Friday, February 6, 2015

Nasim Hasan Shah: Legacy & Confession


Nasim Hasan Shah: Legacy & Confession


Ex-Chief justice of Pakistan Justice Nasim Hassan Shah commonly known among his friends as Chemi Shah was known not only due to his controversial decisions but also due to his historic confession regarding Bhutto case. He openly confessed that Bhutto did not get justice. In Molvi Tamezudin Case, Nusrat Bhutto case and Bhutto case he served masters but in 1993 he restored Nawaz government and before his death his historic confession unmasked the real killer. So unlike his father and brother, 54 inches Nasim saved his skin. His father Syed Mohsin Shah was a power player in Unionist Government of the Punjab in 1930s. He was member of 12 members Kashmir Committee which was formed by the British Indian Government and Unionists under the leadership of Mirza nasir u din Mahmud. The committee had to handle historic Kashmir movement of 1931 against Dogra Raj. Newly born Ahrar was behind that movement. His elder brother was a civil servant but during yayhya period he was removed from service along with 302 officers. 
Published in Weekly humshehri Feb 2015
Read the full article by clicking the link



عامر ریاض۔۔۔۔۔
 پنجاب کی یونیسنٹ سیاست کے ایک تھم اور 1930ء کی دہائی میں طاقت کے مراکز سے نزدیک سید محسن شاہ کے فرزند سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ 3 فروری 2015ء کو راہی ملک عدم ہوگئے۔ مولوی تمیز الدین کیس، نصرت بھٹو کیس اور بھٹو قتل مقدمہ میں سرکاری خدمات سر انجام دینے کے الزامات کا بھار اُٹھانے والے نسیم حسن شاہ نے مرنے سے پہلے دو ایسے کام کئے جن کی وجہ سے وہ اپنے والد اور بھائی کے برعکس ’’عزت سادات‘‘ بچانے میں کامیاب رہے۔ جب پاکستان بیوروکریسی کے بدنام زمانہ افسر اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت توڑی تو یہ نسیم حسن شاہ ہی تھے جنھوں نے اسے یہ بڑک لگا کر بحال کر دیا تھا کہ ’’ہم نے صدر کو پٹہ ڈال دیا ہے‘‘۔ مگر نسیم حسن شاہ کا ’’اصلی کارنامہ‘‘ان کا اعترف گناہ تھا۔ اپنے اس تاریخ ساز اعتراف گناہ میں انھوں نے یہ اقرار کر لیا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہیں ملا تھا۔ نسیم حسن شاہ کے اعتراف اور چوہدری افتخار کے انکار نے فوجی آمروں کے اصل چہرے قوم کو دکھا دیے جو کبھی ’’اسلام‘‘ اور کبھی ’’لبرل ازم‘‘کی آڑ میں درحقیقت ہوس اقتدار کی علامت تھے۔ جب بھی کبھی ملک پاکستان میں ججوں، جرنیلوں اوربیوروکریٹوں کے حوالہ سے جمہوریت و آمریت میں کشمکش کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں نسیم حسن شاہ کا ذکر بوجہ ’’اعتراف گناہ‘‘نمایاں ہوگا۔ 15 اپریل 1929ء کو سید محسن شاہ کے گھر پیدا ہونے والے نسیم حسن شاہ کا جسمانی قد تو 54 انچ تھا مگر وہ پورے 26 سال تک جج رہے۔ ان کے والد یونیسنٹ پارٹی کی قائم کردہ اس 12 رکن کشمیر کمیٹی کے ممبر تھے جس کے قائد مرزا بشیر الدین محمود تھے۔ یہ کمیٹی ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف 1931ء میں چلائی جانے والی تحریک کشمیر سے نمٹنے کے لیے سرکاری سر پرستی میں بنائی گئی تھی کہ وہ تحریک نومولود مجلس احرار السلام چلا رہی تھی۔ ان کے بڑے بھائی سول سروس میں تھے جن کی بادشاہی یحییٰ خان دور میں اس وقت ختم کی گئی جب 303 سول افسران کو نکالا گیا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں یعنی 18 مئی 1977ء کو انہیں سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بنایا گیا تھا۔ 5 جولائی 1977ء کے بعد وہ ایڈہاک ججی کو پکا کرانے کے بوجھ میں انصاف کے ترازو کا بیلنس قائم رکھنے میں بوجوہ ناکام رہے۔ بھٹو کو پھانسی پر لٹکا نے کے عوض وہ جنرل ضیاالحق سے دو کام کروانا چاہتے تھے مگر وہ محض نوکری پکی کرواسکے اور اپنے بھائی کو بحال کروانے میں ناکام رہے۔ البتہ انہیں ’’لندن یا ترا‘‘ کا تحفہ ضرور ملا مگر ادھیٹرعمر میں مزنگی جج کا ضمیر ملامت کرنے لگا۔ ایک بااثر گھرانے میں پیدا ہونے والے نسیم حسن شاہ کا تعلیمی ریکارڈ شاندار تھا۔ 1949ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے والے نسیم حسن شاہ نے برصغیر کے ممتاز ادارے گورنمنٹ کالج لاہور سے سیاسیاست میں ایم اے بھی کیا۔ 1954ء تک وہ فرانس کی پیرس یونیورسٹی سے امتیازی حیثیت میں ڈاکٹریٹ آف لا کی ڈگری لے کر وطن واپس آچکے تھے۔ اپنی اعلیٰ تعلیم اور مثالی ذہانت کو انھوں نے پہلی بار مولوی تمیز الدین کیس میں آزمایا۔ یہ مشہور کیس اسی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے خلاف تھا جو 7 سال سے آئین بنانے کی بجائے اکثریتی صوبہ سے نمٹنے میں غلطاں رہی تھی۔ یہ کیس سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین خان لڑ رہا تھا جو نہ صرف خود لیاقت علی خان کی سازشوں میں حصہ دار رہ چکا تھا بلکہ اس بنگالی سپیکر اسمبلی نے مقبول عام بنگالی رہنما اور متحدہ بنگال کے آخری وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی کی اسمبلی رکنیت بھی ختم کی تھی۔ سچ ہے کہ اقتدار کی جنگ میں ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ ڈھونڈنے والے بے خبری میں ہیرو اور دشمن تراشتے رہتے ہیں مگر نسیم حسن شاہ کو طاقت کی سیاست کا سبق گھر سے ہی مل چکا تھا۔ 1964ء میں نسیم حسن شاہ ویسٹ پاکستان بار کونسل اور 1966ء میں پاکستان بار کونسل کے ممبر بنے تو شریف الدین پیرزادہ،منظور قادر، ایس ایم ظفر جیسے بہت سے ماہرین قانون ایوبی خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ نسیم حسن شاہ کو بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا کہ ججی حاصل کرنے کے لیے انہیں کیسا بہروپ اپنانا ہوگا۔ ایوبی دور ہی میں انھوں نے یہ راز پالیا اور 11 مارچ 1968ء کو محض 39 سال کی عمر میں وہ ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے جج بنادیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین میں ججوں کی تقریوں اور چیف جسٹس کی مدت کے حوالہ سے جو ترامیم کی تھیں اس پر عدلیہ کے مخصوص گروہ کو بہت سے تحفظات تھے۔ دراصل ہمارے ہاں منتخب حکومت اور اسمبلی کی حاکمیت کا یہ پہلا دور تھا کہ سول ملٹری بیوروکریٹوں اورججوں میں غیر جمہوری بندوبست سے اُنس رکھنے والوں کی معقول تعداد براجمان تھی۔ پاکستان کی آئینی تاریخ لکھنے والے حامد خان ایڈووکیٹ نے بھی اپنی ضخیم کتاب میں بھٹو دور میں عدلیہ کے حوالہ سے کی گئی آئینی ترامیم کو جائز قرار دیا ہے۔ مگر جو جمہوریت ہی کومتنازعہ سمجھتے تھے انہیں منتخب اسمبلی یا اس کے لیڈر سے بیر توہونا ہی تھا۔ - 
یکم ستمبر 1976ء کو پانچویں آئینی ترمیم کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو نے ججوں کو من مرضیوں سے روکنے کا آہر کیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسوں کی مدت ملازمت کا تعین بھی کیا گیا اور ججوں پر لازم کر دیا گیا کہ جب حکومت انہیں ہائی کورٹ سے ترقی دے کر سپریم کورٹ بھیجے گی تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ بلوچستان اور سندھ کے لیے الگ ہائی کورٹوں کا قیام بھی اس شق کا حصّٰہ تھا کہ اس سے قبل دونوں صوبوں کے لیے ایک مشترکہ ہائی کورٹ ہی ہوتا تھا۔
5 جولائی 1977ء کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکانے کا بندوبست توجنرل ضیاالحق نے کیا تھا مگر اس میں عدلیہ کو آلہ کار بنایا گیا تھا۔بھٹوکو پھانسی پر چڑھا - 
کر بطور ادارہ عدلیہ متنازعہ بھی ہوگئی اور بدنام بھی۔ جب لاہور ہائی کورٹ نے ستمبر 1977ء کو بھٹو کی ضمانت منظور کرنے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا تھا تو ضیاالحق نے سیخ پا ہوکر بھٹو کے مقدمہ کو فوجی عدالت میں چلانے کا اعلان کر دیا تھا۔ مگر ضیاالحق کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اس طرح فوج بحیثیت ادارہ بدنام ہوگی۔ مئی 1977ء کو نسیم حسن شاہ کی ایڈہاک جج بنایا گیا تھا مگر انہیں ججی پر پکا بھٹو کی پھانسی لگنے کے بعد 4 جون 1979ء کو کیا گیا۔ ضیاالحق ایک تیر سے کئی شکار کرنے میں ماہر تھا اس لیے وہ بھٹو کی پھانسی کو پنجاب کے کھاتے ڈال کر سول ملٹری بیوروکریسی کو بچانا چاہتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھٹو اور پنجاب دونوں بڑے خطرے تھے۔ یوں بھٹو اور پنجاب میں فاصلوں کو بڑھانا اسٹیبلشمنٹ کا بڑا ایجنڈا تھا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے پینل میں سات جج شامل تھے کہ 4 نے پھانسی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ یہ کہا گیا کہ پنجاب کے ججوں نے بھٹو کو پھانسی دی ہے۔ بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ تو 6 فروری کو آیا تھا مگر جب 24 مارچ کو بھٹو کیس کے وکیل یحییٰ بختیار نے ریویوپٹیشن جمع کروائی تو اسے خارج کرنے کے حق میں اُنہی سات ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا تھا۔ نسیم حسن شاہ نے ججی کو پکا تو کرلیا مگر جس لالچ اور دباؤ کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا اس کااظہار بالآخر انھوں نے کر ہی ڈالا۔ یہ اعتراف ایک ایسے جج نے کیا جو پھانسی دینے والے پینل کا حصّٰہ تھا۔ بہت سے لوگ تو نسیم (چھیمی) حسن شاہ کو ان کی ظرافت اور جگتوں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں تو بہت سے ایسے ہیں بوجوہ ان کی قانون دانی کے اسیر ہیں مگر تاریخ میں انہیں اعتراف گناہ کی وجہ سے ہی یاد رکھا جائے گا۔ عدلیہ کو چاہیے تھا کہ اپنے سابقہ چیف کے اس اعتراف کو بنیاد بناکر اپنی غلطیوں کا اقرار کرلیتی مگر تاحال ایسا نہیں ہوا۔ جب جب بھٹو کے عدالتی قتل کا ذکر آئے گا، جب بھی کوئی تاریخ پاکستان کا وہ سیاہ باب لکھے گا، یقیناًانگلیاں عدالتوں کی طرف اٹھیں گی۔ مگر چھیمی شاہ کے اعتراف کے بعد اصل مجرموں کے چہروں سے نقاب اُلٹ چکے ہیں کہ عدالتوں کو من مرضی سے استعمال کرنے والے بھی کٹہرے میں ہیں۔ جیسے مشرقی پاکستان کے قتل سے جنرل یحییٰ خان بچ نہیں سکتا ویسے ہی جنرل ضیاالحق بھٹو کے قتل سے بچ نہیں سکتا۔ بھٹو قتل کیس کا آخری ملزم بھی ’’رب کی عدالت‘‘ میں پیش ہوچکا ہے کہ یہاں نہ ججی کا م آئے گی نہ جرنیلی البتہ چھیمی شاہ کا یہی اعتراف گناہ اس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔ خدا یہی توفیق روئیداد خان سمیت دسروں کو بھی دے۔ - 

2 comments:

  1. جسٹس نسیم حسن شاہ ایک کرپٹ جج تھا جس نے رشوت کی وصُولی پرایک مُنتخب وزیراعظم کوسزاۓموت دی اور پھر بےنظیربھٹو کےخلاف فیصلہ دیا لیکن دُوسری جانب نواز شریف کےحق میں فیصلہ دےدیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کےبدلے جسٹس نسیم حسن شاہ نے لاھور کےکمرشیل ایریا میں انتہایٔی قیمتی پلاٹ وصُول کیاتھا،اسی وجہ سے نواز شریف کےحق میں دیٔےجانےوالےفیصلہ پر بےنظیربھٹو نےاسے چمتکار کےنام سے موسُوم کیا تھا ۔( ریاض خان ھزاروی تنولی )

    ReplyDelete
    Replies
    1. مسلہ یہ نہیں کہ نسیم حسن شاہ نے کس دباو اور لالچ مین یہ کام کئے مگر اس بھٹو کے قتل کا اعتراف بذات خود اس جھوٹ کا پردہ چیر گیا جو عدلیہ اور سٹیبلشمنٹ اور بھٹو مخالف پھیلاتے رہے تھے۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے اعتراف کے تو اسے کسی نے پیسے نہیں دئیے تھے۔

      Delete

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...