Time for MQM:
Either to revisit her narrative or....?
اگر وہ خود کو اعلیٰ تہذیب یافتہ وغیرہ وغیرہ کہیں گے تو پھر ان کا رشتہ یہاں کے باسیوں سے کیسے بن سکے گا؟ -
Today Sindhis/PPP has realized why MQM was supporting division of the Punjab. In order to make Karachi a separate province they can support divisions in all other provinces. It is not the only issue where the party is exposed. The drama of opposing and supporting security forces exposed MQM. Party has a case against internal migration of people from other areas to Karachi yet they never criticized centralist policies of ICS fame officers in early 1950s who compelled Pakistani State to invest in Karachi. If sweet is there than it is useless to stop flies. So from early 1950s Pakistanis came to karachi for employment and business. Due to such migration now percentage of Urdu speaking population has been reduced to less than 47%. Estimated population of Karachi is 23 million yet 12 million population consists of Pathans, Sindhis, Balochs, Kashmiris, Hazara Punjabis, Baltis, Kashmiris and Punjabis. So in such demographic situation the slogan of Karachi Province is a useless weapon. Read details why MQM should revisit her narrative ...piece written in weekly Humshehri
Click & read complete story
http://humshehrionline.com/?p=11109#sthash.gAmyvhxB.dpbsClick & read complete story
مظلومیت کی داستان ایسی مہارت سے تراشی جاتی ہے کہ آئی سی ایس افسران کی مرکزیت پسند پالیسیوں سے لے کر بھتہ خوری تک کے واقعات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کبھی انہیں بانیانِ پاکستان کا تفاخر تھما دیا جاتا ہے، کبھی انہیں لکھنؤ، اودھ، آگرہ کی عظمتیں یاد دلائی جاتی ہیں، کبھی انہیں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے باسی کہا جاتا ہے، کبھی انہیں سب سے زیادہ پڑھا لکھا کہا جاتا ہے، کبھی انہیں شہری متوسط طبقہ بتایا جاتا ہے تو کبھی اسلامیان ہند کی نشانی۔ یہی نہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہوچکی ہے۔ اس لیے یہ الگ صوبہ یا ملک بھی بن سکتا ہے۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ 1947ء سے 2015ء کے درمیان کراچی کی آبادی میں اُردو بولنے والوں کا تناسب آج 50 فی صد سے بھی کم ہوچکا ہے -
اگر مسلم لیگ ان علاقوں میں نہ پھلتی پھولتی تو مسلم اقلیتی علاقوں میں 8 یا 12 فیصد رہنے والے مسلمان کیا کر سکتے تھے؟ -
۔ اگر بانیانِ پاکستان کہلانے کا پیمانہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان بننے کے وقت گھروں سے بے گھر ہوئے، مارے گئے تب بھی ان قربانیوں کا تناسب پنجاب میں کہیں زیادہ ہے۔ -
انہیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ جب پاکستان بنا تھا تو 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا سب سے بڑا شہر لاہور اور دوسرا بڑا شہر ڈھاکہ تھا۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ اس شہر سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کی شرح اس لیے زیادہ ہے کیونکہ یہاں بہت سے قومی اداروں، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر ہیں کہ ان کی ٹیکس فائل یہیں جمع ہوتی ہیں۔ اب کمپنیوں اور بینکوں کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل ہو رہے ہیں تو کیا کل کو ٹیکس دینے والے سب سے بڑے شہر کا تمغہ اسلام آباد کو مل جائے گا۔ ایسے تفاخر کو کیا کرنا جو آج کسی کے کھاتے میں اور کل کسی کے کھاتے میں جائے۔ -
اگر وہ خود کو اعلیٰ تہذیب یافتہ وغیرہ وغیرہ کہیں گے تو پھر ان کا رشتہ یہاں کے باسیوں سے کیسے بن سکے گا؟ -
۔ آج الطاف بھائی مہاجر صوبہ کا نعرہ لگائیں یا پھر کراچی کو الگ ملک بنانے کا اعلان کریں، مگر صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے وہ متحدہ، متحدہ کا ’’ورد‘‘ کرتے رہے۔ اپنی پارٹی کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بھی رکھ ڈالا۔ یہ بھی کہا کہ ہم پر ’’جناح پور‘‘ کے نام سے الگ ملک بنانے کا الزام غلط تھا۔ یہ بھی کہا کہ وہ بھی سندھی ہیں اور سندھ کی تقسیم کے خلاف بھی ہیں، یہی نہیں بلکہ سندھی ٹوپی اور اجرک بھی استعمال کی۔ مگر جب زوال کا وقت آیا تو دوبارہ سے مہاجر اور مہاجر صوبہ کا راگ سننے کو ملا۔ -
کراچی کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ شہر درحقیقت ’’منی پاکستان‘‘ بن چکا ہے اور یہ منی پاکستان سندھ دھرتی کا جزوِ لاینفک ہے۔ ہر وہ جماعت جو ان زمینی حقائق کو مان کر سیاست کرے گی وہ شہری، دیہی سندھ کو آگے لیجانے میں حصہ دار ہوگی۔ -
No comments:
Post a Comment