Thursday, February 26, 2015

South Punjab: Rising Middle Class & Extremism



South Punjab

 Rising Middle Class & Extremism

http://issuu.com/hum_shehri/docs/02.03.2015/24?e=12088494/11606713


Visit of literate youth of South Punjab in Lhore organized by Bargad provided an opportunity to understand what young leaders are thinking regarding their future.  Their questions were pertinent yet answers were absurd, their knowledge was limited yet courage was up to the mark, never the less their search for solutions remains intact during the visits of Government College & Historical places.

Link of the article published in weekly Humshehri

http://humshehrionline.com/?p=9904#sthash.26n6r38c.dpbs 


کسی بھی معاشرے میں درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہی میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی طبقاتی حیثیت کی وجہ سے بیک وقت اشرافیہ کی پرتعیش زندگیوں سے لے کر چھونپڑیوں اور کچی بستیوں میں کسما پرسی کی زندگی گزارنے والوں تک کے حالات سے باخبر رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی نظریں اور غریبوں کی امیدیں مڈل کلاس پر ٹکی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کی جتنی بھی تحریکیں ہیں ان میں بنیادی قوت محرکہ درمیانے طبقہ ہی کے نوجوان رہے ہیں۔ آج کل ماہرین یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں 16 سے 35 سال کے نوجوانوں کا تناسب بہت بڑھ چکا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک بھر میں مڈل کلاس کی گنتیاں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ مگر مڈل کلاس کو محض اپنی بڑھ چکی تعداد پر اترانا نہیں چاہیے کہ انہیں استعمال کرنے والے بھی انتہائی چوکس ہیں۔ یوں اس کار جہاں میں درمیانہ طبقہ کو پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے کہ انہی معاشروں نے تیزی سے ترقی کی ہے جن کی مڈل کلاس جذباتیت، نعرے بازیوں اور ہر قسم کی انتہا پسندیوں و موقع پرستیوں سے بچتے ہوئے اعتدال کا دامن تھام کر نئے راستے ڈھونڈتی ہے۔ -

یہاں مڈل کلاس کی موقع پرستیوں اور کامرانیوں کا ذکر اس لیے آگیا کہ پچھلے دنوں غیر سرکاری تنظیم برگد کے وسیلہ سے جنوبی پنجاب سے آئے 200 سے زائد طلبا و اساتذہ میں کچھ وقت گزارنے کو موقع ملا۔ یہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ملتان سے پنجند تک پھیلے ’’وسیب ‘‘کے نمائندہ تھے اور ان کا تعلق بہاولپور، لودھراں، مظفر گڑھ اور ملتان کے اضلاع سے تھا۔ کیونکہ ’’برگد ‘‘عرصہ دراز سے ملک بھر کی اہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں سے براہ راست رابطہ میں ہے اس لیے خواندہ نوجوانوں کے ساتھ یہ تنظیم گاہے بگاہے تو اتر سے پروگرام کرتی رہتی ہے۔
جنوبی پنجاب کے یہ نوجوان تین روزہ دورے پر پنجاب کے دل لاہور آئے اور جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ نوجوان قذافی سٹیڈیم کے پاس ’’پنجابی کمپلیکس ‘‘میں آخری پروگرام انجوائے کر رہے تھے۔ آج وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی عظیم درس گاہ سے ہوکر آئے تھے اور یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ مستقبل میں وہ اپنے اضلاع کے تعلیمی اداروں کو گورنمنٹ کالج لاہور جیسا بنائیں گے۔ ان کے سوالات و تبصروں میں اضطراب بھی تھا اور تجسس، احتجاج اور کچھ کرنے کا عزم بھی۔
  
وہ اپنے وسیب کے قریشیوں، جتوئیوں، کھروں، 

گیلانیوں، خاکوانیوں، خانوں اور جٹوں کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف تھے کہ اس لیے وہ ردعمل میں جمشید دستی کی بغاوت کو سراہنے تک کے لیے تیار تھے مگر اسے رول ماڈل نہیں سمجھتے تھے۔ ان نوجوانوں میں باریش بھی تھے، شلوار قمیضوں میں ملبوس بھی اور سوٹ پینٹ زیب تن کیے بھی۔ خواتین میں کچھ نے تو برقعہ یانقاب اوڑھا تھا تو کچھ دوپٹہ پہنے تھیں اور ایسی بھی تھیں جن کے لیے ان چیزوں کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔ لاہور میں وہ مہمان تھے اس لیے میزبانوں نے انہیں گھر کے بہترین مقامات ہی دکھانے تھے کہ جب انہیں اس شہر کی 300 سے زائد رجسٹرڈ وہ غیر رجسٹرڈ کچی آبادیوں بارے بتایا تو وہ کچھ حیران بھی ہوئے۔ مگر جلد انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ اشرافیہ ہر شہر اور علاقہ میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ چاہے لاہور، ملتان، مظفر گڑھ، بہاولپورہو یاپھر کراچی، لاڑکانہ، کوئٹہ یا پشاور طاقت کے تھموں یعنی اشرافیہ میں اتحاد بھی خوب ہوتا ہے۔ اگر مڈل کلاس میں اتحاد ہو جائے تو وہی انقلاب آتا ہے جس کا مظاہرہ لوگوں نے دسمبر 1970ء میں پیپلز پارٹی کی فتح کی شکل میں دیکھا تھا۔ جنوبی پنجاب سے باہر نوکریوں اور کاروبار کے سلسلہ میں لاہور، اسلام آباد جانے والے درمیانہ طبقہ کے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں کہ اگر وسیب میں رہنے والی تمام مڈل کلاس اور وسیب سے باہر ملازمتیں کرنے والی مڈل کلاس کو یکجا کر لیں تو تجربہ، دانشمندی اور عزم دھیرے دھیرے’’ تعصب و تقاخر‘‘ پر سبقت لے سکتا ہے۔ مگر انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ یہ وقت مڈل کلاس کو جوڑنے کا ہے نہ کہ زبان و فرقہ پر لڑنے کا۔ مڈل کلاس جب تک اپنے علاقوں میں معیاری تعلیم اور ملازمتوں و کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں یکجان نہیں ہوگی تب تک ان کا ہیجان بڑھتا ہی رہے گا۔ یہ طلباء و طالبات سرکاری تعلیم اداروں میں پڑھ یا پڑھا رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ خود لاہور کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کی حالت بھی آج کے دور میں مخدوش ہوچکی ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور تو کسی نہ کسی طرح ماضی کی روایات کے سبب ’’عزت سادات ‘‘بچائے ہوئے ہے مگر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، دیال سنگھ کالج، ایم اے او کالج اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کے حالات مخدوش ہی ہیں کہ اب باوا آدم ’’نجی تعلیم ‘‘ بن چکی ہے۔ اب ہر پنجابی نوجوان تو نجی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا کہ آج سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانا ایک طبقاتی سوال بن چکا ہے اور اس طبقاتی سوال سے پہلو تہی کے لیے مذہب، فرقہ، زبان اور لہجوں کے فرق کو اشرافی طبقے خوب استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بدلنا محض جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ جنوبی پنجاب کی مڈل کلاس اس تحریک کو لیڈ کر سکتی ہے۔ یاد رکھیں، پنجاب کی اُبھرتی ہوئی مڈل کلاس کو 20ویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں اصل طاقت لاہور کے سرکاری سکولوں اور کالجوں نے ہی دی تھی جہاں بہاولپور، ملتان، ڈجی خان سے لے کر لاہور، فیصل آباد، پنڈی، اٹک، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، تک کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا آتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ یونینسٹ پارٹی کے میاں فضل حسین کی کاوششوں سے 1923ء سے 1933ء کے درمیان پنجاب کے گیارہ ہزار پنڈوں میں سکول کھولے گئے تھے کہ ان سکولوں نے پنجاب بھر کی مڈل کلاس کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے تھے۔ کسی بھی مڈل کلاس کا پہلا حدف معیاری تعلیم اور نوکریوں و کاروبار کے نئے مواقع کا اپنے علاقوں میں حصول ہوتا ہے۔ اس دوران ان کے لیے دوسروں کے تجربوں سے سیکھنا بھی ہوتا ہے تاکہ محض جذباتیت میں انہیں کوئی استعمال نہ کرسکے۔ برگد والوں نے جنوبی پنجاب کے خوانداہ نوجوانوں کے اس دورہ کو بجا طور پر ’’دورہ امن‘‘ کا نام دیاکہ آج جس انتہا پسندیوں کا ٹانکہ جنوبی پنجاب سے جوڑا جاتا ہے یہ نوجوان اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی تصویر تھے۔ ان علاقوں میں انتہا پسندیوں اور فرقہ پرستیوں کا بڑا حوالہ تو فاٹا سے قربت ہے کہ کسی زمانے میں یہ علاقے فاٹا اور دریائے سندھ کے پار کے رستے تاجروں اور لشکر کشیاں کرنے والوں کی گزر گاہیں تھیں۔ لیہ اور ملتان اس کاروبار کے مرکز رہے مگر جب سے فاٹا جاسوسوں اور سمگلروں کی آماجگاہ بن چکا ہے تو ان رستوں پر فرقہ پرستوں، سمگلروں اور جاسوسوں کا راج ہے۔ میانوالی، بھکر، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور جیسے علاقے ڈیورنڈ لائن اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پی کے) بننے کے بعد نشانہ خاص رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا یہ وہ حوالہ ہے جس نے اس وسیب کی صدیوں پرانی رواداری اور بردباری پر مبنی روایات کو چاٹ ڈالا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب محکمہ تعلیم مختلف علاقوں کے طلباء میں میل جول کا بندوبست کرتا تھا اور ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقریروں، کھیلوں کے مقابلے ہوئے تھے۔ اس کمی کو برگد نے پورا کرکے یقیناًمثبت قدم اٹھایا ہے۔ مگر چاروں صوبوں کے وزراء تعلیم کو بین اضلاعی اور بین الصوبائی سطح پر ایسے مقابلوں کی ریت دوبارہ ڈالنی چاہیے۔ اپنے اس دورہ میں نوجوانوں نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کی آخری تقریب میں بھی شرکت کی، لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر بھی کی اور گورنمنٹ کالج بھی گئے۔ اگر آئندہ پروگرام میں انہیں لاہور کی کچی بستیوں اور سرکاری ہسپتالوں کا دورہ بھی کروا دیا جائے تو وہ ڈیفنس،ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ کے اردگرد لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے ’’لہوریوں‘‘کو غربت اور کم وسائل سے تمٹتا خود دیکھ لیں گے۔ سرکار سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے جب سے بین الاضلاعی اور بین الصوبائی سطح پر طلباء میں میل جول کو داخل دفتر کر ڈالا تب سے مسائل اور زیادہ گھمبیر ہوچکے ہیں۔ سونے پر سہاگہ افغان جہاد نے چڑھایا تھا کہ جب انہی تعلیم اداروں کو ’’جہادی بھریتوں ‘‘کا مرکز بنا ڈالا گیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاری تعلیم درس گاہوں میں نہ صرف سرکاری تعلیم کا معیار نسبتاً بہت بہتر ہوتا تھا بلکہ انہیں روزگار کے لیے دردر ٹھوکریں بھی نہیں کھانی پڑتیں تھیں۔ مگر اب ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، کاروبار کو مدنظر رکھ کر انہیں تعلیم نہیں دی جاتی تو دوسری طرف جب یہ مارکیٹ میں نوکریوں کے لیے آتے ہیں تو مالک کے لیے یہ کسی کام کے نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ مسئلہ بالعموم پورے پنجاب اور بالخصوص پورے ملک کا ہے اس لیے اشرافی (Elite) طبقوں کا مفاد یہی ہے کہ ملک بھر کی مڈل کلاس اس مسئلہ پر یکجان نہ ہو۔ اشرافی طبقوں کو 1970ء کے انتخابات کا تجربہ ہے جب درمیانے طبقوں سے تعلق رکھنے والوں نے بالخصوص پنجاب میں میدان مار لیا تھا۔ بس درمیانے طبقہ والوں کو قابو میں کرنے کے لیے زبانوں، فرقوں کا ایسا ’’گھما‘‘ تیار کیا گیا کہ یہ تاحال سر پٹختے پھرتے ہیں۔ لسانی و فرقہ پرست تنظیمیں ان کو استعمال تو کرسکتی ہیں مگر ان کے مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔ جمشید دستی جیسے لیڈروں کا آگے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جنوبی پنجاب کی مڈل کلاس 1980ء کی دہائی کی نسبت زیادہ متحرک ہو چکی ہے مگر مڈل کلاس کے مسائل کا حل وسیع پیمانے پر کی جانے والی جدوجہد کا متقاضی ہے۔ 1940ء کی دہائی کے بعد اُبھرنے والی پنجاب مسلم لیگ اور 1970ء کی پیپلز پارٹی اس کی مثالیں تھیں مگر اشرافی طبقوں کی چالیں آج زیادہ کار گر ہیں جو تعصبات کی بنیاد پر انہیں منقسم رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ 2013ء کے انتخابات میں بالعموم لسانی اور فرقہ پرست سیاست کے علمبرداروں کی دال نہیں گلی جو مڈل کلاس کے باشعور ہونے کی علامت ہے۔ اُمید ہے برگد والے لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد سے بھی طلبا وطالبات کو جنوبی پنجاب کے انہی چاروں اضلاع میں لے کر جائیں گے۔ جس انتہا پسندی کا جنوبی پنجاب شکار ہے اس کا حل نوجوانوں میں وسیع سطح پر ڈائیلاگ شروع کروانے سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے والے خواندہ نوجوانوں میں کم از کم تصفیہ سے وہ دباؤ بڑھے گا جس سے پاکستان کو تعصبات اور نفرتوں سے پاک کرنے میں مدد ملے گی۔ امن اور رواداری تو پہلی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر تعلیم اور روزگار کا خواب بھی ادھورا رہتا ہے۔ ملتان سے پروگرام میں آئے ایک طالب علم کا یہ کہنا درست تھا کہ جنوبی پنجاب کے طالب علموں کو مواقع ملیں تو وہ ملک بھر میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں مگر انہیں یہ یاد بھی رکھنا چاہیے کہ اشرافی طبقات اور نودولتیوں نے اس ملک میں مجموعی طور پر مڈل کلاس کو ہر سطح پر پیچھے رکھنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی بندو بست اس قدر مہنگا ہے کہ مڈل کلاس کا جو چھوٹا حصّٰہ اس بھیڑ چال میں شامل ہوتا بھی ہے اسے اپنی دونسلوں کا خراج دینا پڑتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانا ہی وہ رستہ ہے جو درمیانے اور نچلے طبقات کو تگڑا کرنے کا سبب بن سکتا ہے کہ اس کے لیے ہر اس عمل سے بچنا ہوگا جو مڈل کلاس کو منقسم کرے۔ ’مڈل کلاس کی آڑ لے کر مڈل کلاس کو منقسم کرنے والوں کو پہچاننے کے بعد ہی نئے رستے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔’امید جوان‘ کے تعاون سے برگد کا یہ عمل اس لیے خوش آئند ہے کہ خواندہ نوجوانوں کو ’’خیالی دنیا‘‘ سے نکالنے کے لیے ایسے ہی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ میں اپنی بات کو بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کے جملوں پر ختم کرتا ہوں کہ شاید تیرے دل میں اُتر جائے میری بات۔ بزنجو صاحب کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھنا جانتے تھے اور بلوچ درمیانہ طبقہ کو سرداروں کی موقعہ پرستیوں اور ریاست پاکستان کی غلط پالیسیوں سے بیک وقت آگاہ کرتے رہے۔ ان کی سوانح کراچی کے پرانے ترقی پسند اور ان کے دست راست بی ایم کٹی نے لکھی۔ انگریزی میں لکھی کتاب ’’In search of solutions‘‘ کے صفحہ 2014 میں کتاب ختم کرتے ہوئے بزنجو صاحب اس طرح تجزیہ کر رہے ہیں ’’تمام تر ممکنات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پنجاب کو گالیاں دینے اور علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے سے ہماری جدوجہد بار آور نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس ہمیں پاکستانی وطنی ریاست میں رہتے ہوئے مل جل کر قومیتوں کے معاشی و سیاسی حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔‘‘ بزنجو صاحب تو 1989ء میں راہی ملک عدم ہوگئے تھے مگر ان کا تجزیہ تادیر درمیانہ طبقہ کے لیے انتہاپسندیوں سے بچنے کا ذریعہ بنتا رہے گا۔ - 

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...