Saturday, April 4, 2015

Tahira: The Lady with a difference

The Lady with difference

The lady with a difference and progressive by choice, Tahira mazhar Ali, 
After few years from partition of Punjab and unprecedented riots and migration a cricket match was organized in Lhore. Lot of people came from Bharat and Lhorites welcomed them in the city. Tahira recorded the even well and it was a proof that people at large were not involved in riots but it was a conspiracy of the masters as usual. Shop keepers did not take payments from indians of their sold items, people from India wanted to see their homes and new owners welcomed them happily. The story is itself enough to understand what Gora administration did during that time. read the piece and unlearn the myth of organized riots. we still need to de-construct it.
بہت سے لبرلوں و ترقی پسندوں کے برعکس وہ محض سیاسی سطح پر لبرل و ترقی پسند نہیں تھیں بلکہ اپنے سماجی رویوں میں بھی اپنے خیالات کو ملحوظ خاطر رکھتی تھیں۔ وہ برملا کہتی تھیں کہ مظہر اور میں نے اپنے بچوں پر کبھی اپنے نظریات نہیں ٹھونسے۔ ان کا یہ عمل بذات خود انہیں بہت سے” سکہ بند “ترقی پسندوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کے فرزند طارق علی کو ان کے بعض تیز افکار کی وجہ سے بھٹو دور میں وطن آنے نہیں دیا تھا اور طاہرہ نے اس پر بروقت احتجاج بھی کیا تھا۔ مگر 5 جنوری 1979کو جب بھٹو ضیا الحق کی جیل میں اپنی آخری سالگرہ کا دن گذار رہے تھے تو انہیں طاہرہ کی طرف سے ”سگاروں“ کا تحفہ ملا۔ طاہرہ فوجی حکمرانوں اور منتخب جمہوری قیادت میں فرق کو خوب پہچانتی تھیں۔

ہفت روزہ ہم شہری
قلندر صفت طاہرہ

عامر ریاض
دنیا میں میں دو ہی چیزیں ہیں جن کی ہر جگہ پوجا ہوتی ہے کہ دولت اور حسن جس کے پاس ہو اسے خوش قسمت ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے ان دونوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور وہ ہر دم اپنے خیالات و افکار کو مقدم رکھتے ہیں۔ اپنے خیالات و افکار کا پہرہ دینے والوں میں بھی قابل تقلید مثال وہ ہوتے ہیں جو اپنے افکار کو کسی دوسرے حتیٰ کہ اپنے بچوں پر بھی مسلط نہیں کرتے۔ بس ایسے ہی قلندروں میں ایک نام طاہرہ مظہر علی کا بھی ہے۔
پنجاب کے پہلے وزیراعظم سرسکندر حیات کی بیٹی طاہرہ حیات جاذب نظر بھی تھیں اور دولت و عہدوں کی بھی گھر میں کمی نہ تھی۔ ان کے حسب نصب سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے بچے تو کیئریر اور عیش آرام کو ترجیح دیتے تھے مگر طاہرہ نے اپنے نام کی لاج رکھی ۔ نوجوانی میں کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا اور تاعمر ترقی پسند افکار کی اسیر رہیں۔عورتوں کے حقوق اور مادری زبانوں کی حمائیت ان کے ایجنڈے کے نمایاں پہلو تھے کہ طاقت کی غلام گردشوں سے گہری واقفیت کو انھوں نے سیاسی منفعت کے لیے استعمال نہ کیا۔
پنجاب سے کابل جانے والے رستہ پر اٹک اور فتح جنگ کے علاقوں کی اہمیت دیدنی ہے اور یہاں کھٹٹر طویل عرصہ سے مقیم ہیں۔جنوری 1925 میں طاہرہ کھٹٹروں ہی کے گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سرسکندر حیات غدر پارٹی سے یونینسٹ پارٹی آف دی پنجاب کا سفر کر چکے تھے کہ جس کا ذکر لندن مقیم افتخار ملک ان پر لکھی سوانح میں کر چکے ہیں۔ میاں فضل حسین اور سرچھوٹورام کی قربت نے سکندر حیات کو چارچاند لگا دیے تھے۔ طاہرہ”قانون اراضی ہند 1901 “میں پنجابی کسانوں کے حق میں کی جانے والی چھوٹو رام کی ترامیم کی تادیرمدح رہیں۔ وہ چھوٹے کا شتکاروں اور کسانوں میں کام کرتی رہیں اس لیے انہیں چھوٹورام کی خدمات سے بخوبی آگاہی تھی۔ہزارہ کے سرسبزمیدانوں میں لال  جھنڈوں کی قطاریں انہیں اچھی طرح یاد تھیں۔یہ یونینسٹ پارٹی آف پنجاب ہی تھی جس نے ایک طرف پنجاب میں کوآپریٹو کا باکمال بندوبست بنایا، بنیے(منی لینڈر) کے جبر سے پنجابی کسانوں کو نجات دلائی، کام کرنے کے اوقات کو آٹھ گھنٹے تک محدود کیا اور پنجاب کے دیہی سماج میں تواتر سے سکول کھولے۔ سکندر حیات کی وفات پر لکھے خط میں مشہور انقلابی مولانا عبید اللہ سندھی نے سر سکندر کے کاموں کو خوب سراہا تھا اور سندھ سرکار کو سکندر حیات کی تقلید کا مشورہ بھی دیا تھا۔ کراچی کے ابوسلمان شاہجہانپوری نے مولانا کے خطوط کے انتخاب پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ خط چھاپا ہے جو ان دنوں یعنی 1942میں مولانا غلام رسول مہر کے مشہور اخبار ”انقلاب“ میں شائع ہوا تھا۔جہاندیدہ طاہرہ یونینسٹ پارٹی کے گھاٹوں اور خوبیوں سے آگاہ تھیں اور میاں افتخار الدین کی طرح روسی کمیونسٹ انقلاب کی تقلیدمیں محکوموں کو ان کا حق دلانے کے لیے بیتاب بھی۔
1942 میں انہوں نے پاکستان ٹائمز اور ویو پوائنٹ کے مشہور ایڈیٹر مظہرعلی خان سے شادی کا فیصلہ کیا جو ان دنوں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے اور ان کے رشتہ دار بھی۔ مظہرعلی خان کے والدمظفرعلی خان اور بڑی بہن بلقیس شیخ بھی اپنے فیصلے خود کرنے میں ہی شہرت رکھتے تھے کہ یہ روائیت خاندان کی خصوصی پہچان ٹھہری اور کسی نہ کسی شکل میں تاحال جاری و ساری ہے۔ مظہر علی خان کو ترقی پسند خیالات بڑے بھائی محمودعلی سے ملے تھے ۔یہ وہی محمود علی تھے جن کی بیگم ستنام محمود پنجابی کی لکھاری تھیں۔ یوں شوہر سے ملاکمیونسٹ پارٹی سے قربت کا تحفہ جوان سال طاہرہ کی سرگرم عمل طبیعت کو بھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب جولائی 1942 میںکمیونسٹ پارٹی سے تاج برطانیہ نے 17 سالہ پابندی ہٹا لی تھی۔ کیا حسین اتفاق تھا کہ جس سال طاہرہ پیدا ہوئی تھیں اسی سال کمیونسٹ پارٹی پر تاج برطانیہ نے پابندی لگائی تھی اور جب وہ بلوغت کو چھو رہی تھیں تو بین الاقوامی سیاست نے پلٹا کھایا اور پارٹی اور سلطنت میں قربتیں بڑھنے لگیں۔ 1942 کے وسط کے بعد پارٹی نے سامراجی جنگ کا نعرہ ختم کیا اور عوامی جنگ کے نعرے تلے ترقی پسند فوجی بھرتیوں کے اسیر ہوئے۔ فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت، ابواثر حفیظ جالندھری وغیرہ تو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (پبلسٹی کمیٹی)سے وابستہ ہوئے مگر ایسے بھی تھے جو جتھوں کی صورت میں برما ، مشرق وسطی جیسے محاذوں پرگئے۔مظہر علی خان بھی فوج میں بھرتی ہونے کے بعد مشرق وسطی ہی گئے تھے۔ کہتے ہیں سر سکندر نے شادی کو فوج میں بھرتی سے مشروط کیا تھا ۔ یہ بات کتنی سچ ہے اس بارے تو معلوم نہیں مگر سلطنت کے حامی اور کمیونسٹ اس وقت کا تذکرہ کرنے سے کتراتے ہیں جب کمیونسٹ اور سلطنت ”ایک صفحہ “ پر رہے۔1942کے وسط میںبرما محاذ پر گئے اک ایسے ہی گوریلے کمیونسٹ کی کتاب بھی چھپ چکی ہے جس کا ذکر کلکتہ کے کامریڈموہیت سین نے اپنی مشہور سوانح”Travels & the Road “ میں کیا ہے۔ پارٹی کے دفتر کھلے اور رسالے نکلنے لگے کہ جن کی ادارت سجاد ظہیر کے کاندھے پر پڑی۔ پنجاب سے نکلنے والا”جنگ آزادی“ بند ہوا اور دلی سے”عوامی جنگ“ نکل آیا۔ہٹلر اور جاپانیوں کو ہی نہیں بلکہ سبھاش چندر بوس جیسے انقلابی کوپرنٹ میڈیا کے ذریعے حدف تنقید بنانا ان رسالوں کی خصوصی پہچان تھی۔ 1943میں پارٹی نے پہلی کانگرس کی تو 18سالہ طاہرہ کو بھی پارٹی کی ممبر شپ مل گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ادھیکاری تھیسس کے تحت پارٹی نے تحریک پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔ لاہور میں نوجوان طاہرہ پارٹی ہدایت پر اس قرارداد کو لے کر بائیسکل پر ممدوٹ ولاز، کو چل دیں جہاں قائداعظم ٹھہرے ہوئے تھے۔ محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ کو تو وہ ذاتی طور پر جانتی تھیں کہ وہ وزیراعظم پنجاب کی دختر تھیں اور یہ سب ان کے مہمان بنتے تھے۔ زیرک جناح نے تاریخی جملہ بولا”کمیونسٹوں کو بھی ہوش آ ہی گیا“۔ویمن ڈیفنس لیگ سے انھوں نے خواتین میں کام شروع کیا کہ یہ جنگ کا زمانہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پارٹی ہدایات ہی کے تحت 1950 میں وہ ان بانی اراکین میں شامل تھیں جنھوں نے ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن (DWA) بنائی۔ ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن میں کام کرنے والی طاہرہ مظہر علی بہت سے ترقی پسندوں کے برعکس خود کو ”ڈی کلاس“ کرنے کے خبط سے آزاد رہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی کا ”کھرا “وہ بجا طور پر ہندوں، سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں پر قبضوں سے نکالتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے پہلے وزیر بحالیات اور پہلی آئین ساز اسمبلی کے رکن میاں افتخار الدین نے تو وزیربنتے ہی یہ تجویز دے ڈالی تھی کہ ہندوئوں، سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ جاگیرداروں اور سیٹھوں پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں اور مشرقی پنجاب و دیگر علاقوں سے آنے والے مہاجرین کے خاندانوں کو پیچھے چھوڑ آئی جائیدادوں کے مطابق زمینیں و جائیدادیں الاٹ کرنے کی بجائے گھرانوں کے افراد یا کنبہ کی تعداد کو مدنظر رکھ کر جائیدادیں دی جائیں۔ یوں جو جائیدادیں بچ جائیں انہیں نومولود پاکستانی ریاست اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے استعمال کرے۔ میاں صاحب نے برملا کہا کہ صاحب حیثیت لوگوں کو آج نئے وطن کی خاطر قربانی دینی چاہےیے۔ عبداللہ ملک نے میاں صاحب کے بیانات اور تقریروں کی جو کتاب مرتب کی اس میں یہ داستان محفوظ ہے۔ نومولود آزاد وطن کے لیے یہ ایک لاجواب اور بروقت تجویز تھی مگر میاں صاحب کی یہ تجویز لیاقت علی خان اور اس کے حواریوں بالخصوص کراچی مقیم آئی سی ایس افسران کو بوجوہ پسند نہ آئی۔ میاں صاحب کو اس تجویز کے بعد وطن دشمن ، کافر اور اسلام کا باغی تک کہاگیا کہ مقتدر گروہوں کی للچائی نظریں ہندو، سکھوں کی جائیدادوں پر تھیں اور یہی ان کا مال غنیمت تھا۔ آج کے پاکستان کے کتنے ہی معتبر خاندانوں کے کھاتے نکلوائے جائیں تو بدعنوانی کی داستان کا کھرا ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ اس معاملے پر تادم تحریرسب بوجوہ خاموش ہیں مگر طاہرہ کو کون خاموش کروا سکتا تھا؟۔
1947 کے فسادات اور تقسیم پنجاب پر افسردہ طاہرہ کا ماننا تھا کہ چند سال بعد جب ہندو، سکھ کرکٹ میچ دیکھنے لاہور آئے تو لاہوریوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دکانداروں نے ان سے خریدی گئی اشیاءکے دام نہ لیے، ہوٹل والوں نے بل نہ لیے اور بہت سوں نے اپنے چھوڑے گھروں کا وزٹ بھی کیا۔ الاٹیوں نے پرانے مالکوں کو بخوشی انکے گھر دکھائے تو کچھ مہمانوں نے اپنے پرانے سامان میں سے کچھ چیزیں مانگیں تو الاٹیوں نے انہیں بخوشی دے ڈالیں۔ ایک نوجوان ہندو نے اپنے پرانے گھر میں پڑے”بت“ کو مانگا کہ اس کے ماں کو اس بت کی یادستاتی تھی تو الاٹی نے اسے بخوشی یہ دے ڈالا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ چند سال بیشتر ہونے والے فسادات کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وگرنہ کرکٹ میچ دیکھنے آنے والوں کو لہوریے یوں ”جی آیاں نوں“ نہ کہتے۔ قیام پاکستان کا فسادات سے کوئی تعلق نہ تھا کہ یہ وہ سازش ہے جس کا کھرا” لندن “تک جاتا ہے۔
پران نیول کی طرح انہیں بھی لاہور سے عشق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم سے قبل لاہور کی کشش کا ہند سندھ میں کوئی مقابلہ نہ تھا۔ لاہور کو برصغیر کا پیرس کہا جاتا تھا۔ یہاں کلب، باغات، ٹینس کورٹس، ناچ کے مقابلے پتہ نہیں کیا کیا ہوتا تھا۔” میں گارڈن ٹان سے بھاٹی دروازے اپنے کام پر روزانہ سائیکل پر آتی تھی اور رستہ میں کوئی مجھے چھیڑتا یا تنگ نہیں کرتا تھا“۔ یہی وجہ ہے وہ ”لہور لہور اے“ کی قائل رہیں۔
فوجی ڈکٹیٹروں کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف طاہرہ کا شمار ان چند ترقی پسندوں و لبرل رہنماں میں ہوتا تھا جو مشرف کی ”روشن خیال جدیدیت“ سے بروقت آگاہ تھے۔ جب مشرف اور پرویز الٰہی وغیرہ نے جعلی روشن خیالی کے تحت ”میراتھن ریس“ کا چکر چلایا تو طاہرہ نے برملا اس کی مخالفت کی۔ وہ جدیدیت کی زبردست حامی تھیں مگر وہ جدیدیت کو معاشرے سے کٹا ہوا عمل نہیں سمجھتی تھی۔ دِکھاوے کا اسلام یا روشن خیالی سب بے فیض عمل رہتے ہیں اور طاہرہ ”پرویزیوں“ کے گھن چکر کو پہچانتی تھیں۔ بہت سے لبرلوں و ترقی پسندوں کے برعکس وہ محض سیاسی سطح پر لبرل و ترقی پسند نہیں تھیں بلکہ اپنے سماجی رویوں میں بھی اپنے خیالات کو ملحوظ خاطر رکھتی تھیں۔ وہ برملا کہتی تھیں کہ مظہر اور میں نے اپنے بچوں پر کبھی اپنے نظریات نہیں ٹھونسے۔ ان کا یہ عمل بذات خود انہیں بہت سے” سکہ بند “ترقی پسندوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کے فرزند طارق علی کو ان کے بعض تیز افکار کی وجہ سے بھٹو دور میں وطن آنے نہیں دیا تھا اور طاہرہ نے اس پر بروقت احتجاج بھی کیا تھا۔ مگر 5 جنوری 1979کو جب بھٹو ضیا الحق کی جیل میں اپنی آخری سالگرہ کا دن گذار رہے تھے تو انہیں طاہرہ کی طرف سے ”سگاروں“ کا تحفہ ملا۔ طاہرہ فوجی حکمرانوں اور منتخب جمہوری قیادت میں فرق کو خوب پہچانتی تھیں۔
دادا امیرحیدر کی طرح وہ بائیں بازو کی ”فرقہ پرستیوں“ کا حصہ نہیں بنتی تھیں اور ترقی پسندی سے وابستہ ہر کام کی حوصلہ افزائی پر کمربستہ رہتیں۔ خود مجھے بطور ایڈیٹر” عوامی جمہوری فورم “انہوں نے ایک سے زیادہ بار فون کیے اور بائیں بازو کے رہنماں کے انٹرویو چھاپنے پر مبارک بادیں دیں۔ دادا فیروزالدین منصور ، صفدرمیراور میجر اسحاق کی طرح وہ بھی پاکستانی مادری زبانوں کی زبردست حمایتی تھیں اور پنجابی زبان کو لاگو کرنے بارے واضح موقف رکھتی تھیں۔ احمد راہی کے پنجابی اشعار انہیں زبانی یاد تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے برملا پاکستانی بائیں بازو کی ناکامیوں کا اعتراف کیا اور بتایا کہ ”جیہڑا واہوے اوہی کھاوے“ تو ہمارا نعرہ تھا مگر ہم بوجوہ اسے پھیلا نہ سکے.... لیفٹ میں جھگڑے بھی شروع ہوگئے تھے۔
10 دسمبر 1942 کو جب ان کے والد سرسکندر حیات کا اچانک انتقال ہوا تو نوجوان طاہرہ پر یہ وقت بہت بھاری گذرا۔ بقول ان کے مظہرعلی خان کی موت ان کی زندگی کا دوسرا بڑا صدمہ تھا کہ اپنے دیرینہ یار کی موت کے بعد انہوں نے اپنے بچوں سے ایک سال تک اپنے آس پاس رہنے کی بنتی کی۔ ان کی اولاد میں مشہور لکھاری طارق علی نے علم و ادب میں خوب نام کمایا تو ان کی دختر توصیف حیات نے تعلیم کے میدان میں گھوڑے دوڑائے کہ باہمت طاہرہ نے برملا کہا کہ مجھے نہ تو کوئی پچھتاوا ہے نہ ہی شکایت۔بیماری کے آخری سالوں میں ان کی بیٹی توصیف حیات اسلام آباد سے لاہور شفٹ ہو چکی تھیں اور ماں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ”سنجن نگر“ کو وقت دے رہیں تھیں۔خاندان کے دیگر عزیز بھی ان کے ہمراہ تھے۔
18 سال کی عمر میں طاقت کی غلام گردشوں کو خیرباد کہنے والی طاہرہ تا عمر اپنی مست چال ڈھال پر مطمئن رہیں کہ اس اطمینان اور سکون قلب سے راہی ملک عدم ہونا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
محض حکومتوں کو الزام دینا کافی نہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ خود آپ نے اپنی زندگی میں کیا کام کیا ہے؟ ۔۔۔ سرگرم عمل رہنا میری زندگی ہے نہ کہ پیشہ۔ “کیونکہ وہ اپنی زندگی خود جیتی تھیں، اپنے فیصلے خود کرتی تھیں اس لیے ان کے ماضی و حال میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ سکندر جناح معاہدوں کی کوکھ میں پلی تحریک پاکستان کا انہوں نے ساتھ دیا اور انہیں اس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔ البتہ انہیں یہ افسوس ضرور تھا کہ محمد علی جناح کے سیاسی وارثوں نے اپنے قائد سے انصاف نہیں کیا۔
90 برس کی عمر میں طویل بیماری کے بعد وہ انتقال کر گئیں مگر جب جب اس ملک میں ترقی پسندی، خواتین کے حقوق، کمیونسٹ تحریک ، فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد اور پاکستان مادری زبانوں کی بات ہوگی تو طاہرہ کا نام اس فہرست میں 
نمایاں ہوگا۔


The link of the article published in weekly Humshehri
as some sentences are mising in weekly so above version is final file. The link is there
  JPG formate



No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...