Sunday, February 15, 2015

Killing of Subhas: Nehru, Britain and Stalin


Killing of Subhas: Nehru, Britain and Stalin

Collaborations of local and international interests


Revelations of Swami Subraminum shocked all people yet Sawami’s half-truth cannot hide pupils of Patel anymore. Swami refers a letter written by Nehru in 1945 in which he informed than British Prime Minister about a telephone call from Stalin regarding custody of Subhash. He also informed presence of 39 secret files about Subhas in South Block. The case of Subhas Chandar Bose’s killing is still pending in India even after three judicial commissions. Before this revelation of Swami, researcher and writer Sughata Bose (Grandson of Surat Chandar Bose) wrote an excellent biography of Naita Ji “His Majesty’s Opponent “in which he not only recorded all evidences but also pinpointed bad role played by British media and Indian Communists too. Why the Empire was so much against the Bose? What fears Congress had from return of Subhas in India? Nehru wanted to join US but due to the pressure of Subhas return and Talnagana movement he had to join socialist block. Like mid-1940s, situation is again ripe and pressure is also there but this time unlike Congress partner in arms is BJP yet Swami will relay on half-truth. 
International politics is changing its course these days in which interest of the people is at back seat while interest of big power players is on driving seat as usual. Recently a leader of ruling Indian party revealed an old post WW2 truth regarding killing of Subhas Chandar Bose but as usual timing of this revelation is tricky rather in continuity. He smartly blamed nexus of Pandat Nehru, Britain and Stalin yet failed to mention BJP involvement in the new agenda. In search of new partners Sawami is rightly reluctant but researchers should take killing of Bose as a challenge so that people should know full truth. Swami did not mention names of Gandhi and Patel because BJP itself is a legacy of both leaders. South Hall is still hiding secret files and after these revelations it is under pressure from Modie government. I wrote on this issue time and again and sharing some stray thoughts with you. Read the review and check the links.


عامر ریاض۔۔۔۔۔ بی جے پی کے راہنما سوامی سبرا مینیم نے ایک ہی تیر سے تین ٹارگٹ ڈھیر کیے۔ بھارتی ریاست کی بنیاد رکھنے والی جماعت آل انڈیا کا نگرس اور اس کے بانی پنڈت جواہر لال نہرو تو سوامی کے جاری کردہ جنوری 2015 کے بیان کا پہلا ٹارگٹ تھے جبکہ باقی دو ٹارگٹوں میں روس کے مرد آہن جوزف سٹالن اور سلطنت برطانیہ شامل تھے۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کے حوالہ سے بہت صفحات کالے کیے مگر بھارتی عوام دانتوں میں انگلیاں دباتے سوچتے رہے کہ کانگرس کا ماضی اس قدر داغدار ہے۔ شاید اسی لیے دلی میں کانگرس کا مکمل صفایا بھی ہوگیا۔ مگر ان انکشافات کے پیچھے کون سی سیاست کارفرما ہے اگر یہ سمجھ آجائے تو سوامی جی کا’’ آدھا سچ ‘‘بھی سمجھ آجائے گا۔ سوامی جی نے محض یہ نہیں کہا کہ آزاد ہند فوج کے انقلابی رہنما کو جہاز کے حادثہ میں مارنے والی خبر غلط تھی۔ بلکہ انھوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دسمبر 1945 کو روسی صدر کا مریڈ جوزف سٹالن نے نہرو کو خط لکھ کر سبھاش کی روس میں گرفتاری کی خبرسنا ڈالی تھی۔ 26 جنوری 1945 کے دن پنڈت نہرو نے اپنے سیکرٹری شیام لال جین کو ایک خط ٹائپ کرنے کا حکم دیا جو برطانیہ کے وزیراعظم کے نام تھا۔ اس خط کے بعد اعلیٰ برطانوی حکام بھاگے بھاگے نئی دہلی آئے اور پھر بوس کو روس ہی میں ختم کر دینے کا منصوبہ بنا۔ بین الاقوامی کھیل میں بڑی طاقتوں کی کشمکش اور مفادات کی ننگی جنگ کا شکار ہمارے جیسے ملکوں کے کتنے ہی رہنما ہو چکے ہیں؟ اس باے پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ 2007 کے دسمبر میں بے نظیر بھٹو کا دن دیہاڑے قتل بھی بین الاقوامی مفادات کے ٹکراؤ کا مقامی نتیجہ تھا۔ سبھاش چندر بوس کے قتل کے حوالہ سے اب تک بھارتی حکومتیں تین عدالتی کمیشن بنا چکی ہیں۔ پہلا کمیشن 1956 میں بنا تھا جب پاکستان سے بوس کے دیرینہ ساتھی پنڈی کے شاہنواز خان بھی گئے تھے۔ دوسرا کمیشن 1977 جبکہ تیسرا مُکرجی کمیشن 1999 میں بنا تھا۔ یہ کمیشن کیوں ناکام رہے اس کا انکشاف سوامی جی نے کر ہی ڈالا۔ مگر اس بیان میں نہرو کے سبھاش کے قتل میں ملوث ہونے کی خبر سوامی جی کا آدھا سچ ہے۔ سبھاش کی برسی کے موقع پر سوامی جی کے انکشافات کی ٹائمنگ توجہ طلب کہ اس وقت بھارت پرانی یاریاں چھوڑ کر نئے صنم خانوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ چانکیہ کے زریں سیاسی اصولوں کے تحت نئے بین الاقوامی ساتھی ڈھونڈنے کے لیے اگر بزرگوں کی پگڑیاں بھی اچھالنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بھارتی دانشور تو عرصہ سے جانتے تھے کہ سبھاش کی موت میں مہاتما گاندھی، نہرو اور پٹیل کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور رہا ہے۔ مگر سوامی جی نے ایک ہی بیان سے کانگرس کو بھی تھلے لگا دیا اور نئے بین الاقوامی کرم فرماؤں کو بھی قہقہے لگانے کا موقعہ دے دیا۔ سبھاش چندر بوس دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی بین الاقوامی سیاست میں جنوبی ایشیائی عوام کی آزادی کے لیے رستہ تلاش کر رہے تھے۔ انہیں بنگال سے پنجاب تک پھیلی ہوئی رنگا رنگی کا پورا گیان تھا۔ 1921 میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے نہ صرف پر تعیش اور پرکشش نوکری تج ڈالی تھی بلکہ چترنجن داس (سی آر داس) سے آن ملے تھے۔ یہیں ان کی ملاقات سی آر داس کے دوسرے ہونہار چیلے حسین شہید سہروردی کے ساتھ ہوئی۔ سی آر داس اور پنڈت موتی لال نہرو نے گاندھی جی کی غلط پالیسیوں سے تنگ آکر 1922 میں کانگرس کو چھوڑ کر سوراج پارٹی بنائی تھی۔ 1924 میں جب سی آر داس کلکتہ کے میئر بنے تو کانگرس کی پالیسی کے برعکس سی آر داس نے معاہدہ لکھنؤ کو رد کر دیا تھا اور بنگالی مسلمانوں کو کلکتہ میونسپلٹی میں 50 فی صد سیٹیں دے دیں تھیں۔ گاندھی جی، جمعیت علماء ہند اور مرکزی خلافت کمیٹی کی مخالفت کے باوجود سی آر داس نے 1923 کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ جون 1925 میں سی آر داس تو مر گئے مگر اپنے دونوں ہونہار شاگردوں کو سلطنت کی سازشوں سے آگاہ کر گئے۔ 1929 میں بوس لاہور آئے اور پنجابی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا، آپ میں شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ بنگالیوں نے پنجابی ادب و تاریخ سے کیا کچھ سیکھا ہے۔ بنگالی شاعری میں پنجابی صوفی شاعروں کے کلام کے ترجمے گائے جاتے ہیں۔ لاکھوں بنگالی جو جدوجہد کرتے رہے ہیں اس میں پنجابی ادب و تاریخ کا حصہ نمایاں ہے۔ ان کی یہ تقریر جگت ایس برائٹ کی کتاب ’’منتخب تقاریر و بیانات‘‘ (انگریزی) میں موجود ہے جو انٹرنیٹ پر آن لائن پڑھی جاسکتی ہے۔ 1925 سے 1939 کے درمیان بوس آل انڈیا کانگرس میں سرگرم رہے مگر مہاتما گاندھی، سیٹھ جی ڈی برلا، مولانا ابوالکلام آزاد اور سردار پٹیل نے مل کر اس ’’مرد حر‘‘ کو کیسا تگنی کا ناچ نچایا اس کا احوال سرت چندر بوس کے پوتے اور مایہ ناز سکالر سوگھاتا بوس نے اپنی معرکۃالآرا کتاب His Majesty\’s Opponent میں تفصیل سے لکھا ہے۔ جنوری 1939 میں کانگرس کو اپنا صدر چننا تھا اور امیدوار تھے سبھاش چندر بوس۔ بوڑھے ٹیگور نے ان کی خوب مدد کی مگر گاندھی، آزاد، برلا اور پٹیل ان کے بڑے مخالف تھے۔ بوس نے گاندھی کی حاکمیت کو شکست تو دے دی مگر انہیں جلد صدارت سے الگ کر دیا گیا۔ 3جولائی 1940 کو بوس نے کلکتہ میں راج کی لگی نشانی ’’ہال ویل ‘‘کے مجسمہ کو ہٹانے کے لیے مہم شروع کی تو سلطنت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اب وہ بوس کو حرف غلط کی طرح مٹانے پر تل گئے۔ بوس کو گرفتار کر لیا گیا۔ 25 دسمبر 1940 کو بوس جیل سے فرار ہوئے اور اپنے پنجابی، پٹھان دوستوں کی مدد سے ’’گونگے،بہرے‘‘ مرید کا روپ اپنائے کابل کی ’’لاہور سرائے‘‘ میں جا اترے۔ ہٹلر کے روس پر حملہ سے قبل بوس روس، جرمنی،اٹلی اور جاپان کے اتحاد کا خواب دیکھتے تھے مگر اب ان کی نظریں کسی نئے مورچے کی تلاش میں جم گئیں کہ جہاں سے سلطنت کو ایسی ذک پہنچائی جائے جس سے وہ انڈین نو آبادی سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے۔ یہیں سے ان کے رابطے بنگال کے پرانے انقلابی راس بہاری بوس سے بڑھ گئے جو ’’غدر پارٹی‘‘ کے دور سے سلطنت کے سر کا درد بنے ہوئے تھے۔ جولائی 1943 میں بوس کو نیا مورچہ سنگاپور میں نظر آگیا کہ یہاں چاپانیوں نے انگریزوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہاں سیالکوٹ کے پنجابی موہن سنگھ نے ایک تنظیم بنارکھی تھی جس کا نام انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے)تھا۔ سلطنت کو بھی معلوم تھا کہ اس کے اصل وَیری سنگاپور میں اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ مگر بوس تو روپوش تھے اور ان کے متعلق کبھی جرمنی، کبھی جاپان اور کبھی اٹلی کے حوالہ سے خبریں آ رہی تھیں۔ خفیہ والے الگ پریشان تھے اور ہرکارے ملک، ملک بوس کی بوُ سونگھتے پھر رہے تھے۔ بوس کو اب سنگاپور پہنچنا تھاجبکہ سلطنت نے ان کو روکنا تھا۔ بس اس اہم موڑ پر برطانوی میڈیا کے نمایاں کردار بی بی سی نے سلطنت کی مدد کی اور بوس کی موت کی خبر شائع کر دی۔ سوگھاتا نے یہ کہانی بڑے درد اور کمال دانشمندی سے لکھی ہے۔ بی بی سی پر خبر شائع ہوتے ہی بوس کے اصل وَیری مہاتما گاندھی ریڈیو پر آئے اور بوس کی موت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بڑی چلاکی سے بوس کی خبر کی تصدیق کردی۔ یہی وہ لمحہ تھا جو بوس پر بھاری گذرا کہ جس نے بھی یہ خبر سنی وہ سلطنت کے غیض و غضب کا قائل بھی ہوا اور مایوس بھی۔ اگلے دن بوس آزاد ہند ریڈیو پر آئے اور تمام سازش کو بے نقاب کر دیا۔ اب سلطنت کو معلوم ہوگیا کہ بوس سنگاپور میں ہیں تو انہیں ناکام کرنے کے بڑے منصوبہ پر کام شروع ہوگیا۔ یہ وہی موقع ہے جب برٹش سرکار نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پر لگی 18 سالہ پابندی ہٹالی گئی اور انڈین کمیونسٹوں نے نئے نئے رسالے و اخبار شروع کر دیے تھے۔ ان اخبارات و رسائل میں بوس کو فاشزم کا ایجنٹ اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کر انقلابیوں اور بوس میں فاصلے پیدا کرنے کا کام شروع ہوگیا۔ انقلابی رسالوں میں بوس کے کارٹون بھی چھاپے گئے اور تمسخر بھی اڑایا گیا۔ روس، امریکہ، چین، برطانیہ اتحادی تھے اور جاپان کو ختم کرنے کے بعد نیا بندوبست بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ بوس نے اس ہم موقع پر برٹش انڈین آرمی پر ضرب کاری لگائی اور لاتعداد فوجی انگریزوں کی پُرتعیش نوکری چھوڑ کر بوس سے آن ملے۔ بوس برٹش انڈین آرمی کی مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیوں کو خوب پہچانتے تھے جو تعلیم سے فوج تک سلطنت نے پھیلا رکھی تھیں۔ ٹیگور کی طرح بوس کو بھی ’’بندے ماترم‘‘ جیسی مسلم دشمن کانگرسی پالیسیوں سے اختلاف تھا کہ وہ سی آر داس کے شاگرد تھے۔ بس انھوں نے آئی این اے کے لیے اقبال کے ’’ترانہ ہندی‘‘ کو بطور قومی ترانہ اپنایا اور فوج میں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں کو ایک ہی ’’میس‘‘ میں بٹھا کر کھانا کھانے کا حکم دیا۔ بوڑھے چوہدری اقبال گوندل سنگاپور میں آئی این اے کے ساتھ رہے تھے۔ 2002 میں بھی جب میں ان سے بوس کی بات کرتا تو ان کی آنکھوں میں چمک بڑھ جاتی، ہاتھوں کی کپکیاہٹ یکدم ختم ہو جاتی اور وہ تادیر اس مرد حر بارے بولتے چلے جاتے۔ یہ سب بوس کی پالیسیوں اور جرأت رندانہ کا کمال تھا۔ آزاد ہند فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد بوس نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے چین کے ساحلی علاقوں تک کے طوفانی دورے کیے اور آزاد ہند فوج کے لیے لوگ بھی بھرتی کیے اور رقم بھی۔ عورتوں نے زیور اتار کر اس کی طرف پھینکے اور ماوؤں نے اپنے لال اس کی فوج میں دیے۔ مگر جس بین الاقوامی مفادات کے تلاطم میں بوس زندہ تھا وہاں اس سب کی پرواہ کوئی نہیں کرتا بلکہ سب مفادات کے کھیل میں رجھے ہوتے ہیں۔ جاپان پر ایٹم بم گرا کر ’’اتحادیوں‘‘ نے جنگ عظیم میں برتری قائم کرلی اور اس کے بعد دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کرکے سرد جنگ شروع کر دی۔ مگر بوس تو وطن کی آزادی کے لیے آئی این اے کو کھڑا رکھنا چاہتے تھے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ بوس کو اسی دوران گرفتار کر لیا گیاتھا اور پھر فضائی حادثہ میں بوس کے مرنے کی خبر چلا دی گئی۔ یہ بوس کی موت بارے دوسری جھوٹی خبر تھی۔ بوس تو یہ چاہتے تھے کہ وہ واپس وطن آئیں اور اگر انھوں نے غداری کی ہے تو جنگی قیدی کی حیثیت سے ان کا ٹرائل کیا جائے۔ مگر بڑی طاقتیں بوس کی انڈیا آمد کو بطور دباؤ استعمال کر رہی تھیں جبکہ انڈیا میں موجود کانگرس بوس کی واپسی سے بوجوہ خوفزدہ تھی۔ نہرو، گاندھی، پٹیل یہ جانتے تھے کہ بوس اگر زندہ واپس آگیا تو اس کے سامنے وہ سیاسی بونے بن جائیں گے۔ روسیوں کا مفاد اس میں تھا کہ وہ بوس کی واپسی کا کارڈ دکھا کر نہرو کو سرد جنگ میں روسی بلاک کے ساتھ رہنے پر آمادہ کریں۔ کانجی دوارکاداس ان دنوں امریکہ میں تھے کہ اپنی کتاب آزادی کی طرف سفر (1937 یا1947 )میں انھوں نے نہرو کے کانجی کو لکھے ذاتی خطوط بھی چھاپ دیے جس میں پنڈت جی امریکی بلاک میں شامل ہونے پر زور دے رہے تھے۔ سلطنت مگر بوس کو نشان عبرت بنانا چاہتی تھی کہ جس نے آئی این اے کے ذریعہ سلطنت کے جھومر برٹش انڈین آرمی میں دراڑ ڈالی تھی۔ بس جب سب کے مفاد سانجھے ہوئے تو بوس کا شکار کر لیا گیا۔ 1953 تک نئی دنیا بن چکی تھی اور یہی وہ سال ہے جب ٹائمز انڈیا کے مطابق بوس کو بھی مار ڈالا گیا۔ نہرو اب روسی بلاک میں تھا اور انتخابات جیتنے کے بعد اسے بوس کی واپسی کا ڈر بھی نہیں رہا تھا۔ -
یوں سوامی جی نے آدھا سچ تو بولا ہے مگر وہ گاندھی اور پٹیل کی بجائے سارا نزلہ نہرو پر ہی ڈالتے ہیں کیونکہ پٹیل اور گاندھی کے چیلوں ہی کی مدد سے بی جے پی اقتدار پر براجمان ہے۔ سوامی جی بوجوہ آج کا سچ نہیں بتاسکتے کہ آج بھارت جس نئے بین الاقوامی تال میل کا حصّٰہ بن رہا ہے اس میں کانگرس کی بجائے بی جے پی سودے کر رہی ہے۔ ان نئی سودے بازیوں میں مودی سرکار نئے اتحادیوں کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ مگر سبھاش کا بھوت تو برابر جنوبی ایشیائی سیاست میں اندرون خانہ اور بیرونی سطح پر ہونے والی سیاست کا پردہ چاک کرتا رہے گا۔ بوس کی کہانی ابھی سربستہ راز ہے کہ اس ضمن میں ان خفیہ فائلوں سے کھرا ڈھونڈا جاسکتا ہے جو بقول سوامی جی ساؤتھ ہال (جہاں بھارتی وزیراعظم براجمان ہوتا ہے) میں موجود ہیں۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی باہرلوں اور اندر موجود چند گروہوں کے مفادات کی سانجھ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مگر بین الاقوامی یا ملکی سطح پرہونے والی سازشوں کے باوجود لوگوں کے دلوں سے ان مقبول عام اور ہردلعزیز شخصیات کو کون نکال سکتا ہے۔ -

Some other links

The victim of the great game
An exhaustive biography of Subhas Chandra Bose is the best work to date to clarify some of his paradoxes
By Aamir Riaz
Published in The News, Pakistan at 24rth June 2014
http://jang.com.pk/thenews/jun2012-weekly/nos-24-06-2012/lit.htm#1

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...