The circus of Sovereignty & International agenda…another
incident
In
the world of nation states Sovereignty is a god and borders define its
influence yet we often witness how followers treated that god & the borders
too. In both WWs even European countries did so yet in post WW2 era such
violations have been reduced to minimum in Europe and US yet both often violate
borders of others. Like Panama Leaks, is Noshki attack also a fall out of
coming US elections? Some forces want to repeat late 1970s scenario yet there
choice is not a redundant film actor but a filthy rich chauvinist. Both democrats and Republicans need a break
thru before 2016 elections and both have designs for it. In Pakistan there is an
intense debate after killing of Mulla Mansur regarding sovereignty. Noshki
(near Quetta) is situated near bloody triangle which is last part of infamous Durandline
coined by colonial masters. Pakistan, Iran and Afghanistan have a very narrow
border there.
While
Pakistan has concerns regarding sovereignty but international media is
emphasizing on realignment of Taliban, their save havens in Pakistan and their
facilitators. Those who remember May 02, 2011 incident knew very well that it
is not the first time when Pakistan’s sovereignty is violated. The biggest violation of sovereignty in
Pakistan was 16-December 1971 incident when Indian army had crossed
international border but at that time world remained interested in acts against
East Bengalis. We made a commission to understand the phenomenon but it was not
released. From Ojri camp till Abotabad commission
all findings are far from parliament.
For complete article click HereOther links
Mullah Mansur’s killing: the Iranian link?
Afghan Taliban appoint Mullah Haibatullah Akhundzada as new leader
Afghan Taliban's Mullah Mansoor 'killed in US strike'
Nisar orders re-verification of CNICs of all Pakistani citizens
Sovereign state?
US drone attack violation of Pakistan's sovereignty: Asif
22
مئی:
خودمختاری پر اک اور حملہ
عامرریاض
21 ویں
صدی کے پہلے دو عشرے ڈرون حملوں اور لیکس سے وابستہ سیاست سے عبارت ہیں کہ 20 ویں
صدی میں تو اچھے بھلے ماہرین نے بھی ڈرون یا لیکس کے نام بھی نہیں سنے تھے۔ جدید
وطنی بندوبست میں سرحدوں یعنی بارڈروں کی اہمیت بہت زیادہ ہے تاہم سرحدوں کی خلاف
ورزیوں کی تاریخ بھی کچھ کم نہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں تو خود یورپی ممالک
ایک دوسرے کے خلاف ان سرحدی خلاف ورزیوں میں پیش پیش تھے مگر 20ویں صدی کے دوسرے
نصف میں یہ خلاف ورزیاں ہمارے خطوں کی طرف دھکیل دی گئیں۔ بڑے بڑے ملک تو سرحدوں
کی خلاف ورزیاں کرتے ہی رہتے ہیں تاہم جہاں، جب موقع ملتا ہے تو چھوٹے ممالک بھی
اپنا زور خوب لگاتے ہیں
کہ
ان خلاف ورزیوں کو منہ زور قوم پرستیوں کا پرتو کہنا غلط نہ ہوگا۔ مئی2011 کے
مہینہ میں ہونے والے واقعہ سے کون واقف نہیں جب امریکی ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد تک
چلے آئے تھے اور اسامہ بن لادن کو “لاش” سمیت لے اڑے تھے۔ ویسے تو دسمبر 1971 کو
پاکستان کی خودمختاری پر سب سے بڑا حملہ ہوا تھا جب بھارتی افواج بین القوامی پاک
بھارت سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستان کے مشرقی حصّہ میں داخل ہوگئی تھی۔ مگر یاد رہے
اس وقت دنیا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ وہ بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کا
ذکر کرتے رہے تھے۔ آج بھی جو کچھ مغربی میڈیا میں لکھا جارہا ہے اس میں خودمختاری
کے سوال کی بجائے طالبان اور ان کے سہولت کاروں کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے اور یہی
کہا جا رہا ہے
کہ طالبان کے
“محفوظ ٹھکانے” پاکستان خصوصاً
فاٹا اور ملحقہ سرحدی اضلاع میں ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف، قائد حذب
اختلاف سید خورشید شاہ سمیت دیگر سیاسی قیادتوں ہی نے نہیں بلکہ آرمی چیف اور
وفاقی وزیر داخلہ نے بھی حالیہ ڈرون حملہ کو پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار
دیا ہے۔ دہشت گردی مخالف جنگ اور خودمختاری کے مسئلہ پر ہونے والی اس بحث کے کئی
ایک پہلو ہیں کہ طالبان رہنما ملا منصور کی ایران سے واپسی کی خبر نے اس معاملہ کو
مزید ٹیڑھا کرڈالا ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے اس کی تفصیلات بھی چھاپ دی ہیں۔ نوشکی کے
جس مقام پر ملا منصور پر ڈرون حملہ کی خبریں آرہی ہیں وہ کوئٹہ سے نزدیک “خونی
تکون” پر واقع ہے جہاں، ایران، افغانستان اور پاکستان کی سرحدیں انتہائی تنگ
ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بات کرتے ہوئے اس بات پر شک
کا اظہار کیا گیا کہ ملا منصور پر کس ملک میں ڈرون حملہ ہوا تھا۔ “وہ ایک سرحدی
علاقہ تھا مگر یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ اس وقت سرحد کے کس پار تھا۔” اس ڈرون حملہ
کے بعد پاک امریکہ تعلقات انتہائی خراب ہوتے جارہے ہیں۔
چند ماہ پہلے ان
خراب تعلقات کا اعتراف خود مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ امریکی
میڈیا میں بھی تواتر سے پاکستان پر “دوہرا کھیل” کھیلنے کے الزامات بڑھ چکے تھے۔
اب کچھ بااثر امریکی سینیٹروں نے پاکستان کی 300 ملین ڈالروں کی امداد روکنے کا بل
جمع کروا دیا ہے۔ امریکہ کا ایوان زیریں ہفتہ، دس دن پہلے ہی اس قسم کا بل منظور
کرچکا ہے جو قومی دفاع سے متعلق ایکٹ
(NDAA) سے
متعلق ہے۔ اس ایکٹ کی ہر سال توثیق ہوتی ہے اور ستمبر 2016 میں اگلے سال کے لیے اس
ایکٹ کی منظور دی جانی ہے۔ اگلے ماہ یہ ایکٹ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مغربی
میڈیا اس بات پر شاکی ہے کہ ملا منصور مذاکرات کو طول دیتے ہوئے ایرانیوں سے مدد
حاصل کرکے نئے محاذ کھول رہا تھا۔ خود پاکستانی میڈیا میں بھی اس بات کو دہرایا
گیا ہے کہ روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق ملا منصور کے 80 فی صد ساتھی امن مذاکرات
کے سخت خلاف تھے۔ تاہم ماضی کے برعکس افغان طالبان نے اس دفعہ اپنا سربراہ چننے
میں زیادہ تیزیاں دکھائی ہیں جو معنی خیز ہے اور ابھی تک طالبان میں خلاف توقع کسی
اندرونی اختلاف کی خبر بھی نہیں آئی۔ اطلاعات کے مطابق ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ
اب طالبان کے نئے سربراہ ہیں جو امن مذاکرات کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔ جس حقیقت کو
میڈیا میں اہمیت نہیں دی جارہی اس کا تعلق خود امریکہ کی اپنی اندرونی صورتحال سے
ہے۔ اس سال کے آخر میں امریکہ میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیں جبکہ امریکی
ایوانوں میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت براجمان ہے جو بل پر بل پاس کر کے اوبامہ
انتظامیہ کو متنازعہ کر کے اپنا الو سیدھا کرنے میں رُجھی ہوئی ہے۔ دوسری طرف
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اک ایسی شخصیت ہیں جو “مسلمان دشمنی” کے حوالہ سے
خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آئندہ 5 ماہ اہمیت کے حامل ہیں۔تاہم
پاکستانی اشرافیہ کی امریکی ریپبلکن پارٹی اور برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی سی خوب
چھنتی ہے۔
جہاں اوبامہ
ایڈمنسٹریشن امریکی انتخابات سے قبل کوئی بڑے بریک تھرو کی تلاش میں ہیں وہیں ان
کے مخالفین بھی اپنے ”زائچے“ بنائے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی اہمیت
دیدنی ہے مگر ہاتھیوں کی اس لڑائی میں بچ کر چلنا اہم ترین کام ہے۔ کیا ملکی
خودمختاری پر ہونے والی بحث کو اب بھی ہم زیر التواءرکھیں گے؟ کیا وقت نہیں آگیا
کہ پارلیمان حمودالرحمن کمشن رپورٹ سے اسامہ بن لادن کمشن رپورٹ تک کی دستاویزات
کو سامنے رکھ کر سیر حاصل بحث کرے۔ پاک افغان بارڈر پر ہونے والی اس لڑائی کی
تاریخ دو صدیوں پر محیط ہے اور خود پاکستان کی عمر 68 سال ہے۔ 1809 میں جب برٹش
انڈین آفیسر چارلس میٹکاف “لہور دربار” مذاکرات کے لیے آیا تھا تو اس نے مہاراجہ
رنجیت سنگھ کے روبرو تین شرائط رکھی تھیں۔ ان میں سب سے نمایاں شرط یہ تھی کہ
“لہور دربار” برٹش فوج کو اپنے علاقوں سے افغانستان جانے کا رستہ دے۔ زیرک رنجیت
سنگھ نے 1809 میں ہی نہیں بلکہ 1824 اور 1837 میں بھی ایسی شرط کو ماننے سے انکار
کردیا تھا۔ آخر 200 سال سے یہ پاک افغان بارڈر کیوں درد سر بنا ہوا ہے؟ جب تک
ہماری پارلیمان اس “کھرے” کو نہیں ڈھونڈے گی وہ ان “چور پالیسیوں” تک نہیں پہنچ
پائے گی جن کی وجہ سے ہمیں آئے دن ان حالات کا سامنا رہتا ہے۔ جس “بلیو بک” (خفیہ
معلومات پر مشتمل کتاب) کو نوآبادیاتی دور میں خود انگریز رقم کرتے آئے ہیں آج
پارلیمان کو اس سے بھی رجوع کرنا چاہیے کہ انہیں خطہ کی سڑیٹیجک اہمیت کے ساتھ ان
کاروائیوں کی خبر بھی ہوجائے گی جو ہمیں ورثہ میں ملی ہیں۔
خودمختاری کا
مسئلہ اس قدر سادہ نہیں جتنا ہمارے پالیسی ساز یا میڈیا عوام کے روبرو رکھتے ہیں۔
مغربی میڈیا میں چھپنے والی ایک خبر کیسے ہمارے ہاں طوفان برپا کردیتی ہے کیا یہ
رویہ خودمختاری کی علامت ہے؟ جب ایسی کوئی خبر سیاسی ہلچل میں چند گروہوں کے حق
میں ہوتو ہمیں خودمختاری کا سوال اکثر وبیشتر بھول جاتا ہے۔ جب کسنجر نے بھٹو کو
عبرت ناک مثال بنانے کا بیان دیا تھا تو ہمیں خودمختاری کیوں یاد نہیں آئی تھی؟
حالیہ دنوں میں چوری کی دستاویزات کے حوالہ سے آنے والی پانامہ لیکس کو بھی من وعن
تسلیم کرلیا گیا اور کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اس کی تصدیق ہی کرلی جائے۔ خود
مختاری کا سوال تو اس وقت بھی اہم تھا جب ہم U-2 اڈے دے رہے تھے۔ ایک فون کال پر ہم نے کیسے اپنی افغان
پالیسی بدلی تھی رچرڈ آرمٹیج کا بیان تو آج بھی سب کو یاد ہے۔ پورے تیس سال
افغانیوں کو جعلی شناختی کارڈ کون دلواتا رہا یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اگر ہم اپنی
اقتصادی راہداریوں کو مکمل کرتے ہوئے اپنے پاﺅں پر
کھڑے نہیں ہوں گے، بجٹ کا خسارہ بیرونی امدادوں سے پورا کرتے رہیں گے اور
غیرملکیوں کو شناختی کارڈ دیتے رہیں گے تو پھر کہاں کی خودمختاری؟ جس ملک کی معیشت
کا بھاری حصّہ غیر رسمی معیشت پر چل رہا ہو،اس منفعت میں سب مقتدر گروہ شامل ہوں،
امیر ترین لوگ آف شور کمپنیوں میں رقمیں رکھنا محفوظ سمجھتے ہوں وہاں پھر ایسی
باتیں سجتی نہیں۔ سونے پر سہاگہ طالبان ہیں جو جانے کتنے عشروں سے پاکستان کی
خودمختاری کو مذاق بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں ایسے عبقریوں کی کمی
نہیں جو خودمختاری کا مذاق اڑانے والوں کو “اثاثہ” سمجھنے پر کمربستہ ہیں۔ اگر
ہماری اسمبلیوں میں حمودالرحمن کمشن رپورٹ پر بحث ہوئی ہوتی، اگر ہماری اسمبلیوں
میں ایبٹ آباد کمشن پر بحث ہوئی ہوتی تو شاید آج ہم خودمختاری کے سوال پر یوں الجھ
نہ رہے ہوتے۔ سوال محض بلوچستان کے سرحدی علاقہ میں ہونے والے ڈرون حملہ کا نہیں
بلکہ سوال پالیسی کا ہے جو تادم تحریر عوامی ایوانوں کی بجائے بند کمروں میں بنائی
جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ایسی پالیسیوں کو وہ عوامی حمایت میسر نہیں آتی جو اک جدید
وطنی ریاست کا زیور ہوتا ہے۔ مغربی میڈیا میں جو لکھا جارہا ہے آپ اس پر یقین نہ
بھی کریں تب بھی یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل رہے گی کہ جب ایبٹ آباد واقعہ پر
آپ خاموش رہے تو آج خودمختاری کیوں اہم ہوگئی؟ پاک امریکہ تعلقات ہوں، افغان
پالیسی ہو یا پھر حالیہ ڈرون حملہ اس سب پر اب ہمیں پارلیمان میں جانا چاہیے۔ اگر
آپ حقائق کو پارلیمان اور عوام سے چھپاتے رہیں گے تو پھر پاکستانی بھی لا محالہ
مغربی میڈیا پر آنے والی خبروں کے اسیر رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment