Clash of titans, riddles of MQM
and future of Karachi
Will April 23 prove another
May 12 for Karachi? Is a multi-billion question
Arrest of M anwar is
another blow in continuous setbacks
Both PTI & MQM
have no choice but to clash with each other.
Both parties worked
under Musharaf and have “Show boys” in interior Sind
Urban chauvinism is
common between both rival parties
Both parties have
history of U-Turns and Muk Mukkas
In past Karach was
divided between Banori Town and Nine Zero and now Karchi will remain divided between Altaf and Imran.
Read the complete
article
پنجاب کے تاریخی مقام پانی پت میں جب 1861 میں احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں میں گھمسان کا ’’یدھ‘‘ پڑا تھا تو جنوبی ایشیا کی دیسی طاقتوں میں اس لڑائی کا فائدہ ’’کمپنی بہادر ‘‘یعنی انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی نے اُٹھایا تھا۔ ضروری نہیں کہ متحارب قوتوں کی لڑائی میں ہر بار کسی ایک کا فائدہ اور دوسرے کو نقصان ہو، اکثر تیسری قوت کو اس ’’یدھ ‘‘سے دونوں کو اُکھاڑنے کا نادر موقع بھی مل جاتا ہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال کچھ ایسے ہی اشارے کر رہی ہے۔ -
23 اپریل کو کراچی میں اک گھمسان کا ’’یدھ ‘‘پڑنے جا رہا ہے۔اگرچہ دونوں جماعتوں میں اس انتخاب کے سلسلے میں ایک ضابطۂ اخلاق بھی طے پا گیا ہے لیکن ان دونوں جماعتوں کا جو کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے اس ’’ضابطہ اخلاق‘‘ کا حشر پہلے سے ہی معلوم ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ دلوانے میں نا کام قوتیں اب کم از کم کراچی میں انہیں ’’فتح‘‘ دلوا دیں گی۔ بس اسی زعم میں کراچی میں دوبار کیے گئے جلسوں میں ایم کیو ایم بارے خاموش رہنے والے خان صاحب نے’’ چپ کا روزہ ‘‘توڑ ہی ڈالا ہے۔ صولت مرزا اور انکی بیگم کے بیانات کے بعد جس طرح ’’مغلوب‘‘ میڈیا یکدم ایم کیو ایم، کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے تو خان صاحب بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز کب رہیں گے۔ مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ کراچی میں ایمکیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے علاوہ بھی بہت سی سیاسی قوتیں ہیں۔ ایم کیو ایم کی تطہیر کے بعد ان قوتوں کا کردار قدرے بڑھ جائے گا۔ اگر ایم کیو ایم سیاسی تنہائیوں کا شکار ہے تو عمران خان خود بھی دھرنوں کی ناکامی کے بعد زبردست سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم اگر کراچی والوں کو کچھ نہیں دے سکی تو خان صاحب نے خیبر پی کے میں کونسے تیر چلا لیے ہیں۔ متضاد شقّوں پر مشتمل خیبر پی کے کابلدیاتی قانون صوبہ میں پی ٹی آئی کی حاکمیت برقرار رکھنے کا وہی عزم لیے ہے جس کا اظہار ایم کیو ایم کراچی میں کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اس دنگل میں بظاہر تماشائی ہے مگر اس کی نظریں برابر دونوں پر ٹکی ہیں۔ خدا کراچی کو نظر بد سے بچائے کہ 23 اپریل اس شہر پر بہت بھاری گزرے گا۔ ابھی تو کراچی والے 12 مئی 2007 کی خون آلود شام کو نہیں بھولے کہ اب 23 اپریل کسی انجانے وسوسے کی طرح دندنا رہا ہے۔ - -
جس کسی نے بھی عمران و علوی کی ٹیپ سنی ہے وہ ان دونوں پارٹیوں کی نفرتوں اور قربتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان پارٹیوں میں تکرار اور ’’مک مکا ‘‘ہوتے وقت نہیں لگتا۔ ایک زمانہ میں امن عالم کے نعرے تلے روسی ٹینک چھوٹے ممالک میں جا گھستے تھے کہ اب کراچی کو پرامن بنانے کے لیے اس ’’یدھ ‘‘میں سے گزرنا مقدر ٹھہرا۔ پہلے کراچی ’’نائن زیرو‘‘ اور ’’بنوری ٹاؤن‘‘ میں منقسم تھا کہ اب اسے ’’عمران و الطاف‘‘ میں منقسم کیا جارہا ہے۔ کیا اس سے کراچی کی آگ بجھ سکے گی؟ یہ پالیسی میں تبدیلی نہیں بلکہ تسلسل کی علامت ہے۔ دیکھتے ہیں کہ 23 اپریل سے قبل صولت مرزا اور ان کی بیگم کی تقلید میں کتنے اعترافی بیانات آتے ہیں۔ اگر کہیں کراچی کے پرانے ناظم مصطفی کمال کو بھی دوبئی سے لایا گیا تو پھر بھاگتے چور کی لنگوٹی صرف بائیکاٹ ہی سے بچ سکے گی۔ دونوں طرف اہل زبان ہیں اس لیے زبان کے اچھے بُرے استعمال کا نظارہ تو چینلوں پر خوب رہے گا۔ چرب زبانی اور مغلظات کے ساتھ اشعار بھی سننے کو ملیں گے کہ اس کا ٹریلر جناح گراؤنڈ میں چلا یا گیا تھا۔ عمران اسماعیل اور عارف علوی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کے دعویدار ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں یہی دعوےٰ الطاف حسین اور ان کی مہاجر قومی موومنٹ بھی لے کر آئی تھی مگر اس دعوےٰ کے بعد کراچی کا وہی حال ہوا جو روسی فوجوں اور مجاہدین کی لڑائی کے بعد افغانستان کا ہوا تھا۔ کراچی کا امن تو سب مل کر بحال کرسکتے ہیں کہ اس میں پیپلز پارٹی، اے این پی، مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہیں اور کراچی کی انتظامیہ بھی۔ کراچی کے حالات کو بدلنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں کہ کراچی کے امن کی ضمانت ’’مفاہمت‘‘ میں پنہاں ہے۔ ایسی مفاہمت جو بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور قبضہ گیروں کے خلاف ہو۔ خان صاحب کی منطق بھی نرالی ہے کہ بھتہ خوریا جرائم پیشہ ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئے گا تو وہ فوراً سے پیشتر ’’پاک‘‘ ہوجائے گا۔ کم از کم پنجاب، خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی قیادت کو دیکھ کر تو اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ حال ہی میں خان صاحب کشمیر کے اس چوہدری عبدالمجید کی فتح پر جشن منا رہے ہیں جس پر2014 کے ضمنی انتخابات میں زبردست دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے تھے۔ اس وقت چوہدری عبدالمجید پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کشمیر تھے اور پی ٹی آئی کے اُمیدوار سردار محمد رشید اور خان صاحب ان پر دھاندلیوں کے ثبوت پیش کر رہے تھے اب وہ چوہدری صاحب ’’پاک‘‘ ہوگئے ہیں۔ اگر کراچی میں بھی خان صاحب نے یہی کرنا ہے تو پھریہ محض چہروں کی تبدیلی ہی ہوگی۔ مجرموں کو اپنی پارٹی سے (وقتی طور پر) نکلنے کا حکم دینے والے الطاف حسین یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ افراد کی کمی نہیں تھی۔ اب انہیں چاہیے کہ کچھ جرائم پیشہ کارکنوں کو خود ہی پکڑ کر میڈیا کے سامنے رینجرز کے حوالے بھی کر دیں۔ این اے 246 کا الیکشن بھی بڑا دلچسپ ہے کہ ایم کیو ایم کا ’’کفر‘‘ ٹوٹنے کا شور بلند ہو رہا ہے اور نتیجہ کچھ بھی نکلے یہ کام آج یا کل ہر صورت ہو کر رہے گا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو کراچی میں ’’حب علی ‘‘سے زیادہ ’’بغض معاویہ‘‘میں مدد حاصل رہے گی کہ آج ایم کیو ایم کے پالیسی ساز اپنی ناکامی اور تنہائی پر ماتم کرنے کے قابل بھی نہیں۔ اگر انھوں نے 12 مئی اور مشرف کی بے دخلی سے سبق سیکھا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو ایک ضمنی انتخاب ہے مگر ایم کیو ایم کی مشکلات 23 اپریل گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوں گی۔ اسی سال بلدیاتی انتخابات کا ’’رن‘‘ بھی پڑئے گا کہ وہاں تو معاملہ اور بھی ’’چوڑ ‘‘ہو جائے گا۔ 2013 کے انتخابات کے چند دن بعد جب میڈیا کے روبرو ایم کیو ایم کے ’’پاسداران انقلاب ‘‘نے اپنے ہی لیڈروں کو سرعام مارا تھا تب ہی دال میں کالا نظر آنے لگا تھا۔ اب صولت مرزا کی بیگم نے بھی یہی کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے بہت سے نوجوان کارکن اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ الطاف بھائی ایم کیو ایم کے لیڈروں کو ’’پاسداران‘‘ سے پٹوانے اور توپوں کا رُخ ’’پالتو مجرموں‘‘ کی طرف کرنے کی بجائے خود اعتراف گناہ کیوں نہیں کرلیتے؟ بصورت دیگر صولت مرزا تو بنتے ہی رہیں گے۔ بلدیہ فیکٹری مقدمہ میں جو بھی ملوث ہے اس بارے الطاف بھائی قوم کو صاف صاف بتا دیں۔ ایم کیو ایم مشرف دور میں کراچی ہی نہیں بلکہ سارے سندھ میں سیاہ سفید کی مالک تھی۔ اس دوران صولت مرزا کے مقدمہ کو کیوں لٹکایا جاتا رہا؟ ایم کیو ایم کے پاس تو ڈوگر کو رٹ بھی تھی مگر پھر بھی صولت کو اندر ہی رکھا گیا۔ نکہت مرزا نے نام لیے بغیر ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا جن کا کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایم ڈی سے جھگڑا ہوا تھا۔ کیا صولت مرزا کو تختہ دار پر لٹکا کر کچھ ’’معززین شہر‘‘کو بچایا جا رہا ہے؟اس بارے تو میڈیا بھی خاموش ہے۔ 23 اپریل کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے تقاخر کے ٹوٹنے پر تو سب راضی ہیں مگر کراچی کو عمران خان کے حوالے کرنے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ مگر یہ اختلافات 23 اپریل سے پہلے اُبھر کر سامنے نہیں آئیں گے۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے حسب معمول 23 اپریل کا نتیجہ پہلے ہی سے بتا دیا ہے اور اسے پی ٹی آئی کی ’’تاریخی فتح‘‘ قرار دے ڈالا ہے۔ وہ ایسے دعوے کرنے میں ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ ایک زمانہ میں وہ پیپلز پارٹی کو نیست نابود کرنے کے دعوے کرتی تھیں۔ اس کام کے لیے انھوں نے بہت ’’پاپڑ بیلے‘‘۔ ان کی ساری توانائیاں پیپلز پارٹی کو نکرے لگانے میں صرف ہوئیں تھیں۔ مگر جب 2006 میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں میثاق جمہوریت تلے قربتیں بڑھنے لگیں تو انھوں نے پی ٹی آئی میں پناہ ڈھونڈی۔ اب تو میاں نواز شریف ان کے نزدیک پیپلز پارٹی سے بڑی عفریت ہیں۔ اب وہ عمران خان سے توقعات لگائے بیٹھی ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ قوم ایم کیو ایم سے ٹکرانے کو تیار ہے۔ مگر انہیں شاید احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں میں ہونے والی پانی پتی جنگ کا نتیجہ یاد نہیں۔ ایک زمانے میں کانگریس یہ کہتی تھی کہ برٹش انڈیا میں دو ہی قوتیں ہیں، ایک انگریز اور دوسری آل انڈیا کانگریس۔ اسی زعم میں کانگرسیوں نے نہ صرف اکتوبر 1939 میں وزارتوں سے استعفے دے ڈالے تھے بلکہ 1942 میں ’’انڈیا چھوڑ دو‘‘ جیسی ناکام تحریک بھی چلائی تھی۔ اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں مسلم لیگ اُبھر آئی تھی۔ سندھ میں سب سے بڑی سیاسی حقیقت پیپلز پارٹی ہے اور اگر وہ اپنے کارڈز ’’سینے‘‘سے لگائے رکھے تو اس معرکہ سے وہ سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جو سندھ کے اُردو بولنے والوں، پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں اور بلوچوں میں تصفیہ کروا سکتی ہے۔ 1980ء کی دہائی سے سندھ جس آگ میں مسلسل جل رہا ہے اسے تیل سے بجھانے کا مطلب یہی ہے کہ آگ مزید جلتی رہے۔ کراچی میں رہنے والوں سے زیادہ اور کون اس آگ کی تپش سے واقف ہے؟ کبھی اس شہر کو لسانیت کے حوالہ کر دیا جاتا ہے تو کبھی فرقہ واریت کا جن اس شہر کو بے رنگ کرنے کے لیے در آتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی تو کراچی میں ایم کیو ایم کی وجہ سے ماردھاڑ کی سیاست میں ملوث ہوئے تھے کہ جب ایم کیو ایم کے عسکریت پسند گر جائیں گے تو اس کے ملبے تلے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث تمام لوگ بھی دفن ہوجائیں گے۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق کراچی میں اُردو بولنے والے 50 فی صد سے بھی کم ہوچکے ہیں۔ اب اگر کراچی میں امن قائم کرنا ہے تو پھر سب کو ملا کر چلنے کی بات کرنے والوں کو ایک موقعہ دینا ہوگا۔ ایم کیو ایم کی طرح عمران خان بھی کراچی تک محدود ہیں کہ کراچی کا امن ان کی ’’تاریخی کامیابی ‘‘کے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ کراچی کا امن سندھ کے چین سے مشروط ہے اور یہ بات نہ تو کراچی کے پرانے پہلوانوں کو سمجھ آئی تھی اور نہ ہی نئے پہلوان اس بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کراچی کی اس بدل چکی سیاست ہی کی دین ہے کہ آج کراچی کے رضاربانی چیئرمین سینیٹ اور ممنون حسین صدر مملکت ہیں۔ یہ معرکہ ایم کیو ایم تو سر نہ کرسکتی تھی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے پاس ’’شو بوائے ‘‘ نہیں بلکہ رضا ربانی، شہلا رضا، سعید غنی جیسے لیڈر ہیں جبکہ اندرون سندھ میں ایم کیو ایم اور عمران خان تو بس ’’شوبوائے‘‘ ہی رکھتے ہیں۔ کراچی کے لوگ اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ انہیں تو ہر حال میں اسی شہر میں رہنا ہے جو ان کا مسکن بھی ہے اور سندھ کا سب سے اہم شہر بھی۔ سوال ایم کیو ایم کے گرنے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ایم کیو ایم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا ہے کہ جس کا کچھ نظارہ 23 اپریل کو سب دیکھیں گے۔ -
No comments:
Post a Comment