''Bad Boys''
will make this country prosperous
In-spite of all odds Pakistani politicians did lot of things in the interest of common people and after consensus vote for 22nf Amendment one can hope that politicians will make a consensus regarding across the board accountability law & institution. 12 member parliamentary committee should initiate the process for new NAB role along with making TORs. It is not the first time that politicians make laws with Consensus. 1973 constitution was a consensus document and 18th amendment too was a big break through. But some forces are in state of denial since the birth of Charter of Democracy signed by two major political parties in May 2006. In these 10 years there was a continuous propaganda against CoD in many ways. The main argument was regarding its implementation yet if you compare various articles of 18th amendment and 36 point CoD document you will find implementation of CoD in it. Since 2010 many more articles are implemented till today yet media is still reluctant to acknowledge it. Democracy is a gradual process and it needs little patience too. Filthy rich business classes and pirates played vital
role in establishment of democratic Europe in their own interests but finally
it benefited all and same is happening here.
Read the complete article Published in weekly Humsehri
22
ویں ترمیم: “ گندے سیاستدان” ہی سب کام کریں گے
عامر
ریاض
اگر
پانامہ ڈرامہ کے بطن سے ملک میں پہلی دفعہ “بلا تفریق احتساب کا قانون” اور “غیر
جانبدا ر احتسابی ادارہ” بن گیا تو پاکستان کے لیے پانامہ چیلنج سے نادر بچہ کی
پیدائش گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ اس بات کی امید اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ 22 ویں
ترمیم پر ایوان میں حسین اتفاق نظر آتا ہے۔ اتفاق ہوتا بھی کیوں نہ جب اس آئینی
ترمیم کی تشکیل میں حذب اختلاف و حذب اقتدار کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں ایک
صفحہ پر تھیں۔ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی محض ٹی او آر ہی نہ بنائے بلکہ احتساب کے
نئے قانون کے لیے بھی اتفاق رائے کا آغاز کرے۔ پاکستان میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا
کہ 1973 کا متفقہ آئین اور چند سال قبل تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے منظور
ہونے والی 18 آئینی ترمیم اس کے زندہ ثبوت ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ جمہوری تاریخ کے
سنگ میل ہیں۔ جموریت اسی کا نام ہے جس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی گنجائش کو
ہمیشہ اولیت حاصل رہتی ہے۔ یاد رہے کہ 1990 کی دہائی میں جب بدنام زمانہ ضیا الحقی
شق-2-B58 کا خاتمہ ہوا تھا تو محترمہ بے نظیر
بھٹو نے تمام تر مخالفت کے باوجوداُس دھینگا مشتی کے ماحول میں وقت کے وزیراعظم
میاں نوازشریف کا ساتھ دیا تھا۔ یوں محترمہ نے سیاسی بصیرتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے
اک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی شروع کردی تھی۔ یہی وہ ویژن تھا جس کو بروکار لاتے
ہوئے 16 مئی 2006 کو 36 نکات پر مشتمل میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور
میاں نوازشریف نے دستخط کیے۔ یہ وہ دور حکومت تھا جب جنرل مشرف آمر مطلق بنا بیٹھا
تھا کہ ان حالات میں دونوں سیاستدانوں نے میثاق جمہوریت کو مستقبل کے پاکستان کے
لیے ضروری گردانا۔ جس دن اس میثاق پر دستخط ہوئے تھے اس دن سے “تاجا حوالدار” اس
کو گھجل کرنے پر کمر بستہ ہوگئے تھے۔
کچھ
صاحبان علم و فضل یہ کہتے ہیں کہ میثاق جمہوریت پر تو عمل ہوا ہی نہیں۔ ان کے لیے
محض یہ غرض ہے کہ وہ 18 ویں ترمیم اور میثاق جمہوریت کی شقوں کو سامنے رکھ کر
موازنہ کرلیں۔ انہیں خود بخود حقیقت حال معلوم ہوجائے گی کہ حقائق اور تاثر میں
یہی فرق ہوتا ہے۔ میثاق جمہوریت کی پہلی دو شقیں یہی تھیں کہ مخلوط انتخابات اور
عورتوں و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو چھوڑ کر آئین دوبارہ سے 12 اکتوبر 1999 کی
پوزیشن پر بحال ہوجائے گا۔ اسی طرح مسلح افواج کے تینوں چیف اور جوائنٹ چیف آف
سٹاف کا تقرر منتخب وزیراعظم کرے گا۔ جمہوری میثاق کی 5 ویں شق یہ تھی کہ کنکرنٹ
لسٹ ختم کردی جائے گی اور این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا جائے گا۔ چھٹی شق کے
مطابق سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کردہ نشستوں
کے حساب سے سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہونا طے پایا تھا۔ ساتویں شق کے مطابق سینٹ
میں اقلیتوں کو نمائندگی دی جانا تھی۔ نویں شق میں گلگت بلتستان کو مخصوص حیثیت
دینے کی سفارش تھی۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے کی بات شق نمبر10
میں کی گئی تھی۔ 15ویں شق میں پبلک اکاﺅنٹس
کمیٹی کی سربراہی حذب اختلاف کے رہنما کو سونپنے کی سفارش تھی۔ 21 ویں شق میں غیر
آئینی مداخلت کا رستہ بند کرنے کا پر بندھ نمایاں تھا۔ 27 ویں شق آزاد الیکشن
کمیشن کی سفارش پر مشتمل تھی۔ 31 ویں شق میں انتخابی مدت کے خاتمہ کے بعد سے نئے
انتخابی نتائج تک غیر جانبدار حکومت بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔یہ بتانے کی ضرورت
نہیں کہ ان میں سے کتنی شقوں پر عمل ہو چکا ہے۔
میثاق
جمہوریت کی بہت سی اہم شقوں پر بذریعہ 18ویں ترمیم عمل ہوگیا اور باقیوں پر 2010
سے آج تک بتدریج عمل ہورہا ہے۔ البتہ کچھ شقیں ایسی بھی ہیں جو بوجوہ التواءکا
شکار ہیں۔ اب جو پروپیگنڈہ میڈیا پر صبح شام ہوتا ہے اس سے تو یہی تاثر دیا جاتا
ہے کہ میثاق جمہوریت کو سیاستدانوں نے بلائے طاق رکھ دیا تھا جو حقیقت حال کے
برعکس ہے۔ اچھے بھلے اینکر اور دانشور یہ نہیں بتاتے کہ اب تک میثاق جمہوریت کی
کتنی شقوں پر عمل ہوچکا ہے۔ آئین کا حلیہ وقبلہ درست کرنے کا یہ کام انہی“ گندے” سیاستدانوں
نے سر انجام دیا جنھیں دن رات بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں کو “گندے
اور بدعنوان” سیاستدان ہی آگے لے کر بڑھے ہیں جسے یقین نہ ہو وہ مغربی یورپ کی
پارلیمانی تاریخ پڑھ ڈالے۔ اب انٹرنیٹ کی دنیا میں یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں رہ
گیا۔ کیونکہ سیاستدانوں کو ہر چند سال بعد انتخابات کے لیے عوام میں جانا ہوتا ہے
اس لیے انہیں عوامی مفاد کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے کہ یہی وہ گلی ہے جو
جمہوریت کے صحن میں جا کھلتی ہے۔ اب 22 ویں ترمیم کا بول بالا ہے کہ اس میں تمام“
گندے اور بدعنوان” سیاستدان رلتی ہیں۔ وہ جو کل تک پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو“
مک مکا” کا طعنہ دیتے تھے وہ سب اب اسی بڑے“ مک مکا” کا حصّہ ہیں جو جمہوریت کے
وسیع تر مفاد کے لیے کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔ امید ہے جلد یا بدیر
پانامہ دستاویزات کی برکتیں رنگ لائیں گی اور پاکستان میں پہلی دفعہ بلا تفریق
احتساب کا قانون و ادارہ بن سکے گا۔ یوں یہ میثاق جمہوریت کی شق 13 پر عمل کا
عندیہ ہے۔ نئے احتسابی قانون کی تخلیق کے بعد “مشرفی احتساب” کا خاتمہ ہوگا جس میں
چند اداروں کو “مقدس گائے” قرار دیا گیا تھا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آف شور کے بزنس
کو ٹیکس مد میں لانے کے لیے واضح حکمت عملی اپنائی جائے۔ میں تو مئی 2006 سے یہ
بات مسلسل لکھ رہا ہوں کہ میثاق جمہوریت پاکستان کی راہ نجات ہے اور اس پر عمل
درآمد سے ہی ملک کا وقار بھی بلند ہوگا اور جمہوریت کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔
اگر عمران خان قومی اسمبلی میں کی گئی اپنی تقریر میں میثاق جمہوریت کا بھی ذکر
خیر کردیتے تو جس جمہوری رستہ سے ہٹائے جانے کے خدشہ کا تذکرہ اکثر ہوتا ہے وہ اور
کم ہوجاتا۔ جمہوری وآئینی طریقوں سے بتدریج عوامی مفاد سے لگا کھاتی قانون سازی
کرنا اک کٹھن اور صبر آزما رستہ ہے کہ اس میں نہ تو کوئی شارٹ کٹ ہے نہ ہی کسی غیر
آئینی قدم سے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔
ذرا
غور کریں اس ملک میں 1973 کا آئین ہویا پھر اس آئین کو عوامی مفاد سے قریب تر کرنے
والی ترامیم ان سب کا سہرا انہی “گندے” سیاستدانوں کے سر ہی بندھتا ہے۔ آمروں نے
تو اگر کسی اچھے مقصد کو بھی اٹھایا تو وہ بھی متنازعہ ہوتا چلا گیا کہ جس کی سب
سے فبیح مثال ایوب، ضیا اور مشرف کے بلدیاتی بندوبست ہیں۔ اگر 2018 سے قبل
سیاستدان بلا تفریق احتساب کا قانون منظور کروانے اور اس قانون کے تحت ادارہ بنانے
میں کامیاب ہوگئے تو اس کا فائدہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو ہوگا جو اس عمل میں پیش
پیش رہے ہوں گے۔ اگر دھرنوں کی بجائے عمران خان نے 2014 میں پیپلزپارٹی کے کہنے پر
اسمبلیوں میں قانون سازیوں پر توجہ دی ہوتی تو اس قدر گند نہ مچتا۔ سونے پر سہاگہ
آزاد میڈیا نے چڑھایا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ کچھ اینکر تو خود کو بادشاہ گر
سمجھنے لگے تھے حالانکہ ان کی اصلیت کا پول تو “بول” میں کھل چکا تھا کہ جب لمبی
چوڑی تنخواہیں اور مراعات کا بھنڈار نظر آیا تو پیچھے مڑ کر دیکھنے والا ایک بھی
نہیں تھا۔ ایک کالم نویس نے تو آج یہ توپ بھی داغ دی کہ جیسے انقلاب فرانس
میںبذریعہ گلوٹین قتل عام کیا گیا تھا ویسا ہی قتلام اب پاکستان میں احتساب کے نام
پر کیا جانا چاہیے۔ خود کو لبرل کہلانے والے یہ صحافی کس زمانے میں مسلم لیگ (ن)
کے رکن اسمبلی بھی رہے ہیں۔ ان کی یہ جھنجلاہٹ دلوں میں مچلتے اضطراب کی زندہ
علامت ہے کہ واقعی بعض عقل کو کھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں کونسا شعبہ ایسا ہے جو
بدعنوانی سے پاک ہو؟ ابھی پچھلے دنوں آرمی چیف نے دو جرنیلوں سمیت 6 افسران کو
بدعنوانی کے الزام میں سزا دی تھی۔ البتہ اس فیصلہ بارے متضاد آراءاب بھی موجود ہیں
جو اس بات کا احساس بڑھاتی ہیں کہ بلاتفریق احتساب کا ادارہ بناتا کیونکر لازم ہے۔
کوئی بھی ادارہ اپنا احتساب ضرور کرے مگر ایک ایسا ادارہ ہونا بھی لازم ہے جہاں
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ اب پانامہ لیکس میں 500 پاکستانیوں کے نام
آئے ہیں جن کے پاس لمبی چوڑی رقوم ہیں۔ ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنی کے بقول یہ
1977 کے بعد کا حساب کتاب ہے۔ اس طرح کی تین اور بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بھی ہیں
جن کے تحت بہت سے مزید آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں۔ یوں کوئی 2ڈھائی ہزار امیر
کبیر پاکستانیوں کو ٹیکس کی مد میں شامل کرنا ہے۔ ان امیر ترین لوگوں کی نزدیکی
رشتہ دار و احباب ہر بڑے شعبہ و ادارہ میں براجمان ہیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں
بظاہرجتنا نظر آتا ہے۔ اگر سیاستدان ایک صفحہ پر نہیں ہوں گے تو ہدف حاصل کرنا
اسقدر آسان نہیں رہے گا۔ جہاں تک قرضے معاف کروانے ،منی لانڈرنگ کرنے والوں اور
رشوتیں لینے والوں کے کالے دھن کا معاملہ ہے تو اس کے لیے سچ اور مفاہمتی کمیشن ہی
بنانا ہوگا کہ اس کا ذکر خیر بھی میثاق جمہوریت کی شق 13 میں درج ہے۔ قائد حذب
اختلاف خورشید شاہ بھی اس مطالبہ کے حق میں ہیں۔ اگر 2018 تک سیاستدان یہ کٹھن
مرحلے بھی طے کرلیتے ہیں تو ٹی وی پر بیٹھ کر سیاستدان کو چور، اچکا، لٹیرا کہنے
والی صحافی اپنی موت خود مرجائیں گے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے
جو کچھ عناصر کو مسلسل مضطرب کیے ہوئے ہے۔
No comments:
Post a Comment