China: Belt and the Road Story of Silk Route Politics
It is not a question of 46 billion dollar investment only
but it is continuation of a policy. Pakistan had signed Kurakaram road
agreement with China in 1966 and that was beginning of problems for Pakistan.
East Pakistan crisis had internal reasons yet its international reference was
China containment policy. Revolutionary China had no recognition till October
1971 and in UN China was represented by a Western pipit government. Pakistan
during Yahya period played an important role by arranging a secret visit of
Kiesinger which laid foundations of Sino-US relations. Both China and US came
closer yet Pakistan had to pay the price at 16 December 1971. It was China who
did not allow Bangladesh to become member of UN until 1974 when Pakistan
accepted her. It was Britain who not
only accepted Bangladesh within 50 days but also gave her membership of Common
Wealth without consulting Pakistan. In reaction Pakistan left CW in Feb 1972.
Pak-China relations have a history from ancient times. Our
all rivers are linked with Tibatan Part of China. Ancient Chinese used to
travel from Terbella Darra towards Haripur till Taxilla. In 1950s, H S
Suhrawardy, Feroz Khan Noon and Z A Bhutto were main supporters of our China
policy. Port of Gwadar was bought from Oman during the time of F K Noon and
from that day it is part of Baluchistan.
South Asia and China alone covers half of the world
population. If one includes Central Asia
and Russia in it then no one can challenge them. With the help of Silk Route they were one and
revival of Silk Route politics will help these countries a lot. In 1893 and
1914, by establishing two border lines, the Britain divided the whole region.
One was Durand Line while other was McMahon Line.
After WW1 many people visited China yet British interest in
china was as old as Portuguese. Britishers started their campaigns under the
banner of opium yet their motives were financial. As a matter of fact they had
an eye on Silk Route which was symbol of prosperity in many ways for numerous
South Asian, central Asian and Chinese, regions.
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
The visit of Chinese president in a civilian rule has
multiple effects for future of Pakistan. But one should remember that in our
part of the world there are very strong opponents and supporters of Chinese.
Read the story published in HumShehri
جب برطانیہ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے بات کیے بغیر دولت مشترکہ کا ممبر بھی بنالیا تو پاکستان کو چین، امریکہ تعلقات کی وجہ سے ناراض ممالک کا پتہ چلا۔ یہی وہ وقت تھا جب بھٹو صاحب نے پاکستان کو دولت مشترکہ سے باہرنکال لیا۔ -
’’انقلابی چین‘‘ 1980ء کی دہائی میں ’’تجارتی چین‘‘ بن گیا مگر پاکستان کے ساتھ اس کا رشتہ کمزور نہ ہوا۔ 1986ء میں شاہراہ قراقرم مکمل ہوئی تو پاکستان میں مذہبی انتہا پسندیاں، فرقہ واریت اور قومیتی و لسانی جھگڑوں کی بنیادیں رکھی جاچکی تھیں۔ یہ سب چین کے استقبال کی تیاریاں تھیں کہ چین کو اس خطہ سے دور رکھنے کی پالیسی کا کھرا سمندر پار جاتا تھا۔ یہ وہ لڑائی ہے جس نے گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے خطہ کو ’’باہرلوں‘‘ کی لڑائیوں کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ اس دوران چین نے برق رفتاری سے ترقی کی۔ 1989ء میں ’’تیانگ منگ سکوائر‘‘ کے واقعہ کو بنیاد بناکر یورپ و امریکہ نے چین کو اسلحہ بیچنے پر پابندیاں لگوادیں تھیں مگر چین نے الیکڑونکس، کمپیوٹراور دیگر انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرکے بین الاقوامی معیشت میں اپنا مقام منوالیا۔ 2001ء میں چین نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) بناکر روس، بھارت، وسط ایشیائی ریاستوں، ایران، افغانستان اور پاکستان کو کاروباری اشتراک میں شامل کرنے کا عندیہ دیا۔ -
چینی صدر کے دورہ کے موقع پر پاکستان کی تمام سیاسی قیادت جس طرح ایک صفحہ پر نظر آئی وہ اپنی جگہ سویلین اقتدار کے لیے حوصلہ افزاء ہے۔ ہمالہ کے چشموں کے ابلنے اور چینیوں کے سنبھلنے کا ذکر تو علامہ نے ’’ساقی نامہ ‘‘میں کیا تھا۔ مگر جنوبی ایشیا کے باسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الہٰ آبادی خطبہ میں بھی کانگرسیوں سے اقبال نے یہی کہا تھا کہ اگر ہندوستان کو ایک قوم ماننے کے خبط سے نکل آؤ تو یہ خطہ بے مثال ترقی کی سکتا ہے۔ یہ باتیں جتنی 1930ء کی دہائی میں صحیح تھیں اتنی ہی آج بھی اہم ہیں۔ ہم نے اپنی لڑائیوں میں 85 سال تو ضائع کر ہی دیے ہیں کہ اب بھی ایس سی او کا حصہ بن کر ہم اس خطہ میں امن و ترقی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مگر یاد رکھنے والی بات یہی ہے کہ اس نئے تال میل کے جتنے دوست ہیں اتنے ہی مخالفین بھی ہیں کہ اس کے لیے پھونک کر قدم رکھنا لازم ہے۔ -
No comments:
Post a Comment