Unsung Hero
A story of a vibrant political worker Islam ul Haq
Political parties owe a lot to their workers and, in the absence of vibrant political workers, they tend to become clubs. Politics in Pakistan is in disarray because political worker is an endangered species these days. Other factors of course being money and the inclusion of apolitical elements in politics that began in the 1980s, owing to the extremist policies of the ‘agents of change’.
Islam ul Haq, born on January 9, 1954 in Sahiwal, was a vibrant political asset for the left liberal forces in Pakistan. According to Professor Ijaz ul Hassan, his mentor, the 17-year-old Islam was present in the November 1967 political meeting at Lahore where Zulfikar Ali Bhutto founded his new party. From that day until his death, he remained with the Pakistan People’s Party (PPP), never losing his commitment regarding the left liberal agenda. Like many PPP workers of the late 1960s, communists groomed him but, instead of being strangled in the iron curtain of smaller left formations, he opted to swim in the ocean of people.
http://tns.thenews.com.pk/islam-ul-haq-unsung-hero/#.VU7fi44iq1t
اسلام کا شمار ایسے سیاسی کارکنوں میں ہوتا ہے جو بیک وقت بائیں بازو کے زوال کے بھی ’’ہمدردنقاد‘‘ تھے اور مقبول عام پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ پر پریشان بھی۔ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان میں نہ تو بناوٹ تھی اور نہ ہی دہرا معیار۔ بہت سے ترقی پسندوں کے برعکس وہ محض سیاسی سطح پر ترقی پسند افکار کو اپنائے نہ تھے بلکہ اپنی سماجی زندگی میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھتے تھے۔ جب اسلام نے اپنی شادی پر جہیز نہ لینے کا نعرہ مستانہ لگایا تو لڑکی والے گھبرا گئے۔ -
http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpbs
آج جو لوگ پاکستان میں نوجوانوں کے پاکستانی سیاست میں شامل ہونے بارے تجزیے کرتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ بھٹو وہ پہلا رہنما تھا جس کا ساتھ دینے نوجوان جوق در جوق نکلے تھے۔ میٹرک کے بعد اسلام گورنمنٹ کالج فار ٹیکنالوجی (رسول) آگیا جو آج کل ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہے۔ ڈپلومہ کے بعد اسلام کراچی چلا گیا اور وہیں سے بی اے کی ڈگری لی۔ 1976 میں محکمہ سوئی گیس میں ملازمت شروع کرنے سے سے قبل وہ بائیں بازو کی سیاست سے بخوبی آگاہ ہوچکا تھا۔ 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں روس چین جھگڑوں کے بعد ترقی پسند بہت سی جھتے بندیوں میں بٹ چکے تھے کہ انہیں میں ایک ’’پروفیسر گروپ ‘‘ بھی تھا۔ جس شخصیت سے اسلام تا عمر عشق کرتا رہا وہ تھے پرو فیسر اعجاز الحسن کہ انہی کے ’’وسیلہ‘‘ سے اسلام پروفیسر گروپ کے نزدیک ہوگیا۔ بائیں بازو کی جھتے بندیوں کے نزدیک ہوتا اسلام پیپلز پارٹی کا بنیادی رکن بن کر ابھرا کہ راج جگڑ کے پاس عوامی فلیٹس میں اس کا ٹھکانہ ضیاء مخالفت کی بڑی کمین گاہ تھی۔ کیونکہ وہ ہر کسی سے ملتا تھا اس لیے اس پر بائیں بازو کی فرقہ پرستی کی چھاپ نہ لگی۔ وہ تو بس یہ چاہتا تھا کہ سب رل مل کر ضیاء مخالفت تحریک کا حصہ بینں اور جمہوریت و ترقی پسندی کے لیے کام کریں۔ ملک بھر میں اس کے سیاسی دوستوں کا وسیع حلقہ موجود تھا اور جو بھی سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر سے آتا اس کے لیے اس کا فلیٹ حاضر۔ پی پی پی اور کیمونسٹوں میں تال میل کی ٹوٹتی بنتی کہانی تاحال کسی نے نہیں لکھی کہ اس تجزیہ کی آج دونوں کو اشد ضرورت ہے - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf
گھر میں بھی ترقی پسند (الگ باکس بنا چھڈو) مردوں کی اس دنیا میں کسی مرد کا صنفی برابری کے اصول کو دل سے قبولنا اور عملی زندگی میں اپنی بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل کام ہے۔ بہت سے سکہ بند کامریڈوں کو اس میدان میں شہ مات کھاتے دیکھا ہے۔ مگر اسلام یہاں بھی ’’مرد حر‘‘نظر آیا۔ اشرافیہ کے گھروں میں تو صنفی برابری وراثت میں آنے والی جائیداد کی طرح اک اضافی رعایت ہوتی ہے مگر متوسطہ طبقہ کے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں صنفی برابری کے اصول کو اپنانے سے جو مشکلات در آتی ہیں انہیں اشرافی طبقہ والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کی بیگم کے بقول وہ گھر میں روائیتی مرد نہیں تھے بلکہ گھر کے وہ کام کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے جنھیں عموماً عورتوں سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ کچن میں کام کو وہ عار نہیں سمجھتے تھے۔ اپنی بیگم کو پڑھایا اور مردوں سے بھری اس دنیا میں اسے آگے بڑھنے میں مدد دی اور پھر ثمینہ ورلڈ بنک میں ملازم ہوگئی۔ بقول ثمینہ ہمارے گھر میں صنفی برابری کا اصول نافذ رہا۔ ثمینہ مسرت کی باتیں سن کر اس بات پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ کچھ جوڑیاں آسمانوں پر ہی بنتی ہیں۔ ثمینہ کا خاندان تو عرصہ دراز سے پنجاب چھوڑ کر کوئٹہ جابسا تھا اور اسلام لاہور کی سٹرکوں پر ضیا مخالف لہر میں رجھا ہوا تھا۔ مگر کرنا خدا کا ایسے ہوا کہ دونوں کا رشتہ ہوگیا۔ ثمینہ کو ڈر کہ لڑکا کہیں عورتوں کے کام کرنے کے خلاف نہ ہو جبکہ اسلام جس سے شادی کرنے کو تیار تھا اسے پنجابی سکھانے پر کمر بستہ۔ روائیتی مشرقی لڑکیوں کے برعکس ثمینہ کو کپڑے، لتہ کا شوق بالکل نہیں تو اسلام ’’داج‘‘ لینے کو گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔ یہ مست ملنگوں کی جوڑی آسمانوں پر بنی تھی کہ کوئٹہ اور لاہور کا فاصلہ ان کے ملن کو روک ہی نہیں سکتا تھا۔ صنفی برابری کے حوالہ سے ماں اور بیٹی دونوں میں اتفاق تھا کہ اسلام دونوں خواتین کو اپنے فیصلے خود کرنے میں ہلہ شیری دیتا تھا۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf
اس ریفرنس میں بلا آخر اسلام کی بات سنی گئی کہ جب بائیں بازو کی پرانی نظریاتی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سابقہ پروفیسر گروپ کے لیڈر اور لکھاری پروفیسر عزیز الدین نے پرانی سیاست کو بدل چکے حالات کی روشنی میں بدلنے کا اقرار کر لیا۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا ’’ہمارا پرانا جنریٹر جو کبھی بہت روشنی پیدا کرتا تھا اب اس سے زیرو کا بلب بھی نہیں جلایا جاسکتا۔‘‘ میڑوپولیٹن کلب اورسوئی نادرن گیس کے محکمہ میں ہونے والی انتخابی سیاست کے ذریعہ جمہوری گنجائشوں کو استعمال کرنے والا اسلام خود کو ’’سچ کا واحد ٹھیکہ دار‘‘ نہیں سمجھتا تھا کہ اس خوبی کی بدولت وہ دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتا تھا۔ ضیا الحق دور میں سیاست میں پیسہ شامل کیا گیا کہ سیاسی کارکنوں کو کرپٹ کرنا ضیاشاہی کا مشن تھا۔ ضیاء دور میں کروائے گئے بلدیاتی انتخابات کا مقصد اختیارات کی نچلے درجوں پر منتقلی نہیں بلکہ من مرضی کے لوگوں کو سیاست میں شامل کرنا تھا۔ یہ وہی بدنیت پالیسی ہے جس پر جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے صدق دل سے عمل کیا۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوتیں دیں گئیں۔ کہیں ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرستوں کو تھاپڑا دیا تو کہیں سیاست میں پیسہ شامل کر کے سیاست کو رگیدا گیا۔ اس سب کا مقصد سیاست کو رسواء کرنا تھا۔ مگر اسلام الحق پر اس سب کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے انداز میں اس عمل کو گہرائی میں سمجھتے ہوئے اس کے خلاف نبرد آزما رہا۔ وہ سیاست میں پیسہ کے وارد ہونے اور سیاسی کارکنوں کے کرپٹ ہونے کا بھی گواہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ بائیں بازو کی انتہاپسندیوں اور پیپلز پارٹی کی کوتاہیوں پر نظر رکھنے والا اسلام یہ بات سمجھ چکا تھا کہ سیاست میں پیسہ داخل کرنے کا مقصد سیاست سے عوام کے کردار کو نکالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf
انسانوں اور فرشتوں میں یہی فرق ہے کہ انسانوں میں خوبیاں اور خامیاں دونوں ہی ہوتی ہیں۔ اسلام بھی غلطیوں یا خامیوں سے مبرا نہیں تھا مگر اس کی خوبیوں نے اس کے گھاٹوں پر پردہ ڈال دیاہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں رضا کارانہ کام کے جذبے دم توڑ رہے ہیں اور سیاست بین الاقوامی امدادی اداروں کی مرہون منت ہوتی جارہی ہے وہاں آج بھی اسلام جیسے بہت سے کارکن اس ملک پاکستان میں موجود ہیں۔ بہت سے مایوس ہیں، کچھ ضد میں ٹھک ٹھک کر رہے ہیں، کچھ روٹی روزگار میں رجھے ہیں کہ سیاست میں جو بے توقیری آج نظر آرہی ہے اس کی فکر اسلام کو کھائے چلی جاتی تھی۔ آخری ملاقات ’’میٹرو پولیٹن کلب‘‘ میں ہوئی کہ اسلام ایک دفعہ پرپھر ’’منگل گروپ‘‘ بنانے میں سنجیدہ نظر آیا۔ یہ گروپ ضیا شاہی کے خلاف چلایا جانے والا اک مورچہ تھا۔ اسلام سمجھتا تھا کہ بائیں بازو کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے کھڑا کرنے کے لیے اسی طرح جدوجہد کرنی چاہیے جیسے 1960 کی دہائی کے آخر میں انھوں نے کی تھی۔ وہ برملا کہتا تھا کہ پاکستان میں ترقی پسندی کا سب سے بڑا مورچہ پی پی پی ہے اور بائیں بازو کے لوگوں کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بچانے کی بجائے اس مورچہ کو سنبھالنا چاہیے۔ اسے ایسے ترقی پسندوں سے چڑ تھی جو جمہوریت کے خلاف آمروں کی زبان بولتے ہوں۔ ’’موجود‘‘ کو بدلنے کی خواہش کا مسافر اسلام الحق اس سفر میں اکیلا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر ضلع میں ایسے ’’گمنام ہیرو‘‘ موجود ہیں جنھوں نے نہ تو کبھی سیاست سے مالی منفعت کمائی ، نہ کسی انعام کے حصول کے لیے دوڑے اورنہ ہی لیڈر ی کے لیے چا کر ی کی۔ بس اسلام الحق منگل گروپ کی شکل میں ان گمنام سپاہیوں کو اکٹھا کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے راہی ملک عدم ہوا۔ اسلام الحق کی کہانی ہم میں سے بہت سوں کی داستان ہے کہ آج اس 57 سالہ کو دوبارہ سے کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11327#sthash.BYJ9aizs.dpuf
No comments:
Post a Comment