے نصاب کا جائزہ لیں تو انہیں عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف بننے والے ذہنی رجحان سے بخوبی آگاہی ہوجائے گی۔ پہلی سے 10 ویں تک کی اُردو، انگریزی کی نصانی کتب میں دفتر چلاتے، گاڑی چلاتے یا فنون لطیفہ سے متعلق کسی ایک خاتون کی تصویر بھی نہیں ہوتی۔ دیہات اور کھیتوں میں تو خواتین سارے کام کرتی ہیں مگر نصابی کتب میں خواتین کو محض گھریلو کام کرتے ہی دکھایا جاتا ہے۔ یہ محض تعلیم کی کمی یا پسماندگی کا مسئلہ نہیں بلکہ اک مخصوص ذہنیت کی علامات ہیں۔ سیمینار کے بعد سوالات کا سیشن بھی ہوا جس کے لیے ڈی آر آئی والوں کو مبارک باد دینی چاہیے۔ عموماً ہماری مجلسیں، سیمینا وغیرہ ’’ون وے ٹریفک‘‘کا رنگ لیے سجائی جاتی ہیں۔ حاضرین شودروں کی طرح براہمنوں کا درس سنتے، سردھنتے اور کسی اگلی مجلس تک نیاز کھانے کے بعد رخصت ہوجاتے ہیں۔ مگر ڈی آر آئی نے سوالات کے لیے مناسب وقت دیا۔ منتظمین کو چاہیے کہ وہ مقررین کو بھی سوال و جواب کے وقفہ میں موجود رہنے کا پابند کریں۔ ایک صاحب نے بجا طور پر توجہ دلائی کہ فیصل آباد سمیت ملک بھر میں بہت سے غیر رجسٹرڈ کاروباری و صنعتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جب وہ رجسٹرڈ ہی نہیں تو قوانین پر عملدرآمد کہاں سے ہوگا۔ ان اداروں کے مالک یا تو بہت بااثر ہیں یا پھر با اثر افسران کی انہیں پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے اور سنا ہے چین صدر کی دوبارہ آمد آمد ہے تو دوسری طرف جرمن، بلجیم، فرانس، سپین، نیدرلینڈجیسے یورپی ممالک پاکستان کو اپنی منڈیوں تک رسائی دینے کی راہیں نکال رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک طرف پھانسیوں نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ خراب کیا ہے تو دوسری طرف ہڑتالوں، مار دھاڑ کی سیاستوں، دھرنوں اور بم دھماکوں نے ناطقہ بند کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے۔ تجارتی طور پر مستحکم اور انسانی و سیاسی حقوق کے حوالہ سے بہتر ریکارڈ رکھنے ہی سے نہ صرف پاکستان کا وقار بلند ہوگا، تاجروں اور صنعت کاروں کو منفعت ملے گی بلکہ اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔ مگر اس کے لیے منتخب قیادتوں، اسمبلیوں اور متعلقہ پارلیمانی و سٹینڈنگ کمیٹیوں کو رہنما کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ کچھ قوتوں کو یہ راستہ بوجوہ پسند نہیں اور کچھ بغیر سوچے سمجھے پاکستان میں افراتفری ہی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے نمائندے میڈیا میں بیٹھ کر یہ لکھتے ہیں کہ جی ایس پی (پلس) کی رعائیت ختم بھی ہوگئی تو کچھ نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو 21 ویں ترمیم کے مشکل فیصلہ کے وقت فوجی عدالتوں کو دو سال کا محدود وقت دینے یہ پیغام شامل تھا کہ پاکستان اسے مستقل پالیسی کی حیثیت سے اپنانا نہیں چاہتا۔ سول سوسائٹی کو یورپی یونین کو پاکستان کی مخصوص صورتحال سے بھی باور کروانا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں جان بوجھ کر اس حوالہ سے غلط فہمیوں کو پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اب جنوری 2016 میں یورپی یونین کو پاکستان کی اس حوالہ سے کارگردگی کا جائزہ لینا ہے۔ پاکستان کی مشکلات محض مقامی نہیں بلکہ یہ خطہ سرد جنگ کا ہاٹ پوائنٹ رہا ہے۔ بحیثیت تجارتی گذرگاہ پاکستان خطہ اور دنیا میں اپنی اہمیت دوبارہ سے جتلا سکتا ہے اور تجارتوں کے بڑھنے سے عام آدمی تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیمانی ادارے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر اسلحہ بیچنے والے بین الاقوامی ادارے اور ان کے مقامی دوست ہمارے خطہ کو محض مار دھاڑ اور اسلحہ و ڈرگ کی تجارت ہی کے لیے مختص رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں 2008 سے جاری پہلے جمہوری تسلسل اور منتخب قیادتوں بارے تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ ایک کھٹن رستہ ضرور ہے مگر ہماری پارلیمنٹ تاحال جمہوری تسلسل پر برابر پہرہ دے رہی ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج سیاستدانوں کو نئی صورتحال کا کہیں زیادہ ادارک ہے۔ سول سو سائٹی اور میڈیا اس ضمن میں نگران کا کام کرسکتے ہیں۔ مگر کیا کریں، ڈی آر آئی کی کاوشوں اور جی ایس پی (پلس) جیسے موضوعات کی بجائے میڈیا رٹینگ میں ’’الطاف عمران دنگل‘‘ جیسے غیر ضروری اور ہیجان بڑھانے والے واقعات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ کاروبار ہوگا، تجارتیں چلیں گی تو مزدور تک ان ثمرات کو لیجانے کے مطالبہ پر بھی عملدرآمد کے راستے نکلیں گے۔ نگرانی اور تھانیداری میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی میڈیا اور سول سو سائٹی بہترین معاونین کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ -

No comments:

Post a Comment

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...