Friday, February 6, 2015

Point Scoring & Extremism? Revival of A bad legacy


Point Scoring & Extremism? 

Revival of A bad legacy



In Peshawar we were on same page but in Shikarpur we were not why this division? Is it reflection of politics? No one protested against elected provincial government in KPK than why MWM and MQM pointed their fingers against PPP Sindh government.  After 21st amendment there are some forces that raised voices against the consensus move against extremism. Fazla ur Rahman started it and after Lawyers now MWM and MQM are in line.  Apparently Lawyers have reservations on military courts due to spirit of the constitution but same lawyer groups have no reservation against induction of Objective Resolution as permanent part of the constitution. Military courts have an expiry date of two years but Objective resolution has permanently damaged the spirit of the constitution. Imran Khan’s recent statement in support of military dictatorship looks more dangerous in these circumstances. Using extremism in politics is an old colonial legacy and in these circumstances point scoring will affect the derive against extremism badly. 

Read the article published in weekly humshahri

عامر ریاض۔۔۔۔۔ 
سانحہ پشاور کو ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے کہ ایک اور سانحہ نے ہمیں آن لیا۔ سانحہ شکارپور نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کر ڈالا کہ دہشت گرد اپنی پوری قوت سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس سانحہ پر جو ردعمل دیکھنے میں آیا وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے جس طرح ہر سطح پر مقابلہ کرنے کے عزم کا گزشتہ دسمبر میں اظہار کیا گیا تھا اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد ایک مخصوص ذہنی رجحان کے تحت یہ کہا گیا تھا کہ منتخب حکومت ’’تھلے‘‘ لگ چکی ہے۔ ایسے ہی سانحہ شکارپور کو محض صوبائی و فرقہ وارانہ حد تک محدود کرنے کے جتن کیے گئے۔ یہ سب افسوسناک ہی نہیں بلکہ مجرمانہ بھی ہے۔ سانحہ پشاور اور سانحہ شکارپور پر دو متضاد ردعمل کیوں؟ سانحہ پشاور پر اگر قوم، فوج، سول سوسائٹی یکجا نظر آتی ہے تو پھر سانحہ شکار پور پر منقسم کیوں؟کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم سانحات پر سیاست نہ کریں اور ان واقعات کو ’’محدود دائروں ‘‘ میں مقید کرنا بند کردیں۔ سانحات پر سیاست کوئی مقتدر ادارہ کرے یا پھر سیاسی کھلاڑی، اس کا سب سے مہلک اثر تو انتہاپسندی و دہشت گردی مخالف مہم پر پڑتا ہے کہ یوں جس یکجہتی و طاقت سے انتہا پسندوں، دہشت گردوں کو پیغام دینے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ممکن ہی نہیں رہتا۔ 

فرانس، امریکہ، چین میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ایسی منقسم مہمیں نظر نہیں آتیں مگر ہمارے ہاں بوجوہ اس کی آڑ میں ’’اپنا اُلو سیدھا‘‘ کرنے ہی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پیرس میں ہونے والے حالیہ واقعات کے باوجود فرانسیسی صدر فرانکولیس ہولانڈے نے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر دہشت گردی مخالف مہم کو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ قرار دینے کی سختی سے مخالفت کی۔ انھوں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف مہم کسی مذہب یا فرقہ کے خلاف نہیں بلکہ صرف اور صرف انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف ہے۔
یہ وہ پالیسی ہے جسے رونالڈ ریگن اور جارج بش جونیئر کے ادوار میں نہیں اپنایا گیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ایک مخصوص مسلم اقلیتی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو افغان جہاد میں ’’معتبری‘‘ ملی تھی تو 9/11 کے بعد ان کے مخالف مسلم اقلیتی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو ’’معتبری‘‘ بخش دی گئی۔ ان دونوں پراجیکٹوں میں ریاست پاکستان دامے سخنے شامل تھی۔ اس طرح کی دوہری پالیسیوں ہی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف -

مہمیں مؤثر نہیں ہو سکی تھیں۔ مگر 21 ویں صدی کی دوسری دہائی میں چین، امریکہ، فرانس، جرمنی میں پرانی پالیسی سے مراجعت کے شواہد نظر آرہے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں پرانی پالیسی کے رکھوالے تادم تحریر متحرک ہیں۔ چائنا ڈیلی کی 30 جنوری کی ایک رپورٹ میں چین کی اس پالیسی کا ذکر بھی ہے جس میں چینی اساتذہ کو مذہبی ہم آہنگی کو اپناتے ہوئے انتہاپسندی کی مخالفت کی ہدایات دی گئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 110 کے نام سے چین میں ایک ایسا فون نمبر ہر چینی کے پاس ہے جس پر وہ مذہبی منافرت پھیلانے والے کسی بھی شخص یا گروہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ جو لوگ بھی مذہبی منافرت پھیلانے میں ملوث پائے جائیں گے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ پاکستان میں سانحہ پشاور کے بعد یہی لگ رہا تھا کہ دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف سب ایک ہی صفحہ پر آگئے ہیں ۔ مگر 45 دن کے اندر اندر صفحہ پر لکیریں پھیری جانے لگیں۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ منتخب اسمبلی اور حکومت نے اپنے ہاتھ کاٹ کر سکیورٹی اداروں کو دے دیئے ہیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن حرکت میں آئے۔ اس کے بعد وکلاء کے ایک گروہ کو بھی ’’آئین کی روح‘‘ کا خیال آگیا۔ آئین میں شامل ضیاالحقی شقوں بشمول قرارداد مقاصد پر تو وکلاء کے اس گروہ کو کوئی اعتراض نہیں جس نے آئین کی جمہوری روح کو تار تار کر رکھا ہے مگر انہیں فوجی عدالتوں کے دو سالہ قیام پر اعتراضات ہیں۔ دوہری پالیسی پر عمل کرنے کی روایت کو عمران خان نے بر قرار رکھا کہ ان کی پارٹی کے مقتدر رہنما حامد خان اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔ ان منقسم مہموں میں اضافہ و حدت المسلمین نے کیا جو بوجوہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس اہم مسئلہ پر اکٹھا کر کے مشترکہ پیغام دینے سے گریزاں نظر آئی۔ حکومت سے باہر ایم کیو ایم تو پہلے ہی سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے خار کھائے بیٹھی تھی کہ اس نے بھی اپنا وزن اس میں ڈالا۔ یہ تک کہہ ڈالا گیا کہ سندھ کی منتخب سرکار کو ختم کرکے ایمرجنسی لگا دی جائے۔ پیر پگاڑہ کب پیچھے رہنے والے تھے کہ انھوں نے بھی غوث علی شاہ اور پرویز مشرف سے ملاقاتیں کرکے متحدہ مسلم لیگ کی آڑ لیتے ہوئے سندھ حکومت کو گرانے کی راہ دریافت کر لیں گے۔ ایسی ناکام مہم چلانے کی کوششیں دھرنوں میں بھی ہوئی تھیں۔ یہ سب مہمیں دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو کیا پیغام دے رہی ہیں؟ ایک طرف سب لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف جنگ پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف خود ’’لیا اپنی صورت کو بگاڑ‘‘ کی عملی تصویر بنے ہیں۔ یہی جماعتیں، گروہ اور ادارے آل پارٹیز کانفرنسوں میں کچھ اور کہتے ہیں، ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ان کے لیڈروں کے دلائل مختلف ہوتے ہیں مگر عملی سطح پر جو کچھ جنوری کے مہینہ میں انھوں نے کیا وہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ وکلا تحریک کو اگر آئین کی روح کی پاسداری کرنی ہے تو اس کا آغاز قرارداد مقاصد کو دوبارہ سے آئین کے دیباچہ میں لانے سے ہونا چاہیے۔ 1956، 1962، 1973 کے دساتیر میں قرارداد مقاصد آئین کے دیباچہ ہی میں تھی۔ مگر ضیاالحق نے اسے آئین کا حصہ بنایا تھا اور یوں 62، 63 جیسی شقوں کا آئین میں اضافہ ہوا تھا۔ قانون کی حکمرانی کے یہ چیمپئن اپنے مربی جنرل مشرف کے مقدمہ کو تو اک حرف غلط کی طرح مٹانے پر تلے ہیں کہ اس معاملہ پر حامد خان کی جماعت اور ایم کیو ایم کا مؤقف یکساں ہے۔ قانون کی حکمرانی کی آڑ لے کر حامد خان منتخب اسمبلی اور حکومت کو سبق سیکھانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ اپنے اپنے ایجنڈوں میں غلطاں سیاسی کھلاڑی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف بن چکے اس تاثر کو زائل کرنے میں یکجا ہیں جو 16 دسمبر کے بعد بننے لگا تھا۔ سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز یا صوبوں میں حکمرانی کرنے والوں سے سیاسی اختلافات رکھنا بھی مسئلہ نہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کو مقدم رکھنے کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے ۔ مقتدر اور منتخب اداروں میں کشمکش بھی حقیقت ہے۔ مگر ان اختلافات کو دہشت گردی مخالف مہم کی آڑ لے کر بڑھاوا دینا کہاں کی دانشمندی ہے بھلا؟ ان اختلافات پر سیاست کرنے کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں۔ جن کے پاس صوبائی یا مرکزی حکومتوں کے خلاف ثبوت ہیں وہ عدالتوں میں بھی جاسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور چاروں ہائیکورٹ ان کی بات سننے ہی کے لیے بیٹھے ہیں۔ مگر اس کے باوجود احتجاج کے لیے ہڑتالوں اور دھرنوں ہی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ اختلافات تو جمہوریت کا حسن ہے مگر اس حسن کو جمہوریت کے خلاف استعمال کرنے کے جتن بھی کیے جاتے ہیں۔ پشاور سانحہ کے بعد نہ تو کسی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا تھا نہ ہی ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یوں سانحہ پشاور کے بعد جو یکجہتی نظر آئی اس سے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو مشترکہ پیغام دیا جاسکا تھا۔ مگر سانحہ شکارپور کے بعد یہ پیغام کیوں نہیں دیا جاسکا اس بارے کوئی دو رائے نہیں۔ طالبان مخالفت کا راگ الاپنے والی ایم کیو ایم بھی جب ان واقعات کو آڑ بنا کر محض سندھ حکومت کو گرانے کی مہموں میں نکل آئے تو اس کو کسی بھی طرح خوش آیند نہیں کہا جاسکتا۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مہم اس وقت تک بے توقیر رہے گی جب تک مقتدر ادارے اور سیاسی کھلاڑی اس مہم کی آڑ میں اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا رہیں گے۔ سیاسی کھلاڑیوں اور مقتدر اداروں کی اس مہم میں سنجیدگی ان کے بیانات سے نہیں بلکہ عمل سے جانچی جائے گی۔ بالفرض اگر سندھ میں ایمرجنسی لگ جائے یا پیپلز پارٹی کی منتخب سرکار گر جائے یا وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ مستعفی ہو جائیں تو کیا سانحہ شکارپور کے ملزم گرفتار ہوجائیں گے؟ دھرنوں اور ہڑتالوں کی روش کو جاری رکھنے والے یہ بات یاد نہیں رکھنا چاہتے کہ ان کی ایسی حرکات سے کن قوتوں کو فائدہ مل رہا ہے۔ کیا آپ کے لیے اپنی سیاست کو بڑھاوا دینا ہی مقدم ہے؟ منتخب حکومتوں کو کمزور کرنے سے کیا انتہا پسندی کے خلاف مہم تگڑی ہوگی؟ ان میں سے کتنی سیاسی جماعتیں ہیں جو صوبائی حکومتوں پر یہ دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ مارچ، اپریل 2015ء میں اپنے اپنے صوبوں میں نفرتوں اور تعصبات سے پاک نصابی کتب چھاپنے کو یقینی بنائیں۔ اس معاملہ پر تو میڈیا بھی گونگا ہے اور وکلا بھی خاموش۔ کیا محض سکولوں کی دیواریں اونچی کرنے، خار دارتاریں لگانے اور کیمرے چالو کرنے سے ہی ہمارے بچے محفوظ ہوجائیں گے؟ ملک میں چلنے والے فرقہ وارانہ چینلوں بارے بھی یہ سب خاموش ہیں۔ کسی ایک واقعہ پر بیان داغنے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس چومکھی لڑائی کے لیے ہر سطح پر نظر رکھنی ہوگی۔ مگر فی الحال نظر یہی آتا ہے کہ اس مہم میں جس سنجیدگی کی ضرورت ہے وہ عنقا ہے۔ سیاسی لڑائیاں اپنی جگہ اہم مگر یہ نظر آنا بھی ضروری ہے کہ انتہاپسندیوں کے خلاف عملی سطح پر آپ خود کیا کررہے ہیں۔ اس مہم کو نہ تو کوئی ایک ادارہ تن تنہا سر کر سکتا ہے نہ ہی محض حکومتوں پر اسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ اس میں جتنی ذمہ داری حکومتوں کی ہے اس سے زیادہ ذمہ داری دیگر جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی بھی ہے۔ -

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...