Saturday, July 9, 2016

Is Return of Afghan Refugees Possible?






Is Return of Afghan Refugees Possible? 


Some writers think that  Afghan refugees cannot go back while some are in haste to push them back as early as possible. Even the figure, 30 million is questionable because they are living in Pakistan from more then 35 years or so. No doubt it is a human issue but we also knew that there are forces who played with that human issue since early 1980s.  Pukhtoon factor in Pakistan, strategic depth and reluctant Afghan government are among the various components involved in making and breaking of a policy regarding Afghan refugees. Everyone have an eye on post repatriation impacts rather then finding a way forward for settlement of refugee status.  

کیا افغان مہاجرین واپس جائیں گے؟


عامر ریاض
Published in Humshehri Online

 
ضیا دورمیں شروع ہونے والے افغان جہاد نے ہمارے ہاں مختلف حوالوں سے جو مہلک اثرات ڈالے ہیں ان کو مذہبی انتہا پسندی میں یکدم اضافوں ، مخضوص شہروں میں آبادی کے تناسب میں تبدیلیوں اور افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ دینے جیسے مسائل کی روشنی میں سمجھنا قدرے آسان ہے۔ان تینوں مسائل میں پختون فیکٹر اور تذویراتی گہرائی مشترک ہیں کہ اس اشتراک نے اک ایسا کشتہ بنایا جو پاکستان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں پناہ گزینوں، مہاجرین یا بے وطنوں کی مئسلہ کو بطور انسانی المیہ دیکھا جاتا ہے تاہم اس انسانی المیہ کی آڑ میں سیاستیں چمکانے والے بھی ہردم تیاررہتے ہیں کہ یہ کھیل اسقدر سادہ نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ یوں یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ پناہ گزین یا بے وطنے ایک طرف خفیہ اداروں اور مفاداتی گروہوں کی سیاستوں کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی زبان و قومیت کے علم بردار انہیں استعمال کرنے کے درئپے رہتے ہیں۔ خان عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کی جماعتیں تو افغان مہاجرین کو افغان بھگوڑے کہتیں تھیں مگر ان دونوں لیڈروں کی جماعتوں پر بھی یہی الزام ہے کہ انھوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں پختونوں کی تعداد بڑھانے کے لیے افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ دلوائے یا پھر اس پر جان بوجھ کر خاموش رہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان شناختی کارڈ دلوانے کے معاملے میں جنرل فضل حق، غلام اسحاق خان سے لے کر ولی خان و اچکزئی تک سب ایک صفحہ پر تھے۔ مگر اس کام میں یہ سب تن تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے سب سے بڑے مددگار وہ گروہ تھے جو افغانستان کو تذویراتی گہرائی کی عینک سے دیکھتے تھے۔ یہ تذویراتی گہرائی پرانی نو آبادیاتی فرنٹیئر فاروڈ پالیسی کا پاکستانی نام ہے کہ جس کے تحت مئی 1879 کے گندھک معاہدہ کے بعد انگریزوں نے تاشقند سے امیر عبدالرحمن کو مدعو کیا اور آزاد افغانستان تشکیل دیا۔ اس معاہدہ کے تسلسل میں 1894کے سال ڈیورینڈ لائن معاہدہ کیا گیا اور پھر 1901 میں صوبہ سرحد اور بعدازاں فاٹا کا علاقہ بنایا گیا۔ تذویراتی گہرائی کے مقلد ان افغان ’’بھگوڑوں‘‘ کو بوقت ضرورت ویسے ہی استعمال کرنا چاہتے تھے جیسے نو آبادیاتی دور میں برٹش انڈین سرکار، کابل کے بادشاہ سے لڑنے والے ہزاروں، توریوں، بنگشوں وغیرہ کو پنا دیتے ہوئے مقامی لوگوں اور افغانستان کے خلاف مہارت سے استعمال کرتی تھی۔ مگرتذویراتی گہرائی کے پرستاروں کو بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب 1988 میں ہونے والے جنیوا معاہدہ نے ان کی امیدوں پر اوس ڈال دی۔ سابق سیکٹری خارجہ ریاض محمد خان نے اپنی کتاب ’’افغانستان اور پاکستان :تصادم،انتہاپسندی اور عہد جدید سے مزاحمت ‘‘ میں اس سیاسی خلیج کے متعلق واضح اشارے کیے ہیں کہ جب سفارتکاری جنگی حکمت عملیوں پر وقتی طور پر غالب آئی تھی۔ بعدازاں تذویراتی گہرائی کے دلدادوں نے اس معاہدہ کو خجل کرنے میں خوب کردار ادا کیا تاہم اس کھیل میں بھی انہیں غیرملکی پشت پناہیاں حاصل تھیں۔ جنیوا معاہدہ سے منسلک دستاویزات یہ پتہ دیتی ہیں کہ خطہ کو اسلحہ خصوصا بارودی سرنگوں سے پاک کرنے اورپرامن افغانستان کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اک موثر حکمت عملی شامل معاہدہ تھی جس میں افغان مہاجرین کی واپسی کو اولیت حاصل تھی۔ اس پر عملدرآمد کی ذمہ داریاں اقوام متحدہ اور دستخط کرنے والے بڑے ممالک پر تھیں۔مگر بڑے ممالک غائب ہو گئے کہ تذویراتی گہرائی والوں اورافغانی و پاکستانی انتہاپسندوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا۔ بھلا ایسے میں افغان مہاجرین کی واپسی کسے وارا کھاتی تھی ۔بے نظیر بھٹو چیختی چلاتی رہیں مگر نقارخانے میں ان کی آواز کسی نے نہ سنی۔
تاہم 1988 سے 2016 تک گذرے 28 سالوں میں بھی یہ افغان مہاجربوجوہ واپس نہ جاسکے۔ طالبان کے ’’زریں عہد‘‘ میں بھی افغان سرکار اپنے پختون بھائیوں کو واپس لے کر نہ گئی کیونکہ وہ بھی مہاجرین کے مسئلہ پر سیاست کررہے تھے۔ اگر محمود خان اچکزئی نے اس پس منظر میں افغان مہاجرین کے مسئلہ پر روشنی ڈالی ہوتی تو شاید یہ تحریر لکھنے کی نوبت نہ آتی۔ مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کی سطح پر بالعموم اور کوئٹہ کی سطح پر بالخصوص پختونوں کی بڑھ چکی تعداد کا تحفظ چاہتے ہیں۔ انہیں افغان مہاجروں سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کی فکر ہے جو اس واپسی سے متاثر ہوسکتا ہے۔ مگر وہ اس تفکر میں اکیلے نہیں کہ بے وطنوں کو استعمال کرنے والے تمام گروہ اس واپسی کو آج بھی طول دینا چاہتے ہیں۔ اسی سال مارچ میں ایرانی صدر کے دورے سے کچھ دن قبل ایرانی نیوز ایجنسی آئی آر این اے کو دیے گئے انٹرویو میں فرنٹیر ریجن کے وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے یہ اقرار کیا تھا کہ اس تاریخی دورے میں ایران و پاکستان افغان مہاجرین کی واپسی پر جامع منصوبہ بنائیں گے۔ تاہم ایرانی صدر کی آمد کے ساتھ ساتھ کلبھوشن کی ’’برات‘‘ بھی اتر آئی اور یوں لینے کے دینے پڑگئے ۔ سفارتکاری کہیں کھوگئی اور جنگی حکمت عملی چھا گئی۔
افغان مہاجرین کی واپسی اس قدر سادہ مسئلہ نہیں جتنا اکثر بتایا جاتا ہے۔ پختون فیکڑ اور تذویراتی گہرائی کے علاوہ اس کا تیسرا بڑا حوالہ پاکستان کی غیر رسمی معیشت ہے جو ساحلی و زمینی راستوں سے ہونے والی سمگلنگ پر چلتی ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ بہر حال اک انسانی المیہ ہے مگر مندرجہ بالا تکونی مفادات کی روشنی میں اس کو بگاڑنے والے زیادہ ہیں اور اسے حل کرنے والے تاحال گم سم۔ کسی بھی حوالہ سے پاکستان اور خود افغان مہاجرین کے مفاد میں یہی بات ہے کہ اس واپسی پرجلدازجلد عملدرآمد ہو۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ طالبان سے مشتاق غنی تک کوئی بھی کابل سرکار اس واپسی بارے شدید تحفظات رکھتی ہے۔ غیرپختون افغان اشرافیہ اور پختون افغان اشرافیہ کے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالہ سے الگ الگ تحفظات ہیں مگر نتیجہ میں سانجھ ہے۔ افغانستان میں ایسے عناصر کی بھرمار ہے جو افغان مہاجرین کی واپسی کو افغانستان کے مفاد میں زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ ان میں محض افغانستان کے غیر پختون افغان ہی شامل نہیں بلکہ افغانستان کے بہت سے پختون انہیں اب پاکستانیوں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں افغان مہاجرین کی واپسی جوئے شیر لانے سے بھی کٹھن معاملہ ہے۔ محض شناختی کارڈوں کی ازسر نو تصدیق سے وقت تو گذارا جاسکتا ہے مگر اس درینہ مسئلہ کو حل اسی وقت کیا جاسکے گا جب کم از کم افغانستان، پاکستان اور ایران کی حکومتیں ایک صفحہ پر ہوں گی۔ بصورت دیگر پر نالہ وہیں رہے گا اور پاجامہ ادھیڑ 
کر سینے کی مشق جاری رہے گی۔

Confessions of a Pukhtoon Revolutionary


No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...