Thursday, May 12, 2016

Foreign & Local Leaks exposed Pakistani ELITE




Foreign & Local Leaks

has exposed Pakistani ELITE from within

سرے محل سے پانامہ لیکس تک

پٹاری کھلی تو اشرافیہ خود مجرم نکلی


Among 500 people there are few politicians but majority is from filthy rich business tycoons who earned huge benefits during 4 Marshallahs and have linkages with Civil Military bureaucracy. Example of Saifullah Family is enough to understand the nexus between filthy rich elite with civil military bureaucracy as Saifullahs have relations with General Ayub Khan and Ghulam Ishaq Khan families.It is the reality of Pakistan yet since 2008 due to first democratic transition elected tier is strengthening Pakistan gradually. The local leak, like foreign leak confirmed heavy presence of corruption at highest level in all institutions  and in this game malpractices is order of the day. Elite, as usual is in state of denial. Propaganda against Surrey Palace was designed just to hide corruption of elite yet Panama Papers exposed the whole phenomenon. If we want to resolve it then we have to follow EU rather then blame game. 

Read the complete Article @ http://humshehrionline.com/?p=18182#sthash.698Xgyh4.dpbs

Related Links to understand the complete scenario of Leaks. 

Pakistan Doesn’t Owe You a Free Mansion

Gen Raheel dismisses 6 army officers from service over 'corruption'

In State of Denial: Specter of OFFSHORE is haunting Imran Khan too

The Pakistani Army’s top commander has dismissed six senior officers, including a three-star and a two-star general, for what Pakistani news accounts described on Thursday as smuggling and other corrupt acts
جاں بحق ہونیوالے حقیقی انصاف کے منتظر

Leaked Documents Expose Global Companies’ Secret Tax Deals in Luxembourg

Is Your Head Spinning? 5 Tips to Understand the ‘Lux Leaks’ Files

European Union & Tax Loot....Extracts of a study


They now take part in the automatic exchange of tax information that didn’t happen before.


سرے محل سے پانامہ لیکس تک
پٹاری کھلی تو اشرافیہ خود مجرم نکلی
عامر ریاض


بلا آخر 28 سال بعد بدعنوانی کا پُھندا جو پیپلز پارٹی، آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے غلام اسحاق خان، اجلال حیدر زیدی، اسلم بیگ، حمید گل اور روئیداد خان جیسوں نے تیار کیا تھا آج وہ پاکستانی اشرافیہ کے گلے میں جھول رہا ہے۔ 500 امیر کبیر پاکستانیوں میں سیاستدان کتنے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے آٹے میں نمک سے بھی کم بندے کتنے ہیں؟ اس بارے تو اب تمام پاکستانیوں کو علم ہوچکا ہے۔ اب اشرافیہ میں ہر کوئی اپنی اپنی پگڑی بجا رہا ہے کہ سول ملٹری اشرافیہ اور ان کے رشتہ داروں کی طویل فہرست سب کچھا چٹھا سامنے لے آئی ہے۔ پورا سچ بولنے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ کوئی آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے صاف انکار کررہا ہے، کوئی پانامہ چوری ظاہر کرنے والے صحافتی ادارے پر مقدمہ کرنے کا دعویدار ہے تو کوئی چیف جسٹس، چیرمین ایف بی آر کو خط لکھ کر خود کو احتساب کے لیے پیش کررہا ہے۔ سیاستدانوں کی رشتہ داریاں و قرابت داریاں پانامہ دستاویزات میں ڈھونڈنے والے ان کاروباری حضرات کے رشتہ داروں اور دوستوں کی ویسی فہرستیں نہیں بناسکے کہ ہمارا آزاد میڈیا انہی کاروباری حضرات کے اشتہاروںاور امدادوں پر پلتا ہے۔ کیا یہ بات پتہ نہیں لگائی جاسکتی کہ ان کاروباری حضرات نے زرکثیر کہاں، کب کمایا تھا؟ انہیں کس کس آمر کی پشت پنائی حاصل تھی؟ انھوں نے پاکستان میں کتنا ٹیکس دیا ہے اور ان کی آف شور کمپنیوں میں کتنی مالیت کی سرمایہ کاری ہے۔ ابھی تو محض پانامہ لیکس کی بات ہی ہوئی ہے کہ سوئس بینکوں اور بی سی سی آئی جیسے آف شور کاروباروں کی لیکس بھی آگئیں تو پورا حساب کتاب صاف ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ پانامہ لیکس میں محض 1977کے بعد والے بیرونی کاروباروں کا ذکر ہے کہ اگر 1950سے 1977 کی لیکس بھی آگئیں تو پھر کیا ہوگا۔ پانامہ لیک بارے اعدادوشمار مشتہر کرنے والے ادارے آئی سی آئی جے نے دسمبر 2014 میں لکسمبرگ لیگ کے عنوان سے جرمنی میں موجود آف شور کمپنیوں کا ڈیٹا بھی مشتہر کیا تھا۔ اس میں پاکستان کا نام تو نہیں تھا البتہ سویڈن، اسرائیل سمیت بہت سے ممالک کے امیروں کے نام شامل تھے۔ ان میں FedEx اور پیپسی جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاںبھی شامل تھیں۔ پانامہ لیکس کو محض پاکستان کے خلاف سازش قرار دینے والوں کی مثال اس دیہاتی کی ہے جس کی چادر میلہ میں چرا لی گئی تو وہ بولا کہ یہ میلا محض میری چادر چرانے کے لیے رچایا گیا ہے۔ تاحال ہماری اشرافیہ “انکاری صورتحال” میں ہے۔ کیا ہر بار ہم کسی “لیک” کے آنے پر متوجہ ہوں گے؟ کیا وقت آنہیں گیا کہ ہم پورا سچ بولنا شروع کردیں۔ مگر اس کے لیے پرانی حرکات و سکنات کو بطور غلطی تسلیم کرنا اور زرکثیر کا حساب دینا ہوگا۔
اگر پانامہ لیک کو عسکری لیک سے ملاکر دیکھا جائے تو بدعنوانی کی اس دھندلی تصویر کا مقامی عکس بننے لگتا ہے۔ یہ عسکری لیک تو وہی تھی جس میں بلوچستان ایف سی کے 6 یا 12 افسران بشمول جرنیلوں کو خود آرمی چیف کے حکم پر بوجہ بدعنوانی نکالا گیا تھا۔ پانامہ لیکس کی طرح نہ تو اس پر گانے بنائے گئے نہ ہی یہ بتایا گیا کہ بدعنوانی کا حجم کتنا تھا۔ اب تو یہ خبر گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہوچکی ہے۔ 1988 سے 1999 تک بدعنوانی کی آڑ میں جو جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا اس سے یہی تاثر دیا گیا تھا کہ اس ملک میں ہر قسم کی چوری چکاری پیپلزپارٹی کرتی ہے اور باقی سب سعد ہیں۔ اب جو سعدوں کا بھید پانامہ ڈرامہ کی وجہ سے بیچ چوراہے پھوڑ ڈالا گیا ہے تو معلوم ہوا “چور مچائے شور” والا محاورہ کتنا صحیح تھا۔ اب تو سب کو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ پیپلز پارٹی پر بدعنوانیوں کا الزام محض پردہ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اب جب پورا سچ سامنے آنے لگا ہے تو اشرافیہ اور اس کے ہرکارے یہ دلیل لائے ہیں کہ ساری آف شور کمپنیاں غلط نہیں ہوتیں۔ کچھ آف شور کمپنیوں “نیک” ہوتی ہیں اور کچھ آف شور کمپنیاں “بد” ہوتی ہیں۔ اسے عرف عام میں بھاگتے چور کی لنگوٹی کہا جاتا ہے۔ ایک موقر چینل نے تو یہ پروگرام بھی چلادیا جس میں یہ بحث ہورہی تھی کہ اب ان آف شور کمپنیوں والوں کو “جرمانہ” کرکے کلین چٹ کیسے دی جائے؟ وہ صحافی، اینکر اور کالم نویس جو 1988 سے پیپلز پارٹی کو ٹانگنے کی باتیں کرتے تھے وہ اب یہ دلیلیں لارہے ہیں کہ اگر ان آف شور کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان کے خلاف سختی کی گئی تو یہ اپنے پیسے سمیت باہر کے ممالک میں ہی رکھیں گے بلکہ خود بھی “باہرلے” ہوجائیں گے۔ یوں “قومی مفاد” کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ایسے بھی ہیں جو پانامہ لیکس کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ آف شور کاروبار کے حق میں دی جانے والی دلیلوں کا حال اس چوری کی گئی مرغی جیسا ہے جسے تکبیر پڑھ کر مولانا صاحب نے ہلال کیا تھا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ مرغی چوری کی تھی تو جواب میں ملا صاحب فرماتے ہیں یہ مرغی تکبیر پڑھ کر ہلال کی گئی تھی اس لیے اس کا گوشت جائز ہے۔ ذرا غور کریں، اگر پانامہ لیکس پاکستان کے خلااف سازش ہے تو خود وہ جو 1988ءکے بعد اس سازش کو اولین سطح پر تیار کرنے والے مقامی ہرکارے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے۔؟ محض وزیراعظم کو مجرم قرار دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اشرافیہ اور مقتدر اداروں کے سرکردہ لوگ اس کھیل میں کتنے شریک ہیں اس کی اک مثال سیف اللہ خاندان ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس خاندان کی سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں ہیں۔ اس خاندان کی غلام اسحاق خان اور جنرل ایوب کے خاندانوں سے نزدیکی رشتہ داریاں بھی سب کو معلوم ہیں۔ کوئی غلام اسحاق کے داماد ہیں تو کوئی گوہر ایوب کا کہ پانامہ لیک میں آنے والے باقی سرمایہ داروں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ خود شریف برادران بھی اک زمانہ میں “سرے محل” پر ہی سیاست کرتے تھے۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بدعنوانی کے تحت بنائے گئے ان جعلی مقدمات والی سیاست سے ازخود مراجعت کااعلان کیا تھا۔ مگر 2006 کے بعد بھی چور ی کا پیسہ واپس لانے کی تکرار جاری رہی۔ ایک طرف زرداری کے بابر اعوانی دوست اور دوسری طرف شہبازشریف و چوہدری نثار اس میں پیش پیش رہے۔ آج اس تمام تر سیاست کا جنازہ نکل رہا ہے تو یہ بات بڑے دل سے اشرافیہ اور سیاستدان تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ محض الزام تراشیوں سے اب کام نہیں چلے گا کہ آف شور والوں نے اپنے بندے ہر پارٹی اور میڈیا گروپ میں بھیج رکھے ہیں۔ آخر انھوں نے کب کام آنا تھا۔ ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام لگانے والے وہی تو ہیں کہ پارٹیوں والے بھی انہیں خوب پہچانتے ہیں۔
سب سے دلچسپ دعویٰ پرویز الٰہی نے کیا کہ آف شور کاروبار کے حوالہ سے مونس الٰہی کا نام تو اس صحافتی ادارے نے سب سے پہلے شائع کیا تھا۔ اب پرویز الٰہی اس کاروبار ہی سے انکاری ہیں۔ اس سادگی پر لوگ ہنس بھی نہیں سکتے۔ “عزت سادات” بچانے کی یہ ناکام کوشش کرنے میں پرویزالٰہی اکیلے نہیں۔ اگر آف شور بزنس “جائز” ہوتا تو پھر ملکیت چھپانے اور زرکثیر بارے راز داری جیسی شرائط کیوں رکھی جاتیں؟ آخر کب تک اشرافیہ عام پاکستانیوں سے جھوٹ بولتی رہے گی؟ ہندوں، سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں اور زمینوں پر ہاتھ صاف کرنے والی مہموں سے براستہ قرضے معاف کروانے والوں اور پانامہ ڈرامہ میں آئے ناموں تک جو کھیل رچایا جاتا رہا ہے اسے محض “سرے محل” پر ڈال کر رانجھا راضی کرنے والوں سے آج سب واقف ہوچکے ہیں۔ پانامہ لیکس والے صحافتی ادارے کے مطابق 2000 سے 2007 کے درمیان آف شور کاروبار نے یکدم بڑی ترقیاں کیں۔
امریکہ، برطانیہ، جرمنی، سویڈن جیسے ممالک جنھیں قانون کی حکمرانی پر بڑا ناز ہے وہیں کے مالیاتی ماہرین و بیوروکریٹوں نے آف شور چوری کے لیے کمزور قوانین بنائے۔ یوں میاں فصیحت کے دیس میں سب سے زیادہ آف شور سرمایہ کاری ہوئی۔ پورا سچ تو یہ ہے کہ آف شور حرام توپیوں میں یورپ کے سرمایہ دار بھی پیش پیش ہیں کہ بیچاری یورپین یونین 15 سال سے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ وقفہ سوالات میں آف شور کمپنیوں بارے جواب دیتے ہوئے 11مئی کو یہی برطانوی وزیراعظم نے بھی دہرائی ہے۔ یورپی یونین والے تو برابر کہہ رہے ہیں جن کمزور قوانین کے تحت یہ کمپنیاں بنائی گئی ہیں اب انہیں تیزی سے بدلنے کا وقت آچکا ہے۔ مگر یورپ و برطانیہ کو سرکا تاج ماننے والے پاکستان میں آف شور کو “ہلال” قرار دینے کی راگنی الاپ رہے ہیں۔ کیا عمران خان، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، ہر کارے صحافی سب جائز یا ناجائز کی بحث میں اصل مسئلہ گول پرنے پر کمربستہ ہیں۔ کچھ دانشور حسب دستور پاکستان سے باہر سرمایہ لیجانے والی پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں۔ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں باہر سے سرمایہ آسکتا ہے تو پھر پاکستان سے باہر سرمایہ لیجانے پر بھی قدغن نہیں لگ سکتی۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ اس زرکثیر کے مالکان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اور وہ اپنی کمائیوں کے حساب سے پورا ٹیکس دیں۔ جس ملک میں سمگلنگ کا مال دن دھاڑے، کھلے بازاروں میں بکتا ہو وہاں ٹیکس نیٹ کی بات کتنی شدومد سے ہوسکتی ہے یہ اک الگ درد سر ہے جس کا تعلق زمینی و سمندری سرحدوں اور ان کی حفاظت کرنے والوں سے جڑا ہے۔ یہ اک ایسا “علاقہ غیر” ہے جہاں “غیر ریاستی عناصر” کو خاص پشت پناہی حاصل ہے۔
اگر آج تمام اشرافیہ بشمول سیاستدان کسی اعلیٰ سطح کے پارلیمانی کمیشن کے ان کیمرہ اجلاس میں اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے اپنے زرکثیر کو ٹیکس نیٹ میں شامل کردیں گے تو وہ آئندہ کسی بھی “لیک” سے یوں خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ بصورت دیگر ہر نئی لیک کے بعد انہیں ایسے ہی کسی نئے طوفان کا سامنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...