Thursday, February 26, 2015

Counter Narrative: Deconstruct Colonial Knowledge First...Thapar


Counter Narrative For Combating Extremism

Deconstruct Colonial Knowledge First...Thapar

http://issuu.com/hum_shehri/docs/02.03.2015/30?e=12088494/11606713

'Despite passage of several years colonial stereotype still colours our perceptions of who we are, what we were and where we are headed. it was important to determine the authenticity of the very past that has and is shaping our society. History was carved out in pre-colonial era to deepen the division between Hindus and Muslims. The Indian historian said we take the version of narration at face value and ignore the intensive investigation that should always be crucial to a statement from the past.  Historian James Mill concocted the theory of divide in the subcontinent. Colonial writings overall projected Somnath as the cause of hostility between Hindus and Muslims. In a successful attempt to sow hatred between Muslims and Hindus, Lord Ellenborough during his address to the House of Commons in 1843 talked about bringing back the gates of Somnath temple from Ghazni, which he claimed were stolen during one of the raids of Mehmood Ghaznavi. Conceptions of ancient India developed in the 19th century, mainly through the work of scholars like Max Muller who argued for the Aryan invasion theory. This theory, was supported by little evidence, but remained the accepted version of history for more than a hundred years. Challenging such long-held beliefs critically is essential',

This was nutshell of what Romila Thapar, a Punjabi Khatri, said during her Keynote address in Lhore Literary festival. The issue is raised in right direction but in the case of Punjab, Kashmir, Sindh, KPK, FATA and Kabul same colonial masters played mainly on the conflicts between Muslims Vs Sikhs and Punjabi Vs Pathans. Before annexation of the Lhore Darbar, Muslims were in heavy majority while Sikhs were largest minority. In order to misled Muslim majorities they constructed Muslim Trauma under the banner of Sikha Shahi (Barbaric rule of Sikhs) and to misled Sikh minorities they constructed Sikh Trauma under the banner of Muslim invaders (mainly referring Mahmud Ghazni, Nadir Shah and Ahmad Shah Abdali, Mir Manno). Trauma syndrome played an effective role in perpetuating prides and prejudices among followers of two religions. They not only played with religions but also with sub religious sects, languages, dialects, scripts. The communal based trauma syndrome was further gained importance selectively among so-called champions of faiths in either religion (Hindus, Muslims, and Sikhs). The Trauma syndrome further extended through Gazetteer knowledge Factory which was based on castes or titles like Rajputs, Jats, Lohars, Tailies, Kashmiris, and Khans etc. Gazetteers used the word Nation (Qoom) for Caste, profession and title which further promoted divisions in society smartly. Construction of Historical continuities was another weapon invented in 19th century not only in Britain but also in our lands i-e from ancient Greeks till Great Britain, from Ashok till Congress, from Muhammad bin Qasim till Muslim League, from Madadid Alif Sanni till jamiat Ulma e Hind/Islam/Taliban. Without deconstructing colonial past we cannot develop a counter narrative for future regarding combating extremism. In the light of these stray thoughts i wrote a piece for weekly Humshehri after listening Aysha jalal presentation about Romila's Lhore days and Keynote address of Romila Thapar. Read and enjoy the twists of history 

میلے تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر اس تیسرے ادبی میلہ کی خصوصیت مایہ ناز پنجابی تاریخ دان رومیلا تھاپر کی آمد تھی کہ انھوں نے اپنے افتتاحی خطاب ہی میں میلہ لوٹ لیا۔ یوں وہ بیپسی سدھوا اور پران نیؤل پر سبقت لے گئیں۔میں تو عرصہ دراز سے رومیلا تھاپرکی تحریروں کا اسیر ہوں کہ 1990ء کی دہائی میں اپنے صفدر میر کے وسیلہ سے ان سے ملا تھا اور اب 2015 ء میں بھی وہ اسی جرأت رندانہ کی عملی تفسیر نظر آئیں۔ البتہ ان کے تازہ خطاب سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی لاجواب کتاب قدیمی انڈیا یعنی Ancient India میں بہت سے اضافے کیے ہیں اور نئے نام (Early India: From the origin to A.D.1300) سے چھپوایا ہے۔ نئی تحقیق کے کچھ لشکارے تو ان کے خطاب میں نظر آئے کہ اب اس کو خریدنے کا’’ کشٹ ‘‘بھی کرنا ہی پڑے گا۔ ان کالاہور سے کیا تعلق رہا کہ یہ داستان مشہور پاکستانی تاریخ دان عائشہ جلال نے مزے لے لے کر سنائی اور حاضرین نے بھی اسے خوب انجوائے کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مال روڈ اور انارکلی کا بازار، شہر لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب اور اردگرد کے اضلاع و صوباں کے لیے پر کشش مقامات تھے۔ ایک دن نوجوان رومیلا مال روڈ پر واقع ’’جے رے اینڈ سنز‘‘ نامی  دکان پر جاپہنچیں۔ جے رے اینڈ سنزغالباً 14 اگست 1947ء کے بعد بند ہوگئی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد یہ جگہ کتابوں کی دکان ہی رہی مگر بورڈ فیروز سنز کا لگا دیا گیا۔ نوجوان رومیلا جے رے اینڈ سنز پہنچیں اور آسکر وائلڈ کی کتاب خریدنا چاہی۔ دکاندار نے کتاب ہاتھ میں پکڑ کر رومیلا سے کہا، ابھی تم چھوٹی ہو،بڑی ہو کر اس کتاب کو پڑھنا۔لگتا ہے رومیلا نے مال روڈ کی اس دکان کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ ایسا کچھ کرکے دکھائے گی کی اسے دوبارہ یہ جملہ سننے کو نہ ملے۔  -

86سالہ رومیلا تھاپر کا تعلق پنجابی کھتری خاندان سے ہے کہ ان کے بڑے بھائی رمیش تھاپر سی پی آئی (ایم) کے اہم لیڈر تھے جو 1922ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر بھی انہی کا کزن ہے۔ رومیلا تھاپر کی تاریخ پیدائش تو 30 نومبر 1931ء ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی سے سند لینے کے بعد لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیذ(SOAS) میں پڑھتی رہیں۔ امریکہ، فرانس کی یونیورسٹیوں میں تو یہ استادوں اور محققوں کو لیکچر دیتی رہیں۔ 20 فروری کو جب وہ افتتاحی خطاب کر رہی تھیں تو ان کو سننے والوں کی اکثریت نوآبادیاتی ’’متولیوں ‘‘کی تھی کہ رومیلا کے دلائل نوآبادیاتی علم کے سومنات پر برس رہے تھے۔ ان کا وزنی گرز کبھی ہندو، مسلم تضادات کے گرد قصے گھڑنے والے 19 ویں صدی کے دانشور جیمس مل پر برس رہا تھا تو کبھی آریاؤں کی آمد کا قصہ گھڑنے والا میکس ملر ان کی زد میں آتا تھا۔ حتیٰ کہ انھوں نے برطانوی دارالعوام کی خبر بھی لی اور لارڈ ایلن بروہ کی حجامت بھی کر ڈالی۔ نوجوان متجسس جبکہ ادھیڑ عمر ضمیر کی خلش کے ساتھ رومیلا تھاپر کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی جس مطلبی تاریخ کا دھڑن تختہ رومیلا تھاپر کر رہی تھیں اس پر ایمان رکھنے والے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بکثرت موجود ہیں۔ رومیلا تو یہ باتیں عرصہ دراز سے لکھ رہی ہیں مگر ان تینوں ریاستوں کی کلچرل اشرافیہ کو رومیلا کی باتیں آج کے دور میں خصوصی طور پر سمجھ آئیں گی کہ وقت بدل رہا ہے۔ نوآبادیاتی دور کی پھیلائی تاریخی کہانیوں میں ہندو مسلم تضاد اور آریاؤں کی آمد بارے داستانیں تو شامل ہیں مگر ہمارے خطہ یعنی کشمیر، پنجاب، خیبر پی کے، قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں سکھ، مسلم اور پنجابی، پٹھان تضاد کی داستانیں لکھوائی گئیں تھیں۔ یہی نہیں بلکہ گزئیڑوں کے ذریعے کہیں راجپوتوں، جٹوں وغیرہ کا ذاتوں، لقبوں اور پیشوں کا رلاملاتقاخر بنایاگیا تو کہیں تیلیوں، کمہاروں، جولاہوں، مصلیوں وغیرہ کو رگیدا گیا۔ لاہور دربار کی آزاد بادشاہی کو’’ سکھ حکومت ‘‘کہنا بھی اُسی پالیسی کا مظہر تھا جس کے تحت سکھوں کو نادرشاہ اور احمد شاہ کا نام لے کر مسلمانوں کے خلاف کرنا لازم تھا تو مسلمانوں کو ’’سکھا شاہی‘‘ کی اصطلاح گھڑ کر باور کرانا ضروری تھا، کہ سکھ تو مسلمانوں کے ویری تھے۔ محض مذہبی تاریخ کو بنایا نہیں گیا بلکہ فرقہ وارانہ حوالوں کو بھی خصوصی طور پر تاریخ کا حصّٰہ قرار دیا گیا۔ اورنگ زیب کو ایک مسلک کا نمائندہ بنایا تو داراشکوہ کو دوسے مسلک کا ہیرو بنادیا۔ کہیں مادری زبان لگا دی تو کہیں اُردو، ہندی کو زبردستی نافذ کر دیا۔ ذرا غور کریں، وہ کون سی پالیسی تھی جس کے تحت 1880ء میں افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد بھی اسے برٹش انڈیا میں شامل نہ کیا گیا تھا؟ یہی نہیں بلکہ گندھمک معاہدہ کے بعد ڈیورینڈ لائن اور فاٹا کو بنایاگیا کہ جس کے بعد 6 اضلاع کو پنجاب سے کاٹ کر صوبہ سرحد بنایا گیا؟ یہی نہیں بلکہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان، برما وغیرہ کو انگریزی قبضہ میں لینے کے باوجود یا تو برٹش انڈیا سے نکال باہر کیا یا پھر شامل ہی نہ کیا؟ بھگتوں اور صوفیوں کی تعلیمات کو نئے سکولوں کی نصابی کتب سے باہر رکھا گیا؟ بڑے بڑے انگریز مخالف بھی اسی نوآبادیاتی مطلبی تاریخ کے بوجوہ اسیر ہیں۔ اب ساری باتیں رومیلا تھاپر نے تو نہیں کرنی کہ وہ چراغ جلا گئیں ہیں کہ راستہ آپ نے خود طے کرنا ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ رومیلا کے باکمال کام کو جناح، نہرو اورمجیب کے دسیوں میں کون آگے بڑھاتا ہے؟ یہی آج کا چیلنج ہے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ راج دربار کے بدلتے خیالات کے تحت راتوں رات بدل جانے والے تو ہر معاشرے میں نئے مواقع ڈھونڈ لیتے ہیں مگر کیا کوئی کبھی اشوک، سکندر اعظم، پورس، محمد بن قاسم کی بجائے مصلیوں مسلم شیخوں، دلتوں، چوڑوں، چماروں، دستکاروں، ہنرمندوں، شودروں کی عوامی تاریخ بھی لکھے گا؟ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو ’’یورپی تنازعات‘‘ کے ضمن میں رقم کرے گا؟ یونان سے سلطنت برطانیہ، اشوک سے کانگرس، محمد بن قاسم سے مسلم لیگ، مجددالف ثانی سے جمعیت علما ہند/اسلام /طالبان، بندہ بیراگی سے اکالی دل جیسے خود ساختہ تاریخی تسلسلوں سے پیچھے ہٹ کر ہی ہم اپنے ماضی کا ازسرنو جائزہ لے سکتے ہیں کہ یہی رومیلا تھاپر کے خطاب کا ’’تت‘‘ تھا۔ یونیورسٹیوں میں تاریخ، سیاسیاست، سماجیات، پالیسی سٹڈیز، سندھیالوجی اور پاکستان سٹڈیز کے شعبہ جات تو ہیں، ایسے ہی مذہبی، نظریاتی اور قوم پرست گروہوں نے بھی ادارے کھڑے کر رکھے ہیں مگر اپنے خیالات و نظریات کے ازسرنو جائزے کے لیے جرأت رندانہ کی ضرورت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب جملہ یاد آرہا ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا۔ شاید جنوبی ایشیائی دانشوروں کو بھی نوآبادیاتی دور کے سحر کے ٹوٹنے سے چوڑوں، مصلیوں، چماروں، دست کاروں، مسلم شیخوں اور شودروں کی تاریخ سمجھنے کی توفیق مل جائے۔ لاہور لٹریری فیسٹول تو ختم ہوچکا مگر جو باتیں رومیلا تھاپر کہہ گئیں ہے اگر ہم انھیں پلے باندھ لیں تو نہ صرف انتہا پسندیوں کی دلدل سے نکلنے کی اُمید پیدا ہوگی بلکہ ہم سب رل مل کے اپنے خطہ کی عوامی تاریخ لکھنے کی طرف بھی گامزن ہو سکیں گے۔ -

For Complete Article click here
http://humshehrionline.com/?p=9897#sthash.CasDJfJI.dpbs

External links

Need to reassess past ideologies: Thapar

LAHORE: An eminent Indian scholar and historian said ideologies that were intended to encourage the creation of nation states in the subcontinent now need to be reassessed.
Romila Thapar made the remark while speaking on the topic ‘The Past and Present’ at the three-day Lahore Literature Festival, which started on Friday. She said that despite passage of several years colonial stereotype still colours our perceptions of who we are, what we were and where we are headed.
Thapar insisted that the colonial readings should be viewed for what they gave birth to, adding that they need to be replaced by nurturing sensitivity as to how we listen to the dialogue between the past and the present. She said it was important to determine the authenticity of the very past that has and is shaping our society. Connecting the dots, she explained how history was carved out in pre-colonial era to deepen the division between Hindus and Muslims.
The Indian historian said we take the version of narration at face value and ignore the intensive investigation that should always be crucial to a statement from the past.
Thapar, during her address, said that a Scottish historian James Mill concocted the theory of divide in the subcontinent.
Referring to the image presented in the colonial era of Somnath temple, she said colonial writings overall projected it as the cause of hostility between Hindus and Muslims.
She said in a successful attempt to sow hatred between Muslims and Hindus, Lord Ellenborough during his address to the House of Commons in 1843 talked about bringing back the gates of Somnath temple from Ghazni, which he claimed were stolen during one of the raids of Mehmood Ghaznavi.

Published in The Express Tribune, February 21st, 2015.
http://tribune.com.pk/story/841781/need-to-reassess-past-ideologies-thapar/


The past as present

Yaqub Bangasih 
The keynote speech at the Lahore Literary Festival this year was given by the distinguished historian Professor Romila Thapar. In her excellent address, Professor Thapar took us on a journey of discovering ancient India — of which she is a specialist — pointing out at the outset that “history is a dialogue between the present and the assumed past”. At a time when Hindu nationalists are reading all kinds of things into India’s past to validate their policies and actions, Professor Thapar emphasised that “history is not fantasy” and that we should analyse the past by the help of facts which the writings of the time tell us; but that, too, with a pinch of salt.
In her broad engagement with the topic, she traced how conceptions of ancient India developed in the 19th century, mainly through the work of scholars like Max Muller who argued for the Aryan invasion theory. This theory, Dr Thapar maintained, was supported by little evidence, but remained the accepted version of history for more than a hundred years. Challenging such long-held beliefs critically is essential, she said. The historian, in this sense, is a kind of ‘detective’.
Taking the example of the famous destruction of the Somnath temple by Mahmud of Ghazni, Professor Thapar — who has written a book solely on the subject — talked about how nearly all the manuscripts from the period conflict with what was actually destroyed at Somnath by Mahmud. In fact, Professor Thapar exclaimed, the modern notion of ‘Hindu trauma’, after the destruction of the temple, has its origins in something as recent as the House of Commons debate in the 1840s, where a Member of Parliament said that the destruction of Somnath “caused trauma to the Hindus of India”. Since then, this notion has seeped into Hindu identity and politics in India and has given currency to its more fundamentalist manifestations today.
The eminent historian, Eric Hobsbawm, once noted: “If there is no suitable past, it can always be invented.” This sentence succinctly sums up what is being done to history in Pakistan. Our history textbooks — or those of Pakistan Studies — are a superb collection of historical fantasies and half-truths. The confusion in our country regarding history, and its reflection in our contested identity cannot be denied. Nearly every week, students in my class, when confronted with facts they had never heard about, ask me, “Why was this not taught to us?” While the reasons for this deception — and yes, it is deception — have been mentioned by me and others elsewhere many times, here I want to point out how, after nearly a decade of being taught falsehoods and embellishments, confrontation with the truth (read: near-truth) is something which either leads to revulsion, indignation, outright rejection, or simply sadness. Engagement with the facts so late in the day makes most students hope that they never heard of such things, so that whatever they were taught, and believed, for a decade might not be challenged.
If we are to educate our children in history, we need to begin the process early — as early as grade two or three, so that they are taught from the outset how to appreciate, learn and engage with the past, and utilise that knowledge and insight to make their country a better place.
In her speech, Professor Thapar noted how history is an extremely political subject and that its varied versions are used by politicians and others all around the world to validate themselves and their policies. Therefore, this subject cannot be taken lightly or ignored. Unfortunately, history is considered a subject for failures in Pakistan. If you cannot get into computer sciences, natural sciences or law, then history is the last option for many. The paucity of good scholars and scholarship in Pakistan on the subject are evidence of a lack of interest and engagement.
I hope Professor Thapar’s timely intervention, and Professor Ayesha Jalal’s strong endorsement of the same during her introduction of the talk, and the breath of fresh thinking stimulated by the Lahore Literary Festival might lead to a re-engagement with the historical — not imagined — past so that we can work towards a real rather than imagined future.
Published in The Express Tribune, February 23rd,  2015.
Like Opinion & Editorial on Facebook, follow @ETOpEd on Twitter to receive all updates on all our daily pieces.

  • http://tribune.com.pk/story/842512/the-past-as-present/

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...