Saturday, May 16, 2015

Pakistan: Coastal Policy & New Narrative

Pakistan: Coastal Policy & New Narrative


Our coastal belt started from Lhori Bandar and via Karachi it ends at Gwadar, covers 1050 km long area. Issues related to Karachi and Baluchistan especially Gwadar largely linked with politics of coastal belt.  Presence of huge non-formal economy reminds us FATA yet unlike frontier we have not an in-depth coastal policy. Interestingly in his famous address Allama Iqbal pinpointed it 85 years back in 1930 yet our policy makers followed Simon Commission report instead of Iqbal.
Again, it is significant that the Simon Report has given extraordinary importance to the question of India's land frontier, but has made only passing references to its naval position. India has doubtless had to face invasions from her land frontier; but it is obvious that her present masters took possession of her on account of her defenceless sea coast. A self-governing and free India will, in these days, have to take greater care of her sea coast than [of her] land frontiers.
Sir Muhammad Iqbal’s 1930 Presidential Address to the 25th Session of the All-India Muslim League Allahabad, 29 December 1930

Feroz Khan Noon purchased Gwadar in September 1958 yet next month Gen Ayub imposed marshallah. At first July 1977 Gwadar was included in newly formed Balochistan province by Bhutto yet he was removed after 4 days. The story of coastal belt and hidden trade base politics needs little attention. Read and unlearn

محض الطاف حسین کو اِدھر اُدھر کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی کو کراچی کے تحت پر بٹھانے سے کراچی کا امن بحال ہوگا۔ یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مفصل ساحلی پالیسی، ریاست کی رٹ کی عملداری، غیر رسمی تجارتوں کی رسمی تجارتوں میں منتقلی اور منتخب قیادتوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت ہی وہ راستہ ہے جو کراچی تا گوادر امن کا ضامن بن سکتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ہماری کوئی ساحلی پالیسی ہے بھی یا نہیں؟ ٹھٹہ کے قریب لہوری بندر سے براستہ کراچی، اورماڑا، گہرے سمندر میں بنی گوادر کی قدرتی بندرگاہ تک ایک ہزار 50 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی امریکہ، چین کی طرح پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کیوں نہ بن سکی؟ اس سوال کو جاننے ہی سے آپ کو بلوچ لبریشن آرمی سے ایم کیو ایم تک پھیلی جماعتوں کی سیاست سمجھ آسکتی ہے۔ - 

آج سے ٹھیک 85 برس قبل اپنے تاریخی خطبہ الہٰ آباد میں اس ساحلی پٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہاتھا ’’اس بات کی اہمیت دیدنی ہے کہ سائمن رپورٹ برصغیر کی زمینی سرحدوں کو غیر معمولی اہمیتوں کی حامل قرار دیتی ہے مگر اس کے ساحلی مقامات کے بارے میں معمولی سا اشارہ کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس بات میں تو شک نہیں کہ برصغیر پر بہت سے حملے زمینی سرحدی علاقوں ہی سے ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے موجودہ آقا اسی لیے ہم پر قابض ہوئے تھے کیونکہ ہمارے سمندری ساحل ناقابل دفاع تھے۔ آزاد و خود مختار برصغیر کو سرحدی علاقوں کے مقابلہ میں سمندری ساحلوں کے علاقوں کی زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔‘‘ - 

اب ذرا غور کریں تزویراتی گہرائی (Strategic depth) کے سارے نظریہ میں سائمن کمشن رپورٹ کی تقلید نظر آتی ہے کہ سارا زور زمینی سرحدوں پر ہے اور ساحلی پاکستان کا ذکر گول۔ پھر بھی ہمارے سول و عسکری پالیسی ساز اگر یہ کہیں کہ ہم 67 سالوں سے آزاد و خودمختار ہیں تو اس پر کون یقین کر سکتا ہے؟ اہم ترین قومی پالیسیوں کے حوالہ سے اگر ہم آج بھی ’’برٹش انڈیا‘‘ کے ڈھول کو بجانے پر مصر ہیں تو اس کا الزام کس پر دیا جائے؟ - 

19 ویں اور 20 ویں صدی کی بین الاقوامی تجارتوں میں سمندری تجارتوں کا حجم تیزی سے بڑھتا چلا گیا تھا کہ 1869 میں نہر سویز کے سمندری شارٹ کٹ کے بعد بحرہند کی تجارتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب بحر روم سے بحر ہند یا بحر ہند سے بحر روم تجارتی جہاز بحراحمر کے وسیلہ سے آنے جانے لگے۔ اب ان سمندری راستوں پر موجود شہروں اور خلیجوں (گھاٹ) کی اہمیت بھی بڑھنے لگی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 1947 کے بعد ہم اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اپنی ساحلی پالیسی بناتے مگر ہم سائمن ہی کے اسیر رہے۔ امریکہ اور چین میں ترقی کی رفتار بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے اپنے ساحلی شہروں کو کسی مذہبی،لسانی، قومیتی تفریق کے بغیر بے پناہ ترقی دی۔ 1971 سے قبل پاکستان کے پاس خلیج فارس، خلیج دیبل اور خلیج بنگال تک رسائی تھی مگر ہم نے خطبہ الہٰ آباد سے رجوع کرنے کی بجائے سائمن سے رجوع کیا۔ 1970 کے بعد تیل کی پیداوار میں اضافہ کے بعد تو خلیج فارس کی اہمیت دیدنی ہوگئی مگر ہم بدستور اونگتے رہے۔ چین نے اپنی ساحلی پالیسی پر انہی سالوں میں دوبارہ غور شروع کیا۔ 1978 میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس پالیسی کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور 1984 میں چین 14 نئے ساحلی شہر بسانے کے منصوبے شروع کر چکا تھا۔ - 

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...