Monday, December 26, 2016

Progressive Politics in Pakistan: Discussions with AWP President Fanoos Gujjar @ LOk Lhar Radio show at FM103





Progressive Politics in Pakistan and AWP

Lok Lhar Radio Show recorded at 26th December 2016 @ Mast FM 103, Lhore.
Guests: Fanoos Gujjar (President AWP), Zahid Pervaiz (Senior Leader AWP) and Salah Rauf (Women Secretary AWP, Punjab)
Class question still the prime thing in our struggle and without compromising on class struggle we raise issues like national question, rights , decentralization etc. After 18th amendment it was duty of the provinces to form Provincial finance commissions but it did not happen.PTI and JI amended local bodies law against peasants. Buleh Shah and Mian Muhammad Baksh are still symbol of humanity and as my mother tongue is Gojari ( a dialect of Punjabi) so i understand their poetry well. I was born in 1958 in a Gujjar family at Shangila district yet my parents were settled at Bonaier later on. I also had a long association with Lhore where i did my metric too.  Without challenging the elite of all provinces and of all nationalities and areas it is not possible to get success regarding people's rights.

a video Clip of Fanoos Gujjar in Gojari dialect Punjabi



Zahid Pervaiz A leader of AWP and Ex President AWP Lhore taking about rise and fall of Left in LOK LHAR Radio Show


Another clip of Fanos Gujjar President AWP at Lok Lhar program



Listen the Complete Radio talk at https://clyp.it/0lgaqynt

لوک لہر، ریڈیو شو، ایف ایم 103
26 دسمبر 2016
پاکستان وچ ترقی پسند لہر اتے عوامی ورکرز پارٹی
گل بات فنوس گجر صدر عوامی ورکرز پارٹی ، زاہد پرویز سنئیر رہنما وسابق صدر AWPلہور اتے صالح روئف وومن سیکٹری،پنجابAWP
اج دے سوال
۔پاکستان وچ ترقی پسند سیاست دی کیہ صورتحال ہے؟
۔ کیہ ترقی پسند سیاست قومیتی سیاست دے تھلے لگ کے چل سکدی ہے؟
۔ترقی پسند سیاست دا ماڑا حال کیوں ہے؟
۔عوامی ورکرز پارٹی کیہ کررہی ہے؟
۔کیہ عوامی پارٹی مسلح جتھے بندیاں دی سیاستاں تے یقین رکھدی ہے؟
۔ کیہ اے ڈبلیو پی پاکستان دے آئین نوں منیندی ہے۔ 
۔کیہ اے ڈبلیو پی قوماں تے زباناں نوں لڑاؤن دے ضیا الحقی فارمولے تے عمل کردی ہے؟
۔کیہ ماضی وانگ ترقی پسنداں پنجابی نوں نہ منن دی قسم کھائی ہوئی ہے یا فیر اج اوہ پنجابی زبان نوں منیندے نیں؟
۔کیہ جوگی، صوفی ریت دے صلح کل دے نظریے نوں اے ڈبلیو پی لے کے چلے گی؟

Friday, December 23, 2016

Listen Lok Lhar Radio Show Christmas Spacial and understand Issues of religious minorities in Pakistan





Listen Lok Lhar Radio Show Christmas Spacial and understand Issues of religious minorities in Pakistan


The Bill ''Protection of Minorities'' was initiated by a Muslim League Functional minority member and at that time Mian Mitho incident was in news. After discussions Sindh assembly adopted it as law unanimously. But after that some circles started campaign against it. Finally Nisar Khurro released a statement that we are ready to review. Apparently there was not any big pressure on PPP but why PPP retreated from that law is still a mystery and may unfold in near future. The most interesting turn came in this drama when Asif Zardari himself called jamat Islami head and confirmed his party's retreat regarding the bill. As par facts the bill is with governor Sindh for final approval. Just a week before this it was Bilawal Bhutto was busy in campaigns to revive liberal image of the party. He attended Dewali, he criticized honor killing and then he took the credit of the bill for protection of minorities yet now power politics ruined all. When we recorded this show at december 19, there was no news of Zardari Siraj ul haq talk but Nisar khurro had issued his statement regarding retreat. Listen the program yourself      
The discussion in the radio show covered politics of the Bill passed in the Sindh Assembly and its effects along with role of religious minorities in peace and development in Pakistan. Hafiz Rashid Mahmood, Director Kutchi abbadi authority Punjab, Paster Shakil bhatti and Bible teacher Shinila Joghnson were the guests. program was recorded at december 19, 2016 at Mast FM 103, Lhore.
Link of the recording of Radio show https://clyp.it/mhsyc3ou

جیویں اساں عید میلاد النبیؐ منائی انج ہی سب رل مل حضرت عیسیٰ علیہ السلام دا دن منائیے۔حافظ راشد محمود



Friday, December 16, 2016

1971:Story of Pro-China United Bengal unsuccessful movement of Nexalites ..





جدوں وی اساں مشرقی پاکستان توں بنگلہ دیش بنن تیک دے حالات دا جائزہ لیندے ہاں تے عمومی طور تے دو دھڑیاں وچ ونڈ کے ایس سارے عمل نوں ویکھدے ہاں۔ اک اوہ جیہڑے پاکستان توں مشرقی پاکستان نوں وکھ کرنا چاہندے سن اتے دوجے اوہ جیہڑے مشرقی و مغربی پاکستان نوں اکٹھا وکھنا چاہندے سن۔ اجہے تجزیاں وچ اساں اک پاسے بنگلہ قومی تحریک نوں ویکھدے ہاں تے دوجے پاسے پاکستانیت والے نیں۔ ایس طرحاں دی تقسیم غلط فہمیاں نوں ودھاندی ہے۔ تاں مارے تہانوں اک ہور رنگ وکھارہے ہاں پئی تسی جان سکو کہ گراؤنڈ تے 1971وچ ہور کیہ کیہ ہورہیا سی۔

ایسے طرح دا اک گروپ مغربی بنگال دے پنڈنکسل باڑی وچ 1967توں بننا شروع ہویا۔ایہہ پنڈ دارجلینگ وچ پہاڑی سلسلیاں نال سی۔دارجیلنگ دی سٹریٹجک اہمیتاں ہی ایس لہر نوں چکن دا سبب بنی۔دارجلینگ ، نیپال، سکم تے بھوٹان دا ہمسائیہ اتے ناگا لینڈ، میزورام، آسام تے تری پورہ نوں بھارت نال جوڑن دا اکلا رستہ۔تسی فاٹا ہی سمجھ لو ایس نوں۔شروع وچ نکسل باڑی والے مغربی بنگال وچ سی پی آئی ایم دی رلویں سرکار تے دبا پاندی رہی پئی اوہ لینڈ ریفارمز کرن۔جس طرح بعد وچ نیپ(ولی) تے ہشت نگر والیاں دبا پایا سی۔ ایس دبا بعدوں نکسل باڑی سی پی ایم توں وکھری ہو گئی۔سی پی ایم آپدے رسالیاں وچ نکسل باڑی نوں سی آئی اے دے ایجنٹ لکھیا اتے سی پی آئی انہاں نوں لیفٹ ایڈونچرسٹ آکھیا
Read the Complete Article

Thursday, December 15, 2016

16 December One Date Two Incidents: Are we ready to revisit?


  انکاری صورتحال سے نکلنے کا دن16 دسمبر... مگر
اگر ہم نے 16دسمبر1971سے سبق سیکھا ہوتا تو یقیناًہم 16دسمبر2014سے بچ جاتے 

Listen the report of MastFM103 about two incidents and one lesson...

آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہو یا 16 دسمبر 1971کا دن کہ ان دونوں میں ایک مماثلث ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتے 
ہیں کہ حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ نہ تو کبھی ماضی میں اچھا نکلا ہے نہ ہی آئندہ کبھی نکلے گا۔ ہمیں ہر صورت انکاری صورتحال سے آگے بڑھنا ہے۔ پاکستان کی رنگارنگی کو قبولنا اور مذہبی انتہا پسندیوں کو پالیسی سازی سے نکالنا ہی وہ عزم ہے جو اس دن کو زحمت سے رحمت میں بدل سکتا ہے۔ یہی ہے وہ ویثرن جس کی آج ہمیں ضرورت ہے۔جہوری تسلسل کے بغیر یہ دشت پاٹا نہ جائے گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب یہ بیان تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ میں خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ یہ جس ’’ارادہ‘‘ کی بات کی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی بیانیے ہی پر تشکیل پایا ہوتا ہے اور جب وہ بیانیہ ٹوٹتا ہے تو نئی راہیں کھلتیں ہیں۔ یہی عمل روشن خیالی و ترقی پسندی کی بنیاد ہے کہ صدیوں سے انسانوں نے جب جب پرانے بیانیوں کو چھوڑ کر نئے راستوں کو اپنایا ہے اس کو تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا گیا ہے۔مگر یہ عمل تکلیف دہ اور کٹھن ہے کہ پرانے خیالات اور ان سے وابستہ ارادوں کو تج ڈالنا جوئے شیر لا نے سے بھی مشکل ہوتا ہے۔
16دسمبر کو دو واقعات ہوئے تھے، دونوں کا تعلق اس سر زمین پاکستان سے ہے اور دونوں میں ہمارے پرانے بیانیوں کے مہلک اثرات نمایاں کہ غور کرنے والوں کے لیے اشارے کافی ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ 16 دسمبر 1971 کا ہے جبکہ دوسرا واقعہ 16دسمبر 2014۔ ایک عبارت ہے لسانی، ثقافتی و قومیتی رنگانگی کے انکار اور صوبائی خود مختاری سے بیجا خوف سے جبکہ دوسرا عبارت ہے پالیسی سازیوں میں مذہبی و فرقہ وارانہ ترجیحات کو مقدم رکھنے سے۔ ایک کا کھرا مرکزیت پسندی کی طرف نکلتا ہے تو دوسرے کا کھرا مذہبی قوم پرستی کی طرف کہ اب اس پر دوبارہ سے غور کرنے کا وقت ہے۔
افتاد یا زحمت کادر آنا تو زندگی کا حصہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر افراد یا قوموں سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اگر غلطیوں کی وجوہات کا نکھیڑا کر لیا جائے اور اپنی کو تاہیوں کو ہٹ دھرمی سے بچتے ہوئے تسلیم کرلیا جائے تو پھر نئے راستے کھلنے لگتے ہیں۔
بقول غالب مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں کہ اصل چیلنج تو زحمت کو رحمت میں بدلنا ہے۔ مگر جو سازش کے بیانیے کو ہی مقدم جانتے ہیں اور اپنی کو تاہیوں کا جواز خوارج کے عزائم میں ڈھونڈنے میں غلطاں رہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں اپنے گریبان میں جھانکنا قدرے مشکل امربن جاتا ہے۔ وطنی ریاستوں کی دنیا کی منطق اپنی کہ اس میں نہ تو کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن ۔ملکوں کے تعلقات تو مفادات کی سا نجھ یا لڑائی پر استوار ہوتے ہیں۔ یہ گاہک اور دکاندار جیسا رشتہ ہے جو لین دین پر چلتا ہے۔ اس میں سازشیں، محبت، خفیہ و کھلی جنگیں سب چلتاہے۔ نہ ہم اس سے مبّرا ہیں نہ کوئی اور ریاست۔ وطنی ریاستوں کی اس دنیا میں کھلی سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اگر آپ نے زحمت کو رحمت میں بدلنا ہے تو آپ کو محض سازش کے بیانیے پر انحصار کو تج ڈالنا ہوگا۔ اقبال نے کہا تھا ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔ مگر جن بیانیوں سے ہم نے اس مٹی کو ’’نم‘‘ کی بجائے ’’سخت‘‘ (متشدد) کرڈالا ہے تو اس میں دھرتی کا تو کوئی قصور نہیں۔ 16 دسمبر کا دن اس لیے یادرکھنا چاہیے کہ سال میں ایک دفعہ ہم اپنے گذرے ہوئے کل پر نظر ڈالنے کے لیے خود کو بحثیت مجموعی بھی تیار کریں اور انفرادی سطح پر بھی اسرنو اچکتی نگاہ ڈالیں۔اگر ہم نے 16دسمبر1971سے سبق سیکھا ہوتا تو یقیناًہم 16دسمبر2014سے بچ جاتے۔ جب بھی کوئی انہونا واقعہ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں مجموعی طور پر دو طرح کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے ۔ یا تو ہم سازش کابیانیہ بناتے ہیں یا پھر خود کو کوسنے ہی تک محدود رہتے ہیں۔ 16دسمبر کا دن اپنی خوبیوں اور خامیوں کا گراف بنانے سے مزین کرلیں تو پھر ایسی اعتدال پسند پالیسیوں سے ہم زحمت کو رحمت میں بدلنے کے قابل ہوجائیں گے۔ایک وقت تھا جب یہی مذہبی انتہاپسندی ہماری افغان و بھارت پالیسیوں کا جزولاینفک تھی۔ ہم پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامیان ہند کی بقاء کے لیے انہیں ضروری گردانتے تھے۔ فوجی تربیتوں سے نصابی کتب تک اس کا چلن عام تھا اور گذشتہ 5 دہائیوں میں اس کا رنگ ہر شعبہ زندگی پر گہرے نقوش ڈال چکا ہے۔ 9/11 کے بعد ہم اپنی دہری پالیسیوں کے تحت کبھی انہیں بچاتے رہے تو کبھی پھساتے رہے کہ بلا آخر 2014میں ضرب عضب ان کا مقدر ٹہرا اور پھر اگلے برس قومی ایکشن پلان منظور ہوا۔ اگر ہم پرانے بیانیے کو بدلنے پر تیار نہیں تو پھر ضرب عضبوں اور قومی ایکشن پلانوں کا فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ ریاستی پالیسیوں میں جب تک مذہبی و فرقہ وارانہ ترجیحات مقدم رہیں گی تب تک ہم پرانے بیانیے ہی میں مقید رہیں گے۔اس پرانے بیانیے کے انڈے بچے فوجی تربیت سے نصابی کتب تک پھیلے ہیں کہ 16 دسمبر کو اگر ہم پرانے بیانیے کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں بدلنے کا ارادہ کر لیں تو پھر یہ دن رحمت میں بدل جائے گا۔
16 دسمبر کا دن ہمیں ہر سال چڑاتا رہے گا کہ یہ شب تار کی علامت ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اس شب گذیدہ سحر کو بدل سکتے ہیں۔ مگر اس کی اولین شرط یہی ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر
ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔

Monday, December 12, 2016

Where is Hamud ur Rahman Report? East Pakistan Crisis (Part 2)

Where is Hamud ur Rahman Report?

East Pakistan Crisis (Part 2)

In the first part http://www.dawnnews.tv/news/1047643/28nov2016-saqoot-e-dhaka-aur-henry-kissinger-ka-jhoota-sach-aamir-riaz-aa-bm I tried to deconstruct international politics of that time and it was also a response to twisted interview of Henry Kissinger while in current piece I tried to unfold its internal part. It is important to learn from history but it is painful too. 


Further readings



  

Saturday, December 10, 2016

10-December :Human or Humour Rights..Selective Human Rights is a denial

10-December :Human or Humour Rights

Selective Human Rights is a denial 

Double standards regarding Human Rights is counter productive for the spirit of International Human Rights Charter 1948. If H R is a weapon in foreign policy initiatives of powerful States or their agencies then it is hard to protect global human rights efforts. How we use H R issues during Cold war and in post Cold War is not an healthy example at all. The case of Libya is among the recent bad examples in this regard and President Obama rightly called it a ''Shit Show". Why numerous Human Rights organizations became part of that Shit Show is a multi million question. It is time to RETHINK for once.



Monday, December 5, 2016

Jogi-Sufi Traditions of the Punjab: A Radio Talk with Ishwar Dayal @ FM 103 Lhore


Jogi-Sufi Traditions of the Punjab

Listen A Radio Talk with Ishwar Dayal @ FM 103 Lhore recorded at December 5, 2016

Guest Ishwar Dayal Gaur, Punjab University Chandi Garh , Zubair Ahmad and Nain Sukh
Along with Afzal Saahir and Aamir Riaz

Author of "Forgotten Makers of Punjab", poet, historian, Ishwar is in Lhore these days and we invited him in our weekly regular radio show. First watch his video clips first









Thank you Sindh but PPP has to replicate same spirit in other provinces especially in the Punjab

Thank you Sindh

But PPP has to replicate same spirit

in other provinces especially in the Punjab

Aikta Day will help new & old, Muslim and Non Muslim Sindhis to unite and work for the province and the country but if PPP do not replicate in other 3 provinces it will push the party in narrow lanes. it is important to rethink about the policy especially regarding the Punjab ...read the piece published in the Wichaar


جداں ایاز لطیف پلیجو، فاروق ستار، رضا ربانی، شہلا رضا، شاہی سید، قادر مگسی اتے ہندو، مسیحی، نوے پرانے سب سندھی ایکتا دے مظاہرے کریندے نیں اتے ایس نال سندھ تے پاکستان دونوں تگڑے ہوندے نیں۔
ایہی اوہ دیہاڑ ہے جداں سندھ توں باہر بیٹھے سندھی وی آپ نوں سندھ دا حصّہ سمجھدے نیں اتے اند روالے سارے دھڑے وی اک دوجے نیڑے ہوندے نیں۔ اجہے دیہاڑ مناون نال فرقہ پرستیاں ہی نہیں سگوں شہری پینڈو(سندھی اْردو) جیہڑیاں خلاف بھر واں مورچہ لگدا ہے۔ 2009 توں ایہہ دن منانا شروع کیتا گیا سی ، شروع وچ کجھ جگادریاں مذاق وی اڈایا پر ایہہ ہن سندھ دی شناخت بن گیا ہے اتے ناقداں وی در وٹ لتا جے۔ پیپلز پارٹی ایس دی موڈھی ہے اتے کلچر ایس دا ڈومین ہیگا۔ جے اوہ ایہو کم دوجے صوبیاں وچ وی کرے اتے انہاں صوبیاں نوں وی آپس وچ جوڑن دی پالیسیاں بنائے تاں ایس گل دا فیدہ پی پی پی نوں ہوسکدا ہے۔چیتے رہوے پئی نو آبادیاتی حاکم اتے انہاں توں بعدوں ڈکٹیڑاں دھرمی ونڈاتے فرقو تے لسانی پاڑاں نوں ہمیش ودھایا سی۔ اوہ صوبیاں نوں لڑاندے تے صوبیاں اندر اختلافی گلاں نوں ودھاندے سن۔پر پی پی پی چاراں صوبیاں دی زنجیر جے اتے ایہہ سندھ وانگ تینوں صوبیاں وچ آپدی پالیسی نوں صوبیاں اندر سانجھ نال جوڑے، ایہو اس دا پلس پوائنٹ ہے۔ اہمیتاں ایس گل دیاں نیں پئی پی پی پی آپدی پھسڈی پنجاب پالیسی نوں چھڈے اتے بھٹو وانگ پنجابیاں دے دل وی جتن دا آہر کرے۔

Saturday, December 3, 2016

European Conflicts:Racist Rightest Nationalists (RRN) are ready to break EU?


European Conflicts

Racist Rightest Nationalists (RRN)

are ready to break EU?

Russians are making jokes of Europe because it itself invited them since Brexit. There is a history of quarreling European countries since ages. Now a days they are worried from immigrants and globalization but in past there were other issues. Main infighting is among Germany, France and Britain but it is a recorded fact that their infighting always proved counterproductive for Europe. 
Read the article by clicking HERE

 

Wednesday, November 30, 2016

Read, Write and Support Punjabi News Web Portal


Read, Write and Support Punjabi News Web Portal

This News web portal is a resource of Punjabi at cyber space and needs your attention. It is a modest initiative started by Manzur Ijaz who is based in Washington, US. From last two weeks I, as editor trying to manage it with the help of friends i-e Zubair Ahmad, Nain Sukh, Kashif Bukhari, Abbas Ali saddiquee , Mr Abdul Hafeez , Sajid Ch and many more. As a matter of fact this web portal is in three languages Punjabi, Sindhi and English and publishing Punjabi things in Gurmukhi & Shah Mukhi. 

You can click and read it at www.wichaar.com

we need support of friends in many ways. You can Read it, You can write for it and you can support this initiative.

Feel Free to contact me at aamirriaz1966@gmail.com 


Monday, November 28, 2016

Twists of Kessanger and Lessons?


Twists of Kessanger and Lessons?

Fatal Results of China Containment Policy
مگر چین کو روکنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہمارا پورا خطہ برباد ہوا۔ ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور انتہا پسندیاں قومیتی و مذہبی لبادوں میں مضبوط ہوئیں جس کا پھل آج پورے خطے میں جگہ جگہ دستیاب ہے۔

بھارت کو بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کھیل کے دوران متحدہ بنگال کی تحریک مضبوط نہ ہو جائے۔ اس کی نظر برابر اس پر تھی۔ بھارتی افواج دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بنانے نہیں بلکہ متحدہ بنگال کی تحریک کو کچلنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تھیں۔
پاکستان پر حملے سے چند ماہ پہلے راتوں رات مجیب باہنی کھڑی کی گئی جس کا مقصد صرف اور صرف متحدہ بنگال کے حامیوں کو مارنا تھا، جو سب کے سب چین نواز تھے۔ اگر چین نواز متحدہ بنگال ہی بنانا تھا تو پھر پاکستان توڑنے کی مہم کیوں شروع کرنی تھی۔

اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن مناتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اخباروں کے ایڈیٹرز سے ملاقات میں اس باکمال تجویز کا تذکرہ کیا جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہی بات پختونوں کو ایک اور انداز سے بیچی گئی۔ ایک پختون کمیونسٹ کی کتاب ”فریب نا تمام“ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔
جمعہ خان صوفی نے اس کتاب میں ولی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب 1968 میں ایوب دورِ حکومت کے دوران گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑوا لو۔ جمعہ خان صوفی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش گروپ) میں تھے۔ بقول جمال نقوی یہ گروپ 1967 میں ہی بنگالیوں کی علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکا تھا


Read Complete story published @ Dawn Urdu







News of Interview
https://jang.com.pk/print/220236-todays-print

East Pakistan would be given independence, Pak president told US in November 1971




Saturday, November 26, 2016

To be in one party means foolishness these days but Badar....read

To be in one party means foolishness these days but Badar....read
Badar never ditch the party in rainy days neither during infamous PNA movement like Dr Mubashir Hassan, Aitazaz Ahsan etc, nor in the heydays of Zia like G M Jatoi or stabbed the party like Farooq Laghari, or joined Mushraff like Faisal Saleh Hayat, Rao Sikandar etc or degenerated from left of the centre to right of the centre like Shah Mahmood Qureshi, Shafqat Mahmood but he stood with PPP till his death. He faced many hardships especially after 2008, but he could not join PTI because of his bottom line. He had many weaknesses but one has to analysis him along with his qualities. In this so-called smart but clever world it may be attributed as foolishness but among people it is still consider as a grace.  
Read the piece


Further Readings




Hot Water Syndrome: A twisted Colonial legacy that ruined region

Hot Water Syndrome

A twisted Colonial legacy that promoted

Extremism and ruined region

Pakistan allows Russia use of Gwadar Port. Is it end of the twisted policy of Hot Water Syndrome? Will Pakistan change its twisted narrative, inherited from colonial masters? Read the story at
  1. Combating communism with religion...A bad colonial policy that ruined whole region
  2. Twisted colonial policy and anti Russia narrative...a bad legacy that created room for extremism in many ways
  3. How colonial masters promoted Political Islam is recorded by the author of MI-6 Keith Jefarry
  4. Colonial masters were against Russians when they were not communists and they remained against Russians when they opted for communism.
  5. Roots of misleading scholarships penned to combat communism
  6. After 1947 both Pakistan and India had tried to join US camp but in order to combat Russia it was US that rejected India and allowed Pakistan to join it. Kanji, wrote the story well
  7. Using politics to protect religion...A Gandhian twist
  8. When Charles Metcalf visited Ranjit Singh in 1809 he told Maharaja that British forces wanted to go to Afghanistan and beyond so Punjab should give them support but visionary Ranjit refused.
  9. Macaulay in his famous minutes of 1835 mention Russia and that paragraph is a proof  of what was cooking in their minds even in mid 1830s.


Tuesday, November 22, 2016

What Zardari could not say ..is more important


What Zardari could not say
..is more important

Recent Interview of Asif Zardari once again provoke many things but what he did not said looks more important then what he said. But regarding failure of PPP he has no excuse and it will be good if he accept it publicly.  New leadership is need of the hour for the PPP.  Appointment of Qamar Zaman Qaira and Nadeem Afzal Chan is good and Bilawal is taking lead gradually. PPP is in much weaker position as compare to 2008 especially in Khyber PK and the Punjab while Sindh party and the government failed to get any tangible success so far . It is the real challenge. read the piece



FURTHER READINGS




Friday, November 18, 2016

Important news November 11 to 19




19 November
ٹرمپ، امریکہ اتے پاکستان: شفقت خان دا ٹرمپ دی جت اُتے اس دے اثراں بارے لیکچر

’’ہنیرے دا اک عہد‘‘برٹش سرکار نوں معافیاں کیوں منگنیاں چاہیداں نیں؟ ششی تھارور

پشاور: عوامی نیشنل پارٹی دے لیڈر اتے سابق سینیٹر حاجی عدیل پور ہو گئے۔ اوہناں دا شمار اوہناں چند ہندکو (پنجابی) بولن والے خانداناں دے وڈکیاں وچ ہوندا ہے جیہناں ساری حیاتی چار سدہ دے خاناں نال گزاری۔ اک ویلا اوہ سی جدوں عدیل ہوری اسفند مخالف لابی دے وڈکے سن جس دی لیڈر بیگم نسیم ولی خان سی۔

کل ڈان اتے اج ٹائمز آف انڈیا نے پاکستانی سینٹراں دے خدشیاں نوں خبراں دا حصہ بنایا ہے۔ حیران کن گل ایہہ ہے پئی ایم کیو ایم دے کرنل (ر) سیّد طاہر حسین مشہدی اتے جماعت اسلامی دے سینٹر سراج الحق یکدم اکو زبان کیوں بولن لگے یں؟ آخر ایہناں نوں ڈر کس چیز دا ہے؟ ایہناں پہلاں تے کدی ایہہ گل نہیں کیتی پر راتوں رات ایہناں کیہڑا خواب ویکھیا ہے؟


17 November
مشرف معصوماں وانگ اسلحے دے ڈیلر برگیڈیئر اعجاز تے سعودی عرب دے بادشاہ عبداللہ دے ناں لتے۔ اوہ صاف دس رہے نیں پئی دال وچ کالا نہیں سگوں پوری دال ہی کالی ہے۔

۔ اک زمانہ سی جدوں اردیو تے ہندی راج پالیسیاں دے تھم سن۔ پر انج بہوں ساریاں زباناں نال دھرو ہویا سی۔ جے بی بی سی اج پنجابی بارے آپدے نویں پروگرام شروع کردی ہے تاں فیر ایہہ اک چنگی خبر ہے۔

اسلام آباد: اج کل سیاستداناں وچ اک دوجے نوں ڈِسکوالیفائی کرن دی مہماں جاری نیں۔ اک پاسے سپریم کورٹ وچ کیس چل رہیا اے تے دوجے پاسےالیکشن کمیشن وچ۔ اج الیکشن کمشن وچ عمران خان، کیپٹن صفدر اتے جہانگیر ترین بارے کیس سنیاجانا سی۔ مسلم لیگ (ن) دے جس رکن محمد خان ڈھاہا ہوراں 
کمیشن وچ عمران تے جہانگیر ترین دے خلاف پٹیشن دتی سی اوہ آپ ہی غیر حاضر سی اتے الیکشن کمیشن نے ایس غیر حاضری تے غصہ وی وکھایا۔

15 November
سڑکاں تے ریلوے دے جال اتے توانائی دا بندوبست اوہ کم نیں جیہڑے چین پچھلے 30 سالاں توں کر رہیا ہے پر ایس نے ایس توں پہلاں بنیادی تعلیم دین دا کم 1950 تے 1960 دے دہاکیاں وچ کیتا سی۔ چین دی ترقی دی اک ہور وڈی وجہ ایہہ ہے پئی سب دھڑے کسی اک ریاستی بندوبست تے رل مل بیٹھ جاندے نیں۔ فیر کوئی اس وچ پنگا نہیں لیندا۔


آپدے تازہ بہ تازہ انٹرویو وچ لی پن ہوراں ٹرمپ دی جت اتےBrexit نوں اکو سوچ دی فتح دسیا ۔ ایہہ سوچ رلی ملی رہتلاں(Multiculticuralism) دے خلاف ہے۔ ایس سوچ وچ گلوبلائزیشن دی مخالفت رلتی ہے۔ کھبے دے لوکاں نوں چکر دین لئی ایہہ تنگ نظر قوم پرست اکثر طبقاتی گلاں وی کردے نیں تاں مارے بہوں سارے کھبے دے لوک انہاں دے چکر وچ آجاندے نیں۔ نیشنل فرنٹ نامی پارٹی 1988 وچ ژاں میریل لی پن بنائی سی جیہڑا ’’نازی جرمنی‘‘ دا کھلا حمایتی سی اتے ایس نیں وی آپدی دھی وانگ ٹرمپ دے جتن نوں سہلایا ہے

نہرو پورے 17ورہے اک بادشاہ وانگ حکمرانیاں کیتیاں۔پہلی کابینہ وچ10وزیر سن اتے انہاں وچوں چھ وزیراں نے نہرو تو بغاوتاں کیتیاں۔ایتھوں تک کہ اکلے بھارتی دیسی گورنر جزل راج گوپال اچاریہ ہوراں نوںنہرو توں وکھرے ہو کے نویں سیاسی پارٹی’’سواتنترا پارٹی‘‘ بنانی پئی۔امریکی جنگ آزادی دے ہیرو دو وار صدر بنن توں بعد آپ ہی وکھرے ہو گئے سن پر نہرو بادشاہ بن گئے تے وراثتی سیاست دی نیہاں رکھیاں جس تے اج وی عمل جاری ہے۔
12 November
پشور: اساں ایس دھرتی پاکستان نوں انج ہی مقدس سمجھدے ہاں جنج مسلماناں لئی کعبہ اتے دوجیاں زیارتاںدی وجہ توں سعودی عرب مقدس ہے۔ ایہہ گل اک نوجوان سکھ یاتری بی بی نائودیپ آکھی جیہڑی امریکی ریاست کیلیفورنیا توں پشور آئی ہوئی ہے۔

پنجابی سنگت پاکستان دے پربندھ ہیٹھ اج پنجاب انسٹی ٹیوٹ آرٹ اینڈ کلچر وچ پنجابی کہانی دربار سجایا گیا۔ کہانی دربار وچ اُچیچے پنجابی کہانی کاراں نے اپنیاں نویاں پرانیاں کہانیاں پڑھ کے سنائیاں تے ڈھیر داد کھٹی

11 November
امریکی ریاست پنسلیوانیا دے وڈے شہر فیلا ڈیلیفا توں خبر آئی ہے جتھے اک دُکان تے سواستکا (نمازیاں دا نشان) لاون تے پلس نوں سد لیا گیا۔ جنوبی فیلا ڈیلفیا وچ ہی اک ہور تھاں نسل پرستاں سپرے پینٹ نال’’ٹرمپ دی حکمرانیاں ‘‘ اتے ’’کالی کتیاں‘‘ لکھ ماریا۔

رضا ہوراں دا اشارہ 18ویں ترمیم وَل سی اتے اوہ سندھ دے شہر کراچی دی اک پرائیویٹ یونیورسٹی وچ سکالرشپ تقسیم کرن دے اکٹھ وچ تقریر کردے پئے سن۔ انہاں آکھیا ’’اوہ ویلہ چلا گیا جداں اسلام آباد وچ بیٹھ کے سرٹیفکیٹ ونڈے جاندے سن کہ کون محب وطن ہے اتے کون غدار‘‘۔ انہاں ریاست تے حکمراناں نوں ہوش دے ناخن لین دی ہدایت کردے ہوئے آکھیا پئی ہن ہی سمجھ جائو ایہہ ٹرمپ دی جت ساڈے خطے تے وی ڈونگے اثر پائے گی

Thursday, November 17, 2016

Turkey is Leading from the Front: What ahead?

Turkey is Leading from the Front

What ahead?  

President of Turkey came to Pakistan and he shared various experiences and supported Pakistan's point of view regarding Kashmir. He advised both India and Pakistan to negotiate on differences. His clear stand against extremism and terrorism is similar to US and China. 
Today is an interesting day not only due to the visit of Recep Tayyip Erdogan but also numerous other news. ISPR released the news regarding border area tensions at Bhambbar (Kashmir) sector that is a matter of concern. Bilawal Bhutto is in Lahore and if he decide to revisit tricky policies of PPP regarding the Punjab it will consider a good starter. As par media reports Government finally decide regarding new Army Chief and current COAS will retire till November 29, within two weeks. News of another constitutional amendment also attracted many people too. 
What Erdogan said about Fethullah Gulen who is a self-exiled Turkish Islamic scholar based in Philadelphia, US is not new. He was among close associates of Erdogan till 2013 and has an effective religious network tooOn 19 December 2014, a Turkish court issued an arrest warrant for Gülen after over 20 journalists working for media outlets thought to be sympathetic to the Gülen movement were arrested. Gülen was accused of establishing and running an "armed terrorist group

So what Erdogan said about his political rival was usual yet he warned that Pakistan should aware from Gulen's network and funding in Pakistan.  


Jhangieer Badar: An obituary of a Jyalla

Jhangieer Badar: An obituary of a Jyalla 

20th century produced numerous political workers & intellectuals  yet under a special scheme many of us still unaware from that history yet it is a fact that majority of those workers never left their parties or groups just to grab money and power . Here you will read story of a political worker cum leader Jhangieer badar


جیالا
لوٹوں کی دنیا میں اجنبی

عامر ریاض
ہمارے خطہ میں درمیانے طبقہ نے 20ویں صدی کے سحرانگیز عہد میں ہزاروں سیاسی کارکن و دانشور پیدا کیے اور ان میں بڑی تعداد ایسے بے مثال لوگوں کی ہے جنھوں نے محض منفعت، چمک اور عہدوں کی لالچ میں اپنی پارٹیوں یا گروپوں کو نہ چھوڑا کہ جہانگیر بدر کا شمار بھی ایسے سیاسی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی و فوجی حکمرانوں نے ہمشہ بدبودار سیاست کو پروان چڑھایا اور لوٹوں کو معتبری دی جبکہ سیاسی تحریکوں نے سیاسی کارکنوں کی کھیپ قوم کو دی جن میں سے بیشتر سندھ، خیبرپی کے، بلوچستان اور پنجاب میں متوسط طبقہ کے وہ ہیرے تھے جنھوں نے سیاست کی لاج رکھی۔
ایوب مخالف سیاسی لہر کی کوکھ سے لاتعداد سیاسی کارکنوں نے جنم لیاکہ یہ وہ وقت تھا جب نوجوان جہانگیر بدر پاکستان کی سب سے قدیمی درسگاہ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ بطور طالب علم رہنما وہ ہیلے کالج میں اسلامی جمعیت طلباء کو شکست دے کر اپنا لوہا منوا چکے تھے اور 1969میں لاء کالج میں تھے۔ اگلے سالوں میں بدر نے پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات میں حافظ ادریس اور حفیظ خان کا مقابلہ کیا جو جمعیت کے نمائندے تھے۔دونوں انتخابی معرکوں میں بدر لیفٹ،لبرل اورجمہوری قوتوں کے مشرکہ امیدوار تھے ۔ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں دو طلباء تنظیموں ہی کا زور تھا کہ جمعیت کا مقابلہ نیشنلسٹ سٹوڈینٹ آرگنائزیشن کرتی تھی۔ یہ یحی خانی دور تھا جس کے طاقتور وزیرمیجر جزل نوابزادہ شیر علی پٹودی اورمیجر جزل غلام عمر جماعت اسلامی اور شوکت اسلام کے دلدادہ تھے۔پنجاب یونیورسٹی کو وہ کیسے سرخوں کے ہاتھ جانے دیتے کہ جہانگیر بدر کو دونوں معرکوں میں شکست ہوئی مگر جس سیاسی بھٹی میں وہ کندن بنے اس کا اثر تادیر ان پر رہا۔
جہانگیر بدر نے ایک ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کیا جس نے نہ صرف اک سیاسی تحریک میں
آنکھ کھولی بلکہ اس کی تاریخ اس کے لیڈروں نے اپنے خون سے رقم کی۔اس پارٹی کے رہنما اک سندھی جناب ذولفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے جہانگیر بدر کے شہر لاہور میں آکر پارٹی بنائی تھی اور پنجابیوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔
جب جزل ضیاالحق کی ایماء پرمقبول عام وزیراعظم بھٹو کو غیر آئینی ہتھکنڈوں سے ہٹانے کے لیے قوم پرستوں اور اسلام پرستوں کا مجموعہ اضداد ’’دھاندلیوں‘‘ کی آڑ میں کھڑا کیا گیا تو بھی بدر کا ’’ایمان‘‘ متزلزل نہ ہوا۔بابائے سوشلزم شیخ رشید نے اپنی سوانح ''جہد مسلسل'' میں صفحہ
/9238 پر قومی اتحاد کی تحریک کے دوران متزلزل ہونے والوں کے نام لکھے ہیں جن میں شیر محمد بھٹی(صدر پی پی پی لاہور)، ڈاکٹر مبشر حسن(مرکزی جزل سیکٹری) اور اعتزاز احسن(وزیر) سمیت بہت سے لوگ شامل تھے۔بدر نے یہ سب کچھ دیکھا کہ بھٹو کو مطلق العنان کہنے والے ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر کے حاشیہ نشیں ہوئے۔بلوچستان پر ملڑی ایکشن کی دہائیاں دینے والوں نے پورے ملک میں ملڑی ایکشن کرنے والوں کو نجات دہندہ قرار دیا کہ کیا قوم پرست (بلخصوص ولی خان)، کیا اسلام پسند، حتاکہ کچھ ترقی پسند بھی اس ’’حمام‘‘ سے برہنہ نکلے۔ اس کھیل کو دیکھ کر بدر سمیت جیالوں کا ’’ایمان‘‘ جمہوریت اور بھٹو پر مزید پختہ ہوا۔ چومکھی لڑائی شروع کی گئی کہ ضیا شاہی نے ایک طرف پی پی پی کے خلاف ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کو استعمال کیا، صوبوں میں نفرتیں پیدا کیں، فرقہ پرستوں کو ہلاشیریاں دیں اور سیاست میں پیسے کا استعمال بڑھا دیا۔ ریاست کے کل پرزوں نے فیصلہ کیا کہ پی پی پی کا گڑھ پنجاب ہے، اگر یہاں سے پارٹی کو ختم کر دیا جائے تو اس کو جنازہ پڑھائے بغیر دفنایا جا سکتا ہے۔ مگر بدر اور دیگر جیالوں بشمول کچھ ترقی پسند گروپوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ 10اپریل1986کولاہور میں بے نظیر بھٹو کاجس فقیدالمثال طریقے سے پنجابیوں نے استقبال کیا اس کی نظیر پاکستان میں ڈھونڈنی مشکل کہ بدر اس کا ہیرو اور بے نظیر کا بھائی قرار پایا۔ اسے پی پی پی کے جیالوں کے نام ازبر تھے ۔ مگر یہی وہ وقت ہے جب سیاست میں پیسہ رنگ جما چکا تھا کہ جس کا آغاز غیرجماعتی انتخابات سے ہو چکا تھا۔زرخرید سیاسی ہرکاروں اور غیر جماعتی سیاسی کرداروں کی فصل تیار کی گئی۔مگر پیسہ اور اس کا اثر محض سیاست تک محدود نہ رہا، نہ ہی رہنا تھا بلکہ اس کے رنگ میں قومی سلامتی کے ادارے بھی’’بے رنگ‘‘ ہوئے۔ پارٹی میں ’’سکائی لیپوں‘‘ کی آمد شروع ہوئی کہ یہ اصطلاح پی پی پی میں ہر جیالا ان نئے رہنماؤں کے لیے استعمال کرتا تھا جو 1986 کے بعد پارٹی میں معتبر ہوتے گئے۔ یہ ملک پاکستان میں نئی سیاست کا زمانہ تھا جس میں افغان جہاد سے مال غنیمت لوٹنے والوں کے ہاتھوں میں کمانڈ تھی۔بادل نخواستہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اب وہ پاکستان میں افغان جہاد کا تسلسل چاہتے تھے کہ 1988سے 2001تک سیاست افغان جہاد کا تسلسل جاری رکھنے والوں کے ہاتھوں یرغمال رہی۔اس دوران سکائی لیپ عناصر نے پارٹی میں اپنا رنگ جمایا اور فاروق لغاری جیسوں نے چھرا گھونپا ۔ بدر پر بھی تنقید بڑھی کہ جب وہ اندرون لاہور کا حلقہ چھوڑ کر خوشحال علاقے میں آگیا تو جیالوں سے دور ہوتا گیا۔ مگر ابھی اس کے مزید امتحان باقی تھے کہ وہ پیٹریاٹ کے امتحان سے سرخرو رہا۔ کیسے کیسے پیپلیوں کو جزل مشرف نے اپنا ہمنوا بنایا یہ تو کل کی بات ہے۔ حتاکہ راؤ سکندر ، فیصل صالح اور خود امین فہیم جیسے متزلزل ہوئے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد اس پر ناہید خان کا ملبہ گرایا گیا کہ یہ ملبہ گرانے والوں میں وہ بھی شامل تھے جو اس کے پرانے ویری تھے اور وہ بھی جو پارٹی میں نووارد تھے۔ وہ پارٹی کا سیکڑی جزل ضرور تھا مگرمحض درشنی پہلوان۔ اب اس کا آخری امتحان شروع ہوا کہ پنجاب کی پارٹی کو عملی طور پر پی ٹی آئی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اب پارٹی کو اس کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر بدر تو تادم مرگ اس پارٹی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے اور اندرون شہر چھوڑنے کے باوجود جیالا ہی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے طلباء میں کام کرنے والی اک این جی او برگد نے این سی ای، لاہور میں طلبا سیاست کے حوالہ سے ایک پروگرام کیا جس میں بدر نے بھی تقریر کی۔ بدر کا استدلال تھا کہ سیاسی جماعتوں کو طلبا سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ایک جیالے ہی کا کمال تھا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھنے میں بھی بازی لی گیا۔
بدر پکا ’’لہوریا‘‘ تھا اور اسے ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ کہنے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔وہ لحد میں پارٹی کا پرچم تھامے اْترا کہ اب بلاول بھی اس کے گھر والوں کو پرسا دینے لاہور آیا ہے۔کاش وہ ایسے جیالوں کی فہرست بنائے جو 1968سے تادم تحریر پارٹی میں رہے اور کبھی لوٹا نہیں بنے۔ اْن کی باتیں تلخ تو ہوں گی مگر یہ تریاق ہو گا۔
اگر بلاول بھٹو یہ ’’کوڑا گھٹ‘‘ پی لیں تو بدر کی روح بھی پرسکون ہو جائے گی۔


Sunday, November 13, 2016

Roots of Misleading Narrative & Purge against Progressives

Roots of Misleading Narrative & Purge against Progressives 

It was a time when both Pakistan and India were trying to won US camp and both used Communist Purge smartly just to get place in the court of US. In fact both used old colonial tactics. In Pakistan after infamous objective Resolution some powerful political actors coined double edge weapon of religious nationalism and that narrative served not only to attract new world rulers but also proved helpful in isolating progressives from policy making who were critical against elite. 
Here i reproduced many fatwas published before the first progressive writers conference held at Lhore, November 1949. You can well understand what we are reaping today is what we sow in past.
no doubt that there were many mistakes by PWA but here i am just talking about the misleading narratives and its impact on future only. 

Read the column published at Dawn Blog: Click http://www.dawnnews.tv/news/1046773/#comments

  آٹھ اکتوبر1949ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ نے مولانا محمد علی خطیب سنہری مسجد لاہور کا فتویٰ چھاپا جس میں لکھا تھا ’’موجودہ دور میں جو ملا حدہ اپنے عقائد باطلہ کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف رنگوں میں تبلیغ کرتے ہیں، مثلاً کمیونسٹوں کا فرقہ یا ترقی پسند مصنفین، ان کے لئے شرعی حکم کی رو سے حکومت وقت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کوپوری طرح سے کیفرکردار تک پہنچائے۔۔۔ ایسے لوگوں کے لیے 
شریعت میں یہ سزا ہے کہ ان کو پھانسی کے تحتے پر لٹکا دیا جائے

Another Article regarding the Purge and its supporters..Click & Read...Flip Side of Intizar Hussain

ترقی پسند مخالف مہم میں مشہور صحافی شورش کاشمیری کا رسالہ چٹان بھی پیش پیش رہا کہ 14نومبر 1949ء کی اشاعت میں اس ہفتہ وار رسالہ نے لکھا، ’’اس ہفتہ لاہور میں ترقی پسند مصنفین ایک کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔۔۔ یہ لوگ روس کے محکمہ خارجہ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا ادبی ذہن ذہن مخصوص کمیونسٹ سانچوں میں ڈھلا ہوا ہے''۔حمائیت کر
نے والوں کو دھمکاتے ہوئے اسی مضمون میں لکھا ہے، ’’ ہماری مصدقہ معلومات یہ ہیں کہ انجمن کو ان لوگوں نے بھی ترقی پسندوں کو چندہ دیا ہے جنھیں آج تک قائد فنڈ یا کشمیر فنڈ میں کوئی رقم دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان میں مسلم لیگ کے جلیل المرتبت اور پاکستان گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ حکام بھی ہیں۔‘‘


15۔اکتوبر 1949کو ٹیکسالی دروازہ کے اندر اک جلسہ عام جمعیت علماء پاکستان نے منعقد کیا جس میں حکومت کو متبنہ کرتے ہوئے کہا گیا، ’’ترقی پسند جو اجلاس کرنا چاہتے ہیں اس کا اثر اسلامیان پاکستان کو گمراہ کرنے والا ہے اور قرارداد مقاصد کے لیے مضر ثابت ہو گا۔اس لیے اس اجلاس کا انعقاد ممنوع قرار دیا جائے‘‘۔ایسی آوازیں یکدم کراچی سے پشاور تک بلند ہونے لگیں۔
Another misleading Narrative penned by none the other but Ahmad Ali Khan
ترقی پسندوں کو غدار قرار دینے والے اس حقیقت سے نظریں چرائے بیٹھے تھے کہ1943سے 1947کے فیصلہ کن معرکہ میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔مگر پاکستان کے قیام کے بعد اشرافیہ نے ترقی پسندوں کو داخل دفتر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ کہیں عوامی حقوق کے تحفظ پر مبنی پالیسیاں نہ بن جائیں اور اشرافیہ کی حکمرانی کا خواب ادھورا رہ جائے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پہلے تین سالوں میں پاکستان اور بھارت دونوں کی اشرافیہ امریکی اتحاد میں شامل ہونے کی متمنی تھی کہ 1948میں دونوں ممالک نے ترقی پسندوں کی مخالفت کو بطور عمل انگیز استعمال کرنے کی پالیسیاں بنائیں۔ 
Kangi Dwarkadas, member Working Committee Congress and friend of Pandat Nehru reproduced letters written to Kangi by Nehru. Kanji was in US in winter of 1946 to attend a conference organized by the new international labor conference as representative of Congress. That organization was created against USSR labor body. In the letters Nehru shared his desire to become partner in US camp. Mohit Sane is among few who narrated hidden politics of these days and meetings of senior CPI leaders at Moscow in those crucial days. 

Further Readings
Why We Went on Wrong Side after 1947 Interview of 88 year Old writer from the Punjab Published in the News on Sunday

Reviews Surkh Salam: Some Reflections of an Untold Story of Pakistani Left

Friday, November 11, 2016

Blessings of Trump and New game Plans





Before election of Ronald Reagan media was unaware from the massive victory and who manipulated that elections is now a known fact and it is revealed by many writers including Charlie Wilson's War: The Extraordinary Story of How the Wildest Man in Congress and a Rogue CIA Agent Changed the History of Our Times . Recent Email fiasco and Julian Paul Assange leaks served well similar to Iran hostage crisis (November 4, 1979, to January 20, 1981 that got ample space in media till the infamous defeat of Jimmy Carter, a democrat leader and 39th President of US. What is the agenda now? Why the world is worried? First time there is a continuous protest and news regarding racialism? Is US society divided or as usual some power brokers are playing their game? Is China the target?
Read the piece Published in Wichaar

Click and read http://www.wichaar.com/news/262/ARTICLE/31691/2016-11-11.html


ایہہ پہلی وار نہیں ہویا پئی امریکی میڈیا دھوکہ کھا گیا یا فیر میڈیا راہیں دھوکہ دِتا گیاسوچن والی گال ہے؟۔ جس جس نوں ریگن دا 1980 والا الیکشن یاد ہے اوہ جاندا ہے پئی میڈیا نوں پُٹھا وی ورتیا جا سکدا ہے۔ اسانج دی Leaks کنج کم کیتا اتے امریکی خفیہ ادارے کنج چوناں توں پہلاں متحرک ہوئے ایہہ سب تسی جاندے ہی ہو۔ 1978 توں بعد وی ایہہ ادارے ڈیموکیٹاں دے لیڈرجمی کارٹر دے کیوں خلاف ہو گئے سن اتے اس نوں ’’بدترین مثال‘‘ کیوں بنانا چاہندے سن اجہی کہانیاں مشہور سی آئی اے ہرکارے چارلی ولسن اتے جان کے کولی ورگے آپدی کتاباں وچ لکھ چکے نیں۔ ایران وچ موجود سفارت خانے اْتے پاسداران انقلاب دے قبضے نوں چوناں تک برقرار رکھنا لوڑی دا سی اتے ایس قبضہ نوں تنگ نظر قوم پرستی نوں وادھو کرن لئی کارٹر دے خلاف خوب ورتیا گیا کہ جس طرح حالیہ امریکی چوناں وچ ’’ای میلاں‘‘  دے مسئلہ نوں ورتیا گیا۔ 
Further Readings

ٹرمپ دی جت: نسل پرستاں ات چک دتی

EU: JCPOA is multilateral deal that she is tasked to guarantee its full implementation

Trump's Election Triggers Deep Concern in Europe Trump in the White House, Putin in the Kremlin and Erdogan in Ankara, not to mention right-wing populists at home: The EU is running out of international partners -- at a time when the union itself is facing a historic crisis.

Denounce the Hate, Mr. Trump


Wednesday, November 9, 2016

Some important books in Iqbal's personal library



This library contains 1424 holdings of 799 contributors on 188 Subjects in 20 Languages
http://iqbalcyberlibrary.net/en/listsubject/subjectwoi.php

Am updating it

Punjabi translation of Iqbal's famous poem Shikwa in 1918 by Pirzada fazal Ahmad farooqi of Hoshyaarpur Punjab
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1885.pdf

Guru Nanak by Sewa Ram Singh Thapar 1904
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0424.pdf

Nationalism by Sir Rabindar Nath Tagore 1918
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0363.pdf

The Secret of Herbart: An Essay on Education and Reply to Prof. James of Harvard 1904
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0247.pdf

The Biology of British Politics: 1904
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0245.pdf

Democracy Versus Socialism: A Critical examination of Socialism as a Remedy for Social Injustice and an Exposition of the Single Tax Doctrine 1901
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0219.pdf

The Adventures of Hajji Baba of Ispahan: 1923
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0382.pdf

The Sisters of the Spinning Wheel and Other Sikh Poems (Original and Translated): by Puran Singh 1921
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0165.pdf

Science and a Future Life with Other Essays: 1901
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0268.pdf

Three Lectures on the Vedanta Philosophy: Delivered at Royal Institution in March 1894
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/IPL0002.pdf

Nazam-e-Iqbal: Safar-e-Hyderabad Deccan aur Sir Iqbal ke T'asurat, 1910
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1926.pdf

Musafir: Siahat Chund Roza Afghanistan by Iqbal 1933
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1920.pdf

Address of Iqbal 1932
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1913.pdf

A Private Notebook of Iqbal
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/844.pdf

Class 6 textbook prepared by Iqbal and Hakim Ahmad Shujah 1929
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1771.pdf

Class 5 textbook of Urdu by Iqbal 1937
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1772.pdf

Class 7 textbook of Urdu by Iqbal
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1773.pdf

Class 8 textbook of Urdu by Iqbal published in 1940
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/1774.pdf

Discussion regarding nation (quom) and millat (community) between Allama Iqbal and Hussain Ahmad Madni
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/62.pdf

History of India (Tareekh e Hind) by Allama Iqbal and Lala Ram Parshad Government College, Lhore
http://iqbalcyberlibrary.net/pdf/2636.pdf

Tuesday, November 8, 2016

Revisiting Allahbad Address w r t extremism, terrorism, security & governance

Revisiting Allahbad Address w r t 

extremism, terrorism, security & governance 

It is important to deconstruct the narrative and compare it with the original. In 2009 when i started textbook analysis i found many errors in the Urdu translation of Allahbad address 1930. initially i thought it was an editorial error but later i understand why some over smart textbook writers did it. It was outcome of misleading narrative we opted especially after objective resolution. So here is the original speech and some comments in the blue. I will add it in near future. Just read and unlearn
Original Text: Sir Muhammad Iqbal’s 1930 Presidential Address to the 25th Session of the All-India Muslim League Allahabad, 29 December 1930

 It is significant that the Simon Report has given extraordinary importance to the question of India's land frontier, but has made only passing references to its naval position. India has doubtless had to face invasions from her land frontier; but it is obvious that her present masters took possession of her on account of her defenceless sea coast. A self-governing and free India will, in these days, have to take greater care of her sea coast than [of her] land frontiers
What was the coastal policy of colonial master? Why they created Karachi port and destroyed Lhori Dharo (port) that was linked with river channel since centuries. Still after 68 years what is the coastal policy of India and Pakistan, is a million dollar question. Iqbal pinpointed it in 1930 yet what we did after 1947 shows preferences of our elite and policy makers. 

The Punjab with 56 percent Muslim population supplies 54 percent of the total combatant troops in the Indian Army, and if the 19,000 Gurkhas recruited from the independent State of Nepal are excluded, the Punjab contingent amounts to 62 percent of the whole Indian Army. This percentage does not take into account nearly 6,000 combatants supplied to the Indian Army by the North-West Frontier Province and Baluchistan. From this you can easily calculate the possibilities of North-West Indian Muslims in regard to the defence of India against foreign aggression.
It is to be remembered that in WW2 huge number of Punjabi Sikhs and Muslims joined Indian army and till the time of partition Punjabis were more then 75% in Indian army. It was essential for big foreign powers to destroy that army. Congress knew it and that is why they rejected Cabinet mission Plan and supported communal division of the Punjab. Big power interests and Congress were on same page. When Iqbal wrote 1930 speech he had already advised Nehru Committee to take care of this strength yet committee had no vision or they were not ready to acknowledge strengths of the Punjab. Communal division of that army effected the whole region and as par Raj Mohan Gandhi it was demanded by the Congress in March 1947. 

Misleading Lucknow Pact 
There were two pitfalls into which Muslim political leaders fell. The first was the repudiated Lucknow Pact, which originated in a false view of Indian nationalism and deprived the Muslims of India of chances of acquiring any political power in India. The second is the narrow-visioned sacrifice of Islamic solidarity, in the interests of what may be called Punjab ruralism, resulting in a proposal which virtually reduces the Punjab Muslims to a position of minority. It is the duty of the League to condemn both the Pact and the proposal.
....The Simon Report does great injustice to the Muslims in not recommending a statutory majority for the Punjab and Bengal. It would make the Muslims either stick to the Lucknow Pact or agree to a scheme of joint electorates. The despatch of the Government of India on the Simon Report admits that since the publication of that document the Muslim community has not expressed its willingness to accept any of the alternatives proposed by the Report. The despatch recognises that it may be a legitimate grievance to deprive the Muslims in the Punjab and Bengal of representation in the councils in proportion to their population merely because of weightage allowed to Muslim minorities elsewhere. But the despatch of the Government of India fails to correct the injustice of the Simon Report. In so far as the Punjab is concerned – and this is the most crucial point – it endorses the so-called "carefully balanced scheme" worked out by the official members of the Punjab Government which gives the Punjab Muslims a majority of two over Hindus and Sikhs combined, and a proportion of 49 percent of the House as a whole. It is obvious that the Punjab Muslims cannot be satisfied with less than a clear majority in the total House.

In 1916 Lucknow Pact was signed and later included in the Government of India act of 1919. As par the misleading pact a weightage formula was coined apparently for the support of minorities living in various provinces. At that time there were two Muslim majority provinces with less then 10% difference i-e Bengal & the Punjab. Sindh was under Bombay while NWFP had not complete provincial rights. So by using that misleading pact, Muslims lost majority in both Bengal and the Punjab because they had to withdrew 10% seats to fellow non-Muslim Punjabis. Hakim ajmal Khan, Mian Muhammad Shafi, Allama Iqbal and later C R Das were among those visionaries who opposed Lucknow Pact. In 1924 C R Das elected first native mayor of Calcutta and he rejected Lucknow Pact and gave 50% seats to Bengali Muslims. He opposed by Gandhi but he gave C R Formula that was based on respect of majorities yet he died in 1925. Both Subhas Chandar Bose and Hussain Shaheed Suhrawardy were his talented followers. Unlike Bengal, non-Muslim leaders leaders of the Punjab especially Lala Lajpit Ray did not show any vision. They were even against separation of Sindh from Bombay, giving full provincial rights to NWFP and formation of Baluchistan as a province.  Even Nehru Report failed to address it and did not reject Lucknow Pact. Due to that misleading policy majority leaders of Khilafat committee Punjab left Congress in 1930 when the party held its session at the bank of Ravi, in Lhore. It is to be remmbered that from 1916 till 1930 Punjabi Muslims protested against Lucknow Pact and in mid 1920s  they raised a movement of 56% rights (Chapan fesadi tahreek).  it had support from all sections of Muslims in the Punjab including Allama Iqbal, Mian Fazl e Hussain, Mollana zafar Ali Khan, Mollana Mazhar Ali Azhar, Ch Afzal Haq, Lal Din Qaiser etc. So in 1930 when Congress did not reject Lucknow Pact then a group of Punjabi Muslims left the show and formed a separate party under the title Ahrar. This back ground is essential to understand why Iqbal called Lucknow Pact a Pitfall. Interestingly in our textbooks their are lessons in praise of that misleading pact. If Allahbad address is guiding principal in Pakistan movement then we have to accept that Lucknow Pact was a smart clever move to mislead Muslims. Some important leaders including Jinnah, Mian Fazl e Hussain etc could not understand it at that movement but later they amended it. Similarly both Jinnah and Iqbal neither participated in misleading Khilafat movement and non-cooperation movement but in our textbook and official narrative those misleading movements are taught as heroic efforts.   

Thus it is clear that in view of India's infinite variety in climates, races, languages, creeds and social systems, the creation of autonomous States, based on the unity of language, race, history, religion and identity of economic interests, is the only possible way to secure a stable constitutional structure in India.
Had congress left One nation theory things would be much different but ironically we themselves opted misleading one nation theory after creation of Pakistan
The statement of Iqbal is in clear support of federalism and linguistic diversity yet in Pakistan we tried to develop a centralist narrative based on one religion and sole national language that was just contrary to Allahbad address. 


Nor should the Hindus fear that the creation of autonomous Muslim states will mean the introduction of a kind of religious rule in such states.

Opposition to religious rule or rule by clergy or theocratic state is there in this sentence. But how we ignored this is a proof of a deviation in this regard.  

The truth is that Islam is not a Church. It is a State conceived as a contractual organism long before Rousseau ever thought of such a thing, and animated by an ethical ideal which regards man not as an earth-rooted creature, defined by this or that portion of the earth, but as a spiritual being understood in terms of a social mechanism, and possessing rights and duties as a living factor in that mechanism.

If you read this with reference to above two extracts then in the presence of federalism and respect for diversity it is too an opposition of clergy rule.

 I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State in the best interests of India and Islam. For India, it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam, an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian Imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times.
His conceived Muslim State had nothing to do with jingoism in the region but had to work for peace and security especially with Indians. 
Opposition to centralizm and desire to rid  itself of the stamp of Arabian Imperialism as Muslim shows his reluctance. Iqbal had opposed Khilafat movement and called it a revivalist movement for a deteriorated Kingship. 
Interestingly in our official narratives we did not follow both things. 

The conception of federation underlying the Simon Report necessitates the abolition of the Central Legislative Assembly as a popular assembly, and makes it an assembly of the representatives of federal States. It further demands a redistribution of territory on the lines which I have indicated. And the Report does recommend both. I give my wholehearted support to this view of the matter, and venture to suggest that the redistribution recommended in the Simon Report must fulfill two conditions. It must precede the introduction of the new constitution, and must be so devised as to finally solve the communal problem. Proper redistribution will make the question of joint and separate electorates automatically disappear from the constitutional controversy of India. It is the present structure of the provinces that is largely responsible for this controversy.
Is it not enough to understand what was the vision of Iqbal regarding federalism, more close to confederation then centralism. Had we adopted that principal we would not only handled East Bengal issue but also resolved issues of provincial autonomy in West Pakistan too in 1960s. Interestingly founders of 1973 constitution in general and makers of 18th amendment followed those principals of Iqbal in letter and spirit.  It is a clear Stand in fever of federal system against unitary form of government.
To my mind a unitary form of government is simply unthinkable in a self-governing India. What is called "residuary powers" must be left entirely to self-governing States, the Central Federal State exercising only those powers which are expressly vested in it by the free consent of federal States. I would never advise the Muslims of India to agree to a system, whether of British or of Indian origin, which virtually negatives the principle of true federation, or fails to recognise them as a distinct political entity
It is enough to understand what Iqbal said and what we did in the first 23 years, till the breakage of Pakistan. We tried to form a unitary form of government. Even in West Pakistan we established infamous One-Unit and even ruined the spirit of federalism. we did not establish Baluchistan province neither converted FATA in the settle area. Our pre-1971 policies were largely revolved around tackling with the majority province i-e East Bengal that was part of the problem. Even that mindset still exists in Post 1971 Pakistan in many ways. Center, first Karachi then Islamabad, want to play with provincial infighting. 
Security Issue and Question of loyalty 
I have no doubt that if a Federal Government is established, Muslim federal States will willingly agree, for purposes of India's defence, to the creation of neutral Indian military and naval forces. Such a neutral military force for the defence of India was a reality in the days of Mughal rule. Indeed in the time of Akbar the Indian frontier was, on the whole, defended by armies officered by Hindu generals. I am perfectly sure that the scheme for a neutral Indian army, based on a federated India, will intensify Muslim patriotic feeling, and finally set at rest the suspicion, if any, of Indian Muslims joining Muslims from beyond the frontier in the event of an invasion.
Armed forces should play a neutral role under federation was the vision regarding security yet what we did in last 60 years was just the opposite. This extract also showed that Iqbal was not separatist but he wanted to resolve various issues related to Indian federation. Similarly when jinnah accepted Cabinet Mission Plan he proved that he was not a separatist but wanted business. But in Pakistan we developed a narrative in which separatism was key to success. We even propagated that Muslims had started thinking about a Muslim cum Islamic State right from Muhammad bin Qasim times. We also encouraged the narrative based on communal-ism. While developing that narrative we forgot that now we are a nation state and till 1971 that nation state had 22% non-Muslims too.  How a narrative based on separatism could help us in nation building?  If Muslim community had right to separate from India then why not other communities or nationalities had not? so promotion of separatism proves counterproductive in nation building in many ways. No nation state can run its business on the basis of separatism promotion.  In the absence of neutral army and presence of separatist narrative and naked borders no nation state can provide reasonable security. 

FURTHER READINGS


MAR 23 Question of Muslim Majorities and Politics : From Nehru report (1928) till 23rd March 1940 Lhore Resolution

Woodrow Wilson's 14 points & Allama Iqbal

Iqbal Response to Skill base Education & Education for Muslims 

Why Allama Iqbal opposed Khilafat movement..Read & Unlearn 

were Iqbal & Jinnah Pro-British?

Partition of Bengal Game Plan and Iqbal's timely intervention December 1911

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...