Friday, May 29, 2015

Education Budget & Provinces?


Education Budget & Provinces


After 18th amendment it is up to provinces to ensure quality education but the case is not up to mark. In comparative analysis province of the Punjab is doing well regarding missing facilities yet standard of education still needs greater attention. Bill regarding private education still unattended in Punjab cabinet largely due to obvious reaction from tiny but strong elite school lobby. Opposition leader in Punjab assembly and other opposition parties failed to raise the issue of regularization of private sector as they too have links with elite school owners.  Equal standards in education are need of the hour but all the 4 provincial governments are reluctant to settle it. Read and unlearn

 شعبہ تعلیم کی کل ذمہ داریاں اب صوبوں کے’’ ناتواں کندھوں‘‘ پر ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں صوبوں نے اس ضمن میں کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اس بارے مفصل غیر جانبدار تجزیہ تاحال موجود نہیں۔ البتہ مؤقر اخبارات، چینلوں اور تعلیمی بندوبست پر نظر رکھنے والے چند ایک ادارے اعداد و شمار شائع کرتے رہتے ہیں۔ صوبائی خودمختاری کا راگ الاپنے والی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور اس ضمن میں ’’کھپ‘‘ ڈالنے والی مشہور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) تو ’’سو‘‘ رہی ہیں البتہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ماسوائے پنجاب تعلیمی صورتحال میں باقی تینوں صوبوں کے حالات بدستور لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ گو کہ مقتدر میڈیا میں بہت سے جانبازمسلم لیگ ن کے ’’بغض‘‘ میں ہر دم پنجاب کی تعلیمی صورتحال کو کمتر اور پسماندہ بتانے کے لیے صفحوں پر صفحے کالے کرتے ہیں مگر تعلیمی اعداد و شمار ہمارے ان اعلیٰ اذہان کی ’’نو یکلی اختراحوں‘‘ پر پانی ڈال دیتے ہیں۔ تعلیمی بجٹ کی جب بھی بات ہوتی ہے تو سارا زور بجٹ کی رقم کو بڑھانے پر رہتا ہے۔ - 
اہور،کراچی اور اسلام آباد کی تعلیم نجی سکولوں کے سپرد کردی گئی ہے تو پھربڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں۔شکست خوردہ ذہنیت کے زیر اثر سرکاری سکولوں کی معیار تعلیم کو بہتر کرنے کی بجائے یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ جب تک وزیرتعلیم،سیکرٹری تعلیم کی اولادیں سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گی تب تک معیار تعلیم ٹھیک نہ ہوگا۔اگر وزیرتعلیم یا سیکرٹری تعلیم کی اولاد پڑھائی مکمل کرچکی ہو تو پھر آپ کیا کہیں گے؟۔اچھے اچھے دانشور نماشہزادے بھی سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی مہم کی بجائے لوگوں کو محض دلفریب نعروں میں مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ماضی میں سنٹر ماڈل سکول کا معیار بلند تھا اس لیے وزیروں اور بیورو کریٹوں کے بیٹے بھی یہاں آتے تھے۔گورنمنٹ کالج لاہور یا سنٹر ماڈل سکول کا معیار اس لیے بلند نہیں تھا کہ وہاں وزیروں یا سیکرٹریوں کے بیٹے داخل ہوتے تھے بلکہ بہتر معیارتعلیم کی وجہ سے اشرافیہ کے بچے بھی انہی اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ آپ سرکاری سکولوں کا معیار بہتر کریں تو الٹی گنگا بہنی بند ہوجائے گی مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔سوال تعلیم کو سیاست سے جوڑنے کا ہے کہ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں ، ضلعی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔معیار تعلیم کے ضمن میں جو بات ہمارے تحقیقی ادارے اکثر بھول جاتے ہیں اس کا تعلق مادری زبانوں سے ہے ۔دنیا بھر کے ماہرین مادری زبانوں میں پرائمری تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں مگر ہمارے تعلیمی ماہرین بوجوہ اس اہم مسئلہ کو زیرالتواء ہی رکھنا چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی کے مراد راس، پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو اور ق لیگ کی لاہور کی سیکرٹری اطلاعات کچھ تیاری کرکے آئے ہوتے تو قمر السلام صاحب کو بھی جم کے جواب دینے پڑتے مگر صورتحال اس کے برعکس رہی۔البتہ نجی سکولوں کے حوالہ سے قمر السلام بھی لاجواب ہی رہے کہ پنجاب میں نجی سکولوں کے حوالہ سے بنایا گیا قانون تاحال ’’سردخانہ‘‘ میں پڑا ہے۔پی ٹی آئی والے بھی اس پر ’’کھپ‘‘نہیں ڈالیں گے کہ قصوریوں کی ناراضگی کا خطرہ وہ بھی نہیں لے سکتے۔پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو نے ایک شدنی چھوڑ کر حاضرین کو محظوظ کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور اک لندنی این جی او کو پنجاب کے تمام سرکاری سکول دلوانے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ جب ان کی بات مانی نہیں گئی تو انھوں نے استعفیٰ دے ڈالا۔اب پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اس لندنی این جی او کے ذریعے خیبر پختونخواہ کے پسماندہ سرکاری سکولوں ہی کو ٹھیک کروالے۔جب تک ماڑے اور اشرافیہ کے نجی سکولوں کے حوالے سے ہم کوئی قانون نہیں بناتے اس وقت تک ’’یکساں معیار تعلیم‘‘ کا مسئلہ ہمارا منہ چڑاتا رہے گا۔تاہم سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ انجینئر قمر السلام کا اصرار تھا کہ پنجاب سرکار نجی سکولوں کو مجبور کرچکی ہے کہ وہ لائق اور غریب بچوں کا 10فیصد کوٹہ مختص کریں۔یہ وہی ناقابل عمل تجویز ہے جو1979کی تعلیمی پالیسی میں منظور کی گئی تھی۔پتہ نہیں کیوں ہم دلفریب اور ناقابل عمل تجاویز پر مغزماری کرتے رہتے ہیں؟آئی سیپ جیسے ادارے کو چاہیے کہ وہ نجی سکولوں کے حوالہ سے بھی مکمل اعداد و شمار سامنے لائیں۔فیسوں،سرکاری مراعات اور بچوں و اساتذہ کی تعداد کے ساتھ ساتھ نجی سکولوں کے معیار تعلیم کا بھی احاطہ کریں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آجائے گا۔نجی تعلیم کا جتنا ’’رعب‘‘ ہے وہ ہوا ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے لیے امداد دینے والے بیرونی ادارے اوراشرافیہ کے سکول بنانے والے مقامی سیٹھ کسی ایسی تحقیق پر خوش نہیں ہوں گے نہ ہی آزاد میڈیااس کو اخبار یا چینل کی زینت بنائے گا۔نعرے لگانا آسان مگر تعلیم کے الجھے ہوئے مسئلہ کی گتھی سلجھانہ ذرا ٹیڑھا مسئلہ ہے۔اگر ان مسائل پر کوئی جرأت مندانہ فیصلے کرسکتا ہے تو وہ اس ملک کی سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔آئی سیپ کاکام قابل قدر کہ وہ سیاسی جماعتوں ہی کو اس کام میں ساتھ جوڑ رہا ہے۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11683#sthash.dVttV4s5.dpuf

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...