Friday, April 17, 2015

Will Merely Huge Money Spending Solve Riddles of Education?


Will Merely Huge Money Spending Solve Riddles of Education?
Public Procurement in Education (Punjab)


Down fall of public school education in Pakistan is due to over centralization.  Till late 1950s school education was under district government but Ayub Khan centralized it. The downfall of education is not merely due to lack of funds but partly due to interventions by all 4 military dictators and partly due to absence of debate regarding education in democratically elected institutions.  If we cannot use comparatively small budgets in education properly then how can we handle huge money?  In 2007 we spend 1.5 billion rupees in printing and distributing free textbooks in the Punjab and in 2015 that amount has been increased up to 4.5 billion. It is correct that increase in money is partly due to comparatively good quality of paper & binding yet it is not enough to justify the abrupt rise at all. Textbook & Curriculum Board can share excel sheet of spending at his website.  In a seminar regarding Public Procurement in Education (Punjab) presenters shared huge gapes and the officer present in the seminar from education department had accepted those gapes. But he wanted to take credit of allocations of the Punjab government regarding education. Is it justified to increase money in the presence of such gapes? In the absence of libraries and play grounds no one can think about Public Schooling yet these are out of debate these days even in the sessions organized by development sector. It is correct that situation of public schooling is much better in the Punjab than all three provinces yet it is also correct that public schooling is deteriorating gradually. One fine example is mushroom growth of privately managed school education in Islamabad, Lhore and Karachi. These three cities are considered as examples of development in the country.  Read the reporting and analysis of seminar regarding Public Procurement in Education (Punjab). 

تعلیمی بجٹ، شفافیت اور نگرانی کا فقدان

Click and read


تعلیمی بندوبست میں تعلیمی پالیسی، نصاب تعلیم، معیار تعلیم کے ساتھ ساتھ چوتھا اہم ستون تعلیمی بجٹ ہوتا ہے۔ باقی تینوں شعبہ جات کی طرح اس پر برابر نظر رکھنا بھی لازم ہے۔ ایک مثال پنجاب میں سکول کے بچوں کو دی جانے والی مفت نصابی کتابوں پر خرچ ہونے والی کثیر رقم کی ہے۔ اس مد میں 2007 کے دوران تقریبا ڈیڑھ ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے تھے۔ 2015 تک یہ رقم چار ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ کتابوں کی چھپائی اور کاغذ کا معیار گذشتہ سالوں میں نسبتاً بہتر ہوا ہے اور آبادی کے تناسب میں بھی گذشتہ 8 سال میں اضافہ ہوا ہے مگر رقم بھی تین گنا سے زائد بڑھ چکی ہے۔ اس بارے سوال اٹھنا اچنبے کی بات نہیں۔ اگر ٹیکسٹ بک و کریکلم بورڈ والے کتاب کے صفحات کی تعداد، کتاب میں استعمال ہونے والے کاغذ کا حجم و قیمت، بائنڈنگ، طباعت وغیرہ کا تفصیلی حساب کتاب فی کتاب ویب سائٹ پر ڈال دیں تو ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ہوجائے گا۔ تعلیمی بجٹ میں شفافیت اور نگرانی بارے تحفظات پر بات کرنے کے لیے اسلام آباد کے ایک ادارے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سٹڈیز (I-SAPS) نے لاہور میں اک سیمینار رکھا تھا۔ یہ ادارہ اس طرح کی بامعنی تحقیق کے لیے مشہور بھی ہے۔ برطانیہ کے امدادی ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID) کے پروگرام ’’علم آئیڈیا‘‘ کے تعاون سے کیے گئے اس سیمینار میں سکول ایجوکیشن ڈیپاٹمنٹ حکومت پنجاب، سٹینڈنگ کمیٹی پنجاب برائے تعلیم، پی ٹی آئی، ق لیگ اور مسلم لیگ (ن) کے ممبران پنجاب اسمبلی، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی موجودگی سے تعلیم سے وابستہ مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوسکی۔ البتہ چینلوں پر ہونے والے پروگراموں کی طرح یہاں بھی اپنی باری پر نہ بولنے اور دوسروں کو ٹوکنے کی روایات بدرجہ اتم حاوی رہیں۔ - 

ڈپٹی سیکرٹری سکول ایجوکیشن قیصر رشید نے اعداد وشمار کے ذریعہ اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ پنجاب حکومت پہلے کی نسبت سکولوں کی بہتری و تعلیمی بندوبست کے لیے کہیں زیادہ تناسب سے رقم خرچ کر رہی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ سے ’’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ تک سرکاری تعلیم پر کثیر رقوم خرچ کرنے کے باوجود اگر معیار تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہورہا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مرض کی تشخیص میں کہیں خرابی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری ایک باخبر آدمی ضرور ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آج خصوصاً بڑے شہروں کے سرکاری سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کا شمار غربت کی لکیر سے نیچے والے طبقہ سے ہے۔ کیا ایسے سکولوں میں والدین پر مشتمل سکول کونسلوں سے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ لاہور کے سرکاری سکولوں کی حالت زار انتہائی مخدوش ہے۔ خزانہ گیٹ، مسلم ماڈل سکول نمبر2 ، وغیرہ کبھی لاہور کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں بھی ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر مدوں میں کثیر رقم بھی سرکار دے رہی ہے۔ مگر معیار تعلیم گرچکا ہے اور لوگ نجی تعلیمی اداروں کی طرف جا رہے ہیں۔ لاہور میں سرکاری سکولوں کو دوبارہ سے کھڑا کرنا ایک قومی مسئلہ ہے۔ کیا پنجاب حکومت کے ویژن میں اس اہم مسئلہ بارے کوئی گنجائش موجود ہے؟ - 

ایک صاحب نے گھسی پٹی دلیل پٹاری سے نکالی کہ ایم پی اے خود خواندہ نہیں تو وہ تعلیم کو کیا ٹھیک کریں گے؟ اس کا شافی جواب رانا منور نے دیا اور انہیں یاد دلایا ’’ماضی میں ہم نے بی اے پاس اسمبلی بنا کر دیکھ ہی لی ہے۔ آج کی اسمبلیاں قوانین سازی کے حوالہ سے کہیں زیادہ متحرک ہیں۔ اگر خواندگی ہی علم کی سند ٹہری تو پھر چار جماعتیں پاس رانا پھول کی اسمبلی تقریریں جاکر اسمبلی ریکارڈ سے پڑھ لیں۔ سوال محض خواندگی کا نہیں بلکہ عام لوگوں کے مسائل کو جاننے کا ہے۔ ‘‘ - 

نجی تعلیم کے حوالہ سے قانون سازی کرنا اتنا ہی اہم ہے جتنا سرکاری تعلیمی بندوبست کو راہ راست پر لانا ہے۔ مگر اس کے لیے ہمیں تعلیم کو اہم ترین قومی مسئلہ قرار دینا ہوگا - 

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...